Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 57

سورة طه

قَالَ اَجِئۡتَنَا لِتُخۡرِجَنَا مِنۡ اَرۡضِنَا بِسِحۡرِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿۵۷﴾

He said, "Have you come to us to drive us out of our land with your magic, O Moses?

کہنے لگا اے موسٰی! کیا تو اسی لئے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہمارے ملک سے باہر نکال دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fir`awn describes Musa's Proofs as being Magic and Their Agreement to hold a Contest Allah tells, قَالَ أَجِيْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَى فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لاَّ نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلاَ أَنتَ مَكَانًا سُوًى

فرعون کے ساحر اور موسیٰ علیہ السلام ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ لکڑی کا سانپ بن جانا ، ہاتھ کا روشن ہو جانا وغیرہ دیکھ کر فرعون نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور تو جادو کے زور سے ہمارا ملک چھیننا چاہتا ہے ۔ تو مغرور نہ ہو جا ہم بھی اس جادو میں تیرا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ دن اور جگہ مقرر ہو جائے اور مقابلہ ہو جائے ۔ ہم بھی اس دن اس جگہ آ جائیں اور تو بھی ایسا نہ ہو کہ کوئی نہ آئے ۔ کھلے میدان میں سب کے سامنے ہار جیت کھل جائے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے منظور ہے اور میرے خیال سے تو اس کے لئے تمہاری عید کا دن مناسب ہے ۔ کیونکہ وہ فرصت کا دن ہوتا ہے سب آ جائیں گے اور دیکھ کر حق و باطل میں تمیز کرلیں گے ۔ معجزے اور جادو کا فرق سب پر ظاہر ہو جائے گا ۔ وقت دن چڑھے کا رکھنا چاہئے تاکہ جو کچھ میدان میں آئے سب دیکھ سکیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان کی زینت اور عید کا دن عاشورے کا دن تھا ۔ یہ یاد رہے کہ انبیاء علیہ السلام ایسے موقعوں پر کبھی پیچھے نہیں رہتے ایسا کام کرتے ہیں جس سے حق صاف واضح ہو جائے اور ہر ایک پرکھ لے ۔ اسی لئے آپ نے ان کی عید کا دن مقرر کیا اور وقت دن چڑھے کا بتایا اور صاف ہموار میدان مقرر کیا کہ جہاں سے ہر ایک دیکھ سکے اور جو باتیں ہوں وہ بھی سن سکے ۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ فرعون نے مہلت چاہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انکار کیا اس پر وحی اتری کہ مدت مقرر کر لو فرعون نے چالیس دن کی مہلت مانگی جو منظور کی گئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 جب فرعون کو دلائل واضح کے ساتھ وہ معجزات بھی دکھلائے گئے، جو عصا اور ید بیضا کی صورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کئے گئے تھے، تو فرعون نے اسے جادو کا کرتب سمجھا اور کہنے لگا اچھا تو ہمیں اس جادو کے زور سے ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] فرعون کے اس قول سے اس کی بدحواسی پورے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ ورنہ اس کے ملک میں سینکڑوں جادوگر موجود تھے۔ جو لوگوں کو اور اسے بھی اپنی شعبدہ بازیاں دکھلاتے اور انعام و اکرام حاصل کرکے چلے جاتے تھے۔ ان میں سے کسی کے متعلق کبھی فرعون کو ایسا خیال نہ آیا تھا کہ یہ قحط بھی لاسکتے ہیں اور فرعون کو ملک بدر بھی کرسکتے ہیں۔ اور جو موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہنے کا ڈھونگ رچا رکھا تھا تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ اس کی رعایا ان سے متاثر ہو کر ان پر ایمان نہ لے آئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اَجِئْتَنَا ۔۔ : فرعون نے یہ بات تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد نہیں کہی، کیونکہ اگر ایسا ہو تو جادوگروں سے ہونے والا یہ مقابلہ طوفان، جراد، قمل وغیرہ حتیٰ کہ سمندر پھٹنے کے واقعہ کے بعد ماننا پڑے گا، کیونکہ ” اٰیٰتِنَا کُلَّھَا “ میں یہ سب شامل ہیں۔ اس لیے قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی صراحت کے مطابق فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اور ید بیضا والا معجزہ دیکھ کر یہ بات کہی۔ دیکھیے سورة اعراف (١٠٦ تا ١٢٦) اور شعراء (٣٠ تا ٥١) ۔ (ابن عاشور) لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا : ہر باطل پرست اور جابر و ظالم حکمران جب داعی حق کے سامنے لاجواب ہوجاتا ہے تو اس کی دعوت ٹھکرانے کے لیے یہی ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے، یعنی اسے اقتدار کا بھوکا ہونے کا طعنہ دیتا ہے، گویا اقتدار پر قابض رہنا اس کا تو پیدائشی حق ہے مگر کسی دوسرے کے لیے اس کے قریب پھٹکنا بھی جائز نہیں۔ ” بِسِحْرِكَ “ میں ” جادو “ کی اضافت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے آنے والی ضمیر (کاف) کی طرف کرنے میں ان معجزوں کی تحقیر مراد ہے کہ تو اپنے اس بےقدر و قیمت جادو کے ذریعے سے ہمیں سرزمین مصر سے نکالنا چاہتا ہے۔ تیرے اس جادو کی ہمارے کامل اور ماہر فن جادوگروں کے جادو کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى۝ ٥٧ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) مزید کہنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے جادو سے ہمیں مصر سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30. Here by sorcery are meant the miracles of the staff and the shining hand, which according to the details given in Surahs Al-Aaraf and Ash-Shuara, were shown to Pharaoh by Prophet Moses (peace be upon him) in his first visit to his court. On seeing these miracles Pharaoh was so upset that he cried out: Have you come to drive us out of our country by the power of your sorcery? Although he knew that it had never happened in history that a magician had conquered a country by the power of sorcery. Moreover, there were hundreds of magicians in his own country, who used to show their feats to earn rewards and prizes. Accordingly, Pharaoh’s statement that “you are a sorcerer” on the one hand, and his apprehension that “you want to snatch my kingdom” on the other, were a clear indication of his perturbed mind. In fact, Pharaoh had come to understand that the well reasoned speech of Moses and his miracles were bound to influence not only his courtiers, but also the common people and accordingly he tried to play upon their prejudices through falsehood and treachery. He did not admit that it was a miracle, but called it sorcery. He wanted to create an impression that any sorcerer of his empire could turn a staff into a serpent. He also incited the people, saying: Look, he says that your forefathers were on the wrong way and deserved perdition. So beware of him, he is not a Prophet. He simply aspires for power. He wants that the Israelites should again capture power here like the times of Joseph and wrest the reigns of government from the Copts. Pharaoh, in fact, wanted to suppress the invitation to the truth through such devices. (For details please see (E.Ns 87-89 of Surah Al-Aaraf); (E.N. 75 of Surah Younus).

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :30 جادو سے مراد عصا اور ید بیضا کا معجزہ ہے جو سورہ اعراف اور سورہ شعراء کی تفصیلات کے موجب حضرت موسیٰ نے پہلی ہی ملاقات کے وقت بھرے دربار میں پیش کیا تھا ۔ اس معجزے کو دیکھ کر فرعون پر جو بد حواسی طاری ہوئی اس کا اندازہ اس کے اسی فقرے سے کیا جا سکتا ہے کہ ’ تو اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کبھی یہ واقعہ پیش آیا تھا اور نہ بعد میں کبھی پیش آیا کہ کسی جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے کوئی ملک فتح کر لیا ہو ۔ فرعون کے اپنے ملک میں سینکڑوں ہزاروں جادوگر موجود تھے جو تماشے دکھا دکھا کر انعام کے لیے ہاتھ پھیلاتے پھرتے تھے ۔ اس لیے فرعون کا ایک طرف یہ کہنا کہ تو جادوگر ہے ، اور دوسری طرف یہ خطرہ ظاہر کرنا کہ تو میری سلطنت چھین لینا چاہتا ہے ، کھلی ہوئی بد حواسی کی علامت ہے ، دراصل وہ حضرت موسیٰ کی معقول و مدلل تقریر ، اور پھر ان کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہل دربار ، بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام و خواص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے ۔ اس لیے اس نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی ۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے ۔ اس نے کہا کہ لوگو ، ذرا دیکھو ، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھہراتا ہے ۔ اس نے کہا کہ لوگو ، ہوشیار ہو جاؤ ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے ، اقتدار کا بھوکا ہے ، چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے ۔ ان ہتھکنڈوں سے وہ دعوت حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا ۔ ( مزید تشریحات کے لیے تفہیم القرآن ، جلد دوم کے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں ، الاعراف حواشی 87 ، 88 ، 89 ۔ یونس ، حاشیہ 75 ۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ہر زمانے میں برسر اقتدار لوگوں نے داعیان حق کو یہی الزام دیا ہے کہ وہ دراصل اقتدار کے بھوکے ہیں اور ساری باتیں اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں ۔ اس کی مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیت 110 ، 123 ۔ یونس ، آیت 78 ۔ المومنون ، آیت 24 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٧۔ ٦٠:۔ اوپر ذکر تھا کہ فرعون نے اللہ کے رسول موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا ان آیتوں میں یہ ذکر ہے کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کیوں کر اور کیا باتیں کہہ کر جھٹلایا موسیٰ (علیہ السلام) کے سبب سے ملک مصر کے ہاتھ سے جاتے رہنے کا ذکر اگرچہ فرعون نے بہتان کے طور پر اس خیال سے کیا تھا کہ جلاوطنی کا حال سن کر ساری قبطی قوم موسیٰ (علیہ السلام) کی دشمن ہوجائے لیکن حقیقت میں یہ ایک غیب کی بات تھی جو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے منہ سے نکلوائی چناچہ سورة الشعراء میں آئے گا کہ فرعون کے اور اس کی قوم کے ڈوب کر ہلاک ہوجانے کے بعد تمام ملک مصر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم بنی اسرائیل کے قبضہ میں آگیا حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ فرعون نے کہا اے موسیٰ تم اپنے جادو کے زور سے ہم کو ملک مصر سے نکال دینے اور خود اس ملک پر قبضہ کرلینے کا ارادہ جو رکھتے ہو تمہارا یہ ارادہ ہرگز پورا نہ ہوگا ہم بھی تمہارے مقابلہ کے لیے جادوگر بلواتے ہیں صاف کھلے میدان میں مقابلہ کا وقت اور دن مقرر کیا جائے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا تم لوگوں میں جشن کا جو ایک دن مقرر ہے اسی دن پہر ڈیڑھ پہر دن چڑھے مقابلہ ہوجائے گا ان باتوں کے بعد فرعون اس محل سے اٹھ کھڑا ہوا اور جادوگروں کو جمع کر کے مقررہ وقت اور تاریخ پر میدان میں آگیا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام کرے گا اور کون جنت میں داخل ہونے کے قابل اب جو شخص جس ٹھکانے کے قابل ہے دنیا میں ویسے ہی کام اس کو آسان اور اچھے معلوم ہوتے ہیں اور حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں فرعون دوزخی قرار پاچکا تھا اس لیے معجزہ کو جادو کہنا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا جادوگروں سے مقابلہ کرانا اس کو اچھا معلوم ہوا اور مقابلہ کے وقت جادوگروں کے عاجز ہوجانے کے بعد بھی کسی طرح سے حق بات اس کو سمجھ میں نہیں آئی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ہر باطل پرست اور جابر و ظالم حکمران جب داعی حق کے سامنے لاجواب ہوجاتا ہے تو اس کی دعوت کو ٹھکرانے کے لئے یہی ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے۔ یعنی اسے اقتدار کا بھوکا ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔ گویا اقتدار پر قابض رہنا اس کا تو پیدائشی حق ہے اور کسی دوسرے کے لئے اس کے قریب بھٹکنا بھی جائز نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 57 تا 64 اجئتنا کیا تو ہمارے پاس آیا۔ اجعل بنا دے۔ انخلفہ ہم اس کے خلاف نہ کریں گے۔ مکانا سوی ہموار میدان۔ یوم الزینۃ جشن کا دن، بناؤ سنگار کا دن۔ یحشر وہ جمع ہوجائیں گے۔ جمع کئے جائیں۔ ضحی دن چڑھے۔ ویلکم تمہارا ستیاناس ہوجائے۔ لاتفتروا تم نہ گھڑو، نہ بناؤ۔ یسحت وہ ہلاک کر دے گا۔ خاب نامراد ہوا۔ لتنازعوا آپس میں جھگڑ پڑے۔ اسروا انہوں نے چھپایا۔ النجوی مشورہ۔ المثلی نمونہ جو سب سے بہتر ہو۔ استعلی وہ غالب ہوا۔ تشریح : آیت نمبر 57 تا 64 حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) اللہ کی نشانیوں کے ساتھ بلا خوف و خطر فرعون کے دربا میں پہنچ گئے اور اللہ کی شان ربوبیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کائنات کا خالق ومالک اور رب صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ اس نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا اور اس کی مکمل رہنمائی فرمائی۔ انہوں نے مضبوط دلائل کے ساتھ ” عصا “ اور ” ید بیضا “ کے واضح معجزات بھی دکھائے مگر فرعون نے نہ صرف ان معجزات کا انکار کردیا بلکہ ان کے معجزات کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے ان کو کھلا جادو قرار دیدیا اور لوگوں کو اس بات کا یقین دلانے لگا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حکومت و سلطنت اور تاج و تخت پر قبضہ کر کے تمہاری بےمثال تہذیب اور مثالی زندگی کا خاتمہ کردیں۔ فرعون کو اس بات کا پوری طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کا یہ کہنا کہ میں ” رب اعلیٰ “ ہوں نہایت کمزور، بےبنیاد اور مکڑی کے جالے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ فرعون کے لئے اس پوزیشن کو سنبھالنا دشوار ہوگیا تھا کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور دلیلیں اس قدر مضبوط اور کھلی آنکھوں سے نظر آنے والی تھیں جس سے ہر شخص اس بات کا قائل ہوگیا تھا کہ واقعی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو کچھ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں وہ ایک سچائی ہے۔ مگر فرعون کے خوف سے سب خاموش تھے۔ اس موقع پر فرعون نے ہر طرح کی تدبیریں کر ڈالیں، اس نے لوگوں میں حضرت موسیٰ کے خلاف اشتعال اور غصہ دلانے کیلئے پوچھا کہ جو لوگ گذر چکے ہیں ان کا حشر کیا ہوگا۔ ؟ فرعون کا مقصد یہ تھا کہ اگر حضرت موسیٰ یہ کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے تو یقینا لوگ مشتعل ہوجائیں گے کیونکہ اپنے مرنے والے بزرگوں کے خلاف کوئی شخص بھی کسی طرح کی برائی سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ نے ایسا سنجیدہ اور باوقار جواب دیا کہ فرعون کی یہ سازش جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ فرمایا کہ اس کا علم تو اللہ کو ہے ۔ اس کے پاس مکمل ریکارڈ موجود اور محفوظ ہے۔ وہ اللہ جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ فرعون نے دوسرا حملہ ہوئے کہا کہ اے موسیٰ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تم (قبطیوں کا) اقتدار اور سلطنت ختم کر کے اس پر خود قبضہ کرنا چاہتے ہو ؟ فرعون زبان سے تو یہ کہہ رہا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ حضرت موسیٰ کے کھلے معجزات کو دیکھ کر اپنے دل میں خود بھی ایک خوف سا محسوس کر رہا تھا۔ کہنے لگے کہ میں اس طرح کے جادوئی ہتھکنڈوں سے مرعوب ہونے والا یا موسیٰ کے جادو کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ فرعون نے کہا کہ اس کے لئے کوئی دن مقرر کرلیا جائے۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ جس دن تمہارا میلہ ہوتا ہے اس دن کو مقرر کرلو۔ چناچہ مقابلہ کا دن مقرر کرلیا گیا اور ملک بھر کے تمام شعبدہ بازوں اور جادوگروں کو جمع کرلیا گیا جن کو طرح طرح کے لالچ دے کر کہا گیا تھا کہ اگر تم نے آج موسیٰ کو شکست دے دی تو تمہیں انعامات سے نوازا جائے گا۔ حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام جادوگروں نے چھپ چھپ کر چپکے مشورے کرنا شروع کردیئے تکاہ ایک پروگرام کے تحت اپنے اپنے جادو کے کمالات کو پیش کیا جاسکے۔ دوسری طرف حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! تم کتنے بدنصیب ہو کہ اللہ کی طرف سے دیئے گئے ان معجزات کو بےحقیقت سمجھ رہے ہو۔ فرمایا کہ میں نے اللہ کے پیغام کو پوری دیانت و امانت سے پہنچا دیا ہے۔ وہی سچاپیغام ہے کیونکہ اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ناکام و نامراد ہو کر رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی ان باتوں سے ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور کہنے لگے کہ لوگو ! موسیٰ جادوگر ہیں (نعوذ باللہ) جن کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور پر تمہارے ملک پر قبضہ کرلیں۔ تمہیں باہر نکال دیں اور تمہاری بےمثال زندگی کا خاتمہ کردیں۔ لہٰذا تم بھی اپنے تمام داؤں اور صلاحیتوں کو جمع کر کے ان پر حملہ کر دو ، صفیں بنا کر میدان میں اتر آؤ آج وہ خوش نصیب اور کامیاب ہوگا۔ جو اپنے کمالات اور جوہر دکھائے گا۔ اس طرح کی باتوں سے فرعون اور اس کی قوم کے لوگوں نے ہر ایک جوش دلا کر ابھارنے کی بھرپور کوشش کی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کا مقابلہ معجزات کے ذریعے کرنے سے پہلے جادوگروں کو اور فرعون کے درباریوں کو نہایت ہمدردی اور نرمی سے نصیحت کی اور ان کو اللہ کے خوف سے ڈرایا تاکہ وہ اپنے کفر سے توبہ کرلیں۔ فرمایا کہ تمہاری تباہی سامنے ہے، اللہ پر جھوٹ نہ گھڑو، کیونکہ سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ کے سوا بھی کوئی معبود ہے۔ اگر تم نے یہ شرک کا انداز اختیار کیا تو عذاب الٰہی تمہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا کیونکہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ کفر و شرک اور جھوٹ باندھنے والوں کو تہس نہس کئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کو نصیحت فرمائی تو وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ حق و صداقت کی آواز دلوں پر اثر کئے بغیر نہیں رہتی۔ یہ سب کچھ سننے کے بعد تمام جادو گر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ کیا کیا جائے۔ اگر فرعون کی بات مانی جاتی ہے تو دنیا و آخرت کا نقصان ہے اور نہیں مانی جاتی تو فرعون کے ظلم و زیادتی سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ آخر کار ان جادوگروں پر دنیا کا لالچ غالب آگیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں ڈٹ کر حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس واقعہ کی بقیہ تفصیل اس کے بعد کی آیات میں بیان کی گئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اور خود عوام کو فریفتہ اور تابع بنا کر رئیس بن جاو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان کشمکش کا دوسرا مرحلہ۔ فرعون نے اقتدار کے نشہ میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے پیش کیے ہوئے تمام دلائل اور بڑے بڑے معجزات ٹھکرا دئیے۔ اقتدار بچانے، عوام اور لیڈروں کو ساتھ رکھنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) پر الزام لگایا کہ یہ رسول ہونے کی بجائے جادوگر ہیں اور جادو کے زور پر ہمارے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ ہمیں ملک سے نکال کر یوسف (علیہ السلام) کی طرح بنی اسرائیل کو مصر میں برسراقتدار لائیں۔ فرعون جانتا تھا کہ جادو میں اس طرح کی طاقت نہیں ہوتی کہ کوئی اس کے زور پر اقتدار یا کسی کی چیز پر قبضہ کرسکے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو چیلنج کیا ہم اس طرح اقتدار چھوڑنے والے نہیں بلکہ ہم تمہارے جادو کا مقابلہ جادو کے ساتھ کریں گے۔ بس ہمارے اور تمہارے درمیان ایک معاہدہ طے پانا چاہیے جس کی نہ ہم مخالفت کریں گے اور نہ تمہیں مخالفت کرنا چاہیے۔ گویا کہ دونوں فریقوں کو اس کی پوری پوری پاسداری کرنا ہوگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن قومی تہوار کا دن مقرر کیا جائے اور وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہو۔ تاکہ لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو کر دن کی روشنی میں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکیں کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی مراد تھی کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اتنا بڑا اجتماع کرنے کے وسائل اور اثر رسوخ کہاں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاتھوں ہی یہ کام کر دکھایا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا چرچا اور ان کا پیغام پوری قوم تک پہنچ جائے۔ یاد رہے بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ان کی قوم نے یہی الزام لگایا کہ یہ جادوگر ہے۔ اس الزام کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ انبیاء (علیہ السلام) کی صورت و سیرت اور ان کی دعوت کی طرف متوجہ ہوجایا کرتے تھے جس بنا پر ان کے مخالف ان پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا کرتے تھے۔ حالانکہ جادو کرنا، کروانا کفر ہے جس کا انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ (لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ ) (الترغیب والترہیب) ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے ‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے۔ “ مسائل ١۔ انبیاء کے معجزات کو کفار جادو تصور کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) پر الزام اور جادو کی حقیقت : ١۔ آل فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گرہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے اسے جادو قرار دیا۔ (سباء : ٤٣) ٤۔ جب لوگوں کے پاس حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے ہم اسے نہیں مانتے۔ (الزخرف : ٣٠) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ ( الصف : ٦) ٦۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الفرقان : ٨۔ بنی اسرائیل : ٤٧) ٧۔ قرآن جادو ہے کیا تم غور نہیں کرتے۔ (الطور : ١٥) ٨۔ جادوکفر ہے۔ (البقرۃ : ١٠٢) ٩۔ جادو کی اصلیت نہیں ہوتی۔ (الاعراف : ١١٦) ١٠۔ جادو شیاطین کے ذریعے ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ١٠٢) ١١۔ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا۔ (طٰہٰ : ٦٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال اجئتنا ……ضحی (٩٥) فرعون نے کوئی مناظرہنہ کیا ، دلیل کا جواب دلیل سے نہ دیا ، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل قوی تھے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل کا تعلق اس کائنات کی نشانیوں سے بھی تھا۔ ان دونوں خارق العادات معجزات سے بھی تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے تھے اس نے بس ہارے ہوئے آدمی کی طرح جھوٹے الزام کا سہارا لیا کہ موسیٰ نے عصا کو سانپ بنا کر پیش کیا ہے ، یہ ان کی کھلی جادوگری ہے۔ نیز وہ ہاتھ کو جادوگری سے سفید کردیتا ہے۔ اس وقت چونکہ مصر میں جادوگری عروج پر تھی اس لئے فرعون نے بھی یہی الزام لگایا۔ یہ دونوں معجزات بھی ایسے تھے کہ سحر شکن تھے حالانکہ سحر تو ایک نظر بندی اور تخلیل ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ دیکھنے اور سننے والوں کے حواس کو متار کر کے دھوکہ دے دیا جاتا ہے اور ایسے آثار نظر آتے ہیں جیسے کہ چیزوں کی حقیقت بھی بدل گئی ہے جیسا کہ بعض اوقات انسان ایسی چیزوں کو دیکھتا ہے جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ یا انسان کو بعض اوقات چیزوں کی وہ صورت نظر نہیں آتی جو فی الحقیقت ہوتی ہے۔ ایک جادو زدہ شخص پر بھی بعض اوقات ایسے اثرات ہوتے ہیں کہ جسمانی اور اعصابی طور پر تغیر نظر آتا ہے لیکن حقیقت نہیں بدلتی جبکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات ایسے تھے کہ حقیقت بدل جاتی تھی۔ وقتی طور پر مکمل حقیقت بدل جاتی تھی۔ قال اجئننا لتخر جنا من ارضنا بسحرک یموسی (٠٢ : ٨٥) ” کہنے لگا اے موسیٰ تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال دے۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر میں بنی اسرائیل کو سیاسی عمل کے طور پر غلام بنایا گیا تھا۔ اس لئے کہ وہ بڑی کثرت سے تھے ، ان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جب اقتدار کا سوال آتا ہے تو سرکش حکمران عوام کو شدید سے شدید تر عذاب دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ وہ انسانوں کو ایسی تکلیفیں دیتے ہیں جن کا جواز انسانوں کے کسی تصور میں نہیں ہوتا۔ اور وہ تشدد انسانی ضمیر ، انسانی شرافت اور انسانی حقوق کے خلاف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا ، لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا اور ان سے مزدوری لیتا تھا اور بیگار اور مزدوری بھی وہ جو سخت سے سخت ہو۔ جب موسیٰ اور ہارون علیھما السلام نے یہ مطالبہ کیا کہ ارسل معنا بنی اسرآئیل ولا تعذبھم ” ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دو اور انہیں تکلیف نہ دو ۔ “ تو جواب میں اس نے یہ الزام لگایا۔ قال اجئتنا لتخرجنا من ارضنا بسحرک یموسیٰ (٠٢ : ٨٥) ” موسیٰ ، تم ہمارے پاس اس لئے آتے ہو کہ ہمیں اپنی سر زمین سے اپنے جادو کے زور سے نکال دو ۔ “ کیونکہ بنی اسرائیل کی آزادی اور ہجرت کے یہ معنی ہیں کہ وہ حملہ کر کے مصر پر قابض بھی ہو سکتے ہیں۔ جب اس کے خیال میں موسیٰ (علیہ السلام) محض جادو کے زور سے بنی اسرائیل کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو قدرتی طور پر جواب یہی ہے کہ ہم بھی ایسا ہی جادو لے آئیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول ماننے کے بجائے محض ضد سے جادوگر قرار دیا اور کہنے لگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ تو جادو کے زور سے میرے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے لیکن میں تیرے جادو سے مرعوب ہونے والا نہیں۔ میرے ملک میں بھی بڑے بڑے جادو گر موجود ہیں میں تیرے مقابلے کے لیے ان کو بلاؤں گا۔ اس لیے کوئی ایسی جگہ مقرر کردے جس کا فاسلہ ہمارے تمہارے لیے برابر ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا۔ بہتر یہی ہے کہ یوم الزینہ یعنی تمہاری عید کے دن ہی مقابلہ ہوجائے۔ کیونکہ اس میں خواہ مخواہ لوگ دور دراز سے آئیں گے۔ یوم الزینہ سے ان کا نوروز مراد ہے۔ اس دن میں وہ باقاعدہ میلہ لگاتے، بازاروں کو خوب سجایا جاتا۔ اور لوگ عمدہ عمدہ کپڑے پہن کر اس میں شریک ہوتے تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57 فرعون کہنے لگا اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ تو اپنے جادو سے ہم کو ہمارے ملک سے باہر نکال دے یعنی ہماری حکومت ہم سے چھیننا اور ہمارے ملک سے ہم کو بےدخل کرنا چاہتا ہے اور جادو کے زور سے ہم کو شکست دینے پر آمادہ ہے۔