30. Here by sorcery are meant the miracles of the staff and the shining hand, which according to the details given in Surahs Al-Aaraf and Ash-Shuara, were shown to Pharaoh by Prophet Moses (peace be upon him) in his first visit to his court. On seeing these miracles Pharaoh was so upset that he cried out: Have you come to drive us out of our country by the power of your sorcery? Although he knew that it had never happened in history that a magician had conquered a country by the power of sorcery. Moreover, there were hundreds of magicians in his own country, who used to show their feats to earn rewards and prizes. Accordingly, Pharaoh’s statement that “you are a sorcerer” on the one hand, and his apprehension that “you want to snatch my kingdom” on the other, were a clear indication of his perturbed mind. In fact, Pharaoh had come to understand that the well reasoned speech of Moses and his miracles were bound to influence not only his courtiers, but also the common people and accordingly he tried to play upon their prejudices through falsehood and treachery. He did not admit that it was a miracle, but called it sorcery. He wanted to create an impression that any sorcerer of his empire could turn a staff into a serpent. He also incited the people, saying: Look, he says that your forefathers were on the wrong way and deserved perdition. So beware of him, he is not a Prophet. He simply aspires for power. He wants that the Israelites should again capture power here like the times of Joseph and wrest the reigns of government from the Copts. Pharaoh, in fact, wanted to suppress the invitation to the truth through such devices. (For details please see (E.Ns 87-89 of Surah Al-Aaraf); (E.N. 75 of Surah Younus).
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :30
جادو سے مراد عصا اور ید بیضا کا معجزہ ہے جو سورہ اعراف اور سورہ شعراء کی تفصیلات کے موجب حضرت موسیٰ نے پہلی ہی ملاقات کے وقت بھرے دربار میں پیش کیا تھا ۔ اس معجزے کو دیکھ کر فرعون پر جو بد حواسی طاری ہوئی اس کا اندازہ اس کے اسی فقرے سے کیا جا سکتا ہے کہ ’ تو اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کبھی یہ واقعہ پیش آیا تھا اور نہ بعد میں کبھی پیش آیا کہ کسی جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے کوئی ملک فتح کر لیا ہو ۔ فرعون کے اپنے ملک میں سینکڑوں ہزاروں جادوگر موجود تھے جو تماشے دکھا دکھا کر انعام کے لیے ہاتھ پھیلاتے پھرتے تھے ۔ اس لیے فرعون کا ایک طرف یہ کہنا کہ تو جادوگر ہے ، اور دوسری طرف یہ خطرہ ظاہر کرنا کہ تو میری سلطنت چھین لینا چاہتا ہے ، کھلی ہوئی بد حواسی کی علامت ہے ، دراصل وہ حضرت موسیٰ کی معقول و مدلل تقریر ، اور پھر ان کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہل دربار ، بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام و خواص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے ۔ اس لیے اس نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی ۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے ۔ اس نے کہا کہ لوگو ، ذرا دیکھو ، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھہراتا ہے ۔ اس نے کہا کہ لوگو ، ہوشیار ہو جاؤ ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے ، اقتدار کا بھوکا ہے ، چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے ۔ ان ہتھکنڈوں سے وہ دعوت حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا ۔ ( مزید تشریحات کے لیے تفہیم القرآن ، جلد دوم کے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں ، الاعراف حواشی 87 ، 88 ، 89 ۔ یونس ، حاشیہ 75 ۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ہر زمانے میں برسر اقتدار لوگوں نے داعیان حق کو یہی الزام دیا ہے کہ وہ دراصل اقتدار کے بھوکے ہیں اور ساری باتیں اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں ۔ اس کی مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیت 110 ، 123 ۔ یونس ، آیت 78 ۔ المومنون ، آیت 24 ۔