Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 58

سورة طه

فَلَنَاۡتِیَنَّکَ بِسِحۡرٍ مِّثۡلِہٖ فَاجۡعَلۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکَ مَوۡعِدًا لَّا نُخۡلِفُہٗ نَحۡنُ وَ لَاۤ اَنۡتَ مَکَانًا سُوًی ﴿۵۸﴾

Then we will surely bring you magic like it, so make between us and you an appointment, which we will not fail to keep and neither will you, in a place assigned."

اچھا ہم بھی تیرے مقابلے میں اسی جیسا جادو ضرور لائیں گے ، پس تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدے کا وقت مقرر کر لے کہ نہ ہم اس کا خلاف کریں اور نہ تو ، صاف میدان میں مقابلہ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He (Fir`awn) said: "Have you come to drive us out of our land with your magic, O Musa! Then verily, we can produce magic the like thereof; so appoint a meeting between us and you, which neither we nor you shall fail to keep, in an open place where both shall have a just and equal chance." Allah, the Exalted, informs of what Fir`awn said to Musa when he showed him the great proof. This great sign to Fir`awn was Musa casting down his stick which became a huge snake, and his pulling his hand out from under his arm while it was glowing white without any illness. At this, Fir`awn said, "This is magic that you have brought to us to bewitch us and conquer the people, so that they will follow you. Then you will outnumber us." Fir`awn then said, "Your plan will not work. We have magic just like yours, so do not let yourself be deceived by that what you are doing." ... فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا ... so appoint a meeting between us and you, Meaning, `a day that we can come together to present some of our magic to confront yours. It will be at a specified place and time.' With this, Musa said to them,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 موعد مصدر ہے یا اگر ظرف ہے تو زمان اور مکان دونوں مراد ہوسکتے ہیں کوئی جگہ اور دن مقرر کرلے۔ 58۔ 2 مکان سوی۔ صاف ہموار جگہ، جہاں ہونے والے مقابلے کو ہر شخص آسانی سے دیکھ سکے یا ایسی برابر کی جگہ، جہاں فریقین سہولت سے پہنچ سکیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] موسیٰ (علیہ السلام) خود بھی ایسا مقابلہ چاہتے تھے تاکہ عام لوگوں کے ذہنوں پر جو فرعون کے جھوٹے پروپیگنڈا کے اثرات پڑ رہے ہیں تھے وہ زائل ہوسکیں۔ اور لوگ خود حق اور باطل میں امتیاز کرسکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا ۔۔ : ” مَوْعِدًا “ ظرف زمان بھی ہوسکتا ہے، مکان بھی اور مصدر میمی بھی، یعنی ہمارے ساتھ وہ وقت بھی طے کرلو جس میں مقابلہ ہوگا اور جگہ بھی، البتہ جگہ ایسی ہونی چاہیے جو قبطیوں اور بنی اسرائیل دونوں کے لیے برابر ہو، تاکہ کسی کو آنے میں دشواری پیش نہ آئے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ” مَكَانًا سُوًى“ کا مطلب برابر اور ہموار زمین ہے، جہاں سب مقابلہ دیکھ سکیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

By words مَكَانًا سُوًى(at an even place) in verse 58 the Pharaoh proposed that the contest between Sayyidna Musa (علیہ السلام) and his own magicians should be held at a place which should, as far as possible, be within easy access of the Egyptians, Sayyidna Musa (علیہ السلام) and the Bani Isra&il. The latter readily accepted this proposal and fixed the day and the time for the contest by suggesting۔

مَكَانًا سُوًى، فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں کے مقابلہ کے لئے یہ خود تجویز کیا کہ ایسے مقام پر ہونا چاہئے جو آل فرعون اور حضرت موسیٰ و بنی اسرائیل کے لئے مسافت کے اعتبار سے برابر ہو تاکہ کسی فریق پر زیادہ دور جانے کی مشقت نہ پڑے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو قبول کر کے دن اور وقت کی تعیین اس طرح فرما دی :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَنَاْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِہٖ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى۝ ٥٨ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ خُلف ( عهد شكني) والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة/ 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد/ 31] ( خ ل ف ) خُلف الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة/ 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد/ 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) تو جیسا تم جادو لے کر آئے ہو ہم بھی تمہارے مقابلہ میں ایسا ہی جادو لے کر آتے ہیں تو موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے اور اپنے درمیان مقابلہ ا ایک وقت مقرر کرلو جس کی ہم میں سے کوئی خلاف ورزی نہ کرے کسی ہموار میدان میں یا یہ کہ منصفانہ برابر طریقہ پر اپنے اور ہمارے درمیان مقرر کرلو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَکَانًا سُوًی ) ” ایک کھلے میدان میں ہم سب جمع ہوجائیں۔ وہاں تم بھی اپنی یہ نشانیاں پیش کرو ‘ اور ہمارے جادو گر بھی اپنے جادو کے کمالات دکھائیں۔ فرعون کا خیال تھا کہ اس کے بلائے ہوئے جادوگر اس سے بہتر جادو دکھا دیں گے اور اس طرح موسیٰ کا دعویٰ باطل ثابت ہوجائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:58) فلناتینک۔ الفاء ترتیب کے لئے لام موضع جواب قسم محذوف ای اذا کان کذلک فو اللہ لناتینک اگر ایسے ہے تو خدا کی قسم ہم بھی لے آئیں گے ناتین مضارع جمع متکلم بانون ثقیلہ۔ موعدا۔ اسم ظرف زمان۔ یا اسم ظرف مکان۔ وعدہ کا وقت یا وعدہ کی جگہ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ نہ اسم ظرف زمان ہے۔ بلکہ یہ مصدر میمی ہے اور بمعنی وعدا ہے اور لا نخلفہ سے مراد ہے کہ ہم وعدہ خلافی نہ کریں۔ مکان سوی۔ کھلا اور ہموار میدان جس میں نشیب و فراز نہ ہوتا کہ ہر چیز صاف نظر آئے اگر موعدا کو اسم ظرف مکان لیا جاوے تو مکانا سوی اس کی تعریف ہوگی اور اگر اسم ظرف زمان ہو تو معنی ہوں گے کہ وقت مقرر کرو جس سے ہم میں سے کوئی نہ پھرے اور اکٹھا ہونے کی جگہ کھلا میدان ہو۔ موعدا کو وعدہ کے معنی میں لینے کی صورت میں معنی ہوں گے کہ : ہمارے تمہارے درمیان ایک پختہ وعدہ ہو جس کے نہ ہم خلاف جائیں نہ تم۔ سوی۔ (صاف ۔ ہموار۔ درمیانی) کے متعلق امام راغب لکھتے ہیں جس کی دونوں طرفیں برابر ہوں وہ سوی ہے۔ یہ وصف ہو کر بھی مستعمل ہے اور ظرف ہو کر بھی۔ اور اصل میں یہ مصدر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلناتینک بسحر مثلہ (٠٢ : ٨٥) ” ہم تمہارے پاس ایسا ہی جادو لے آئیں گے۔ “ ہمیشہ سرکشوں اور بےدین لیڈروں نے یہی سمجھا ہے کہ دعوت حق دینے والے دراصل ملک کے اندر اقتدار اعلیٰ کے طالب ہوتے ہیں۔ ان کی دعوت دراصل ایک پردہ ہے جس کے پیچھے وہ انقلابی کام کرت یہیں۔ اس کے بعد جب وہ دیکھتے ہیں کہ داعی کے پاس دلائل و شواہد ہیں یا تو معجزات ہیں جس کے پیچھے وہ انقلابی کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد جب وہ یکھتے ہیں کہ داعی کے پاس دلائل و شواہد ہیں یا تو معجزات ہیں جیسے حضرت موسیٰ کیے معجزات یا ان کے پاس ایسے دلائل ہیں جو جاد کی طرح دال میں اتر جاتے ہیں چناچہ سرزکش ڈکٹیٹر حکمرن اپنے لئے ایسے ہی دلائل فراہم کرتے ہیں۔ سحر کے مقابلے میں سحر ، کلام کے مقابلے میں کلام ، اصلاح کے مقابلے میں اصلاح ، اچھے اعمال کے مقابلے میں اچھے اعمال ، لیکن وہ جانتے نہیں کہ اہل حق کے پاس ایمان ہوتا ہے اور ایمان کے مقابلے میں ان کے پاس ایمان نہیں ہوتا۔ اہل حق کو اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے اور ان سرکشوں کو اللہ کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔ چناچہ فرعون نے موسیٰ کے ساتھ مقابلے کا وقت مقرر کرلیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا کہ تم جس وقت چاہو ، مقابلہ کرلو ، لیکن وقت مقررہ پر دونوں فریق حسب وعدہ ضرور آئیں گے اور چیلنج کو زور دار بنانے کے لئے اس نے یہ شرط لگائی کہ کوئی بھی وقت مقررہ سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور مقابلہ بھی کھلے میدان میں عوام الناس کے سامنے ہونا چاہئے۔ مکانا سوی (٠٢ : ٨٥) ” یعنی کھلا میدان “ موسیٰ علہی ال سلام سے پہلے فرعون نے چیلنج دیا ، اور مقابلے کا دن جشن کا مشورہ دن مقرر ہوا۔ جشن کے دن لوگ خوشایں مناتے ہیں اور خوب زیب وزینت سے آتے ہیں۔ کھلے میدانوں میں جمع ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو فرعون کا جادو بتانا اور جادو گروں سے مقابلہ کے لیے وقت اور جگہ مقرر ہونا فرعون ملعون کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا اور اپنے بھائی کا تعارف کرادیا اور یہ بتادیا کہ ہمیں ہمارے رب نے تیری طرف بھیجا ہے اور رب جل شانہ کی صفت خالقیت بھی بتادی اور یہ بھی بتادیا کہ اس نے سب کو رہنمائی فرمائی ہے اور وہ نہ خطا کرتا ہے اور نہ بھولتا ہے اور یہ زمین کا فرش اسی نے بنایا اور آسمان سے وہی پانی اتارتا ہے اور فرعون کو چمکتا ہوا یدبیضاء بھی دکھا دیا نیز اس کے سامنے لاٹھی کو ڈالا۔ اور وہ اژدھا بن گئی تو خالق کائنات جل مجدہ کی خالقیت اور ربوبیت اور الوہیت کا اقرار کرنے اور حضرت موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) کی رسالت پر ایمان لانے کے بجائے الٹی الٹی باتیں کرنے لگا، معجزات دیکھے پھر بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور ان کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا اور یوں کہا کہ تو جو یہ لکڑی کا سانپ بنا کر دکھاتا ہے یہ جادو ہے فرعون نے یہ بھی کہا کہ تیرا نبوت کا دعویٰ جھوٹا ہے اور تیرا اصل مطلب یہ ہے کہ اپنے جادو کے ذریعہ ہم کو ہماری سر زمین سے نکال دے یہ تو فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اور پھر اپنی جماعت سے بھی کہا کہ یہ تو بہت بڑا جادوگر ہے۔ اس کے درباریوں نے کہا کہ اپنی قلمرو کے تمام شہروں میں آدمی بھیج دے جتنے بھی جادوگر ہیں سب کو بلا لائیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرعون نے کہہ دیا کہ تیرے مقابلہ کے لیے ہم بھی تیرے جیسا جادو لے کر آئیں گے۔ لہٰذا مقابلہ کا دن اور میدان مقرر کر دے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے موقع کو مناسب جانا اور فرما دیا کہ ہمارا تمہارا مقابلہ زینت کے دن ہوگا۔ (اس سے ان لوگوں کا کوئی تہوار یا میلہ کا دن مراد تھا) اور ساتھ ہی وقت بھی مقرر فرما دیا اور وہ یہ کہ سورج چڑھے مقابلہ ہوگا اور یہ ایک ہموار میدان میں ہونا چاہئے۔ چونکہ میلہ کے دن لوگ یوں بھی جمع ہوتے ہیں اور شہر سے باہر نکلتے ہیں اور پھر جب یہ بات مشہور ہوگئی کہ جادو گروں سے دو ایسے شخصوں کا مقابلہ ہوگا جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم پروردگار جل مجدہ کے فرستادہ ہیں۔ تو تاریخ مقررہ پر لوگ جمع ہوگئے اور مقابلہ ہوا جس میں جادو گروں نے اپنی ہار مان لی اور سجدہ میں گرپڑے اور ایمان لے آئے۔ (جیسا کہ ابھی دو صفحہ کے بعد آتا ہے اور سورة اعراف میں بھی گزر چکا ہے) ۔ ابھی مقابلہ کا دن نہیں آیا تھا لیکن فرعون اپنی تدبیروں میں لگ گیا وہ اور اس کے درباری آپس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف باتیں کرتے رہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی مکاریوں کا پتہ چل گیا اور ان سے فرمایا کہ تم پر ہلاکت ہو تم اللہ پر افتراء مت کرو اس کے نبیوں کو نہ جھٹلاؤ اور اس کے معجزات کو جادونہ بتاؤ یہ تمہارا عمل تمہاری بربادی کا پیش خیمہ ہوگا وہ تمہیں ایسا عذاب دے گا کہ صفحہ ہستی سے مٹادے گا اور تمہیں بالکل نیست ونابود کر دے گا۔ اور جب کبھی بھی جس کسی نے جھوٹا افتراء کیا ہے وہ ناکام ہی ہوا ہے جادو گر آئے ابھی مقابلہ کے میدان میں نہیں پہنچے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی باتیں سن کر مقابلہ میں آنے سے ڈھیلے پڑگئے اور آپس میں یوں کہنے لگے کہ اگر موسیٰ غالب آگئے تو ہم ضرور ان کا اتباع کرلیں گے۔ اور بعض حضرات نے یوں کہا ہے کہ جب جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ بات سنی کہ (لَا تَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسْحِتَکُمْ بِعَذَابٍ ) تو آپس میں کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر کی بات معلوم نہیں ہوتی اور انہوں نے مقابلہ کرنے سے انکار کردیا لیکن فرعون نے زبردستی ان سے مقابلہ کرایا جس کا انشاء اللہ ابھی ذکر آئے گا۔ کچھ تو فرعون کا ڈر تھا اور کچھ فرعون کا مقرب بننے کا لالچ اس لیے جو فرعون اور اس کے درباری کہتے تھے کہ موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) ہمیں اس سر زمین سے نکالنے کے لئے آئے ہیں جادوگر بھی ظاہر میں یہ بات کہنے لگے اور انہوں نے کہا (اِنْ ھٰذٰینِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِھِمَا وَ یَذْھَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی) (یہ دونوں جادوگر یہی چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے ذریعہ تمہاری سرزمین سے تمہیں نکال دیں اور تمہارا جو عمدہ طریقہ ہے یعنی تمہارا مذہب اور دین وہ تم سے چھڑا دیں) ۔ (فَاَجْمِعُوْا کَیْدَکُمْ ثُمَّ اءْتُوْا صَفًّا) (سو تم اپنی تدبیر کو اچھی طرح جمع کرلو پھر صف بنا کر آؤ) (وَ قَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰی) (اور وہ کامیاب ہوا جس نے آج غلبہ پالیا) اللہ تعالیٰ نے انہیں کی زبان سے یہ نکلوا دیا کہ جس کا غلبہ ہوگا وہی کامیاب ہوگا۔ ھذا کلہ علی تقدیر رجوع الضمائر الی الحسرۃ کما فسر بذلک غیر واحد والذی یمیل الیہ القلب ان ھذا کلہ من کلام ملاء فرعون واللہ تعالیٰ اعلم فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ہر شخص اپنی سمجھ ہی کے مطابق سوچتا ہے۔ چونکہ فرعون اور اس کے درباری اور اس کی قوم کے لوگ دنیا دار تھے اس لیے انہیں یہی فکر ہوا کہ کہیں ہم مصر کی سرزمین سے نہ نکال دئیے جائیں۔ جن لوگوں کو آخرت کا یقین نہیں ہوتا وہ سب کچھ دنیا ہی کو سمجھتے ہیں اور اسی کے چلے جانے کا واویلا کرتے ہیں۔ آج بھی دیکھا جاتا ہے کہ جس کسی کو جہاں کہیں کوئی اقتدار مل جائے اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ میرا اقتدار نہ چھن جائے اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے لوگوں کو قتل بھی کراتے ہیں۔ جھوٹ بھی بولتے ہیں بیانات سے بھی منحرف ہوجاتے ہیں اور مسلمانی کا دعوی کرنے کے باوجود کفریہ کلمات بھی بول دیتے ہیں پارلیمنٹ میں حرام چیزوں کو حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کو راضی رکھنے کا جذبہ ان سے سب کچھ کروا لیتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

58 لہٰذا ہم بھی اب تیرے مقابلے میں ایسا ہی جادو لائیں گے تو اپنے اور ہمارے درمیان ایک ایسا وعدہ مقرر کرے جس کا نہ تو ہم خلاف کریں اور نہ تو اس کا خلاف کرے اور یہ مقابلہ کسی ہموار میدان میں ہو۔ یعنی ایک تاریخ مقرر کرلو تاکہ اس دن مقابلہ ہو کر فیصلہ ہوجائے تم بھی اس تاریخ کا خلاف نہ کرو ہم بھی نہ کریں یہ مقابلہ کھلے اور صاف میدان میں ہو تاکہ سب لوگ اچھی طرح سے دیکھ لیں۔