Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 62

سورة طه

فَتَنَازَعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوٰی ﴿۶۲﴾

So they disputed over their affair among themselves and concealed their private conversation.

پس یہ لوگ آپس کے مشوروں میں مختلف رائے ہوگئے اور چھپ کر چپکے چپکے مشورہ کرنے لگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ ... "...And surely, he who invents a lie will fail miserably." Then they debated one with another what they must do, It has been said that this means that they argued among themselves. So one of them said, "This is not the speech of a magician, but it is the speech of a Prophet." Another said, "No, he is only a magician." There are other opinions that have been mentioned about what they discussed. And Allah knows best. Allah's statement, ... وَأَسَرُّوا النَّجْوَى and they kept their talk secret. means, they held secret counsel among themselves about this matter.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وعظ سے ان میں باہم کچھ اختلاف ہوا اور بعض چپکے چپکے کہنے لگے کہ یہ واقعی اللہ کا نبی ہی نہ ہو، اس کی گفتگو تو جادو گروں والی نہیں پیغمبرانہ لگتی ہے۔ بعض نے اس کے برعکس رائے کا اظہار کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] اکابرین فرعون میں اختلاف :۔ اکابرین قوم فرعون پر آپ کی نصیحت کا خاصا اثر ہوا اور وہ آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ ایک فریق کہتا تھا کہ ان پیغمروں کا مقابلہ کرنا اپنی شکست کو دعوت دینا ہے۔ دوسرا کہتا تھا کہ ابھی اس مقابلہ کو ملتوی کردیا جائے جبکہ مقابلہ کے دیکھنے کے لئے لوگ جمع ہوچکے تھے۔ اس حال میں یہ اکابرین علیحدہ چلے گئے اور سر جوڑ بیٹھے تاکہ کسی ایک فیصلہ پر اتفاق رائے ہوجائے۔ اس مشورہ میں ماہر جادوگروں کو بھی شریک کیا گیا ان میں سے بعض کہنے لگے کہ ایسے نورانی چہرے جادوگر نہیں ہوسکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ ۔۔ : نصیحت بعض پر مؤثر ہوئی، بعض پر نہیں۔ چناچہ وہ آپس میں چپکے چپکے جھگڑنے لگے، تاکہ فرعون یا موسیٰ یا عوام میں سے کسی کو ان کے باہمی اختلاف کی خبر نہ ہونے پائے۔ ” النَّجْوٰى“ آپس کی خفیہ بات، سرگوشی۔ ” اَسَرُّوا “ انھوں نے پوشیدہ کیا۔ ” النَّجْوٰى“ (سرگوشی) خود پوشیدہ ہوتی ہے، پھر ” اَسَرُّوا “ سے اس کی مزید پوشیدگی کا اندازہ کریں اور اس سے پہلے ” بَيْنَهُمْ “ (آپس میں) کا لفظ بتاتا ہے کہ اس جھگڑے کی خبر اس محدود گروہ کے درمیان ہی رہی، باہر نہیں نکلی۔ (ابن عاشور) کوئی کہنے لگا، موسیٰ جادوگر ہے اور کوئی کہنے لگا، یہ چہرہ جادوگر کا نہیں ہوسکتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَتَنَازَعُوا أَمْرَ‌هُم بَيْنَهُمْ (then, they disputed among themselves in their matter - 20:62), وَأَسَرُّ‌وا النَّجْوَىٰ (and kept their talk secret - 20:62). Ultimately their unanimous decision was to proceed with the contest because, in their opinion, Sayyidna Musa (علیہ السلام) and Sayyidna Harun (علیہ السلام) were both magicians who wished to drive away the Pharaoh and his men from Egypt by their magic and to eradicate their ideal way of life. This decision of theirs is mentioned in verse 63 in the following words:

(فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ ) کا یہی مطلب ہے، پھر اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے آپس میں سرگوشی اور آہستہ مشورے ہونے لگے (وَاَسَرُّوا النَّجْوٰى) مگر بالاخر مجموعی رائے مقابلہ کرنے ہی پر جم گئی اور کہنے لگے :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰى۝ ٦٢ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] ( ن زع ) نزع الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے سرر (كتم) والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] ( س ر ر ) الاسرار السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ نجو) سرگوشي) والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ( ن ج و ) النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) یہ سن کر ان جادوگروں نے باہم مشورہ کیا کہ اگر اس مقابلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) ہم پر غالب آگئے تو ہم ان پر ایمان لے آئیں گے اور اس خفیہ مشورہ کا فرعون سے ذکر کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰی ) ” جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے براہ راست جادوگروں سے خطاب کیا تو وہ مرعوب ہوگئے۔ نبوت کا رعب بھی تھا اور آپ ( علیہ السلام) کی شخصیت کی خداداد وجاہت بھی ‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد قبل ازیں آیت ٣٩ میں وارد ہوچکا ہے : (وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ ج) کہ میں نے اپنی طرف سے تم پر اپنی خاص محبت ڈال دی تھی۔ چناچہ جادوگر یہ سب کچھ برداشت نہ کرسکے۔ آپ ( علیہ السلام) کی تقریر سنتے ہی مقابلے کا معاملہ ان میں متنازعہ ہوگیا۔ چناچہ وہ ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لیے باہم سرگوشیوں میں مصروف ہوگئے۔ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر سے فرعون کے درباریوں میں باہم اختلاف پیدا ہوگیا اور وہ آپس میں چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ مقابلہ نہ کرایا جائے۔ لیکن بالآخر وہ اتفاقِ رائے سے اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35. This shows that those people felt in their hearts that their position was weak and knew that the miracle shown by Prophet Moses (peace be upon him) was not a piece of magic. Therefore, they had come for the encounter with hesitation and fear. But when the timely, sudden warning of Prophet Moses (peace be upon him) shook them to the core, they began to debate the wisdom of holding the encounter on the Feast Day in an open place in the broad day light. For they thought that if they were defeated in the presence of the common people, all would come to know of the difference between magic and a miracle and they would lose the battle once for all.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :35 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں اپنی کمزوری کو خود محسوس کر رہے تھے ۔ ان کو معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ دکھایا ہے وہ جادو نہیں ہے ۔ وہ پہلے ہی سے اس مقابلے میں ڈرتے اور ہچکچاتے ہوئے آئے تھے ، اور جب عین موقع پر حضرت موسیٰ نے ان کو للکار کر متنبہ کیا تو ان کا عزم یکایک متزلزل ہو گیا ۔ ان کا اختلاف رائے اس امر میں ہوا ہوگا کہ آیا اس بڑے تہوار کے موقع پر ، جبکہ پورے ملک سے آئے ہوئے آدمی اکٹھے ہیں ، کھلے میدان اور دن کی پوری روشنی میں یہ مقابلہ کرنا ٹھیک ہے یا نہیں ۔ اگر یہاں ہم شکست کھا گئے اور سب کے سامنے جادو اور معجزے کا فرق کھل گیا تو پھر بات سنبھالے نہ سنبھل سکے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٢۔ ٦٩:۔ جادوگر لوگ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے مقابلہ کو آئے تو حضرت موسیٰ کا یہ حال دیکھ کر نہ ان کے پاس کچھ جادو کا سامان ہے نہ ان کی اس لکڑی پر جو ان کے پاس ہے کچھ جادو کا اثر ہے اس سے بعضے جادوگروں نے یہ بات پہچان لی تھی کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) جادوگر نہیں ہیں اس لیے ان جادوگروں کو خدشہ پیدا ہوا تھا کہ اگر درحقیقت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو تائید غیبی ہوئی تو ہم کیا مقابلہ کرسکیں گے اسی خدشہ کے سبب سے انہوں نے فرعون سے چھپا کر یہ مصلحت آپس میں کی تھی کہ تائید غیبی کی صورت میں کیا کیا جائے جب باقی کے جادوگروں نے اس خدشہ والے جادوگروں کی ہمت بندھائی اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور ہارون ( علیہ السلام) کو کہا کہ بلاشک یہ دونوں جادوگر ہیں اور ہم سب کو مل کر ان دونوں سے مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ ان دونوں کا جادو مصر میں پھیل کر ہماری روزی اور عزت میں فرق نہ آئے اور ہم کو مصر چھوڑنا نہ پڑے اس کے بعد ان جادوگروں کی ہمت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے مقابلہ پر بندھ گئی ان ہمت بندھانے والے جادوگروں نے یہ بھی کہا کہ ہم سب جادوگروں کو ایک دل ہو کر جادو کا ہنر دکھانا اور ایک ساتھ دنگل میں جانا چاہیے تاکہ موسیٰ ( علیہ السلام) اور ہارون ( علیہ السلام) پر رعب پڑے اور یہ سب اس لیے ہے کہ فرعون جیسا بادشاہ آج کے دن دنگل میں موجود ہے آج کی جیت بڑی فلاح کی بات ہے اس کے بعد سب جادوگروں نے ایک زبان ہو کر موسیٰ ( علیہ السلام) (علیہ السلام) سے کہا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) چاہو تو تم اپنی لکڑی سانپ بن جانے کے لیے زمین میں ڈالو نہیں تو ہم پہلے ڈالتے ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ تم ہی اپنی رسیاں اور لکڑیاں پہلے زمین میں ڈالو جادوگروں نے جونہی اپنی رسیاں اور لکڑیاں زمین میں ڈالیں تو یہ دکھائی دینے لگا کہ وہ رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں اس سے موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں کچھ دہشت سمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تسکین کی اور فرمایا موسیٰ ( علیہ السلام) ڈرو نہیں تم ہی غالب رہو گے تم اپنے داہنے ہاتھ کی لکڑی زمین میں ڈال دو کہ اس کا سانپ جو بنے گا وہ اس جادو کے سب کارخانہ نگل جائے گا اور کوئی جادوگر کہیں فلاح کو نہ پہنچے گا۔ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے کہ جادو میں ضرر تو ہے نفع نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مثلا کوئی جادوگر ٹھیکریوں کے روپے بنا دیوے تو اور حقیقت وہ ایسے روپے نہیں ہوجاتے کہ کوئی جادوگر ان سے کچھ نفع اٹھائے بلکہ دیکھنے میں وہ روپے ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ ٹھیکریاں ہوتی ہیں جادوگروں کے فلاح کو نہ پہنچنے کا یہی مطلب ہے کہ کسی جادوگر کو اس کا جادو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جادوگروں نے رسیوں اور لکڑیوں کے سانپ جو بنائے تھے وہ دیکھنے میں سانپ تھے اور اصل میں لکڑیاں اور رسیاں تھیں اس لیے وہ جادوگر مقابلہ کے وقت ان سانپوں سے کچھ نفع نہ اٹھا سکے اور معجزے کے طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کی لکڑی کا اژدہا جو بنا تھا وہ اصلی تھا اسی واسطے اس سے موسیٰ (علیہ السلام) نے پورا نفع اٹھایا کہ وہ جادوگروں کے سب رسیوں اور لکڑیوں کو نگل گیا معجزہ اور جادو میں یہی فرق ہے کہ معجزہ کی خلاف عادت چیز سچی ہوتی ہے اور جادو کی چیز فقط دیکھنے کی دھوکے کی ٹٹی۔ چناچہ اس کی زیادہ تفصیل سورة الاعراف میں گزر چکی ہے جادو کے ضرر کی مثال صحیح بخاری ومسلم کی حضرت عائشہ (رض) کی وہ روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کے کیے جانے کا قصہ ہے کہ آپ کو اس جادو سے دنیا کے کاموں میں نسیان ہوجانے کا ضرر پہنچا تھا ١ ؎۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٤٢٢ ج ١ باب صنقہ ابلیس و جنودہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:62) تنازعوا۔ تنازع (تفاعل) سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ آپس میں نزاع کرنے لگے۔ باہم جھگڑے۔ ایک دوسرے سے اختلاف کیا تنازعوا امرہم بینہم اپنے (اس) کام کے متعلق باہم جھگڑنے لگے ضمیر فاعل فرعون کے جملہ جادوگروں کے لئے ہے اسروا۔ اسرار (افعال) سے ماضی جمع مذکر غائب انہوں نے چھپایا۔ انہوں نے پوشیدہ کیا۔ النجوی۔ سرگوشی مصدر بھی ہے بمعنی سرگوشی کرنا۔ اسروا النجوی خفیہ مشورے کرنے لگے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ ان دونوں حضرات کے بارہ میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خطاب کا اثر۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو اس قدر مؤثر انداز میں خطاب فرمایا کہ وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوئے کہ فی الواقع ہم باطل پر ہیں۔ قریب تھا کہ وہ دھڑوں میں تقسیم ہوجاتے لیکن بالآخر فرعون اور اس کے حواری جادوگر غالب رہے انھوں نے یہ کہہ کر عام وخاص کو مطمئن کیا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں ملک سے نکلنے پر مجبور کردیں اور تمہاری تہذیب، شاندار ترقی اور ملک کے نظام کو بدل ڈالیں۔ اس لیے لازم ہوگیا ہے کہ تم آخری معرکہ سمجھ کر پوری طرح صلاحیتوں اور اسباب کو مجتمع کرتے ہوئے منظم طریقے کے ساتھ صف بندی کرو۔ یادرکھو کہ جو آج غالب رہا وہی کامیاب سمجھا جائیگا۔ فرعون نے اپنی پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے دو حربے استعمال کیے تھے جو ہمیشہ سے برسر اقتدار لوگ حق والوں کے خلاف استعمال کیا کرتے ہیں۔ ١۔ حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) پر ہوس اقتدار کا الزام لگایا اور اپنے ساتھیوں کو اقتدار کی محرومی سے ڈرایا۔ ٢۔ باطل حکمران ہمیشہ سے عوام میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ ہمیں اقتدار سے الگ کردیا گیا تو ملک کی ترقی رک جائے گی اور قوم کی تہذیب و تمدن کو بڑا نقصان ہوگا۔ ان کی تہذیب و تمدن سے مراد وہ عیاشی اور فحاشی ہوتی ہے جس میں قوم کو مبتلا کر کے یہ لوگ اپنے اقتدار کو طول دیا کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ ہر باطل حکمران اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ ٢۔ برے لوگ اپنی تہذیب و تمدن کو مثالی قرار دیتے ہیں۔ ٣۔ حق کی جدوجہد میں ایک وقت ضرور آتا ہے کہ جب لوگ حقیقت جاننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فتنازعوا امرھم ……استعلی (٤٦) جب اصرار کرنے والوں نے دیکھا کہ موسیٰ کی نصیحت کا بعض لوگوں پر اثر ہوگیا ہے تو انہوں نے ایک دوسرے کے حوصلے بلند کرنے کے لئے دلائل دینا شروع کئے کہ موسیٰ اور ہارون بہت خطرناک ہیں ، یہ مصر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کے نظریات بدلنا چاہتے ہیں ، لہٰذا ان کا مقابلہ متحدہ ہو کر کرنا چاہئے۔ اس میں تر دد اور نزاع کے بجائے یکسوئی ہونی چاہئے۔ اور آج کا مقابلہ بہت ہی اہم ہے۔ اس میں جو بھی کامیاب مستقبل ہوا مستقبل اس کا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے صرف ایک بات کی ، لیکن یہ بات چونکہ پختہ یقین اور سچائی پر مشتمل تھی اس لئے وہ مخالف کیمپ میں گولے کی طرحف گری اور اس نے سب کچھ ہلاک کر رکھ دیا۔ ان کے اندر افراتفری پیدا ہوگئی ، ان کو اپنے اوپر اعتماد نہ رہ۔ اپنے عقائد و نظریات پر وہ شک کرنے لگے۔ دعوت حق ہمیشہ ایسی ہوتی ہے اور داعیان حق کو ہمیشہ نہایت ہی زور دار طریقے سے بات کرنا چاہئے۔ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) صرف دو آدمی تھے۔ جادوگر بہت تھے ، ان کی پشت پر فرعون ، اس کی پوری حکومت ، اس کی فوج اور اس کا حکومتی رعب اور اس کے مالی وسائل تھے۔ جبکہ موسیٰ و ہارون کے ساتھ ان کا رب تھا اور یہ عقیدہ محکم تھا کہ وہ ان کے ساتھ ہے ، سن رہا ہے اور کچھ دیکھ رہا ہے ۔ یہی وہ راز ہے جس سے فرعون جیسے قاہر و جابر کے یہ اقدامات اس کی پریشانی اور جادوگروں کی یہ دوڑ دھوپ اور پوری حکومت مشینری کا حرکت میں آنا سمجھ میں آجاتا ہے کیونکہ موسیٰ اور ہارون گیا تھا کہ فرعون جیسی قوت ان کو چیلنج دیتی ہے ، اور ان کے چیلنج کو قبول کرتی ہے۔ پھر یہ حکومت مکمل تیار کرتی ہے اور میدان میں آتی ہے تمام جادوگر جمع کرتی ہے۔ لوگ جمع کئے جاتے ہیں ، خود فرعون اور اس کے سردار اس مقابلے کا مشاہدہ کرتے ہیں نیز فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) دو افراد کے ساتھ مقابلہ و مباحثہ کرنا قبول کس رطح کیا حالانکہ وہ بنی اسرائیل میں سے تھے اور بنی اسرائیل مصریوں کے غلام کے سچائی کیہیت ناک چادر ڈال دی تھی اور اللہ ان کے ساتھ کھڑا تھا ، سن رہا تھا اور دیکھ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ کا ایک جملہ ان کی صفوں پر زلزلہ برپا کردیتا ہے۔ وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ خفیہ مشورے کریں ، اسی خطرے کو محسوس کریں ، ایک دوسرے کی ہمت بندھائیں اور ایک دوسرے کو اتحاد و اتفاق کی دعوت دیں اور اس مقابلے میں ثابت قدمی اختیار کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بات سن کر جادوگر فرعون سے خفیہ طور پر آپس میں گفتگو کرنے لگے اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ ماھذا بقول ساحر (خازن ج 4 ص 221، بحر ج 6 ص 254) ۔ آخر طے یہ ہوا کہ مقابلے میں اگر وہ غالب آگیا تو وہ یقیناً اللہ کا پیغمبر ہے۔ اس لیے سب اس پر ایمان لے آئیں گے۔ (خازن، روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62 حضرت موسیٰ کے سمجھنانے اور کہنے سے جادو گر اپنے کام میں باہم اختلاف کرنے لگے اور چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر نے ان جادوگروں پر اثر کیا اور وہ باہم مقابلہ کے متعلق کچھ اختلاف کرنے لگے بعض کی رائے مقابلہ کے خلاف تھی بعض مقابلہ کی تائید میں تھے اور چونکہ مجمع میں فرعن اور اس کے امراء بھی موجود تھے اس لئے کچھ چپکے چپکے مشورہ کرتے رہے اور علانیہ اپنی گفتگو کا اظہار نہیں کیا اور آخر کار انہوں ں نے فرعون کی حمایت اور اس کی معاونت کا اعلان کردیا اور وہی کہا جو فرعون اور اس کے امراء عام طور سے کہتے تھے۔