Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 65

سورة طه

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلۡقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ اَوَّلَ مَنۡ اَلۡقٰی ﴿۶۵﴾

They said, "O Moses, either you throw or we will be the first to throw."

کہنے لگے اے موسٰی! یا تو تُو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Competition, Musa's Victory, and the Magician's Faith Allah tells, قَالُوا يَا مُوسَى ... They said: "O Musa! Allah, the Exalted, informs about the magicians when they met Musa, that they said to Musa, ... إِمَّا أَن تُلْقِيَ ... "Either you throw first..." meaning, "you go first." ... وَإِمَّا أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى

مقابلہ شروع ہوا ۔ جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اب بتاؤ تم اپنا وار پہلے کرتے ہو یا ہم پہل کریں؟ اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا تم ہی پہلے اپنے دل کی بھڑاس نکال لو تاکہ دنیا دیکھ لے کہ تم نے کیا کیا اور پھر اللہ نے تمہارے کئے کو کس طرح مٹا دیا ؟ اسی وقت انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں کچھ ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا وہ سانپ بن کر چل پھر رہی ہیں اور میدان میں دوڑ بھاگ رہی ہیں ۔ کہنے لگے فرعون کے اقبال سے غالب ہم ہی رہیں گے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر کے انہیں خوفزدہ کر دیا اور جادو کے زبردست کرتب دکھا دیئے ۔ یہ لوگ بہت زیادہ تھے ۔ ان کی پھینکی ہوئی رسیوں اور لاٹھیوں سے اب سارے کا سارا میدان سانپوں سے پر ہو گیا وہ آپس میں گڈ مڈ ہو کر اوپر تلے ہونے لگے ۔ اس منظر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خوفزدہ کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو لوگ ان کے کرتب کے قائل ہو جائیں اور اس باطل میں پھنس جائیں ۔ اسی وقت جناب باری نے وحی نازل فرمائی کہ اپنے داہنے ہاتھ کی لکڑی کو میدان میں ڈال دو ہراساں نہ ہو ۔ آپ نے حکم کی تعمیل کی ۔ اللہ کے حکم سے یہ لکڑی ایک زبردست بےمثال اژدھا بن گئی ، جس کے پیر بھی تھے اور سر بھی تھا ۔ کچلیاں اور دانت بھی تھے ۔ اس نے سب کے دیکھتے سارے میدان کو صاف کر دیا ۔ اس نے جادوگروں کے جتنے کرتب تھے سب کو ہڑپ کر لیا ۔ اب سب پر حق واضح ہو گیا ، معجزے اور جادو میں تمیز ہو گئی ۔ حق و باطل میں پہچان ہو گئی ۔ سب نے جان لیا کہ جادوگروں کی بناوٹ میں اصلیت کچھ بھی نہ تھی ۔ فی الواقع جادوگر کوئی چال چلیں لیکن اس میں غالب نہیں آ سکتے ۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے ترمذی میں بھی موقوفاً اور مرفوعاً مروی ہے کہ جادوگر کو جہاں پکڑو مار ڈالو ، پھر آپنے یہی جملہ تلاوت فرمایا ۔ یعنی جہاں پایا جائے امن نہ دیا جائے ۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا انہیں یقین ہو گیا کہ یہ کام انسانی طاقت سے خارج ہے وہ جادو کے فن میں ماہر تھے بہ یک نگاہ پہچان گئے کہ واقعی یہ اس اللہ کا کام ہے جسکے فرمان اٹل ہیں جو کچھ وہ چاہے اس کے حکم سے ہو جاتا ہے ۔ اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں ۔ اس کا اتنا کامل یقین انہیں ہو گیا کہ اسی وقت اسی میدان میں سب کے سامنے بادشاہ کی موجودگی میں وہ اللہ کے سامنے سربہ سجود ہو گئے اور پکار اٹھے کہ ہم رب العالمین پر یعنی ہارون اور موسیٰ علیہما السلام کے پروردگار پر ایمان لائے ۔ سبحان اللہ صبح کے وقت کافر اور جادوگر تھے اور شام کو پاکباز مومن اور اللہ کی راہ کے شہید تھے ۔ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد اسی ہزار تھی یا ستر ہزار یا کچھ اوپر تیس ہزار یا انیس ہزار یا پندرہ ہزار یا بارہ ہزار ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ ستر تھے ۔ صبح جادوگر شام کو شہید ۔ مروی ہے کہ جب یہ سجدے میں گرے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت دکھا دی اور انہوں نے اپنی منزلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] مقابلہ میں جادوگروں کی پہل :۔ اس اتحاد کے بعد جادو گر میدان مقابلہ میں آگئے اور موسیٰ سے کہنے لگے : پہلے تو اپنا شعبدہ دکھاؤ گے یا ہم پہل کریں ؟ && انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ استفسار از راہ تکریم کیا تھا جیسا کہ مقابلہ میں اکثر یہ دستور چلتا ہے۔ اس کا جواب موسیٰ نے یہ دیا کہ پہلے تم ہی اپنے شعبدے دکھلاؤ۔ ان کا یہ جواب از راہ تکریم نہیں تھا۔ کیونکہ جادوگر کوئی قابل عزت شے نہیں ہوتا۔ بلکہ اس لئے تھا کہ حق نتھر کر سامنے آجائے۔ باطل اپنا جتنا زور لگا سکتا ہے۔ لگا لے پھر اگر اس کے بعد حق اس پر غالب آگیا تو سب لوگ حقیقت کو جان لیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ ۔۔ : فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کو سانپ بنتے ہوئے دیکھا تو لوگوں کی نگاہ میں اسے بےوقعت بنانے کے لیے اسے جادو قرار دے کر کہا کہ ہم بھی مقابلے میں ایسا ہی جادو لائیں گے، چناچہ اس کے مطابق جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کے سانپ بننے کے شعبدے کی تیاری کی اور میدان میں آ کر یہ پیش کش کی جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اس پیش کش کے الفاظ سے اپنے جادو پر ان کے اعتماد کا اظہار بھی ہوتا ہے اور اس بات کا بھی کہ اگر تم پہل پر تیار نہیں ہو تو ہم اس کے لیے بالکل تیار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے جس خیال سے بھی یہ پیش کش کی ہو اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ ان کے جادو کا سارا کمال لوگوں کے سامنے آنے کے بعد اسے حق کے مقابلے میں بےحقیقت ثابت کیا جائے، جیسا کہ اس سے پہلے خود فرعون کے منہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو اختیار دلوایا گیا کہ مقابلے کا مقام اور دن وہ مقرر کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰي۝ ٦٥ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥۔ ٦٦) غرض کہ ان جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اپنا عصا زمین پر پہلے ڈالیں گے یا ہم پہلے ڈالیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا نہیں تم ہی پہلے ڈالو، چناچہ انہوں نے زمین پر ٧٢ لکڑیاں اور ٧٢ رسیاں ڈالیں، ان کی نظر بندی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ ایسی معلوم ہونے لگیں جیسے سانپ کی مانند چلتی ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39. That confidence was subsequently restored among Pharaoh’s party by the speech of the head-strong people, and the magicians were asked to come into the field for the encounter.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :39 بیچ کی یہ تفصیل چھوڑ دی گئی کہ اس پر فرعون کی صفوں میں اعتماد بحال ہو گیا اور مقابلہ شروع کرنے کا فیصلہ کر کے جادوگروں کو احکام دے دیے گئے کہ میدان میں اتر آئیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:65) اما۔ یا ۔ اگر۔ کئی معنوں میں آتا ہے (1) ابہام کے لئے مثلاً واخرون مرجون لامر اللہ اما یعذبہم۔ واما یتوب علیہم (9:106) اور بعضے اور لوگ ہیں کہ ان کا کام اللہ کے حکم پر ڈھیل میں ہے یا ان کو عذاب کرے یا ان کو معاف کرے۔ (2) تخییر۔ (اختیار دینا) کے لئے مثلاً اما ان تعذب واما ان تتخذ فیہم حسنا (18:86) خواہ تم انہیں سزادو خواہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (3) تفصیل کے لئے۔ اما شاکرا و اما کفورا (76:3) ہم نے اس (انسان ) کو راستہ دکھلایا۔ اس کے بعد وہ شکر گذار بندہ بنے یا ناشکرا بن کر جئے۔ یہاں تخییر کے لئے استعمال ہوا ہے (تمہیں اختیار ہے کہ) پہلے آپ پھینکیں یا ہم ہی ہوجائیں پہلے پھینکنے والے۔ القی یلقی القاء (افعال) ڈالنا۔ القی اس نے ڈالا۔ یا پھینکا۔ تلقی تو پھینکتا ہے یا تو پھینکے گا۔ القوا تم پھینکو۔ صیغہ امر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 65 تا 76 حبال (حبل) رسیاں۔ عصی (عصا) لاٹھیاں۔ یخیل خیالی شکلیں بناتا ہے۔ تسعی وہ دوڑتی ہیں۔ او جس محسوس کیا۔ تلقف نگل جاتی ہے۔ کھا جاتی ہے۔ حیث اتی وہ جس طرح آئے۔ اذن اجازت دی۔ لاقطعن میں ضرور کاٹ ڈالوں گا۔ لاصلبن میں ضرور پھانسی دوں گا۔ جذوع تنے۔ النخل کھجور۔ اینا ہم میں سے کون۔ ابقی زیادہ باقی رہنے والا۔ لن نوثر ہم ہرگز ترجیح نہ دیں گے۔ اقض تو کر گزر۔ اکرھتنا تو نے زبردستی کیا۔ مجبور کیا۔ تزکی جس نے پاکیزگی حاصل کی۔ تشریح : آیت نمبر 65 تا 76 جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کے لئے ملک بھر کے جادوگر میدان میں پہنچ گئے تو وہ اپنے جادو کی کامیابی پر ناز کرتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہنے لگے کہ اے موسیٰ ! جادو کے کمالات دکھانے کی ابتدا تم کرتے ہو یا ہم کریں ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ ابتدا تم ہی کرو۔ چناچہ ان جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں پھینکنا شروع کردیں۔ توڑی دیر میں ایسا لگا جیسے ساری زمین چھوٹے بڑے سانپوں سے بھر گئی ہے اور وہ سانپ ادھر ادھر دوڑتے نظر آنے لگے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر حضرت موسیٰ کے دل میں بشری تقاضے کی وجہ سے ایک خوف سا طاری ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ تمہیں گھبرانے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تم ہی غالب رہوگے اور یہ نظر بندی کا کھیل بہت جلد ختم ہوجائے گا کیونکہ جادو ا کی نظر بندی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس بےحقیقت چیز سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جادو سے کسی چیز کی اصلیت نہیں بدلتی بلکہ جادوگر اپنے خیال کو دورسوں پر اس طرح غالب کردیتا ہے کہ ہر شخص کو صرف وہی نظر آتا ہے جس کو جادوگر چاہتا ہے۔ اللہ نے فرمایا اے موسیٰ ! تم اپنے داہنے ہاتھ رہ جائے گی۔ چناچہ جب حضرت موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک زبردست اژدھا (بڑا سانپ) بن گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس اژدھا نے تمام سانپوں کو اس طرح نگلنا شروع کردیا کہ کچھ دیر بعد پورا میدان جادوگروں کے سانپوں سے پاک ہوگیا۔ فرعون کے درباری اور حاضرین جو جادوگروں کے کمالات سے بیحد متاثر ہوچکے تھے جب انہوں نے پھنکارتے ہوئے اژدھا اور اس منظر کو دیکھا تو خوف اور دہشت سے ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ نجانے کتنے لوگ اس بھاگ دوڑ میں کچلے گئے ہوں گے۔ اژدھا نے جب فرعون کی طرف رخ کیا تو فرعون گھبرا گیا اور اس نے حضرت موسیٰ سے فریاد کرنا شروع کردی کہ موسیٰ ! مجھے اس اژدھا سے بچاؤ۔ حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے اس اژدھا کے منہ میں ہاتھ ڈالا تو وہ پھر سے عصا بن گیا اور جادوگر جو ایک عصائے موسیٰ کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے اور سمجھ گئے کہ عصائے موسیٰ ایک معجزہ ہے اور وہ کوئی نظر بندی یا جادو نہیں ہے جب ان پر یہ سچائی کھل گئی تو وہ تمام جادوگر اللہ کی اس طاقت کے اظہار کو پہچان کر سجدے میں گر پڑے اور واضح الفاظ میں کہہ اٹھے کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے۔ صرف وہی رب العالمین ہے اس کے سوا کوئی رب اور معبود نہیں ہے۔ اس طرح وہ جادوگر فرعون کے خوف اور دہشت کی پرواہ کئے بغیر ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔ فرعون نے جب اس بنے بنائے کھیل کو بگڑتے دیکھا تو کڑک کر کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم نے میری اجازت کے بغیر ایمان قبول کرلیا ہے۔ اس نے جس طرح حضرت موسیٰ پر الزام لگایا تھا کہ ان تمام کوششوں کا مقصد اقتدار اور حکومت پر قبضہ کرنا ہے۔ اسی طرح ایمان لانے کے بعد جادوگروں سے کہنے لگا ایسا لگتا ہے یہ سب تمہاری ملی بھگت اور سازش ہے۔ یہ موسیٰ تم سب کا استاد لگتا ہے جس سے تم نے جادو سیکھا ہے۔ فرعون نے کہا تم نے میرے غصہ اور غضب کو دعوت دی ہے۔ فرعون نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں ایسی عبرتناک سزا دوں گا جس سے دیکھنے والوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔ اس نے کہا میں تمہیں اس طرح تڑپا تڑپا کر ماروں گا کہ سب سے پہلے میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کٹواؤں گا یعنی ایک طرف سے ہاتھ اور دوسری طرف سے پاؤں کٹوا کر گلے میں پھندا ڈال کر کھجور کے درختوں پر لٹکوا دوں گا۔ پھر تمہیں اندازہ ہوگا۔ کہ موسیٰ پر یمان لانے کا انجام کتنا بھیانک ہے اور تم اس بات کو اچھی طرح جان جاؤ گے کہ میری طرف سے دی گئی سزا زیادہ سخت ہے یا موسیٰ کے رب کی طرف دی گئی سزا، فرعون نے اپنے تکبر اور غرور کا اظہار تو کردیا مگر وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ موسیٰ تو ان جادوگروں سے واقف بھی نہیں ہیں نہ ان کی شکل و صورت دیکھتی تھی مگر وہ اپنے دلی خوف اور دہشت کو الفاظ کے پردے میں لپیٹ کر دلیر اور بہادر بننے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ دوسرے لوگ اس کی ہیبت اور حکم سے باہر نہ نکل جائیں۔ لیکن فرعون یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس کی دھمکیوں کا جادوگروں پر کوئی اثر تک نہیں ہوا بلکہ ان کی ایمانی طاقت کا یہ عالم تھا کہ ان لوگوں نے بڑی جرأت ، ہمت، جذبے اور مکمل اعتماد کے ساتھ فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ اے فرعون ! آج ہمیں پوری طرح انداز ہوگیا ہے کہ اب تک ہماری آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے تھے۔ حقیقت حال سے ہم واقف نہ تھے اور تھجے اپنا رب اعلیٰ سمجھتے رہے۔ موسیٰ جو نشانیاں لے کر آئے ہیں انہیں دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہی وہی ہمارا پیدا کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ہم جس گناہ کے راستے پر چل رہے تھے ہم نے اس سے توبہ کرلی اور ہم اس فیصلے پر اس طرح قائم ہیں کہ ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اے فرعون ! اب تو ہماری زندگی کے متعلق جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کرلے ہمیں تیرا ہر فیصلہ منظور ہے۔ انہوں نے فرعون کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اے فرعون تیرا ہر فیصلہ ہمیں زندگی کی راحتوں سے محروم تو کرسکتا ہے لیکن جب ہم نے آخرت کی ابدی زندگی کا فیصلہ کرلیا ہے تو اب ہمیں اپنی جانوں اور تیری دھمکیوں کی پرواہ نہیں ہے۔ بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ اب تک ہم گناہوں کی زندگی گزارتے رہے ہیں اب ہم اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ جب ہمارا واسطہ اور رابطہ اللہ سے ہوگیا ہے تو وہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ انہوں نے کہا کہ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے فرعون ! یہ تیری سلطنت و حکومت، رعب اور دہشت بہرحال ختم ہوجانے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیرا کہا ماننا درحقیقت اپنے سچے رب کے سامنے مجرم بننے کے برابر ہے۔ تیرے انعام و اکرام کا لالچ اور تیری سزائیں اس دنیا تک محدود ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے مجرم بن کر پیش نہ ہوں کیونکہ اس میں ہمیشہ کی زندگی کی تباہی و بربادی ہے۔ آخرت کی زندگی ایسی ہے کہ اس میں ایسے لوگوں کو نہ تو موت آئے گی کہ ان کی جان چھوٹ جائے اور نہ ایسی زندگی ہوگی کہ جس سے جینے کا آرام، سکون اور لطف اٹھایا جاسکے۔ لیکن جو لوگ ایمان لا کر عمل صالح اختیار کریں گے ان کا مرتبہ اور مقام آخرت میں بہت بلند ہوگا۔ ان کو ہمیشہ رہنے والی جنتیں ملیں گی جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ جب ان کو دیدی جائیں گی تو ان سے کبھی چھینی نہ جائیں گے۔ یہ ان لوگوں کی نیکیوں کا بدلہ ہوگا۔ کامیابی اور کامرانی ہوگی۔ کیونکہ جو شخص ایمان لانے کے بعد نیک اور بھلے کام کرے گا اس کو اللہ بہترین جزا عطا فرمائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان طاقت و قوت، جرات و ہمت اور بہادری کا نام ہے۔ جب یہ ایمان دل میں آجاتا ہے تو پھر آدمی اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ اس کے دل میں اگر خوف ہوتا ہے تو صرف حقیقی معبود اور رب العالمین کا اس کے سوا وہ ہر خوف اور دھمکی سے بےنیاز ہوجاتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : معرکہ آرائی کا آخری مرحلہ۔ ملک بھر کے جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے خلاف صف آراء ہوئے تو انھوں نے بڑے غرور میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم لاٹھی پھینکتے ہو یا ہم اپنی چیزیں پھینکیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے اعتماد اور پُر وقار لہجے میں فرمایا کہ تمہیں ہی پہل کرنا چاہیے۔ جب انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یوں لگا کہ جیسے رسیاں اور لاٹھیاں چھوٹے بڑے سانپ بن کر ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں۔ رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکتے ہی جادوگروں نے چلا چلا کر فرعون زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ آج ہم ہی کامیاب ٹھہرئیں گے۔ (الشعراء : ٤٤) جادوگروں کے نعروں کے ساتھ ہی لاکھوں کا مجمع، فرعون اور اس کی انتظامیہ نعرہ زن ہوئی۔ یک دم ایسا ماحول بنا کہ جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی خوفزدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ قریب تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) خوف کے مارے پیچھے ہٹ جاتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ کہہ کر حوصلہ بخشا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ڈرنے کی ضرورت نہیں یقیناً آپ ہی غالب آئیں گے یہی بات موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت کہی گئی تھی جب آپ کو مدین سے واپس ہوتے ہوئے سفر کے دوران نبوت عطا کی گئی تھی۔ (وَاَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یٰمُوْسٰی لاَ تَخَفْ اِِنِّی لاَ یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ ) [ النمل : ١٠] ” اور پھینک اپنی لاٹھی موسیٰ نے دیکھا کہ لاٹھی سانپ کی طرح بل کھارہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا، اے موسیٰ ڈرو نہیں میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے۔ “ مسائل ١۔ معرکہ حق و باطل میں بالاخر حق والے ہی غالب آیا کرتے ہیں۔ ٢۔ جادوگر جادو کے ذریعے آنکھوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے دشمن کے مقابلے میں رسولوں کو غالب فرمایا : ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے مقابلے میں غالب ہوئے۔ (ہود : ٤٨) ٢۔ تمہارا رب جلد ہی تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ ( الاعراف : ١٢٩) ٣۔ اللہ تمہاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران : ١٦٠) ٤۔ مومن اللہ کا لشکر ہیں اور وہ غالب رہیں گے۔ (المجادلۃ : ٢٢) ٥۔ غم نہ کرو تم ہی غالب آؤ گے اگر تم ایماندار ہو۔ (آل عمران : ١٣٩) ٦۔ ہم نے ان کی مدد کی سو وہ غالب آگئے۔ (الصٰفٰت : ١١٦) ٧۔ بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ٢٤٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جادوگر بہت پر اعتماد ہیں اور چینجل اور اصول کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں جادو گروں کا آنا، پھر ہار مان کر ایمان قبول کرلینا اور سجدہ میں گرپڑنا فرعون نے اپنی حدود مملکت سے جادو گروں کو جمع کیا۔ دنیادار کے سامنے دنیاہی ہوتی ہے اسی کے لئے سو چتا ہے اسی کے لیے جیتا ہے اسی کے لیے مرتا ہے۔ جب جادوگر آئے تو فرعون سے کہنے لگے کہ ہم غالب ہوگئے تو کیا ہمیں اس پر کوئی بڑا صلہ ملے گا ؟ فرعون نے کہا بڑا صلہ بھی ملے گا اور تم میرے مقرب لوگوں میں سے ہوجاؤ گے پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور طور طریق کو سمجھا تو ان کی سچائی دل میں بیٹھ گئی اور چاہتے تھے کہ مقابلہ نہ کریں۔ لیکن فرعون نے زبردستی ان کو میدان میں اتارا اور مقابلہ کرایا۔ جب وہ میدان میں آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ آپ پہلے اپنا عصا ڈالیں گے یا ہم پہلے ڈالیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے مناسب جانا کہ انہیں کو پہلے ڈالنے کے لیے کہا جائے اس لیے فرمایا کہ تم ڈال دو کیا ڈالتے ہو، انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور فرعون کی عزت کی قسم کھا کر کہا کہ ہم ضرور غالب ہوں گے۔ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور لوگوں کو خوف زدہ بنالیا اور بڑا جادو لیکر آئے ان کے جادو کی وجہ سے دیکھنے والوں کو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ انہوں نے جو لاٹھیاں اور رسیاں ڈالی ہیں وہ دوڑتے ہوئے سانپ ہیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ماجرا دیکھا تو ذراسا اپنے دل میں خوف محسوس کرنے لگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ڈرو نہیں تم ہی غالب رہو گے۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی ڈالی وہ سانپ بن گئی اور اس نے جادو گروں کے بنائے ہوئے سارے دھندے کو نگلنا شروع کردیا۔ (وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی) جو فرما دیا تھا اس کا مظاہرہ ہوا جادوگر جب کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے عطا فرمودہ معجزہ کے مقابلہ میں آئے تو کامیاب نہیں ہوتا۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے ہی یہ بھی فرما دیا تھا (مَا جِءْتُمْ بِہِ السِّحْرُ ) (تم جو کچھ لیکر آئے وہ جادو ہے) (اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہٗ ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے عنقریب باطل فرما دے گا) (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو کامیاب نہیں بننے دیتا) ۔ اب جو جادو گروں نے یہ دیکھا کہ اس شخص کا مقابلہ ہمارے بس کا نہیں ہے۔ اور یہ جادوگر نہیں ہے۔ (پہلے تو باتوں سے سمجھ لیا تھا اور اب عملی طور پر آزمالیا) تو اسی وقت سجدہ میں گرپڑے اور علی الاعلان انہوں نے مومن ہونے کا اقرار کرلیا۔ اور کہنے لگے کہ (اٰمَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَ مُوْسٰی) (ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے) اس میں (سُجَّدًا وَّبُکِیًّا) نہیں فرمایا بلکہ (اُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا) فرمایا جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھ کر ایسے بےبس ہوئے کہ ایمان لائے بغیر کوئی چارہ نہ رہا ان کے جذبہ حق نے انہیں سجدہ میں جانے پر مجبور کردیا ایسی فضاء بنی کہ انہیں اس بات کا بھی دھیان نہ رہا کہ فرعون ہمارا کیا بنائے گا اس نے سزادی تو ہمارا کیا ہوگا۔ جب حق دلوں میں اتر جاتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس سے باز نہیں رکھ سکتی پرانی امتوں میں اور اس امت میں سینکڑوں ایسے واقعات پیش آچکے ہیں کہ بڑے بڑے ظالموں اور قاہروں کے تکلیفیں دینے کے باوجود اہل ایمان، ایمان سے نہ پھرے تکلیفیں جھیل گئے قتل ہوگئے لیکن ظالموں کے کہنے اور مجبور کرنے کے باوجود حق پر جمے رہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو پہلے اپنی لاٹھی زمین پر ڈالیں۔ یا ان کو اجازت دیں کہ پہلے وہ اپنا فن دکھائیں۔ جادوگروں نے ایسا اس لیے کیا۔ کیونکہ ان کو اپنے فن پر پورا پورا اعتماد تھا۔ یا انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے ایسا کیا۔ جو بعد میں ان کے اسلام کا باعث بنا۔ یا اس لیے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت معلوم کرچکے تھے اور ادب و احترام کے لیے ان کو اختیار دیا۔ خیروہ (علیہ السلام) و قدموہ علی انفسہم اظھار اللثقۃ بامرھم وقیل مراعاۃ للادب معہ (علیہ السلام) (روح ج 16 ص 226) تادبوا مع موسیٰ فکان ذلک سبب ایمانہم (قرطبی ج 11 ص 222) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

65 جادوگروں نے مقابلہ کے وقت کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) تو اپنی لاٹھی پہلے ڈالتا ہے یا ہم پہلے ڈالنے والے بنیں۔ مطلب یہ ہے کہ پہل کون کرے پہل تیری طرف سے ہو یا ہماری طرف سے۔