Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 66

سورة طه

قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی ﴿۶۶﴾

He said, "Rather, you throw." And suddenly their ropes and staffs seemed to him from their magic that they were moving [like snakes].

جواب دیا کہ نہیں تم ہی پہلے ڈالو اب تو موسیٰ ( علیہ السلام ) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ بَلْ أَلْقُوا ... "...or we be the first to throw!" (Musa) said: "Nay, throw you (first)!" This means, `you magicians should go first so that we can see what magic you are going to perform and so that the true state of their affair will become obvious to the people.' ... فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى Then behold! their ropes and their sticks, by their magic, appeared to him as though they moved fast. In another Ayah it says that when they threw, وَقَالُواْ بِعِزَّةِ فِرْعَونَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَـلِبُونَ Then said: "By the might of Fir`awn, it is we who will certainly win!" (26:44) And Allah, the Exalted, says, سَحَرُواْ أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَأءُو بِسِحْرٍ عَظِيمٍ They bewitched the eyes of the people, and struck terror into them, and they displayed a great magic. (7:116) Here, He says in this Surah, ... فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى Then behold! their ropes and their sticks, by their magic, appeared to him as though they moved fast. They were a large numbered group and each one of them threw a stick and a rope until the valley became full of snakes piled on top of each other. Concerning Allah's statement, فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں پہلے اپنا کرتب دکھانے کے لئے کہا، تاکہ ان پر یہ واضح ہوجائے کہ وہ جادو گروں کی اتنی بڑی تعداد سے، جو فرعون جمع کر کے لے آیا ہے، اسی طرح ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ دوسرے، ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں، جب معجزہ الٰہی سے چشم زدن میں ہوا ہوجائیں گی، تو اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا اور جادوگر یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہ جادو نہیں ہے، واقعی اسے اللہ کی تائید حاصل ہے کہ آن واحد میں اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے کرتبوں کو نگل گئی۔ 66۔ 2 قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسیاں اور لاٹھیاں حقیقتاً سانپ نہیں بنی تھیں، بلکہ جادو کے زور سے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے مسمریزم کے ذریعے سے نظر بندی کردی جاتی ہے۔ تاہم اس کا اثر یہ ضرور ہوتا ہے کہ عارضی اور وقتی طور پر دیکھنے والوں پر ایک دہشت طاری ہوجاتی ہے، گو شے کی حقیقت تبدیل نہ ہو۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جادو کتنا بھی اونچے درجے کا ہو، وہ شے کی حقیقت تبدیل نہیں کرسکتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ ۔۔ : ” اچانک “ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ایسی زبردست تیاری کر رکھی تھی کہ ان کے لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکنے کے بعد ان کے دوڑنے اور حرکت کرنے میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔ صف در صف کھڑے ہوئے جادوگروں کی بیک وقت پھینکی ہوئی لاٹھیوں اور رسیوں سے میدان دوڑتے ہوئے سانپوں کی شکل میں بدل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة اعراف میں ان کے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے جادو کو سحر عظیم قرار دیا ہے۔ اس آیت سے لے کر آیت (٧٦) تک کی تفسیر کے لیے سورة اعراف کی آیت (١١٥) سے (١٢٦) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں چند مختصر سے اشاروں پر اکتفا کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Egyptians were confident of their success and in a mood of complacency asked Sayyidna Musa (علیہ السلام) whether he would like to make the first move or whether they should initiate the contest. Sayyidna Musa (علیہ السلام) invited them to start the contest (Rather, you throw - 20:66) and there were several reasons for this. In the first place the Egyptians showed courage when they invited Sayyidna Musa (علیہ السلام) to open the battle and this offer called for an equally generous and chivalrous response. Secondly by making the offer the Egyptians showed their confidence in the outcome of the contest and implied as if they had already won it. On his side Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، by his counter-offer, sought to convey to the Egyptians that he regarded the result of the game as a foregone conclusion in his own favour. And finally he wished to see the tricks of the Egyptians before he planned his own strategy. So, with these preliminaries over, the Egyptians cast their staffs and ropes on the ground and it appeared to the onlookers as if they had turned into snakes and were running about. يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِ‌هِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ (Their ropes and sticks seemed to him, due to their magic, as if they were running - 20:66). The verse shows that the Egyptian magicians had cast a hypnotic spell on the onlookers to whom it appeared that the staffs and the ropes had turned into snakes and were running about on the ground, whereas in fact no such transformation had taken place.

جادوگروں نے اپنی بےفکری اور بےپروائی کا مظاہرہ کرنے کے لئے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی سے کہا کہ پہل آپ کرتے ہیں یا ہم کریں یعنی پہلے آپ اپنا عمل کرتے ہیں یا ہم کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا بَلْ اَلْقُوْا یعنی پہلے تمہیں ڈالو اور اپنے جادو کا کرشمہ دکھلاؤ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب میں بہت سی حکمتیں مضمر تھیں۔ اول تو ادب مجلس کہ جب جادوگروں نے اپنا یہ حوصلہ دکھلایا کہ مخالف کو پہلے حملہ کرنے کی اجازت دی تو اس کا شریفانہ جواب یہی تھا کہ ان کی طرف سے اس سے زیادہ حوصلے کے ساتھ ان کو ابتداء کرنے کی اجازت دی جائے۔ دوسرے یہ کہ جادگروں کا یہ کہنا اپنے اطمینان اور بےفکری کا مظاہرہ تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان ہی کو ابتداء کرنے کا موقع دے کر اپنی بےفکری اور اطمینان کا ثبوت دیدیا۔ تیسرے یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ان کے جادو کے سب کرشمے آ جاویں اس کے بعد اپنے معجزات کا اظہار کریں تو بیک وقت غلبہ حق کا ظہور واضح طور پر ہوجائے۔ جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ارشاد پر اپنا عمل شروع کردیا اور اپنی لاٹھیاں اور رسیاں جو بڑی تعداد میں تھیں بیک وقت زمین پر ڈال دیں اور وہ سب کی سب بظاہر سانپ بن کر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگیں۔ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعونی جادوگروں کا جادو ایک قسم کی نظربندی تھی جو مسمریزم کے ذریعہ بھی ہوجاتی ہے کہ دیکھنے والوں کو یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑتی ہوئی دکھائی دینے لگیں، وہ حقیقتاً سانپ نہ بنی تھیں اور اکثر جادو اسی قسم کے ہوتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ بَلْ اَلْقُوْا۝ ٠ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِيُّہُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰي۝ ٦٦ حبل الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين : - عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» . والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة . ( ج ب ل ) الحبل ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ خيل والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) «1» ، فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» «2» يعني الأفراس . والأخيل : الشّقراق «3» ، لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ( خ ی ل ) الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ سعی السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر : 234- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات . ( س ع ی ) السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ (قَالَ بَلْ اَلْقُوْاج ) ” تو یوں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کو پہل کرنے کی دعوت دے دی۔ (فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰی ) ” حِبال جمع ہے حبل (رسی) کی اور عِصِیّ جمع ہے عصا (لاٹھی) کی۔ یعنی جادوگروں نے میدان میں رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں جو ان کے جادو کے اثر سے دیکھنے والوں کو سانپوں کی طرح بھاگتی دوڑتی نظر آنے لگیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40. In (Surah Al-Aaraf, Ayat 116), it was stated: When they threw down their devices they bewitched the eyes of the people and filled their hearts with terror. Here it is stated that it was not the common people alone who were terrified by their magic but Prophet Moses (peace be upon him) also suffered from its effect. He not only seemed to see that the staffs and cords were running about like serpents but he also felt a dread of them.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :40 سورۂ اعراف میں بیان ہوا تھا کہ : فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُؤٓا اَعَیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ ، جب انہوں نے اپنے اَنچھر پھینکے تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا اور انہیں دہشت زدہ کر دیا ( آیت 116 ) ۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ یہ اثر صرف عام لوگوں پر ہی نہیں ہوا تھا ، خود حضرت موسیٰ بھی سحر کے اثر سے متاثر ہو گئے تھے ۔ ان کی صرف آنکھوں ہی نے یہ محسوس نہیں کیا بلکہ ان کے خیال پر بھی یہ اثر پڑا کہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:66) فاذا۔ الخ۔ تقدیر کلام یوں ہے قال بل القوا فالقوا حبالہم و عصیہم۔ فاذا حبالہم وعصیہم یخیل الیہ من سحرہم انھا تسعی۔ اس طرح فاء عطف کے لئے ہے اور اذا یہاں حرف فجائیہ آیا ہے جو کسی امر کے اچانک وغیر متوقع ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ حبال حبل کی جمع ہے بمعنی رسیاں۔ عصی جمع عصا کی۔ عصا کا الف دراصل وائو تھا ۔ جیسا کہ اس کے تثنیہ سے ظاہر ہے کیونکہ تثنیہ میں وائو اپنے اصل کی طرف مڑ آتا ہے عصوان عصی۔ عصا کی جمع بروزن فعول ہے لام کلمہ کی وائو کو یاء سے بدلا تو عصوی ہوا پھر وائو ما قبل یا کو یاء سے بدلا۔ یاء کو یاء میں مدغم کیا عصی ہوا۔ عین کلمہ کی کسرہ یاء کی رعایت سے ہے اور اسی طرح فاء کلمہ کی ۔ عصا کی جمع اعص اعصاء اور عصی بھی آئی ہے عصا اس لاٹھی کو کہتے ہیں جو ذرا لمبی ہو اور جسے چرواہے۔ لنگڑے۔ بوڑھے۔ ضعیف لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اور وہ لکڑی جو بطور مشغلہ آدمی اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اسے محرضہ (چھڑی) کہتے ہیں۔ یخیل۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب تخیل (تفعیل) مصدر۔ اس کو خیال ہوتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا تھا۔ الیہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع موسیٰ (علیہ السلام ) ہے۔ تسعی سعی سے مضارع واحد مؤنث غائب۔ وہ دوڑتی ہے۔ اب آیت کا ترجمہ یوں ہوگا۔ (حضرت موسیٰ نے) کہا بلکہ (پہلے ) تمہیں ڈالو۔ پس انہوں نے اپنی رسیاں اور سوٹے ڈالے) اور یکایک ان کی رسیاں اور سوٹے ان کے جادو سے حضرت موسیٰ کو یوں محسوس ہونے لگے جیسے وہ دوڑ رہے ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی ان کے جادو کا رعب عوام پر ہی نہیں ہوا تھا بلکہ حضرت موسیٰ بھی اگر حقیقت حال سے واقف نہ ہوتے تو ان کے جادو سے متاثر ہوجاتے یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ بھی متاثر ہوگئے تھے۔ یوں بعض دنیوی امور کے سرانجام دینے میں نبی پر بھی جادو کا اثر ہوسکتا ہیجیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت پر بھی مدینہ میں آ کر کچھ عرصہ کے لئے جادو کا اثر ہوگیا تھا مگر اس قسم کے حق و باطل کے معرکہ میں یہ ممکن نہیں کہ ایک نبی پر اس قسم کا اثر ظاہر ہوجائے۔ ” جادو سے معلوم ہوا “ کا مطلب یہ ہے کہ صرف بظاہر دکھائی دیا حقیقت میں شعبدہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور یہی جادو اور معجزہ میں فرق ہے کہ جادو سے ایک چیز کی حقیقت نہیں بدلتی۔ بظاہر آنکھوں پر اثر ہوتا ہے اور معجزہ سے ایک چیز کی حقیقت تک بدل جاتی ہے۔ (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ چناچہ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور نظر بندی کردی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

‘ موسیٰ (علیہ السلام) نے چیلنج قبول کرتے ہوئے ان کو موقع دیا کہ پہلے پھینکیں اور اپنے لئے آخری و ار پسند کیا۔ لیکن بظاہر وہ ایک خوفناک اور عظیم جادو لے کر آئے ہیں۔ اچانک جب انہوں نے جادو شروع کیا تو میدان یوں لگتا تھا کہ سانپوں کی موجیں حرکت میں آگئی ہوں ، خود حضرت موسیٰ فرزدہ ہوگئے۔ فاذا حبالھم ……موسیٰ (٧٦) قرآن کریم کا انداز تعبیر بتاتا ہے کہ یہ جادو اس قدر عظیم تھا کہ حضرت موسیٰ بھی دل میں ڈر گئے جبکہ اس کے ساتھ اس کے رب بھی کھڑے تھے اور سب کچھ سن رہے تھے اور جان رہے تھے۔ موسیٰ تب ہی دل میں خائف ہو سکتے تھے کہ یہ سحر اس قدر خوفناک تھا کہ ایک لمحے کے لئے وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ زیادہ قوی ہیں اور انکے ساتھ رب عظیم کی عظیم قوت ہے چناچہ اللہ ان کو یاد دلاتے ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ جادوگروں سے ہرگز خائف اور متاثر نہیں ہیں۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ پر کامل اعتماد اور بھروسہ ہے جادوگروں کو اجازت دیدی کہ پہلے وہی اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیں۔ چناچہ انہوں نے فوراً اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالدیں۔ اور دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہونے لگا کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

66 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا نہیں بلکہ تم ہی پہلے ڈالو پھر اچانک ان جادوگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کی نظربندی اور جادو سے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معلوم ہونے لگیں کہ جیسے وہ سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں۔ یعنی جب تم باطل سے حق کا مقابلہ کرنے آئے ہو اور تم کو یہ زعم ہے کہ تم کامیاب اور غالب ہو تو تم پہلے اپنے کرتب دکھا دو تاکہ باطل پوری طرح کھل کر میدان میں آجائے اور پھر سب کو حق کا غلبہ معلوم ہوجائے چناچہ جب انہوں نے اپنا شعبدہ دکھایا تو ان کی دید بندی کے اثر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر حاضرین کو ان کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر دوڑتی ہوئی معلوم ہوئیں اور ایسا خیال ہوا کہ بیشمار سانپ میدان میں دوڑ رہے ہیں۔