Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 67

سورة طه

فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی ﴿۶۷﴾

And he sensed within himself apprehension, did Moses.

پس موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So Musa conceived fear in himself. This means that he feared for the people that they would be tested and deceived by their magic before he could even have a chance to throw what was in his right hand. قُلْنَا لاَ تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الاَْعْلَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] بذریعہ وحی کامیابی کی بشارت :۔ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ہے کہ جادوگروں نے بہ تبڑا جادو پیش کیا تھ۔ ہزاروں کی تعداد میں ان جادوگروں کی لاٹھیاں اور رسیاں لوگوں کے سامنے سانپوں کی طرح حرکت کر رہی تھیں اور ایسے سانپوں سے میدان مقابلہ بھر گیا تھا۔ ان سانپوں نے لوگوں کو دہشت زدہ کردیا تھا اور فرعون اور اس کے خاص درباری ان جادوگروں کے کارنامے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے اور ان کی داد دے رہے تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) خود بھی دل میں ڈرنے لگے تھے کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ اسلام کو وحی کی کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ بشارت بھی سنا دی کہ تم ہی کامیاب رہوگے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ (So Musa concealed some fear in his heart - 20:67.). The sight of so many snakes crawling around evoked a sense of fear in Sayyidna Musa (علیہ السلام) which he did not reveal to anyone. Even if this fear was for his own personal safety then it can be regarded as a natural human reaction to a dangerous situation and does not conflict with the mission of prophethood. It is clear, however, that the fear which he felt was not for his own life. His apprehension was that if the immense crowd, which had assembled to see the contest, sensed that the Egyptian magicians had the upper hand then the purpose of his mission would be frustrated. These doubts and fears were dispelled when in the next verse Allah assured him لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ (do not be scared. Certainly, you are to be the upper most - 20:68).

فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى، یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر یہ صورتحال دیکھ کر خوف طاری ہوا جس کو انہوں نے اپنے نفس میں چھپائے رکھا دوسروں پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ یہ خوف اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی جان کے لئے ہوا تو مقضائے بشریت سے ایسا ہونا نبوت کے خلاف نہیں لیکن ظاہر یہ ہے کہ خوف اپنی جان کا نہیں تھا بلکہ اس کا تھا کہ اس مجمع کے سامنے ساحروں کا غلبہ محسوس کیا گیا تو جو مقصد دعوت نبوت کا تھا وہ پورا نہ ہو سکے گا اسی لئے اس کے جواب میں حق تعالیٰ کی طرف سے جو ارشاد ہوا اس میں یہ اطمینان دلایا گیا کہ جادوگر غالب نہ آسکیں گے آپ ہی کو فتح اور غلبہ حاصل ہوگا۔ اگلی آیت میں لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى فرما کر اس خطرہ کو دور کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِہٖ خِيْفَۃً مُّوْسٰى۝ ٦٧ وجس الوَجْس : الصّوت الخفيّ ، والتَّوَجُّس : التّسمّع، والإيج اس : وجود ذلک في النّفس . قال تعالی: فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات/ 28] فالوَجْس قالوا : هو حالة تحصل من النّفس بعد الهاجس، لأنّ الهاجس مبتدأ التّفكير ، ثم يكون الواجس الخاطر . ( و ج س ) الوجس کے معنی صوت خفی کے ہیں اور توجس ( تفعل ) خفی آواز سننے کی کوشش کرنے کو کہتے ہیں اور ایجاس کے معنی دل میں کوئی بات محسوس کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات/ 28] اس وقت موسیٰ نے اپنے دل میں خوف معلوم کیا ۔ لہذا وجس اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی ( خطرہ کے بعد دل میں پیدا ہوتی ہے اور جو کسی بنتی ہے اسے ھاجس اور اس کے بعد کی حالت کو واجس کہا جاتا ہے : خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٧) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں کچھ خوف ہوا کہ ان پر کامیابی کیسے حاصل ہوگی اس لیے کہ جو ایمان لائے گا اس کو یہ لوگ قتل کردیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی۔ ) ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خوف لاحق ہوا کہ جو معجزہ میرے پاس ہے اسی نوعیت کی چیز تو جادوگروں نے بھی دکھا دی ہے۔ چناچہ اب یہ سارے تماشائی تالیاں پیٹیں گے کہ موسیٰ کو شکست ہوگئی اور وہ جو عظیم الشان مشن اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اس کا کیا بنے گا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41. It appears that no sooner did Prophet Moses (peace be upon him) say: Cast down, the magicians immediately cast their staffs and cords and it seemed as if hundreds of serpents were running towards him, and he instinctively felt a dread of them. And there is nothing strange in this because a Prophet is after all a human being. Besides this, it is also possible that Prophet Moses (peace be upon him) apprehended that the demonstration of the magic might create a misunderstanding among the people about his miracle. This is also a proof that a Prophet too can be influenced by magic to a certain extent like the common people, though magicians have no power to produce any effect on his Prophethood or interfere with revelation, or misguide him. Therefore there is no reason why one should consider as false those traditions in which it has been stated that the Prophet Muhammad (peace be upon him) suffered temporarily from the effect of magic.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :41 معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جونہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے پھینکو کا لفظ نکلا ، جادوگروں نے یکبارگی اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ان کی طرف پھینک دیں اور اچانک ان کو یہ نظر آیا کہ سینکڑوں سانپ دوڑتے ہوئے ان کی طرف چلے آ رہے ہیں ۔ اس منظر سے فوری طور پر اگر حضرت موسیٰ نے ایک دہشت اپنے اندر محسوس کی ہو تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے ۔ انسان بہرحال انسان ہی ہوتا ہے ۔ خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو ، انسانیت کے تقاضے اس سے منفک نہیں ہو سکتے ۔ علاوہ بریں یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت حضرت موسیٰ کو یہ خوف لاحق ہوا ہو کہ معجزے سے اس قدر مشابہ منظر دیکھ کر عوام ضرور فتنے میں پڑ جائیں گے ۔ اس مقام پر یہ بات لائق ذکر ہے کہ قرآن یہاں اس امر کی تصدیق کر رہا ہے کہ عام انسانوں کی طرح پیغمبر بھی جادو سے متاثر ہو سکتا ہے ۔ اگرچہ جادوگر اس کی نبوت سلب کر لینے ، یا اس کے اوپر نازل ہونے والی وحی میں خلل ڈال دینے ، یا جادو کے اثر سے اس کو گمراہ کر دینے کی طاقت نہیں رکھتا ، لیکن فی الجملہ کچھ دیر کے لیے اس کے قویٰ پر ایک گونہ اثر ضرور ڈال سکتا ہے ۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی کھل جاتی ہے جو احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کا اثر ہونے کی روایات پڑھ کر نہ صرف ان روایات کی تکذیب کرتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تمام حدیثوں کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے لگتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: یہ طبعی خوف تھا، اور اس لیے تھا کہ جو شعبدہ ان جادوگروں نے دکھایا، وہ بظاہر اس معجزے سے ملتا جلتا تھا۔ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دکھا چکے تھے۔ لہذا خوف یہ تھا کہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کو بھی کہیں جادو ہی نہ سمجھ بیٹھیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:67) اوجس۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ الوجس کے معنی صورت خفی کے ہیں وجس وہ حالت جو کسی خطرہ کے بعد دل میں پیدا ہوتی ہے لہٰذا اوجسکے معنی ہوئے اس نے دل میں خوف محسوس کیا۔ ایح اس (افعال) مصدر۔ خیفۃ۔ خوف۔ ڈر۔ خاف یخاف کا مصدر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 حضرت موسیٰ کا یہ سہمنا بتقاضائے بشریت تھا اور ممکن ہے کہ ان کا یہ سہمنا اس بنا پر ہو کہ کہیں لوگ التباس میں نہ پڑجائیں اور میرے عصہ ڈالنے سے پہلے کہیں ان جادوگروں کے معتقد نہ ہوجائیں (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی خوف ہوا کہ جب دیکھنے میں یہ رسیاں اور لاٹھیاں بھی سانپ معلوم ہوتی ہیں، اور میرا عصا بھی بہت سے بہت سانپ بن جاوے گا تو دیکھنے والے تو دونوں چیزوں کو ایک ہی سا سمجھیں گے، تو حق و باطل میں امتیاز کس طرح کریں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کی رسیوں اور لاٹھیوں کو ادھر ادھر دوڑتے دیکھا تو دل میں خطرہ اور اندیشہ محسوس کیا کہ کہیں لوگ ان کے جادو سے متاثر ہو کر معجزہ عصا سے شک میں نہ پڑجائیں۔ ” قُلْنَا لا تخف “ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔ یہ اندیشہ مت کرو۔ تمہارا معجزہ غالب رہے گا۔ اور فتح تمہاری ہوگی۔ ” وَ اَلْقِ مَافِیْ یَمِیْنِکَ “ اب اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دو جو سانپ بن کر ان تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو ہڑپ کر جائے گی۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے جادو کے زور سے کیا ہے اور معجزہ کے مقابلہ میں جادوگر کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ معجزات پیغمبروں کے قبضے میں نہیں ہوتے جب پیغمبروں کے قبضہ میں معجزات نہیں تو اولیاء اللہ کے قبضے میں کرامات کہاں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

67 یہ دیکھ کر موسیٰ نے اپنے دل میں تھوڑا سا ڈر اور خوف محسوس کیا۔ یعنی یہ معمولی سا وسوسہ گزرا کہ اگرچہ یہ ان کی محض دید بندی ہے اور حقیقت کچھ بھی نہیں لیکن مبادا عوام حق و باطل میں کوئی تمیز نہ کرسکیں گے کیونکہ یہ رسیاں بھی سانپ معلوم ہو رہی ہیں اور وہ حقیقی سانپ بھی ان کو سانپ ہی دکھائی دے گا اس لئے شاید امتیاز نہ کرسکیں اس قسم کے وسوسہ سے یقین کو کوئی نقصان نہیں پہونچتا۔