Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 68

سورة طه

قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی ﴿۶۸﴾

Allah said, "Fear not. Indeed, it is you who are superior.

ہم نے فرمایا کچھ خوف نہ کر یقیناً تو ہی غالب اور برتر رہے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خوف محسوس کیا، تو یہ ایک طبعی چیز تھی، جو کمال نبوت کے منافی ہے نہ عصمت کے۔ کیونکہ نبی بھی بشر ہی ہوتا ہے اور بشریت کے طبعی تقاضوں سے نہ وہ بالا ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے، بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) کے اندیشے اور خوف کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ (علیہ السلا م) کسی بھی لحاظ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو ہی غالب رہے گا، اس جملے سے طبعی خوف اور دیگر اندیشوں، سب کا ہی ازالہ فرما دیا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى۝ ٦٨ وَاَلْقِ مَا فِيْ يَمِيْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا۝ ٠ۭ اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ۝ ٠ۭ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى۝ ٦٩ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] ، وعلی هذا حمل : 477- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے لقف لَقِفْتُ الشیء أَلْقَفُهُ ، وتَلَقَّفْتُهُ : تناولته بالحذق، سواء في ذلک تناوله بالفم أو الید . قال : فَإِذا هِيَ تَلْقَفُ ما يَأْفِكُونَ [ الأعراف/ 117] . ( ل ق ف ) لقفت الشئی الففۃ وتلقفتہ کے معنی کسی چیز کو ہوشیاری اور حذاقت سے لینا کے ہیں اور یہ منہ ہاتھ دونوں سے لینے پر بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِذا هِيَ تَلْقَفُ ما يَأْفِكُونَ [ الأعراف/ 117] وہ فورا جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو ( ایک ایک کرکے ) نگلنے لگا ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، ( ف ل ح ) الفلاح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨۔ ٦٩) ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم ڈرو نہیں تم ہی ان پر غالب رہو گے بایں طور کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے داہنے ہاتھ میں جو عصا ہے اسے تم زمین پر ڈال دو ، اور یہ عصا ان لوگوں نے جو کچھ لکڑیوں اور رسیوں کا سوانگ رچایا ہے سب کو نگل جائے گا، انہوں نے یہ جو کچھ بنایا ہے یہ جادوگروں کا سوانگ ہے اور جادوگر کہیں بھی جائے کبھی کامیاب نہیں ہوتا اور اللہ کے عذاب سے کبھی مامون اور محفوظ نہیں رہتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قلنا تاتخف ……اثی (٩٦) موسیٰ تم نہ ڈرو۔ تم ہی یقیناً غالب رہو گے۔ تمہارے ساتھ سچائی ہے ان کے پاس باطل ہے ۔ تمہارے پاس ایک نظریہ ، ایک عقیدہ ہے اور ان کے پاس اس کے مقابلے کی فیس ہے اور کچھ دوسری سہولیات ہیں جو اس دنیا سے متعلق ہیں ، تمہارا رابطہ اس کائنات کی عظیم قوت اور سچائی کے ساتھ ہے اور وہ ایک حقیر بشر اور انسان کے خدمات گار ہیں۔ یہ بشر جس قدر قہار و جبار بھی ہو ، مگر فانی ہے۔ نہ ڈرو والق ما فی یمینک (٠٢ : ٩٦) ” پھینک جو تریے ہاتھ میں ہے۔ “ جو تیرے ہاتھ میں ہے ، عصا کا نام نہ لینے میں اس کی عظمت کا اظہار (تفخر کے لئے) تلقف ما صنعوا (٠٢ : ٩٦) ” ابھی ان کی ساری بناونی چیزوں کو نگل جاتا ہے۔ “ کیونکہ انہوں نے جو کچھ دکھایا ہے وہ تو ایک جادو ہے ، جدوگروں کی کارستانی ہے اور جادوگر جہاں بھی جائے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا ، چاہے وہ جو طریقہ بھی اپنائے کیونکہ وہ محض تخیل کے تابع ہوتا ہے۔ وہ تخیل پیدا کرتا ہے اور تخیل یا تخیل اور تنویم حقیقت کو نہیں بدلتے۔ ان کا انجام دہی ہوتا ہے جو اسک سچے کے مقابلے میں جھوٹے اور باطل پرست کا ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کا باطل بظاہر بڑا اور پھولا ہوا نظر آتا ہے اور صرف اس شخص کو ڈرا سکتا ہے جو غافل اور جاہل اور حقیقت سے بیخبر ہو اور جسے حق کی قوت کا اندازہ نہیں ہوتا جو پوشیدہ ہوتی ہے ، جو خوفناک ہوتی ہے ، جو تکبر ، مبالغہ اور ظاہر مستی سے خالی ہوتی ہے مگر وہ حقیقی قوت ہوتی ہے اور باطل کا آخر کار سر پھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ باطل اچانک مٹ جاتا ہے۔ حق کی قوت باطل کو نگل جاتی ہے۔ چناچہ باطل اپنی بساط لپیٹ کر غائب ہوجاتا ہے۔ غرض موسیٰ نے عصا پھینکا اور اس عظیم معجزے کا ظہور ہوگیا۔ یہاں قرآن مجید اس عظیم معجزے کے صرف وہ اثرات قلم بند کرتا ہے جو جادوگروں پر ہوئے ، کیونکہ مقابلہ وہ کر رہے تھے اس لئے انہی کوششیں زیادہ تھیں کہ وہ کامیاب ہوں ، اس سے قبل آگیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حوصلے بھی بڑھا رہے تھے اور مقابل یک یلئے ایک دوسرے کو اکسا رہے تھے۔ یہ لوگ اس قدر عظیم ماہر فن تھے کہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خوفزدہ کردیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پیغمبر تھے لیکن انہیں یوں نظر آ رہا تھا کہ ان کے عصا اور رسیاں زندہ سانپ ہیں اور پورا میدان ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ قرآن یہاں ان کی اچانک مکمل تبدیلی کی تصویر پیش کرتا ہے۔ ان کا شعور ، ان کا وجدان ، ان کی ادنرونی دنیا یکسر بدل گئی ہے۔ اس تبدیلی کو صرف اسٹیج پر عملی ایکشن ہی سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ الفاظ میں اس کا عکس نہیں دکھایا جاسکتا ، چناچہ ایکشن ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

68 ہم نے موسیٰ سے کہا تو ڈر نہیں یقینا تو ہی غالب رہے گا۔ اہل حق کے ساتھ حضرت حق کا ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے اس وسوسہ کو جو اتفاقیہ طور پر گرد و پیش کے حالات سے پیدا ہوا تھا اور جس میں بشریت کو بھی دخل تھا ۔ لاتخف کہہ کر دفع فرما دیا اور ارشاد ہوا۔