Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 69

سورة طه

وَ اَلۡقِ مَا فِیۡ یَمِیۡنِکَ تَلۡقَفۡ مَا صَنَعُوۡا ؕ اِنَّمَا صَنَعُوۡا کَیۡدُ سٰحِرٍ ؕ وَ لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی ﴿۶۹﴾

And throw what is in your right hand; it will swallow up what they have crafted. What they have crafted is but the trick of a magician, and the magician will not succeed wherever he is."

اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ ان کی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے ، انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ... We (Allah) said: "Fear not! Surely, you will have the upper hand. And throw that which is in your right hand! It will swallow up that which they have made. Thus, Allah revealed to him at the right moment, to throw what was in his right hand, which was the stick. When he did so, it swallowed what they had made. It became a huge, monstrous creature with legs, a neck, a head and fangs. It went after these ropes and sticks until none of them remained, except that it was devoured and swallowed by this beast. At the same time, the magicians and all of the people were watching with their own eyes, seeing this amazing event in broad daylight. Thus, the miracle was performed and the evidence was clear. The truth prevailed and the magic was proven to be falsehood. This is why Allah said, ... إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلاَ يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى That which they have made is only a magician's trick, and the magician will never be successful, to whatever amount (of skill) he may attain. So when the magicians saw the event and witnessed it with their own eyes, while they were knowledgeable of the various tricks and methods in the sciences of magic, they knew with conviction that what Musa had done was not magic or illusionary tricks. They recognized that it was the truth without any doubt. They knew that no one had any power to do this except for One Who says for a thing "Be," and it is. Therefore, when this happened, they fell down into prostration to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] شعبدہ بازی کا اطلاق :۔ بس تم اتنا کام کرو کہ اس میدان میں اپنا عصا پھینک دو ۔ یہ عصا ایک بہت بڑا اژدھا بن کر ان سب نقلی اور مصنوعی سانپوں کو ہڑپ کر جائے گا اور اس میدان میں اس اژدھا کے سوا کوئی چیز نہ رہ جائے گی۔ جادوگروں کی شعبدہ بازیاں، ان کی لاٹھیاں اور رسیا کسی چیز کا وجود تک باقی نہ رہے گا۔ وجہ یہ ہے کہ بعض علماء نے تلقف ما ھنعوا کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ عصا سے بنا ہوا اژدھا جس طرف رخ کرتا اور جہاں جہاں پہنچتا وہاں سے شعبدہ کا اثر ختم ہوتا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ آخر میں جادوگروں کی وہ لاٹھیاں اور رسیاں ہی میدان میں رہ گئیں۔ جو جادوگر اپنے ساتھ لائے تھے۔ ہمارے خیال میں یہ دوسری توجیہ درست نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تلقف کا معنی نگل جانا یا نوالہ بنا لینا تو لغوی لحاظ سے درست ہے لیکن یہ لفظ باطل کرنے یا بنانے کے معنوں میں نہیں آتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ (And throw what is in your right hand - 20:69). Allah commanded Sayyidna Musa (علیہ السلام) by means of a revelation (وحی) to cast down what he held in his right hand, and when he threw down his staff it turned into a huge snake and ate up all the imaginary snakes which the Egyptian magicians had produced by their magic. Conversion to Islam and bowing in prostration by the Pharaoh&s magicians The Egyptian magicians who were masters of their art realized at once that what they had just witnessed was not magic but a miracle brought about by a Supreme Power. Consequently they fell in prostration and declared openly their faith in Allah - the God of Sayyidna Musa (علیہ السلام) and Sayyidna Harun (علیہ السلام) . According to some traditions these magicians did not raise their heads until they had seen a glimpse of heaven and hell. (رواہ عبد بن حمید و ابن ابی حاتم وابن ال؛منذر عن عکرمہ - روح)

وَاَلْقِ مَا فِيْ يَمِيْنِكَ ، موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی خطاب ہوا کہ آپ کے ہاتھ میں جو چیز ہے اس کو ڈال دو ، مراد اس سے موسیٰ (علیہ السلام) کی عصا تھی مگر یہاں عصا کا ذکر نہیں فرمایا۔ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ ان کے جادو کی کوئی حقیقت نہیں، اس کی پروا نہ کرو اور جو کچھ بھی تمہارے ہاتھ میں ہے ڈال دو وہ ان کے سب سانپوں کو نگل جائے گا چناچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عصا ڈال دی وہ ایک بڑا اژدھا بن کر ان سب جادو کے سانپوں کو نگل گیا۔ فرعونی جادوگروں کا مسلمان ہو کر سجدہ میں پڑجانا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عصا نے اژدھا بن کر جب ان کے خیالی سانپوں کو نگل لیا تو چونکہ یہ لوگ جادو کے ماہرین تھے ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کام جادو کے ذریعہ نہیں ہوسکتا بلکہ یہ بلاشبہ معجزہ ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ظاہر ہوتا ہے اس لئے سجدہ میں گر گئے اور اعلان کردیا کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے۔ بعض روایات حدیث میں ہے کہ ان جادوگروں نے سجدہ سے اس وقت تک سر نہیں اٹھایا جب تک کہ ان کو جنت اور دوزخ کا مشاہدہ قدرت نے نہیں کرا دیا (رواہ عبد ابن حمید وابن ابی حاتم و ابن المنذر عن عکرمہ۔ روح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ (وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْاط اِنَّمَا صَنَعُوْا کَیْدُ سٰحِرٍ ط) ” یعنی یہ جو کچھ میدان میں سانپوں کی صورت میں نظر آ رہا ہے اس کی حقیقت کچھ نہیں ‘ محض نظر کا دھوکا ہے۔ عرف عام میں اس کیفیت کو ” نظر بندی “ کہا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42. This is capable of two interpretations: (1) The staff, which was turned into a dragon by a miracle, actually swallowed up all the staffs and cords which had been made to appear as serpents. (2) The dragon of the staff did not actually swallow up the serpents of the magicians but wiped out the effect of their magic from these things and they again became ordinary cords and staffs. We prefer the second interpretation because the wording of (Surahs Al-Aaraf, Ayat 117) and (Ash-Shuara, Ayat 45) is this: It swallowed up their false magic. And here the wording is: It will swallow up what they have crafted. Obviously, the staffs and cords were not their creation but the magic which had made them appear like serpents.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :42 ہو سکتا ہے کہ معجزے سے جو اژدھا پیدا ہوا تھا وہ ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں ہی کو نگل گیا ہو جو سانپ بنی نظر آ رہی تھیں ۔ لیکن جن الفاظ میں یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے ان سے بظاہر گمان یہی ہوتا ہے کہ اس نے لاٹیوں اور رسیوں کو نہیں نگلا بلکہ اس جادو کے اثر کو باطل کر دیا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آ رہی تھیں ۔ سورہ اعراف اور شعراء میں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا یَاْفِکُوْنَ ، جو جھوٹ وہ بنا رہے تھے اس کو وہ نگلے جا رہا تھا ۔ اور یہاں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا ، وہ نگل جائے گا اس چیز کو جو انہوں نے بنا رکھی ہے اب یہ ظاہر ہے کہ ان کا جھوٹ اور ان کی بناوٹ لاٹھیاں اور رسیاں نہ تھیں بلکہ وہ جادو تھا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آ رہی تھیں ۔ اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ جدھر جدھر وہ گیا لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل کر اس طرح پیچھے پھینکتا چلا گیا کہ ہر لاٹھی ، لاٹھی اور ہر رسی ، رسی بن کر پڑی رہ گئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:69) تلقف۔ مضارع مجزوم بوجہ جواب امر۔ واحد مؤنث غائب۔ لقف مصدر سے (باب سمع) وہ نگل جاتی ہے۔ یا وہ نگل جائے گی۔ لقف کے معنی کسی چیز کو پھرتی سے لے لینا۔ خواہ ہاتھ سے یا منہ سے۔ ما صنعوا۔ اس کے لفظی معنی ہیں جو انہوں نے بنایا ہے۔ مراد اس سے ان کی وہ شعبدہ بازی اور جادوگری ہے جس سے رسیاں اور لاٹھیاں دوڑتی معلوم دیتی تھیں۔ رسیاں اور لاٹھیاں بذات خود اللہ تعالیٰ کی صنعت ہیں نہ کہ کسی غیر اللہ کی۔ انما صنعوا کید ساحر۔ ما موصول ہے اور ان کا اسم ہے صنعوا اس کی صفت۔ کید ساحر۔ مضاف مضاف الیہ مل کر خبر۔ یعنی جو جادوگری انہوں نے کی ہے محض جادوگری کا قریب۔ ساحر یہاں بطور اسم جنس کے آیا ہے عدد کے لئے نہیں ۔ اسی لئے قصداً صیغہ واحد میں لایا گیا ہے اسی طرح الساحر بھی اسم جنس ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی چاہے وہ کیسی ہی آن بان اور شان و شوکت سے آئے اسے کبھی غلبہ نصیب نہیں ہوسکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی تسلی ہوگئی کہ اب امتیاز خوب ہوسکتا ہے۔ چناچہ انہوں نے عصا ڈالا اور وہ واقعی سب کو نگل گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی لاٹھی میدان میں پھینکنے کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اطمینان اور کامیابی کا یقین دلانے کے بعد حکم فرمایا آپ کے دائیں ہاتھ میں لاٹھی ہے اسے فی الفور میدان میں پھینک دیں۔ جونہی آپ اسے میدان میں پھینکیں گے تو آپ کی لاٹھی ان کے کیے دھرے کو نگل جائے گی۔ یقین رکھو جادوگرجہاں کہیں ہوں اور جس قدر جادو کا مظاہرہ کریں وہ کامیاب نہیں ہوتے۔ جونہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر میدان میں کودنے والے سانپوں کو نگل گیا۔ یہ منظر اس قدر ہیبت ناک اور عجیب تھا کہ دیکھنے والے لوگ دنگ رہ گئے۔ جادوگروں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا اژدھا جدھر جاتا ہے ہر چیز ہضم کیے جاتا ہے تو وہ اس حقیقت کو دل کی اتھاہ گہرائی سے سمجھ گئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا بھائی جادوگر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ وہ جادو کی حقیقت کو سمجھتے تھے کہ جادو کے ذریعے بڑی بڑی لاٹھیوں اور رسیوں کے وجود کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جادو تو انسان کی آنکھوں اور اس کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے وہ چیز عارضی طور پر دیکھنے میں بدل جاتی ہے کچھ اہل علم نے ” صَنَعُوْا “ کے لفظ کا یہ مفہوم لینے کی کوشش کی ہے کہ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اژدھا کی شکل میں کسی لاٹھی یارسی کے قریب پہنچتا تو اس پر اثر انداز ہونے والا جادو ختم ہوجاتا اور دیکھنے والوں کی نظر میں وہ رسی اور لاٹھی ہی رہ جاتی یہاں کسی حد تک یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے۔ لیکن قرآن مجید نے دوسرے مقام پر ” صَنَعُوْا “ کی بجائے ” تَلْقَفُ “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کو نگل جانا۔ (الشعراء : ٤٥) لہٰذا اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا، رسیوں، بڑے بڑے بانسوں اور لاٹھیوں کو کھا گیا۔ جونہی رسیاں اور لاٹھیاں ختم ہوئیں تو جادوگر یہ کہتے ہوئے سجدہ میں گرگئے کہ ہم موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ اگر وہ اس موقعہ پر اپنے رب یا رب العالمین کا لفظ استعمال کرتے تو فرعون لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دے سکتا تھا کہ جادوگر مجھے ہی رب العالمین سمجھ کر سجدہ کر رہے ہیں۔ لیکن جادوگروں نے بڑی بصیرت سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ کر اپنے ایمان کا اعلان کیا کہ ہم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ یہی سچے اور خالص ایمان کی نشانی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کھوٹ اور شرک کی آمیزش نہیں ہوتی۔ جادوگر اس لیے بھی سجدہ ریز ہوئے تاکہ دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ جادوگروں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ اور اپنی ناکامی دیکھ کر جادوگر سجدہ میں گِر گئے۔ جس کے لئے گرا دینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا کہ جادوگر اس قدر مغلوب ہوئے کہ بےساختہ سجدہ میں گِر پڑے۔ جونہی فرعون نے دیکھا کہ جادوگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لا چکے ہیں تو اس نے اپنی خفت مٹانے اور عوام پر کنٹرول رکھنے کے لیے یہ کہہ کر اعلان کیا کہ تم میری اجازت کے بغیر ایمان لائے ہو جو میرے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ یقیناً موسیٰ تمہارا بڑا استاد ہے جس نے تمہیں جادو سکھلایا ہے۔ اس جرم کے بدلے میں تمہارے مخالف سمت پر ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمہیں پھانسی دی جائے گی۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کس کا عذاب سخت اور دیر پا ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ فرعون کس قدر کذّاب اور سفاک انسان تھا کہ خود ہی جادوگروں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ جب جادوگر اپنی شکست تسلیم کرکے اپنے حقیقی رب پر ایمان لا چکے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اور اس کے وزیر، مشیر بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کرکے اپنے حقیقی رب پر ایمان لے آتے لیکن اس کے برعکس فرعون نے جور و استبداد کا رویہ اختیار کیا اور کہا تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ سزا دینے میں کس کا عذاب دیرپا اور سخت ہے۔ فرعون نے یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جادوگر قیامت کے عذاب سے خوفزدہ ہو کر اپنے حقیقی رب پر ایمان لائے ہیں۔ اس لیے اس نے یہ دھمکی دی کہ میں مخالف سمت پر تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹتے ہوئے تمہیں کھجوروں کے تنوں پر پھانسی پر لٹکاؤں گا۔ پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ کس کا عذاب دیرپا اور سخت ہے کیونکہ اس زمانے میں بڑے بڑے مجرموں کو اس طرح ہی موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ اور کئی کئی دن کھجور کے تنوں پر ان کی لاشیں لٹکتی رہتی تھیں تاکہ عوام پر حکمرانوں کا رعب اور دبدبہ قائم ہوجائے۔ جادوگروں کے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پر سر عام ایمان لانے کی وجہ سے فرعون اس قدر بدحواس ہوا کہ اس نے سب کے سامنے جادوگروں کو عبرت ناک انجام کی دھمکیاں دیں لیکن ایمان لانے والے حضرات نے یہ کہہ کر اس کی دھمکیوں کو مسترد کیا کہ اے فرعون ہم تیری مرضی اور حکم کی کیونکر پرواہ کریں۔ جبکہ ہمارے پاس ہمارے رب کی طرف سے روشن دلائل آچکے ہیں۔ لہٰذا جو کچھ ہمارے ساتھ کرنا چاہتا ہے کر گزر۔ لیکن یہ حقیقت یاد رکھنا کہ تیری سزائیں اس وقت تک ہیں جب تک ہمارے جسم میں جان ہے۔ ہم ہر قسم کا خوف اور مفادات کو چھوڑ کر اپنے رب پر ایمان لائے ہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ ہمارے سابقہ گناہوں اور ہم نے مجبوری کے عالم میں موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں جادو کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کر دے۔ ہاں تو اور تیرا اقتدار تو عارضی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی جزا اور اس کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ جادوگر پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) حقیقتاً اللہ کے رسول ہیں ہمیں ان کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن فرعون کے مجبور کرنے پر موسیٰ (علیہ السلام) کے مد مقابل آکھڑے ہوئے تھے۔ جونہی انھوں نے کھلی آنکھوں کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا معجزہ دیکھا تو وہ اپنے رب پر ایمان لے آئے کیونکہ وہ دل کی سچائی کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ اس لیے حقیقی ایمان نے انھیں جرأت و استقامت کے اس مقام پر پہنچا دیا۔ جس کا رسمی یا نسلی طور پر ایمان لانے والا شخص تصور نہیں کرسکتا۔ حقیقی ایمان کی یہی نشانی ہے کہ وہ آدمی کو چند لمحوں میں کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ مسائل ١۔ اہل ایمان، حق کے مقابلہ میں کسی مفاد اور ظلم کی پرواہ نہیں کرتے۔ ٢۔ ایماندار شخص کو اپنے رب سے ہر قسم کے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ مومن کے لیے جنت کی خوشخبری ہر چیز سے افضل ہوتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اسے کسی اعتبار سے بھی ضعف اور فنا نہیں ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

69 اور جو چیزتیرے داہنے ہاتھ میں ہے یعنی لاٹھی اس کو میدان میں ڈال دے وہ عصا اس تمام سوانگ کو جو انہوں نے بنایا ہے نگل جائے گا سو ائے اس کے نہیں کہ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے وہ جادوگروں کا فریب اور کرتب ہے اور جادوگر خواہ کہیں بھی جائے اس کو کامیاب نصیب نہیں ہوتی۔ یعنی اپنا عصا ڈال دے وہ ان جادوگروں کے تمام مکر و فریب کو ختم کر دے گا اور جو ڈھونگ انہوں نے رچایا ہے وہ اس سب کو نگل جائے گا اور انہوں نے جو کچھ بنایا ہے وہ جادوگروں کے فقط دائوں ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں ار جادوگر خواہ کہیں بھی آئے جائے حق کے اور معجزے کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوا کرتا اور فلاح نہیں پاتا۔