Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 70

سورة طه

فَاُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ ہٰرُوۡنَ وَ مُوۡسٰی ﴿۷۰﴾

So the magicians fell down in prostration. They said, "We have believed in the Lord of Aaron and Moses."

اب تو تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون اور موسیٰ ( علیہما السلام ) کے رب پر ایمان لائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا ... So the magicians fell down prostrate. ... قَالُوا امَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى They said: "We believe in the Lord of Harun and Musa." They said, "We believe in the Lord of all that exists, the Lord of Musa and Harun!" This is why Ibn Abbas and Ubayd binUmayr both said, "At the beginning of the day they were magicians and at the end of the day they were outstanding witnesses of faith." The Number of Magicians Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said, "The magicians were seventy men who were magicians in the morning, but witnesses of faith by the time evening came." Ibn Abi Hatim also reported that Al-Awza'i said, "When the magicians fell down in prostration, Paradise was raised up before them until they were looking at it." It is reported from Sa`id bin Jubayr that he said concerning Allah's statement, فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا (So the magicians fell down prostrate), "They saw their places (in Paradise) made clear before them while they were in their prostration." Ikrimah and Al-Qasim bin Abi Bizzah both said the same.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] جادوگروں کا ایمان لانا :۔ جادوگروں نے غالبا پہلے سیدنا موسیٰ کے عصا کو اژدھا بنتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ انھیں بس اتنا ہی بتلایا گیا تھا کہ ایک شخص جادو کے زور سے اپنی لاٹھی کو سانپ بنا دیتا ہے اور تمہیں اس کا مقابلہ کرنا ہے اور جادوگروں نے جب بچشم خود یہ دیکھ لیا کہ عصا سے بنا ہوا اژدھا ان کے بنے ہوئے سانپوں کو نگل بھی گیا ہے تو انھیں معلوم ہوگیا کہ یہ بات جادو کے علم کی بساط سے باہر ہے۔ اور موسیٰ و ہارون جادوگر نہیں بلکہ فی الواقعہ اللہ کے رسول ہیں اور جب ان پیغمبروں نے فتح کی خوشی میں اللہ کے سامنے سجدہ شکر ادا کیا تو جادوگر بھی بےاختیار ان کے ساتھ سجدہ ریز ہوگئے اور بھری مجلس میں ان رسولوں پر اپنے ایمان لانے کا اعلان بھی کردیا ( معجزہ اور جادو کے فرق کے لئے دیکھئے سورة اعراف کی آیت نمبر ١١٣ کا حاشیہ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاُلْقِيَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ ہٰرُوْنَ وَمُوْسٰى۝ ٧٠ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ هرن هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠) غرض کہ انہوں نے عصا ڈالا اور وہ واقعی سب کو نگل گیا، جادوگر سب سجدہ میں گرگئے، یعنی اس پھرتی سے سروں کو جھکایا گویا کہ گر پڑے ہوں اور باآواز بلند کہنے لگے کہ ہم تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لے آئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا) ” اس نکتے کی وضاحت سورة الاعراف کے مطالعہ کے دوران کی جا چکی ہے کہ آخر کیا وجہ تھی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فتح کے بعد جادو گر تو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگئے ‘ لیکن دوسری طرف نہ فرعون پر اس کا کچھ اثر ہوا اور نہ ہی اس کے درباریوں سمیت دوسرے لوگوں پر۔ دراصل فرعون اور اس کے درباریوں نے تو یہی سمجھا کہ یہ جادوگروں کا آپس میں مقابلہ تھا جس میں بڑے جادوگر نے چھوٹے جادوگروں کو مات دے دی۔ جبکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابل جادو گر جو اپنے فن کے ماہر تھے وہ اپنے کمال فن کی انتہا سے بھی آگاہ تھے اور اس کی حدود (limits) سے بھی خوب واقف تھے۔ جیسے آج ایک طبیعیات دان (Physicist) خوب جانتا ہے کہ فزکس کے میدان میں اب تک کیا کیا ایجادات ہوچکی ہیں اور اس کے کمالات کی رسائی کہاں تک ہے۔ چناچہ جادوگروں پر یہ حقیقت منکشف ہونے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ نہ تو ان کے مد مقابل شخصیت کوئی جادوگر ہے اور نہ ہی یہ اژدھا کسی جادوئی کرشمے کا کمال ہے ! چناچہ وہ بغیر حیل و حجت سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگئے اور :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. When they saw the power of the staff of Moses (peace be upon him), they involuntarily fell prostrate as if someone had made them do so, because they were convinced that it was a miracle and not a feat of magic. 44. This profession of faith by the magicians shows that everyone was aware of the basic object of the encounter. It was not an encounter between the feats of the magicians and those of Prophet Moses (peace be upon him), but it was to decide whether the claim of Prophet Moses (peace be upon him) that he was a Messenger of Allah was true or not. If this staff was actually turned into a dragon, it was by means of a miracle. On the other hand, Pharaoh intended to prove by the feats of his magicians that it was not a miracle but a feat of magic. Incidentally, this also shows that Pharaoh and his magicians and the common people fully understood the distinction between a miracle and a feat of magic. ,That is why when the magicians saw that it was a miracle shown by the power of Allah which had exposed their magic, they did not say that Moses (peace be upon him) was a more skillful magician, but straightway fell prostrate, saying: We believe in the Lord of Aaron and Moses. It is obvious that the defeat turned the tables on Pharaoh who had himself arranged the encounter to expose Prophet Moses (peace be upon him). He had mustered all his magicians with a view to demonstrating before the public that there was nothing extraordinary in turning a staff into a serpent for this could be done by any magician. But the defeat of the magicians and their acknowledgment testified that Moses (peace be upon him) was really a Messenger of Allah and the transformation of the staff was not a feat of magic but a miracle.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :43 یعنی جب انہوں نے عصائے موسیٰ کا کارنامہ دیکھا تو انہیں فوراً یقین آگیا کہ یہ یقیناً معجزہ ہے ، ان کے فن کی چیز ہرگز نہیں ہے ، اس لیے وہ اس طرح یکبارگی اور بے ساختہ سجدے میں گرے جیسے کسی نے اٹھا اٹھا کر ان کو گرا دیا ہو ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :44 اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں سب کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ کس بنیاد پر ہو رہا ہے ۔ پورے مجمع میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ تھا کہ مقابلہ موسیٰ اور جادوگروں کے کرتب کا ہو رہا ہے اور فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ کس کا کرتب زبردست ہے ۔ سب یہ جانتے تھے کہ ایک طرف موسیٰ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ ، خالق زمین و آسمان کے پیغمبر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں ، اور اپنی پیغمبری کے ثبوت میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا عصا معجزے کے طور پر فی الواقع اژدہا بن جاتا ہے ۔ اور دوسری طرف جادوگروں کو برسر عام بلا کر فرعون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عصا سے اژدہا بن جانا معجزہ نہیں ہے بلکہ محض جادو کا کرتب ہے ۔ بالفاظ دیگر ، وہاں فرعون اور جادوگر اور سارے تماشائی عوام و خواص معجزے اور جادو کے فرق سے واقف تھے ، اور امتحان اس بات کا ہو رہا تھا کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ جادو کی قسم سے ہے یا اس معجزے کی قسم سے جو رب العالمین کی قدرت کے کرشمے کے سوا اور کسی طاقت سے نہیں دکھایا جا سکتا ۔ یہ وجہ ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادو کو مغلوب ہوتے دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ ہم نے مان لیا ، موسیٰ ہم سے زیادہ با کمال ہے ، بلکہ انہیں فوراً یقین آ گیا کہ موسیٰ واقعی اللہ رب العالمین کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ پکار اٹھے کہ ہم اس خدا کو مان گئے جس کے پیغمبر کی حیثیت سے موسیٰ اور ہارون آئے ہیں ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجمع عام پر اس شکست کے کیا اثرات پڑے ہوں گے ، اور پھر پورے ملک پر اس کا کیسا زبردست اثر ہوا ہو گا ۔ فرعون نے ملک کے سب سے بڑے مرکزی میلے میں یہ مقابلہ اس امید پر کرایا تھا کہ جب مصر کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں گے کہ لاٹھی سے سانپ بنا دینا موسیٰ کا کوئی نرالا کمال نہیں ہے ، ہر جادوگر یہ کرتب دکھا لیتا ہے ، تو موسیٰ کی ہوا اکھڑ جائے گی ۔ لیکن اس کی یہ تدبیر اسی پر الٹ پڑی ، اور قریہ قریہ سے آئے ہوئے لوگوں کے سامنے خود جادوگروں ہی نے بالاتفاق اس بات کی تصدیق کر دی کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ انکے فن کی چیز نہیں ہے ، یہ فی الواقع معجزہ ہے جو صرف خدا کا پیغمبر ہی دکھا سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: یعنی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو اس نے ایک اژدہا بن کر جادوگروں کے بنائے ہوئے جعلی سانپوں کو ایک ایک کر کے نگل لیا۔ اس پر جادوگروں کو یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں، بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ چنانچہ وہ سجدے میں گر پڑے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے ان کے لیے سجدے میں گر گئے کے بجائے سجدے میں گرا دئیے گئے۔ فرمایا ہے۔ اس میں اشارہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو معجزہ دکھلایا وہ اس درجہ مؤثر تھا کہ اس نے انہیں بے ساختہ سجدے میں گرا دیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٠۔ ٧٣:۔ ایک جادوگر دوسرے جادوگر کے جادو کے عمل اور منتر کو اگر بگاڑ دے تو جادو کا اثر مٹ کر اصل چیز نظر آنے لگتی ہے مثلا رسی کا کوئی جادوگر اگر سانپ بنادے اور دوسرا جادوگر اس پہلے جادوگر کے جادو کے منتر کو بگاڑ دے تو اصل رسی نظر آنے لگے گی۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا عصا جب ان اصلی رسیوں اور لکڑیوں کو بھی نگل گیا جس کو جادوگروں نے سانپ کی صورت بنا کر زمین پر چھوڑا تھا تو جادوگروں کو یقین ہوگیا کہ یہ تائید غیبی ہے جادو کا اثر نہیں ہے اس لیے فورا وہ سجدے میں گر پڑے اور مسلمان ہوگئے اگرچہ بعضے مفسروں نے لکھا ہے کہ فرعون نے جادوگروں کے مسلمان ہوجانے پر ان کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالنے اور سولی دینے کی دھمکی جو ان کو دی تھی اس دھمکی کا عمل فرعون پھر نہ کرسکا لیکن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی صحیح روایت میں یہ ہے کہ وہ جادوگر کچھ دیر پہلے تو جادوگر کہلاتے تھے تھوڑی دیر کے بعد شہید کہلانے لگے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے ان کو شہید کر ڈالا۔ اہل سنت کے نزدیک جادو کا وجود دنیا میں ثابت ہے صحیح بخاری وغیرہ میں لبید بن عاصم منافق کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کرنا اور چھ مہینے کے قریب تک آپ پر اس کا اثر رہنا ثابت ہوچکا ہے اور جادو کا علاج بھی شرع میں جائز ہے جادو کا سیکھنا اور سکھانا حرام ہے اگر جادو اتارنے کی نیت سے سیکھے تو علماء نے اس کو جائز رکھا ہے ١ ؎۔ جس جادو کے منتر میں کفر کے الفاظ ہوں وہ جادو کفر ہے باقی کبیرہ گناہ ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ کی لکڑی کو زمین میں ڈال دیا اور اس لکڑی کا اژدہا بن گیا تو وہ اژدہا ان سب رسیوں اور لکڑیوں کو نگل گیا اور پھر فورا اس اژد ہے کی لکڑی بن گئی اور موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ لکڑی اپنے ہاتھ میں اٹھالی۔ یہ حالت دیکھ کر جادوگروں کو یقین ہوگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جادوگر نہیں ہیں بلکہ ان کو تائید غیبی ہے اس لیے وہ سجدہ میں گر پڑے اور سمجھ گئے کہ فرعون کا خدائی کا دعوی بالکل جھوٹا ہے کیونکہ اگر اس کا وہ دعوی سچا ہوتا تو موسیٰ کا غلبہ ہرگز نہ ہوتا اس واسطے ہم صاف کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا جو رب ہے وہی ہمارا بھی رب ہے جادوگروں کی یہ بات سن کر فرعون نے ان کو ڈرایا اور کہا کہ تم نے بغیر میرے حکم کے موسیٰ کے کہنے کو مان لیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) تم سے بڑھ کر جادوگر اور تم سب کے استاد ہیں پھر فرعون نے کہا کہ اس حکم عدولی کی سزا یہ ہے کہ میں تم سب کا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کٹوا ڈالوں گا اور پھر کھجور کے ٹہنے میں چھید کر تم کو سولی دوں گا جس سے تم کو معلوم ہوجائے گا کہ میری سزا سخت اور پائیدار ہے یا موسیٰ کے خدا کی۔ جادوگروں نے فرعون کی یہ دھمکی سن کر اس کو جواب دیا کہ ہم کو ہمارے پیدا کرنے والے کی قسم ہے کہ ہم تیری دھمکی سے ڈر کر موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو نہ جھٹلا دیں گے جو سزا تیرا جی چاہے وہ ہمارے حق میں تجویز کر جس طرح دنیا کی زندگی ناپائیدار ہے وہی تیری تجویز کی ہوئی سزا کا حال ہے اور اللہ تعالیٰ کی ٹھہرائی ہوئی جزا اور سزا تیری جزا وسزا سے بڑھ کر اور پائیدار ہے اس لیے ہم نے اللہ کو اپنا معبود مان لیا اور تو نے زبردستی ہم کو جادو کی تعلیم جو دلوائی تھی اس سے اور باقی سب گناہوں سے ہم نے توبہ کی تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے سب گناہوں کو معاف کر دے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق دوزخی ٹھہر چکا ہے وہ ویسے کام کرتا ہے اور جو شخص جنتی قرار پاچکا ہے وہ ویسے ہی کام کرتا ہے اس حدیث سے آیتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جادوگر اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جنتی ٹھہر چکے تھے اس لیے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو تائید غیبی سمجھ گئے اور فرعون اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخی قرار پا چکا تھا اس واسطے وہ عمر بھر معجزہ کو جادو سمجھتا رہا۔ ١ ؎ لیکن اس پر اولا تو کوئی صریح و صحیح دلیل موجود نہیں ثانیا شرکیہ منتر جادو کے ذریعہ علاج ار شرکیہ منتر اور دم ازرئے و حدیث شریف معنوع ہے۔ (ع۔ ح) ٢ ؎ مثلاص ٢٤٠ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:70) فالقی السحرۃ سجدا۔ لفظی ترجمہ ہوگا۔ پس گرا دئیے گئے جادوگر سجدہ کرتے ہوئے ۔ یعنی وہ اس معجزہ کی حقیقت کو پاکر بےبس ہوگئے اور سجدہ میں گرگئے۔ نیز ملاحظہ ہو (7:120) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 القی (گرا دیئے گئے) یعنی بےساختہ اور اس سرعت سے سجدہ میں گرپڑے جیسے کسی چیز نے انہیں گرا دیا۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ انہوں نے جو فعل فوق السحر دیکھا سمجھ گئے کہ یہ بیشک معجزہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فالقی السحرۃ ……موسیٰ (٠٧) حساس اعصاب والے افراد پر بعض اوقات بجلی جیسا اثر ہوتا ہے ، بٹن دبایا اور روشنی چمک اٹھی ، اندھیرا ختم ہوا۔ ان کے دل کا سوئچ آن ہوگیا اور ایک لحظ میں ان کی دنیا بدل گئی۔ دل کافر ، اب دل مومن تھا۔ لیکن اقتدار کے نشے میں بدمست لوگوں پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ مرد نادان پر کالم نرم و نازک بےاثر ہوتا ہے۔ ان کو کیا پتہ کہ اللہ مقلب القلوب ہے ، دلوں میں انقلاب کی طرح آتا ہے۔ اقتدار کے نشے میں بدمست ڈکٹیٹر چونکہ طویل عرصے تک سرکشی اور نافرمانی کی حالت میں رہتے ہیں اس لئے وہ نہیں سمجھتے ، پھر ان کے اقتدار کی وجہ سے دنیا ان کے اشاروں پر چلتی ہے اس لئے وہ حق کو بھی مطیع فرمان دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کو کیا پتہ کہ جب دل نور ایمان سے مالا مال ہوجاتے ہیں اور اللہ سے جڑ جاتے ہیں تو ان پر اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہوتی ، لیکن ان کو کیا پتہ کہ جب دل نور ایمان سے مالا مال ہوجاتے ہیں اور اللہ سے جڑ جاتے ہیں تو ان پر اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہوتی۔ اب منظر پر ایک جابر حکمران آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ فاء فصیحہ ہے۔ یعنی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ فورًا ایک ہیبتناک اژدھا کی شکل میں منتقل ہو کر جادوگروں کی تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل گیا اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا تو وہ اپنی اصلی حالت پر آگیا۔ اور اس کے حجم میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہ ہوا۔ جب جادوگروں نے یہ سب کچھ دیکھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سچائی کا ان کو عین الیقین حاصل ہوگیا اور فوراً بول اٹھے۔ ” اٰمَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَ مُوْسٰی “ کہ ہم موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے رب پر ایمان لے آئے اور بےاختیار سجدے میں گر پڑے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

70 حضرت موسیٰ کے عصا پھینکنے اور جادو کے سوانگ ختم ہونے کے بعد فوراً ہی جادو گر سجدے میں گرپڑے اور کہنے لگے ہم ہارون (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لے آئے۔ یعنی اعجاز موسوی کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ موسیٰ اور ہارون اللہ تعالیٰ کے فرستادے ہیں ان کا مقابلہ نہیں ہوسکتا ۔ چناچہ رب العالمین پر ایمان لانے کا اعلان کردیا اور رب ہارون و موسیٰ کہہ کر اس اشتباہ کو دور کردیا جو فرعون کا دعویٰ تھا یعنی وہ خود کو رب العالمین سمجھتا تھا اس لئے جادوگروں نے رب ہارون و موسیٰ فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ ہمارا مومن بہ فرعون نہیں ہے۔