43. When they saw the power of the staff of Moses (peace be upon him), they involuntarily fell prostrate as if someone had made them do so, because they were convinced that it was a miracle and not a feat of magic.
44. This profession of faith by the magicians shows that everyone was aware of the basic object of the encounter. It was not an encounter between the feats of the magicians and those of Prophet Moses (peace be upon him), but it was to decide whether the claim of Prophet Moses (peace be upon him) that he was a Messenger of Allah was true or not. If this staff was actually turned into a dragon, it was by means of a miracle. On the other hand, Pharaoh intended to prove by the feats of his magicians that it was not a miracle but a feat of magic. Incidentally, this also shows that Pharaoh and his magicians and the common people fully understood the distinction between a miracle and a feat of magic. ,That is why when the magicians saw that it was a miracle shown by the power of Allah which had exposed their magic, they did not say that Moses (peace be upon him) was a more skillful magician, but straightway fell prostrate, saying: We believe in the Lord of Aaron and Moses.
It is obvious that the defeat turned the tables on Pharaoh who had himself arranged the encounter to expose Prophet Moses (peace be upon him). He had mustered all his magicians with a view to demonstrating before the public that there was nothing extraordinary in turning a staff into a serpent for this could be done by any magician. But the defeat of the magicians and their acknowledgment testified that Moses (peace be upon him) was really a Messenger of Allah and the transformation of the staff was not a feat of magic but a miracle.
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :43
یعنی جب انہوں نے عصائے موسیٰ کا کارنامہ دیکھا تو انہیں فوراً یقین آگیا کہ یہ یقیناً معجزہ ہے ، ان کے فن کی چیز ہرگز نہیں ہے ، اس لیے وہ اس طرح یکبارگی اور بے ساختہ سجدے میں گرے جیسے کسی نے اٹھا اٹھا کر ان کو گرا دیا ہو ۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :44
اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں سب کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ کس بنیاد پر ہو رہا ہے ۔ پورے مجمع میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ تھا کہ مقابلہ موسیٰ اور جادوگروں کے کرتب کا ہو رہا ہے اور فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ کس کا کرتب زبردست ہے ۔ سب یہ جانتے تھے کہ ایک طرف موسیٰ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ ، خالق زمین و آسمان کے پیغمبر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں ، اور اپنی پیغمبری کے ثبوت میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا عصا معجزے کے طور پر فی الواقع اژدہا بن جاتا ہے ۔ اور دوسری طرف جادوگروں کو برسر عام بلا کر فرعون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عصا سے اژدہا بن جانا معجزہ نہیں ہے بلکہ محض جادو کا کرتب ہے ۔ بالفاظ دیگر ، وہاں فرعون اور جادوگر اور سارے تماشائی عوام و خواص معجزے اور جادو کے فرق سے واقف تھے ، اور امتحان اس بات کا ہو رہا تھا کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ جادو کی قسم سے ہے یا اس معجزے کی قسم سے جو رب العالمین کی قدرت کے کرشمے کے سوا اور کسی طاقت سے نہیں دکھایا جا سکتا ۔ یہ وجہ ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادو کو مغلوب ہوتے دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ ہم نے مان لیا ، موسیٰ ہم سے زیادہ با کمال ہے ، بلکہ انہیں فوراً یقین آ گیا کہ موسیٰ واقعی اللہ رب العالمین کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ پکار اٹھے کہ ہم اس خدا کو مان گئے جس کے پیغمبر کی حیثیت سے موسیٰ اور ہارون آئے ہیں ۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجمع عام پر اس شکست کے کیا اثرات پڑے ہوں گے ، اور پھر پورے ملک پر اس کا کیسا زبردست اثر ہوا ہو گا ۔ فرعون نے ملک کے سب سے بڑے مرکزی میلے میں یہ مقابلہ اس امید پر کرایا تھا کہ جب مصر کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں گے کہ لاٹھی سے سانپ بنا دینا موسیٰ کا کوئی نرالا کمال نہیں ہے ، ہر جادوگر یہ کرتب دکھا لیتا ہے ، تو موسیٰ کی ہوا اکھڑ جائے گی ۔ لیکن اس کی یہ تدبیر اسی پر الٹ پڑی ، اور قریہ قریہ سے آئے ہوئے لوگوں کے سامنے خود جادوگروں ہی نے بالاتفاق اس بات کی تصدیق کر دی کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ انکے فن کی چیز نہیں ہے ، یہ فی الواقع معجزہ ہے جو صرف خدا کا پیغمبر ہی دکھا سکتا ہے ۔