Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 71

سورة طه

قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَہٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ؕ اِنَّہٗ لَکَبِیۡرُکُمُ الَّذِیۡ عَلَّمَکُمُ السِّحۡرَ ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمۡ فِیۡ جُذُوۡعِ النَّخۡلِ ۫ وَ لَتَعۡلَمُنَّ اَیُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبۡقٰی ﴿۷۱﴾

[Pharaoh] said, "You believed him before I gave you permission. Indeed, he is your leader who has taught you magic. So I will surely cut off your hands and your feet on opposite sides, and I will crucify you on the trunks of palm trees, and you will surely know which of us is more severe in [giving] punishment and more enduring."

فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً یہی تمہارا وہ بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے ، ( سن لو ) میں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی پر لٹکوا دوں گا ، اور تمہیں پوری طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fir`awn's turning against the Magicians, His threatening Them and Their Reply Allah, the Exalted, informs of Fir`awn's disbelief, obstinance, transgression and haughtiness against the truth in favor of falsehood. When he saw what he saw of the magnificent miracle and the great sign, and he saw those whose help he sought accept faith in the presence of all of the people, and he was absolutely defeated, he began to behave arrogantly and cast accusations. He resorted to using his esteemed honor and might against the magicians. He warned them and threatened them saying, قَالَ امَنتُمْ لَهُ ... (Fir`awn) said: "Believe you in him (Musa), This means, "Do you have faith in him!" ... قَبْلَ أَنْ اذَنَ لَكُمْ ... before I give you permission, meaning, "I have not commanded you to do so, by which you have rebelled against me." Then he said a statement that he, the magicians and all creatures knew was a forgery and an utter lie. ... إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ... Verily, he is your chief who has taught you magic. meaning "You all only took your magic from Musa and you have made an agreement with him against me and my subjects, that you would help him be victorious." Allah says in another Ayah, إِنَّ هَـذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِى الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُواْ مِنْهَأ أَهْلَهَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ Surely, this is a plot which you have plotted in the city to drive out its people, but you shall come to know. (7:123) Then he began threatening them. He said to them, ... فَلَُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَفٍ وَلاَُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ ... So I will surely cut off your hands and feet on opposite sides, and I will surely crucify you on the trunks of date palms, meaning, "I will certainly make an example of you, I will kill you in a public execution." Ibn Abbas said, "Thus, he was the first person to ever do this (public execution, crucifixion)." This was reported by Ibn Abi Hatim. Concerning Allah's statement, ... وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَى And you shall surely know which of us can give the severe and more lasting torment. This means, "You say that my people and I are astray and that you (magicians), Musa and his people are following correct guidance, but you will come to know who will be punished and remain punished." So when he attacked with this and threatened them, their souls eased them because of their belief in Allah, the Mighty and Sublime. They exclaimed,

نتیجہ موسیٰ علیہ السلام کی صداقت کا گواہ بنا ۔ اللہ کی شان دیکھئے چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اب راہ راست پر آجاتا ۔ جن کو اس مقابلے کہ لئے بلوایا تھا وہ عام مجمع میں ہارے ۔ انھوں نے اپنی ہار مان لی اپنے کرتوت کو جادو اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ معجزہ تسلیم کرلیا ۔ خود ایمان لے آئے جو مقابلے کے لئے بلوائے گئے تھے ۔ مجمع عام میں سب کے سامنے بےجھجک انھوں نے دین حق قبول کر لیا ۔ لیکن یہ اپنی شیطانیت میں اور بڑھ گیا اور اپنی قوت وطاقت دکھانے لگا لیکن بھلاحق والے مادی طاقتوں کو سمجھتے ہی کیا ہیں ؟ پہلے تو جادوگروں کے اس مسلم گروہ سے کہنے لگا کہ میری اجازت کے بغیر تم اس پر ایمان کیوں لائے ؟ پھر ایسا بہتان باندھا جس کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو تمہارے استاد ہیں انہی سے تم نے جادو سیکھا ہے ۔ تم سب آپس میں ایک ہی ہو مشورہ کرکے ہمیں تاراج کرنے کے لئے تم نے پہلے انہیں بھیجا پھر اس کے مقابلے میں خود آئے ہو اور اپنے اندورنی سمجھوتے کے مطابق سامنے ہار گئے ہو اور اسے جتا دیا اور پھر اس کا دین قبول کرلیا تاکہ تمہاری دیکھا دیکھی میری رعایا بھی چکر میں پھنس جائے مگر تمہیں اپنی اس ساز باز کا انجام بھی معلوم ہو جائے گا ۔ میں الٹی سیدھی طرف سے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر کجھور کے تنوں پر سولی دوں گا اور اس بری طرح تمہاری جان لوں گا کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو ۔ اسی بادشاہ نے سب سے پہلے یہ سزا دی ہے ۔ تم جو اپنے آپکو ہدایت پر اور مجھے اور میری قوم کو گمراہی پرسمجھتے ہو اس کا حال تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ دائمی عذاب کس پر آتا ہے اس دھمکی کا ان دلوں پرالٹا اثر ہوا ۔ وہ اپنے ایمان میں کامل بن گئے اور نہایت بےپرواہی سے جواب دیا کہ اس ہدایت ویقین کے مقابلے میں جو ہمیں اب اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے ہم تیرا مذہب کسی طرح قبول کرنے کے نہیں ۔ نہ تجھے ہم اپنے سچے خالق مالک کے سامنے کوئی چیزسمجھیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ قسم ہو یعنی اس اللہ کی قسم جس نے ہمیں اولاً پیدا کیا ہے ہم ان واضح دلیلوں پر تیری گمراہی کو ترجیح دے ہی نہیں سکتے خواہ تو ہمارے ساتھ کچھ ہی کرلے مستحق عبادت وہ ہے جس نے ہمیں بنایا نہ کہ تو ، جو خود اسی کا بنایا ہوا ہے ۔ تجھے جو کرنا ہو اس میں کمی نہ کر تو تو ہمیں اسی وقت تک سزا دے سکتا ہے جب تک ہم اس دنیا کی حیات کی قید میں ہیں ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ابدی راحت اور غیر فانی خوشی ومسرت نصیب ہو گی ۔ ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے اگلے قصوروں سے درگزر فرمالے گا بالخصوص یہ قصور جو ہم سے اللہ کے سچے نبی کے مقابلے پر جادو بازی کرنے کا سرزد ہوا ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس بچے لے کر انہیں جادوگروں کے سپرد کیا تھا کہ انہیں جادو کی پوری تعلیم دو اب یہ لڑکے یہ مقولہ کہہ رہے ہیں کہ تو نے ہم سے جبراًجادوگری کی خدمت لی ۔ حضرت عبدالرحمن بن زید رحمتہ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے ۔ پھر فرمایا ہمارے لئے بہ نسبت تیرے اللہ بہت بہتر ہے اور دائمی ثواب دینے والا ہے ۔ نہ ہمیں تیری سزاؤں سے ڈر نہ تیرے انعام کی لالچ ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے ۔ اسی کے عذاب دائمی ہیں اور سخت خطرناک ہیں اگر اس کی نافرمانی کی جائے ۔ پس فرعون نے بھی ان کے ساتھ یہ کیا سب کے ہاتھ پاؤں الٹی سیدھی طرف سے کاٹ کرسولی پر چڑھا دیا وہ جماعت جو سورج کے نکلنے کے وقت کافر تھی وہی جماعت سورج ڈوبنے سے پہلے مومن اور شہید تھی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 مِنْ خِلَافِ (الٹے سیدھے) کا مطلب ہے سیدھا ہاتھ تو بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ تو سیدھا پاؤں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] فرعون نے ایمان لانے والے جاوگروں کو اتنی سخت دھمکی کیوں دی ؟ ایک تو فرعون اور اس کے حواری میدان میں مقابلہ میں مات کھاچکے تھے جسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد بچشم خود دیکھ لیا تھا۔ دوسرے یہ ستم ہوا کہ جن جادوگروں کے بل بوتے یہ مقابلہ رچایا گیا تھا وہ کوئی عذر معذرت کرنے کے بجائے خود ایمان لے آئے۔ تو اس دوہری شکست نے فرعون کو سیخ پا کردیا۔ اور لوگوں کو مزید کچھ عرصہ کے لئے الو بنائے رکھنے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت سے بچائے رکھنے کے لئے یہ تدبیر سوچی کہ ان جادوگروں کو ہی غدار اور جاسوس قرار دیا جائے اور اعلان کردیا کہ فی الواقعہ یہ جادوگر موسیٰ کے شاگرد معلوم ہوتے ہیں اور ان دونوں کا مشن ایک ہی تھا۔ تبھی تو جادوگروں نے فورا ً گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ لہذا اے جادوگرو ! میں تمہیں ایسی اور ایسی سزا دوں گا جسے تمہاری نسلیں بھی یاد رکھیں گی اور تمہیں موسیٰ پر ایمان لانے کا انجام خوب معلوم ہوجائے گا۔ تم ایمان لاکر یہ سمجھ رہے ہو کہ تم ہی نجات پانے والے ہو اور دوسرے لوگ جو موسیٰ پر ایمان نہیں لائے وہ ابدی عذاب میں میں مبتلا رہیں گے سو ابھی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کا عذاب سخت اور تادیر رہنے والا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّهٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۚ : یعنی یہ تمہارا ” گرو “ ہے اور تم اس کے چیلے ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم آپس میں طے کرکے آئے ہو کہ پہلے چیلے ایک شعبدہ دکھائیں گے، پھر وہ سب کے سامنے ” گرو “ سے شکست کھا لیں گے، تاکہ دیکھنے والے ان کے ” گرو “ کا کہنا مان لیں اور اس کے معتقد بن جائیں۔ فرعون نے یہ شبہ اسی وقت پیدا کردیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام بھی ان کے متبع ہوجائیں۔ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ ۔۔ : شبہ پیدا کرنے کے بعد اوپر سے دھمکی بھی دے دی، تاکہ ان کو ایمان پر قائم رہنے سے پھیر دیا جائے اور دوسرے لوگ بھی مرعوب ہوجائیں۔ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ : ” النَّخْلِ “ ” جِذْعٌ“ (جیم کے کسرہ کے ساتھ) کی جمع ہے ” تنے۔ “ سولی دینے کے لیے اونچے سے اونچا میسر کھمبا اس وقت کھجور کا تنا تھا۔ ظاہر ہے کہ سولی تنے کے اوپر دی جاتی ہے، مگر یہاں ” فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ “ (کھجوروں کے تنوں میں) فرمایا۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ ” فِيْ “ ” عَلٰی “ کے معنی میں ہے، مگر ” فِيْ “ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ تمہیں کھجوروں کے تنوں کے اوپر لے جا کر کیلوں یا رسیوں کے ساتھ تنوں میں پیوست کر دوں گا اور اس طرح تم عبرت ناک انجام کو پہنچو گے۔ سولی کی تفصیل سورة اعراف (١١٥ تا ١٢٦) میں دیکھیں۔ وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي : یعنی وہ عذاب جس سے موسیٰ ( (علیہ السلام) ) نے تمہیں مقابلے سے پہلے ڈرایا تھا کہ ” وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ “ وہ زیادہ سخت اور دیرپا ہے یا میرا عذاب ؟ فرعون حقیقت حال سے واقف تھا، مگر اپنی شکست فاش پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ دھمکیاں دے رہا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ (He [ the Pharaoh ] said, |"You have believed in him before I permit you|" - 20:71). The Pharaoh, thus disgraced before a vast multitude, was furious and he stormed at the magicians how they dared accept the religion brought by Sayyidna Musa (علیہ السلام) without his prior permission. He suspected that they all were Sayyidna Musa&s (علیہ السلام) pupils who taught them the magic and had accepted defeat in connivance with him. فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْ‌جُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ (I will certainly cut apart your hands and your legs from opposite sides - 20:71). The Pharaoh thus threatened his magicians with dire punishment. He said he would cut off their hands and feet from opposite sides i.e. first the right hand, then the left foot. This apparently was the mode of inflicting punishment under the laws of the Pharaoh. وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ (And will crucify you on the trunks of palm-trees - 20:71) He also said that after cutting off their hands and feet he would crucify them on the trunks of palm-trees where they would remain suspended until they died of starvation.

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ ، فرعون کی رسوائی اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان مجمع کے سامنے واضح کردی تو بوکھلا کر اول تو ساحروں کو یہ کہنے لگا کہ بغیر میری اجازت کے تم کیسے ان پر ایمان لائے۔ گویا لوگوں کو یہ بتلانا تھا کہ میری اجازت کے بغیر ان جادوگروں کا کوئی قول فعل معتبر نہیں مگر ظاہر ہے کہ اس کھلے ہوئے معجزہ کے بعد کسی کی اجازت کی ضرورت کسی عاقل انسان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی، اس لئے اب جادوگروں پر اس سازش کا الزام لگایا کہ اب معلوم ہوا کہ تم سب موسیٰ کے شاگرد ہو اسی جادوگر نے تمہیں جادو سکھایا ہے اور تم نے سازش کر کے اس کے سامنے اپنی ہار مان لی ہے۔ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ، اب جادوگروں کو سخت سزا سے ڈرایا کہ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے جس کی صورت یہ ہوگی کہ داہنا ہاتھ کٹے گا تو بایاں پاؤں کاٹا جائے گا۔ یہ صورت یا تو اس لئے تجویز کی کہ فرعونی قانون میں سزا کا یہی طریقہ رائج ہوگا یا اس لئے کہ اس صورت میں انسان ایک عبرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ یعنی ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھر تمہیں کھجور کے درختوں پر سولی دی جاوے گی کہ تم ان پر اسی طرح لٹکے رہو گے یہاں تک کہ بھوک اور پیاس سے مر جاؤ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ۝ ٠ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ۝ ٠ۡوَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي۝ ٧١ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق/ 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ صلب والصَّلَبُ والاصْطِلَابُ : استخراج الودک من العظم، والصَّلْبُ الذي هو تعلیق الإنسان للقتل، قيل : هو شدّ صُلْبِهِ علی خشب، وقیل : إنما هو من صَلْبِ الوَدَكِ. قال تعالی: وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء/ 157] ، وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء/ 49] والصَّلِيبُ : أصله الخشب الذي يُصْلَبُ عليه، والصَّلِيبُ : الذي يتقرّب به النّصاری، هو لکونه علی هيئة الخشب الّذي زعموا أنه صُلِبَ عليه عيسى عليه السلام، ( ص ل ب ) الصلب الصلب والاصطلاب کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا کے ہیں اور صلب جس کے معنی قتل کرنے کے لئے لٹکا دینا کے ہیں ۔ بقول بعض اسے صلب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اس شخص کی پیٹھ لکڑی کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صلب الودک سے ہے جس کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا گے ہیں قرآن میں ہے : وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ سول پر چڑ ھایا ۔ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء/ 49] اور کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوادوں گا ۔ ۔ الصلیب اصل میں سوئی کی لکڑی کو کہتے ہیں نیز صلیب اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جو عیسائی بطور عبادت کے گلے میں اس خیال پر باندھ لیتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر سولی لٹکایا گیا تھا ۔ اور جس کپڑے پر صلیب کے نشانات بنے ہوئے ہوں اسے مصلب کہاجاتا ہے ۔ صالب سخت بخار جو پیٹھ کو چور کردے یا پسینہ کے ذریعہ انسان کی چربی نکال لائے ۔ جذع الجِذْعُ جمعه جُذُوع، قال : فِي جُذُوعِ النَّخْلِ [ طه/ 71] . جَذَعْتُهُ : قطعته قطع الجذع، والجَذَع من الإبل : ما أتت لها خمس سنین، ومن الشاة : ما تمّت له سنة . ويقال للدهم الإزالة : الجذع، تشبيها بالجذع من الحیوان . ( ج ذ ع ) الجذع درخت کا تنہ ۔ ج جذوع قرآن میں :۔ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ [ طه/ 71] جذعہ ( ف ) شاخ یا تنے کی طرح کا ٹ ڈالنا ۔ الجذع ( من الابل ) شتر بسال پنجم ( من الشا ۃ ) گو سپند بسال دوم اور چوپایوں کے ساتھ تشبیہ دے کر زمانہ کو بھی جذع کہا جاتا ہے ( کیونکہ زمانہ بھی کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا بقي البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ( ب ق ی ) البقاء کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) فرعون نے یہ دیکھ کر ان کو دھمکایا کہ میری اجازت کے بغیر تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے موسیٰ (علیہ السلام) تو جادو میں تمہارے استاد ہیں، میں ابھی تم سب کا داہنا ہاتھ اور بایاں پیر کٹواتا ہوں اور تم سب کو کھجور کے درختوں پر ٹنگواتا ہوں اور یہ بھی تمہیں ابھی معلوم ہوجاتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) کے رب کا عذاب سخت اور دیرپا ہے یا میرا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ ط) ” فرعون نے مخصوص شہنشاہانہ انداز میں جادوگروں کو ڈانٹ پلائی کہ تمہاری یہ جرأت ! تم لوگوں نے مابدولت کی اجازت کے بغیر موسیٰ کے رب پر ایمان لانے کا اعلان بھی کردیا ! حالانکہ میری اجازت کے بغیر تو اس کے بارے میں تمہیں زبان بھی نہیں کھولنا چاہیے تھی۔ (اِنَّہٗ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ ج) ” اب فرعون کو ایک اور چال سوجھی۔ جس طرح عزیز مصر کی بیوی نے اپنے خاوند کو سامنے دروازے پر دیکھ کر یکدم پینترا بدلا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ یوسف اس کی آبرو کے درپے ہوا تھا ‘ اسی طرح فرعون نے جادوگروں کو مخاطب ہو کر کہا کہ تم لوگوں نے جو مقابلہ کیا ہے یہ محض دکھاوا تھا۔ موسیٰ دراصل تمہارا استاد ہے ‘ تم لوگوں نے اسی سے جادو سیکھ رکھا ہے۔ اندر سے تم لوگ آپس میں ملے ہوئے ہو۔ تمہاری یہ شکست تم لوگوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے اور اس طرح تم لوگوں نے مل ملا کر ہمارے خلاف ایک بہت بڑی سازش کی ہے۔ چناچہ اس نے گرجتے ہوئے جادوگروں کو دھمکی دی : (وَلَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی ) ” تم لوگوں کو میرے اور موسیٰ کے اختیار و مرتبے کا فرق بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون زیادہ سخت سزا دے سکتا ہے اور کس کو بقاء و دوام حاصل ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45. In( Surah Al-Aaraf, Ayat, 123), it has been stated: Indeed it was a plot you conspired in the city to deprive the rightful owners of their power. Here the same thing has been further explained, as if to say: It is not merely a plot between you and him but it appears that Moses is your master and leader. You conspired beforehand that you would be defeated by your master in the encounter to prove that he was a Messenger who had shown the miracle of the staff to frustrate your magic and bring about a political revolution in the country. 46. That is, right hand and left foot or vice versa. 47. This was a very cruel way of punishment in ancient times. They fixed a long pole in the ground or used the trunk of a tree for this purpose. Then a piece of wood was tied across it at the top. Then the hands of the criminal were nailed on to it and he was left hanging there for hours to die a slow, painful death. 48. This was the last trick played by Pharaoh to win the losing game. He held out the threat of a cruel punishment in order to coerce them to admit that there really was a conspiracy between Prophet Moses (peace be upon him) and them against the kingdom. But the fortitude and determination of the magicians turned the tables on him. The very fact that, they were ready to endure the terrible punishment proved to the world that they had sincerely believed in the Prophethood of Moses (peace be upon him) and that the charge of conspiracy was an impudent trick that had been invented as a device.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :45 سورہ اعراف میں الفاظ یہ ہیں اِنَّ ھٰذَا الَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْھَا اَھْلَھَا ، یہ ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے دار السلطنت میں ملی بھگت کر کے کی ہے تاکہ سلطنت سے اس کے مالکوں کو بے دخل کر دو ۔ یہاں اس قول کی مزید تفصیل یہ دی گئی ہے کہ تمہارے درمیان صرف ملی بھگت ہی نہیں ہے ، بلکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ موسیٰ تمہارا سردار اور گرو ہے ، تم نے معجزے سے شکست نہیں کھائی ہے بلکہ اپنے استاد سے جادو میں شکست کھائی ہے ، اور تم آپس میں یہ طے کر کے آئے ہو کہ اپنے استاد کا غلبہ ثابت کر کے اور اسے اس کی پیغمبری کا ثبوت بنا کر یہاں سیاسی انقلاب بر پا کر دو ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :46 یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :47 صلیب یا سولی دینے کا قدیم طریقہ یہ تھا کہ ایک لمبا شہتیر سا لیکر زمین میں گاڑ دیتے تھے ، یا کسی پرانے درخت کا تنا اس غرض کے لیے استعمال کرتے تھے ، اور اس کے اوپر کے سرے پر ایک تختہ آڑا کر کے باندھ دیتے تھے ۔ پھر مجرم کو اوپر چڑھا کر اور اس کے دونوں ہاتھ پھیلا کر آڑے تختے کے ساتھ کیلیں ٹھونک دیتے تھے ۔ اس طرح مجرم تختے کے بل لٹکا رہ جاتا تھا اور گھنٹوں سسک سسک کر جان دے دیتا تھا ۔ صلیب دیے ہوئے یہ مجرم ایک مدت تک یونہی لٹکے رہنے دیے جاتے تھے تاکہ لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر سبق حاصل کریں ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :48 یہ ہاری ہوئی بازی جیت لینے کے لئے فرعون کا آخری داؤ تھا ، وہ چاہتا تھا کہ جادوگروں کو انتہائی خوفناک سزا سے ڈرا کر ان سے یہ اقبال کرالے کہ واقعی یہ ان کی اور موسیٰ علیہ السلام کی ملی بھگت تھی اور وہ ان سے ملکر سلطنت کے خلاف سازش کرچکے تھے ۔ مگر جادوگروں کے عزم و استقامت نے اس کا یہ داؤ بھی الٹ دیا ، انہوں نے اتنی ہولناک سزا برداشت کرنے کے لئے تیار ہوکر دنیا بھر کو یہ یقین دلا دیا کہ سازش کا الزام محض بگڑی ہوئی بات بنانے کے لئے ایک بے شرمانہ سیاسی چال کے طور پر گھرٓ گیا ہے ، اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہ سچے دل سے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لے آئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:71) امنتم لہ۔ میں ضمیر کا مرجع موسیٰ (علیہ السلام) ہے۔ تم اس کی صداقت پر ایمان لے آئے کہ وہ مرسل من اللہ ہے۔ قبل ان۔ پیشتر اس کے کہ۔ یہاں قبل سے یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ اجازت مانگنے کے بعد وہ ان کو ایمان لانے کی اجازت دے دیتا۔ معنی صرف ” بدون “ یا ” بغیر “ کے ہیں۔ جیسے سورة الکہف کی آیت قبل ان تنفد کلمات ربی۔ (18:109) کا یہ مفہوم نہیں کہ کلمات ربی کبھی بھی ختم ہو چکیں گے بلکہ وہاں بھی قبل کے معنی ” بدوں “ یا ” بغیر “ کے ہیں۔ انہ۔ میں بھی ضمیر واحد مذکر غائب حضرت موسیٰ کے لئے ہے۔ انہ لکبیرکم الذی علمکم السحر۔ وہ (یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام) یقینا تمہارا بڑا (گرو) ہے جس نے تم کو بھی جادو سکھایا ہے (یعنی وہ تو تمہارا بھی استاد نکلا) فلا قطعن۔ فاء سببیہ ہے۔ یعنی یہ سبب اس کے کہ امنتم لہ قبل ان اذن لکم میں یہ کروں گا۔ لام قسم کے جواب میں آیا ہے ای اقسم لاقطعن میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اقطعن۔ اقطعن۔ مضارع بانون تاکید ثقیلہ کا صیغہ واحد متکلم ہے میں ضرور کاٹ ڈالوں گا۔ فلا قطعن۔ پس (یہ سبب تمہاری اس گستاخی کے کہ تم بغیر میرے حکم کے حضرت موسیٰ پر ایمان لے آئے) میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ضرور (تمہارے ہاتھ پائوں) کاٹ ڈالوں گا۔ من خلاف۔ الٹی طرف سے ۔ یعنی ایک طرف کا ہاتھ دوسری طرف کا پائوں۔ ولا صلبنکم۔ اور قسم ہے کہ میں ضرور تمہیں سولی پر چڑھائوں گا۔ صلب یصلب تصلیب (تفعیل) سے مضارع تاکید بانون ثقیلہ واحد متکلم کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ الصلب کے معنی سخت کے ہیں۔ اور پشت کو بھی اسی صلابت اور سختی کی وجہ سے صلب کہتے ہیں کسی کو قتل کرنے کے لئے لٹکانے کو صلب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اس شخص کی پیٹھ لکڑی کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے۔ فی جذوع النخل۔ یہاں فی بمعنی علی آیا ہے ای علی جذوع النخل جذوع۔ تنا۔ ٹہنا۔ جذع کی جمع ہے فی جذوع النخلکھجور کے تنوں پر ۔ اینا۔ ہم میں سے۔ یعنی رب موسیٰ اور فرعون میں سے یا حضرت موسیٰ اور فرعون میں سے۔ اشد۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے زیادہ سخت۔ قوی تر۔ اسی طرح ابقی ہے بمعنی زیادہ دیر تک رہنے والا۔ عذابا۔ منصوب بوجہ تمیز کے ہے۔ اینا اشد عذابا وابقی ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔ (20: 72) لن نؤثرک۔ مضارع بانون خفیفہ تاکید جمع متکلم ۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر ایثار مصدر (باب افعال) ہم ہرگز تجھے ترجیح نہ دیں گے۔ ہم ہرگز (تری اطاعت کو) مقدم نہ سمجھیں گے۔ الاثر کے اصل معنی ہیں علامت۔ نشان۔ اثر الشیء کسی شے کا نشان جو اس کے بعد باقی رہ گیا ہو اور جو اصل شے کے وجود پر دال ہو۔ قرآن مجید ہے فانظر الی اثار رحمۃ اللہ۔ (30:50) تم رحمت الٰہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے اس طریق کو بھی آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں کے اطوار وخصائل وعلم و حکمت واعتقادات وغیرہ پر استدلال ہوسکے جیسے ارشاد الٰہی ہے۔ ایتونی بکتاب من قبل ہذا او اثرۃ من علم ان کنتم صدقین (64:4) میرے پاس کوئی کتاب لائو جو اس سے پہلے کی ہو یا علم کے وہ معتبر بقیہ جات جو ان کے مبلغ علم کی نشاندہی کرسکیں۔ یا جیسے کہ ارشاد باری ہے فہم علی اثارہم یھرون (37:70) وہ انہی کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ اس سے الماثر ہے۔ یعنی وہ انسانی مکارم جو نسلاً بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں۔ اسی سے بطور استعارہ الایثار (افعال) کے معنی ہیں (ایک چیز کو اس کے افضل ہونے کی وجہ سے دوسری چیز پر) ترجیح دینا اور پسند کرنا۔ مثلاً آیۃ ہذا۔ لن تؤثرک علی ما جاء نا من البینت ان روشن دلائل کے سامنے جو ہم کو مل چکے ہیں ہم تجھے ہرگز ترجیح نہ دیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی وہ تمہارا گورو ہے اور تم اس کے چیلے ہو جس سے … معلوم ہوتا ہے کہ تم آپس میں طے کر کے آئے ہو کہ پہلے چیلے ایک شعبدہ دکھائیں گے پھر وہ سب کے سامنے ” گورو “ سے شکستک ھا لیں گے، تاکہ دیکھنے والے ان کے ” گورو “ کا کہنا مان لیں اور اس کے معتقدبن جائیں۔ فرعون نے یہ شبہ اسی وقت پیدا کردیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام بھی ان کے متبع ہوجائیں۔ (کبیر)2 شبہ پیدا کرنے کے بعد اوپر سے دھمکی بھی دے دی تاکہ ان کو ایمان پر قائم رہنے سے پھیر دیا جائے اور دوسرے لوگ بھی مرعوب ہوجائیں۔ (کبیر)3 یعنی آیا آخرت کا عذاب جس سے موسیٰ ڈراتے ہیں۔ زیادہ سخت اور دیرپا ہے یا میرا عذاب ؟ فرعون حقیقت حال سے واقف تھا مگر اپنی شکست فاش پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ دھمکیاں دے رہا تھا اور بفوات بک رہا تھا۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ فرعون کا یہ کہنا کہ علمکم السحر عوام کو فریب دینے کے لئے تھا، ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی بےتعلقی وہ بھی جانتا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

’ قال امنتم لہ قبل ان اذن لکم (٠٢ : ١٨) ” تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں جازت دیتا۔ “ یہ ایک سرکش حکمران کی سوچ ہے۔ وہ اس قدر بھی نہیں جانتا کہ یہ بیچارے خود بھی اب اپنے نفوس و قلوب کے مالک نہیں رہے۔ ان کے دلوں پر ایمان چھا گیا ہے۔ یہ خود بھی ایمان کو اب دل سے نکال نہیں سکتے۔ دل تو رحمٰن کی دو انگلیوں میں ہوتا ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔ انہ لکبیرکم ……السحر (٠٢ : ١٨) ” معلوم ہوگیا کہ یہ تمہارا گروہ ہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی۔ “ اس شخص کی نظروں میں شکست تسلیم کرنے کی اصل وجہ یہ ہے۔ یہ وجہ نہیں ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان اس راستے سے داخل ہوگیا جس کا وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے قلب و نظر پر پڑے ہوئے پردے ہٹا دیئے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقی وجوہات ہیں۔ سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو سخت ترین تشدد کی دھمکی دیتے ہیں اور جب وہ لوگوں کے دلوں کو نہیں بدل سکتے تو وہ لوگوں کے جسم اور بدن کو اذیت دیتے ہیں۔ ان کا آخری حربہ یہی ہوتا ہے۔ فلا قطعن ایدیکم و ارجلکم من خلاف ولاوصلبنکم فی حذوع النخل (٠٢ : ١٨) ” اچھا ، اب میں تمہارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سولی دیتا ہوں۔ “ ڈکٹیٹر کا ہتھیار اندھی قوت کا استعمال ہے۔ جانوروں اور درندو کی قوت جو جنگل کے قانون کے نام سے مشہور ہوتی ہے۔ وہ قوت جو کسی کمزور کو چیر پھاڑ کر رکھا جاتای ہے۔ اس کے خیال میں انسان کے درمیان جو دلیل سے بات کرتا ہے اور اس حیوان کے رمیان جو نیچے سے بات کرتا ہے ، کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ولتعلمن اینا اشدعاذاباً و ابقی (٠٢ : ١٨) ” پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ “ لیکن اب وقت اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ ایمان کے احساس نے اس نہایت ہی حقیر ذرے کو ایک عظیم قوت سے ملا دیا تھا۔ یہ ذرہ اب عظیم قوت کا سرچشمہ تھا۔ اس کے سامنے فرعون جیسی عظیم قوت بھی ہیچ ہے۔ اب ان جادوگروں کے سامنے دنیا کی اس مختصر زنگدی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کے دلوں کے سامنے نہایت ہی روشن اور کھلی دنیا کے آفاق کھل گئے تھے۔ اب ان کے سامنے اس دنیا اور اس کے انعام و اکرام کی حقیقت ہی کیا رہ گئی تھی۔ دنیا کا مال و متاع ان کی نظروں میں اب بےوقعت تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جادو گروں کو فرعون کا دھمکی دینا کہ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور کھجور کی ٹہنیوں پر لٹکادوں گا، جادو گروں کا جواب دینا کہ تو جو چاہے کرلے ہم تو ایمان لے آئے جب جادو گروں نے ہار مان لی اور موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاکر سجدہ میں گرپڑے تو فرعون کو بڑی خفت ہوئی اور بھرے مجمع میں اسے ذلت اٹھانی پڑی کھسیانی بلی کھمبا نوچے اور تو کچھ نہ بن سکا جادو گروں پر غصہ اتارا، گر جاچمکا اور کہنے لگا کہ تم کو ان پر ایمان لانے کے لیے مجھ سے اجازت لینا لازم تھا میری اجازت کے بغیر ہی تم ان پر ایمان لے آئے بس سمجھ میں آگیا کہ یہ تمہارا سردار ہے اسی نے تمہیں جادو سکھایا ہے تم سب نے ملکر آپس میں یہ ملی بھگت کی ہے کہ شہر کے رہنے والوں کو نکال دو (کمافی سورة الاعراف) تم چاہتے ہو کہ شہر والے چلے جائیں اور تمہیں لوگوں کا قبضہ ہوجائے یہ تو بہت بڑی بغاوت ہے میں تمہیں اس کا مزہ چکھا دونگا تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر (جن میں ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں ہوگا) کھجور کے تنوں کو سولی بنا کر لٹکا دونگا۔ اسی پر لٹکے رہو گے یہاں تک کہ مرجاؤ گے اور تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سب سے زیادہ سخت عذاب والا اور سب سے زیادہ دیر پا عذاب والا کون ہے (فرعون کو چونکہ پہلے بتادیا گیا تھا کہ (اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی) جس میں اس بات کی توضیح کردی گئی تھی کہ منکر اور رو گردانی کرنے والا مستحق عذاب ہوگا اور اس کے عموم میں فرعون بھی آتا تھا بلکہ تعریضاً اسی کو خطاب کیا گیا تھا اس لیے اس نے یہ بات کہی کہ تم کہتے ہو میں عذاب میں مبتلا ہوں گا دیکھو ایک تمہاری جماعت ہے ایک ہماری جماعت ہے سخت اور دیر پا عذاب میں کون مبتلا ہوتا ہے تمہیں اس کا پتہ چل جائے گا) بعض حضرات نے (اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰی) کا مطلب یہ بتایا ہے کہ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ مجھ میں اور موسیٰ کے رب میں کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے۔ جادو گروں کے دلوں میں ایمان بیٹھ چکا تھا جب فرعون نے انہیں ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی پر چڑھانے کی دھمکی دی تو انہوں نے نہایت صبر و استقامت کے ساتھ بلا تکلف یوں کہہ دیا (لاَ ضَیْرَ اِِنَّا اِِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ) (کچھ ضرر نہیں اس میں شک نہیں ہم اپنے رب کے پاس جا پہنچیں گے) یعنی قتل ہوجانے سے ہمارا کوئی نقصان نہ ہوگا اور ہمارا فائدہ ہی ہوگا جلد سے جلد اپنے رب کے پاس پہنچ جائیں گے۔ اور ہمارے پاس جو کھلی کھلی دلیلیں آگئیں ان دلیلوں کے مقابلہ میں اور اس ذات پاک کے مقابلہ میں جس نے ہمیں پیدا فرمایا ہم ہرگز تجھے ترجیح نہیں دے سکتے تو ہمیں سزا دینا چاہتا ہے جو کچھ تو چا ہے ہمارے بارے میں فیصلہ کر دے ہم ہر تکلیف سہنے کے لیے اور ہر مصیبت جھیلنے کے لیے تیار ہیں تیرا جو کچھ فیصلہ ہوگا اور اس کے نتیجہ میں جو کچھ ہمیں تکلیف پہنچے گی وہ اسی تھوڑی سی دنیا والی تکلیف تک محدود رہے گی ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف فرمائے اور تو نے جو کچھ زبردستی کی ہے ہم سے جادو کرایا ہے اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف فرما دے، اللہ کو چھوڑ کر ہم تجھے کیسے اختیار کرسکتے ہیں۔ اللہ بہتر ہے اور ہمیشہ کے لیے باقی ہے اس کی ذات وصفات کے لیے کبھی بھی فناء نہیں۔ ہم تو اب اسی کے ہوگئے۔ دنیا کی کوئی تکلیف اور تعذیب ہمارا رخ نہیں موڑ سکتی اللہ ہمارا رب ہے ہم اس کے بندے ہیں اسی سے ہر طرح کی امید رکھتے ہیں اور اسی سے ہر طرح کی لالچ رکھتے ہیں۔ سورة الشعراء میں ہے کہ جادو گروں نے کہا۔ (اِِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَایَانَا اَنْ کُنَّا اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ۔ (بیشک ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطائیں معاف فرمادے اس وجہ سے کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہوگئے) اب تو ہمیں جو کچھ لینا ہے اللہ ہی سے لینا ہے اور ڈرنا بھی صرف اسی سے ہے تو نے جو انعام کی امید دلائی تھی ہمیں اس کی کچھ حاجت نہیں۔ قرآن مجید میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ فرعون ملعون کفر سے توبہ کرنے والے جادو گروں کو اپنی دھمکی کے مطابق سزادے سکا تھا یا نہیں۔ حافظ ابن کثیر کا رجحان یہ ہے کہ اس نے انہیں سولی پر لٹکایا اور عذاب دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور عبید بن عمیر کا قول ہے کہ یہ لوگ دن کے اول حصہ میں جادو گر تھے اور اسی دن کے آخری حصہ میں شہید تھے۔ والظاھر من ھذہ السیاقات ان فرعون لعنہ اللہ صلبھم و عذبھم (رض) قال عبداللہ بن عباس وعبید بن عمیر کانوا من اول النھار سحرۃ فصاروا من آخرہ شھداء بررۃ ویؤید ھذا قولھم ربنآ افرغ علینا صبرا و توفنا مسلمین۔ (البدایۃ والنھایۃ ج ١ ص ٢٥٨) بعض حضرات نے فرمایا کہ (اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ ) سے لیکر رکوع کے ختم تک جو کلام ہے یہ بھی جادو گروں ہی کا کلام ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے اس میں واضح طور پر اعلان فرما دیا کہ رب جل شانہ کے پاس جو شخص مجرم ہو کر آئے گا یعنی کافر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے وہ اس کے عذاب میں ہمیشہ رہے گا اور وہاں نہ مرے گانہ جئے گا (نہ مرنا تو ظاہرہی ہے کیونکہ وہاں موت کبھی بھی نہیں آئے گی اور نہ جینا اس لیے فرمایا کہ وہاں کے عذاب شدید میں جینا کوئی جینا نہیں ہے جو سکھ اور آرام کا جینا ہو اسی کو جینا کہا جاتا ہے) اور جو شخص اپنے رب کے پاس مومن ہو کر حاضر ہوگا جس نے نیک کام کئے ہوں گے سو ایسے بندوں کے لیے بلنددر جات ہیں یعنی یہ حضرات ہمیشہ کے رہنے والے باغات میں رہیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور ان میں ہمیشہ رہیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ جب فرعون نے یہ ماجرا دیکھا تو سٹ پٹایا اور جھنجھلا کر بولا کیا میرے اجازت کے بغیر ہی تم اس پر ایمان لے آئے۔ فرعون نے جب دیکھا کہ تمام جاوگر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے ہیں۔ اس سے اسے ساری قوم کے متاثر ہوجانے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے قوم کے دلوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی کہ جادوگروں کا ایمان لے آنا کوئی معتد بہ چیز نہیں۔ کیونکہ وہ میری اجازت کے بغیر ایمان لائے ہیں۔ اس کے بعد شاید فرعون نے یہ محسوس کیا کہ جادوگر یا قوم کے سمجھدار لوگ یہ کہیں کہ جادوگروں کو ایمان لانے کے لیے تیری اجازت کی کیا ضرورت تھی جب کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے سچائی کا مشاہدہ کرلیا۔ اس لیے اس نے مزید کہا ” اِنَّهٗ لَکَبِیْرُکُمْ الخ “ معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) تم سے بھی بڑا جادوگر ہے اور اس فن میں تمہارا استاذ ہے اور یہ جو کچھ تم نے کیا ہے یہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت کیا ہے جس کا پہلے سے تم نے اپنے استاذ موسیٰ کے ساتھ مل کر منصوبہ بنارکھا تھا (روح) ۔ 44:۔ چناچہ تم نے یہ سب کچھ ایک طے شدہ سازش کے تحت کیا ہے جس سے مجھے اپنی رعیت کے روبرو شرمسار ہونا پڑا۔ لہذا اب میں تم کو اس کی سخت سزا دوں گا مخالف جانب سے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا۔ یعنی داہنا ہاتھ بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور داہنا پاؤں اور پھر تمہیں کھجور کے درختوں پر سولی دیدوں گا۔ پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے۔ یعنی تم نے یہ سمجھ لیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا کر تم نجات کے ٹھیکیدار بن گئے اور ہم (فرعون اور اس کے ہمنوا) جہنم کے سخت اور ابدی عذاب میں مبتلا ہوں گے تو یہ تمہیں ابھی معلوم ہوجائے گا کہ میرا عذاب سخت اور دیرپا ہے، یا رب موسیٰ کا جس پر تم ایمان لائے ہو۔ یعنی علی ایمانکم بہ انا، ورب موسیٰ علی ترک الایمان (خازن ج 4 ص 222) ان دھمکیوں سے فرعون کا مقصد یہ تھا کہ شاید وہ خوف زدہ ہو کر ایمان سے واپس آجائیں گے لیکن اس سے ان کا ایمان ویقین اور مستحکم ہوگیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7 1 فرعون یہ دیکھ کر بہت سٹ پٹایا اور جادوگروں سے کہنے لگا کہ تم میری اجازت اور حکم دینے سے پہلے ہی موسیٰ پر ایمان آئے میں نے تم کو اجازت نہیں دی اور تم اس پر ایمان لے آئے بلاشبہ وہ موسیٰ تم سب کا بڑا اور استاد ہے جس نے تم کو یہ جادو سکھایا اور تعلیم کیا ہے لہٰذا ! اب تم سب کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پائوں کٹوائوں گا اور تم کو کھجوروں کے ٹھنڈ پر سولی دوں گا اور یقینا تم کو یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ ہم دونوں یعنی میں اور موسیٰ کے پروردگار میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہوتا ہے۔ یعنی اعجاز موسوی کے بعد جادوگروں کے نعرہ حق نے رنگ بدل دیا فرعون نے یہ دیکھ کر جادوگروں کو الزام دیا کہ جادو سکھانے میں یہ تمہارا استاد ہے تم استاد شاگردوں نے میری حکومت کے تختہ الٹنے کی سازش کی ہے یہ الزام لگانے کے بعد سزا کی دھمکی دی کہ تمہارے ہاتھ پائوں کٹوا کر تم کو سولی دوں گا اور عبرت کے طور پر یہ بھی کہا کہ اونچی چیز پر لٹکائوں گا تاکہ لوگوں کو عبرت ہو کہ حکومت سے بغاوت کا سب انجام دیکھیں اور چونکہ حضرت موسیٰ اپنی تقریر میں عذاب الٰہی سے ڈرا چکے تھے اس لئے اپنے عذاب کا مقبالہ کم بخت نے خدا کے عذاب سے کیا۔ مطلب یہ تھا کہ میرا عذاب سخت بھی ہے اور دریپا بھی ل یکن جادوگروں کے قلب میں اسلام اپنا گھر کرچکا تھا اس لئے انہوں نے نہایت دلیری اور ہمت سے جواب دیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں تمہارا بڑا جس نے جادو سکھایا یہ شاید رب کو کہنے لگا۔ 12