Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 72

سورة طه

قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡثِرَکَ عَلٰی مَا جَآءَنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیۡ فَطَرَنَا فَاقۡضِ مَاۤ اَنۡتَ قَاضٍ ؕ اِنَّمَا تَقۡضِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ؕ۷۲﴾

They said, "Never will we prefer you over what has come to us of clear proofs and [over] He who created us. So decree whatever you are to decree. You can only decree for this worldly life.

انہوں نے جواب دیا کہ ناممکن ہے کہ ہم تجھے ترجیح دیں ان دلیلوں پر جو ہمارے سامنےآ چکیں ، اور اس اللہ پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اب تو تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر ، تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے وہ اسی دنیوی زندگی میں ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا لَن نُّوْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ ... They said: "We prefer you not over what have come to us of the clear signs..." meaning, "We do not chose you over the guidance and conviction that we have received. " ... وَالَّذِي فَطَرَنَا ... and to Him (Allah) Who created us. It could be that they were swearing, "By He Who has created us." It also could be connected in meaning to the clear signs mentioned before it. In this case it would mean, "We do not prefer you over our Originator and Creator, Who produced us from a beginning that was nothing. He created us from clay (or mud). Therefore, He alone deserves worship and humility and you do not (Fir`awn)!" ... فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ... So decree whatever you desire to decree, "Do whatever you wish and whatever your hands are able to achieve." ... إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا for you can only decree (regarding) this life of the world. meaning, "You only have power in this world and it is a world that will come to an end. Verily, we are hoping in the eternal abode."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب والذی فطرنا کا عطف ما جاءنا پر ہو اور یہ بھی صحیح ہے تاہم بعض مفسرین نے اسے قسم قرار دیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہم تجھے ان دلیلوں پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے سامنے آچکیں۔ 72۔ 2 یعنی تیرے بس میں جو کچھ ہے وہ کرلے ہمیں معلوم ہے کہ تیرا بس صرف اس دنیا میں ہی چل سکتا ہے جب کہ ہم جس پروردگار پر ایمان لائے ہیں اس کی حکمرانی تو دنیا وآخرت دونوں جگہوں پر ہے مرنے کے بعد ہم تیری حکمرانی اور تیرے ظلم وستم سے تو بچ جائیں گے کیونکہ جسموں سے روح کے نکل جانے کے بعد تیرا اختیار ختم ہوجائے گا لیکن اگر ہم اپنے رب کے نافرمان رہے تو ہم مرنے کے بعد بھی رب کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے وہ ہمیں سخت عذاب دینے پر قادر ہے رب پر ایمان لانے کے بعد ایک مومن کی زندگی میں جو عظیم انقلاب آنا اور دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی پر جس طرح یقین ہونا چاہیے اور پھر اس عقیدہ و ایمان پر جو تکلیفیں آئیں انھیں جس حوصلہ وصبر اور عزم و استقامت سے برداشت کرنا چاہیے جادو گروں نے اس کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا کہ ایمان لانے سے قبل کس طرح وہ فرعون سے انعامات اور دنیاوی جاہ ومنصب کے طالب تھے لیکن ایمان لانے کے بعد کوئی ترغیب وتحریض انھیں متزلزل کرسکی نہ تشدید وتعذیب کی دھمکیاں انھیں ایمان سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] جادوگروں کی جرأت ایمانی اس سزا کے اعلان پر جادو گر فرعون سے بڑی جرأت سے کہنے لگے : تم جو چاہے سمجھو ہم نے تو وہی بات کہی ہے جس کی ہمارے ضمیر نے شہادت دی ہے۔ ہم سب کچھ سمجھ سوچ کر ایمان لائے ہیں۔ لہذا اب تم جو سزا دینا چاہو دے لو۔ زیادہ سے زیادہ تم یہی کچھ کرسکتے ہو کہ ہمیں جان سے مار ڈالو گے، اور اس بات کی اب ہمیں پروا نہیں رہی۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری سابقہ خطائیں معاف فرما دے اور بالخصوص اس گناہ کو جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا اور ہم ان پیغمبروں کے مقابلہ پر اتر آئے۔ کہتے ہیں کہ جب جادوگروں نے سیدنا موسیٰ اور سیدنا ہارون کی شکل و صورت دیکھی تو سمجھ گئے کہ یہ جادوگر نہیں ہوسکتے یہ مقابلہ نہ کرنا چاہئے پھر فرعون کے ڈر سے ایسا کیا۔ یہ ہے ایمان اور کفر کا فرق۔ یہی جادوگر مقابلہ سے پہلے فرعون کے سامنے جی حضور، جی حضور کہتے تھکتے نہ تھے۔ کہ فتح ہونے کی صورت میں اس سے انعام و اکرام ملنے کی التجا بھی کر رہے تھے اور فرعون انھیں ایسے وعدے بھی دے رہا تھا مگر جب ایمان لے آئے تو اسی جابر بادشاہ کے سامنے اکڑ کر اس جرأت سے بات کرتے ہیں اور اگر وہ سولی چڑھا دینے کی دھمکیاں دیتا ہے تو اس کی پروا تک نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰي مَا جَاۗءَنَا ۔۔ : مگر جادوگروں کا ایمان تو ایک لمحہ میں اس قدر پختہ ہوگیا تھا کہ نہ ان کے دل میں مال و دولت اور دنیوی جاہ و منصب کی کچھ قدر باقی رہ گئی، جس کے لیے انھوں نے یہ مقابلہ کیا تھا اور نہ اب فرعون کی دھمکیوں کا ان پر کچھ اثر ہوا۔ چناچہ انھوں نے کہا کہ تو اس سے زیادہ کیا کرسکتا ہے کہ ہماری چند روزہ دنیاوی زندگی کا خاتمہ کر دے ؟ سو ہمیں اس کی پروا نہیں۔ مگر آج ایک شخص ساٹھ سال قرآن پڑھ کر بھی حقیر دنیا کے بدلے اپنے ایمان کو فروخت کردیتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَالُوا لَن نُّؤْثِرَ‌كَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَ‌نَا (They said, |"We will never prefer you over the clear signs that have come to us, and over Him who created us.|" - 20:72). The magicians, however, stood firm and did not waver in the face of the Pharaoh&s threats. They told him plainly that they would not give him, nor anything he said, preference over the clear proofs and the miracles which Allah had shown to them. Sayyidna ` Ikrimah (رض) says that when the magicians prostrated themselves before Allah, He gave them a glimpse of the eminent places and the gifts which were to be their reward in Paradise. They confirmed their belief in the one God Who created the earth and the skies and rejected Pharaoh&s claim to divinity: While neglecting the threats of the Pharaoh they further said: |"So you do what you want and punish us in whatever manner you choose. And, |"You can punish us as long as we live but when we die we will be out of your reach. On the other hand we are in the power of Allah both in this and after death, and His punishment is of greater concern to us|".

قَالُوْا لَنْ نُّؤ ْثِرَكَ عَلٰي مَا جَاۗءَنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالَّذِيْ فَطَرَنَا، جادوگروں نے فرعون کی یہ سخت دھمکی اور سخت سزا دینے کا اعلان سن کر اپنے ایمان پر بڑی پختگی کا ثبوت دیا کہنے لگے کہ ہم تجھے یا تیرے کسی قول کو ان بینات و معجزات پر ترجیح نہیں دے سکتے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے ہمارے سامنے آ چکے ہیں۔ حضرت عکرمہ نے فرمایا کہ جادوگر جب سجدہ میں گرے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جنت کے ان مقامات عالیہ اور نعمتوں کا مشاہدہ کرا دیا جو ان کو ملنے والے تھے اس کو ان لوگوں نے کہا کہ ان بینات کے ہوتے ہوئے ہم تیری بات نہیں مان سکتے (قرطبی) نیز خالق کائنات رب سموات کو چھوڑ کر تجھے اپنا رب نہیں مان سکتے، فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اب جو تیرا جی چاہے ہمارے بارے میں فیصلہ کرے اور جو چاہے سزا تجویز کر اِنَّمَا تَقْضِيْ هٰذِهِ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا یعنی اگر تو نے ہمیں سزا دے بھی دی تو وہ سزا صرف اسی دنیا کی چند روزہ زندگی ہی تک ہوگی مرنے کے بعد تو تیرا ہم پر قبضہ نہیں رہے گا بخلاف حق تعالیٰ کے کہ ہم اس کے قبضہ میں مرنے سے پہلے بھی ہیں اور مرنے کے بعد بھی، اس کی سزا کی فکر سب سے مقدم ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰي مَا جَاۗءَنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالَّذِيْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ۝ ٠ۭ اِنَّمَا تَقْضِيْ ہٰذِہِ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝ ٧٢ۭ أثر والإيثار للتفضل ومنه :[ آثرته، وقوله تعالی: وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر/ 9] وقال : تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 91] وبَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ الأعلی/ 16] . وفي الحدیث : «سيكون بعدي أثرة» «5» أي : يستأثر بعضکم علی بعض . ( ا ث ر ) اور الایثار ( افعال ) کے معنی ہیں ایک چیز کو اس کے افضل ہونے کی وجہ سے دوسری پر ترجیح دینا اور پسندکرنا اس سے آثرتہ ہے یعنی میں نے اسے پسند کیا ۔ قرآن میں ہے :۔ { وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ } [ الحشر : 9] دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں { تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا } [يوسف : 91] بخدا اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت بخشی ہے ۔ { بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا } [ الأعلی : 16] مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ (5) حدیث میں ہے : سیکون بعدی اثرۃ ۔ ( میرے بعد تم میں خود پسندی آجائے گی ) یعنی تم میں سے ہر ایک اپنے کو دوسروں سے بہتر خیال کرے گا ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ فطر أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] ( ف ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٢) ان جادوگروں نے فرعون کو صاف جواب دے دیا کہ ہم تیری اطاعت اور عبادت کو کبھی ترجیح نہیں دیں گے ان دلائل اور اوامرو نواہی اور کتاب اور رسول کے مقابلے میں جو ہمیں ملے ہیں اور اس ذات کی عبادت کرنے پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے تمہیں جو کچھ کرنا کرو اور جو کچھ ہمارے خلاف فیصلہ کرنا چاہو، دل کھول کر کرلو تو اس دنیاوی زندگی میں تو ہمارے خلاف فیصلہ کرسکتا ہے، آخرت میں تو تیرا ہم پر کوئی زور نہیں چلے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآءَ نَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا) ” اب ہمارے رب کی طرف سے ہم پر حق واضح کردیا گیا ہے ‘ حقیقت ہم پر منکشف ہوچکی ہے ‘ ہم اپنے رب پر ایمان لا چکے ہیں ‘ اب ہمارے لیے تیری مرضی و منشا کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ (فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ط) ” اب تو ہمیں جو سزا دینا چاہے دے لے ‘ خواہ ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کر دے ‘ مگر ہم جس حق پر ایمان لائے ہیں اب اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ (اِنَّمَا تَقْضِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ) ” تو ہمارے ساتھ زیادہ سے زیادہ کر بھی کیا سکتا ہے ؟ صرف ہماری اس دنیوی زندگی ہی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکتا ہے نا ! جو آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں ویسے بھی ختم ہونے والی ہے۔ اگر تو اسے کل کے بجائے آج ختم کر دے گا تو اس میں ہمارے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49. It may also be interpreted like this: It cannot be that we should prefer you to these plain signs which have come before us and to that Being Who has created us.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :49 دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے : یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم ان روشن نشانیوں کے مقابلے میں جو ہمارے سامنے آ چکی ہیں ، اور اس ذات کے مقابلے میں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ، تجھے ترجیح دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:72) والذی فطرنا۔ فطرنا۔ ماضی واحد مذکر غائب نا ضمیر مفعول جمع متکلم فطر مصدر ۔ جس کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں۔ عدم کے پردہ کو پھاڑ کر وجود میں لانا یعنی پیدا کرنا۔ اس نے ہمیں پیدا کیا۔ وہ ہمیں نیست سے ہست میں لایا۔ عدم سے وجود میں لایا۔ اس کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) وائو عطف کی ہے اور اس کا عطف ماجاء نا من البینت پر ہے یعنی ان روشن دلائل کے سامنے جو ہم کو مل چکے ہیں اور اس ذات کے مقابلہ میں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ہم تجھے ہرگز ترجیح نہیں دیں گے۔ (2) وائو قسم کے لئے ہے اس صورت میں دو وجہیں ہوں گی۔ (الف) جواب قسم محذوف سمجھا جائے اور عبارت یوں ہوگی والذی فطرنا لن نؤثرک قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ہم تجھے ہرگز ترجیح نہ دیں گے۔ (ب) جواب قسم کو مقدم لا کر قسم کو مؤخر لایا گیا ہے۔ اقض۔ قضی یقضی (ضرب) قضاء فعل امر واحد مذکر حاضر تو فیصلہ دے دے تو کر گذر۔ قاض اسم فاعل واحد مذکر اصل میں قاضی تھا۔ یاء کو حذف کردیا گیا اور تنوین عوض یاء ض کو دی گئی۔ قضاء کے معنی ہیں آخری یا قطعی حکم فاقض ما انت قاض۔ تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کرلے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مگر جادو گروں کا ایمان تو ایک لمحہ میں اس قدر پختہ ہوگیا کہ اب فرعون کی دھمکیوں کا بھی ان پر کچھ اثر نہ تھا۔ چناچہ انہوں نے کہا کہ تو اس سے زیادہ کیا کرسکتا ہے کہ ہماری چند روزہ دنیاوی زندگی کا خاتمہ کر دے۔ سو ہمیں اس کی پرواہ نہیں مگر آج ایک شخص ساٹھ سال قرآن پڑھ کر بھی دنیائے دو دن کے بدلے اپنے ایمان کو فروخت کردیتا ہے۔ (کذافی الکبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا لن ……وابقیٰ (٣٧) ’ یہ ہے ایمان کا احساس ، ان دلوں کے اندر جو چند لمحات قبل فرعون کی پوجا کرتے تھے اور فرعون کے قریب کے لئے وہ ایک دور سے سے آگے بڑھتے تھے۔ لیکن اچانک ان کے دلوں میں قوت کا ایک نیا سرچشمہ پھوٹ پڑا۔ اب وہ فرعون کی مملکت ، اس کی قوت ، اس کے مرتبے اور اس کے اقتدار کو چیلنج کر رہے ہیں۔ قالوا لن نوثرک علی ماجآء نا من البینت والذی فطرنا (٠٢ : ٢٨) ” جادوگروں نے جواب دیا قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آجانے کے بعد بھی تجیھ ترجیح دیں۔ “ یہ بات ہمارے لئے بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اللہ جل شانہ بہت بڑا اور بہت بلند ہے۔ فاقض ما انت قاص (٠٢ : ٢٨) ” تو جو کچھ کرنا چاہے کرلے۔ “ تمہارے پاس جو قوت ہے اسے استعمال کرلو۔ انما تقضی ھذہ الحیوۃ الدنیا (٠٢ : ٢٨) ” تو زیادہ سے زیادہ بس اس دنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ “ کیونکہ تیری حکومت اسی دنیا میں ہے۔ اس دنیا سے آگے تمہاری حکومت نہ ہوگی۔ اس دنیا کی زندگی تو بہت ہی مختصر ہے۔ بہت ہی معمولی ہے ، تمہارے پاس جو سزا ہے وہ ان دلوں کے لئے بہت آسان ہے جن کا رابطہ اللہ سے ہوجائے ، جن کی امیدیں ابدی زندگی کی بہترین کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ فرعون کی دھمکیوں کے جواب میں پوری جرات ایمانی کے ساتھ جادوگروں نے کہا کہ حق کے دلائل ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے جن سے ہم اپنے خالق ومالک کو پہچان لیا ہے۔ لہذا اب ان دلائل سے روگردانی کر کے اور اپنے خالق کو چھوڑ کر تجھے کبھی ماننے کے نہیں ہمیں نہ تیرے عذاب کا ڈر ہے نہ تیری داد و دہش کی ہمیں ضرورت ہے۔ ” فَاقْضِ مَا اَنْتَ قَاضٍ “ تو ہمارے ساتھ جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کرلے ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ ” وَالَّذِيْ فَطَرَنَا “ یہ ” مَا جَاءَنَا “ پر معطوف ہے۔ 46:۔ آیت کا یہ حصہ اور اگلی آیت ماقبل کے لیے دلیل و علت ہے مع ما بعدہ تعلیل لعدم المبالاۃ المستفاد مما سبق من الامر بالقضاء (روح ج 16 ص 233) ۔ ہمیں تیری پرواہ نہیں رہی تو جو چاہے کرلے تاکہ وہ ہمارے تمام گناہ معاف کردے ہمارا مطلوب و مقصود اس قدر اعلیٰ وارفع ہے کہ ہم تیری دنیوی سزا کو خاطر میں بھی نہیں لاتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

72 ان نو مسلم جادوگروں نے جواب دیا کہ ہم ان صاف اور واضح دلائل کے مقابیل میں جو ہم کو پہنچ چکے ہیں اور اس اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں جس نے ہم کو پیدا کیا ہے تجھ کو ہرگز ترجیح نہیں دیں گے اور نہتجھ کو اختیار کریں گے بس تجھ کو جو کچھ کرنا ہے وہ کر گزر اور کر ڈال تو محض اس دنیا کی زندگی ہی میں جو کچھ کرے کرلے اور کر ہی کیا سکتا ہے تو اسی زندگی ہی میں اپنا حکم چلا سکتا ہے۔ نو مسلم جادوگروں نے دلیرانہ جواب دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ جس خدا نے اپنے واضح دلائل ہم تک پہنچائے اور جس نے ہم کو پیدا کیا ہم اس کے مقابلہ میں تجھ کو ت رجیح نہیں دے سکتے۔ رہی سزا تو ہم ہر قسم کی سزا بھی جھیلنے کو تیار ہیں تیری سزا ہی کیا دنیا کی زنگدی میں تو اپنا حکم چلا سکتا ہے اور ہمارے اجسام کو تکلیف پہونچا سکتا ہے باقی روح پر تیرا کوئی اختیار نہیں تو ہمارے اعتقاد کو نہیں بدل سکتا۔