Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 73

سورة طه

اِنَّـاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغۡفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَاۤ اَکۡرَہۡتَنَا عَلَیۡہِ مِنَ السِّحۡرِ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿۷۳﴾ الثلٰثۃ

Indeed, we have believed in our Lord that He may forgive us our sins and what you compelled us [to do] of magic. And Allah is better and more enduring."

ہم ( اس امید سے ) اپنے پروردگار پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں معاف فرما دے اور ( خاص کر ) جادوگری ( کا گناہ ) جس پر تم نے ہمیں مجبور کیا ہے اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّا امَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا ... Verily, we have believed in our Lord, that He may forgive us our faults, "Whatever evils that we did." It specifically means, `which we were forced to do of magic, in order to oppose the sign of Allah and the miracle of His Prophet.' Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said concerning Allah's statement, وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ (and the magic to which you compelled us), "Fir`awn took forty boys from the Children of Israel and commanded that they be taught magic at Al-Farama. He said, `Teach them knowledge that no one in the land knows."' Ibn Abbas then said, "They were of those who believed in Musa and they were of those who said, امَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ... We have believed in our Lord, that He may forgive us our faults, and the magic to which you did compel us." Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said the same. Allah's statement, ... وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى And Allah is better as regards reward in comparison to your reward, and more lasting. means, "He is better for us than you." وَأَبْقَى (and more lasting), More lasting in reward than what you promised us and made us aspire to. It is apparent that Fir`awn (may Allah curse him) was bent upon their punishment, and that what he did to them was a mercy from Allah for them. This is why Ibn Abbas and others of the Salaf said, "They woke up in that morning as magicians, but they became witnesses of faith by the evening."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ' ہماری وہ غلطیاں بھی معاف فرما دے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں تیرے مجبور کرنے پر ہم نے عمل جادو کی صورت میں کیں۔ ' اس صورت میں مَا اَکْرَھْتَنَا کا عطف خَطَایانا پر ہوگا۔ 73۔ 2 یہ فرعون کے الفاظ، (وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي) 20 ۔ طہ :71) کا جواب ہے کہ اے فرعون ! تو جو سخت ترین عذاب کی ہمیں دھمکی دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمیں اجر وثواب ملے گا، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَمَا أَكْرَ‌هْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ‌ (And the magic you had compelled us on - 20:73). The magicians now accused the Pharaoh of having forced them to practice magic else they would not have taken it up. Here a question may arise that the magicians came to the contest of their own free choice and had even negotiated beforehand their reward if they were victorious. How, then, could they justify their accusation that the Pharaoh had forced them to practice magic? A possible answer can be that whereas the magicians, to begin with, were tempted by promises of generous rewards for taking part in the contest they soon realized that they stood no chance against miracles and wanted to withdraw from the contest. It was then that the Pharaoh forced them to take up the challenge of Musa (علیہ السلام) . Another explanation is that under a law passed by the Pharaoh everybody was compelled to learn magic. The propitious end of &Asiyah (رض) ، the Pharaoh&s wife Qurtubi has mentioned in his commentary that while the contest between vice and virtue was in progress, the Pharaoh&s wife kept herself informed of the minute to minute developments and when she learned that Sayyidna Musa (علیہ السلام) had emerged victorious, she at once declared her adherence to the True Faith. When the Pharaoh was informed of his wife&s defection, he ordered that a huge rock be thrown upon her. When &Asiyah saw the rock coming, she raised her eyes in supplication to Allah who took away her soul so that the rock fell on her lifeless body.

وَمَآ اَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ، جادوگروں نے اب فرعون پر یہ الزام لگایا کہ ہمیں جادوگری پر تو نے ہی مجبور کر رکھا تھا ورنہ ہم اس لغو کام کے پاس نہ جاتے، اب ہم ایمان لا کر اللہ سے اس جادو کے گناہ کی بھی معافی مانگتے ہیں۔ یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ یہ جادوگر تو خود اپنے اختیار سے مقابلہ کرنے کے لئے آئے تھے اور اس مقابلہ کی سودا بازی بھی فرعون سے کرچکے تھے کہ ہم غالب آئیں تو کیا ملے گا، پھر انکار فرعون پر یہ الزام لگانا کہ تو نے ہمیں جادو کرنے پر مجبور کر رکھا تھا یہ کیسے صحیح ہوگا ؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ جادوگر شروع میں تو شاہی انعام و اکرام کے لالچ میں مقابلہ کے لئے تیار تھے بعد میں ان کو کچھ احساس ہوا کہ ہم معجزہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس وقت فرعون نے ان کو مجبور کیا۔ دوسری وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ فرعون نے اپنے ملک میں جادوگری کی تعلیم کو جبری بنایا ہوا تھا اس لئے ہر شخص جادو سیکھنے پر مجبور تھا۔ (روح) اہلیہ فرعون آسیہ کا انجام خیر : تفسیر قرطبی میں ہے کہ حق و باطل کے اس معرکہ کے وقت فرعون کی بیوی برابر خبر رکھتی رہی کہ انجام کیا ہوا۔ جب اس کو یہ بتلایا گیا کہ موسیٰ و ہارون غالب آگئے تو فوراً اس نے اعلان کردیا کہ میں بھی رب موسیٰ و ہارون پر ایمان لے آئی۔ فرعون کو اپنے گھر کی خبر لگی تو حکم دیا کہ ایک بڑے پتھر کی چٹان اٹھا کر اس کے اوپر ڈال دو ، آسیہ نے جب یہ دیکھا تو آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور اللہ سے فریاد کی۔ حق تعالیٰ نے پتھر اس کے اوپر گرنے سے پہلے اس کی روح قبض کرلی پھر پتھر اس بےجان جسم پر گرا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطٰيٰنَا وَمَآ اَكْرَہْتَنَا عَلَيْہِ مِنَ السِّحْرِ۝ ٠ۭ وَاللہُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰي۝ ٧٣ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ خطأ الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب : أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله، وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] . والثاني : أن يريد ما يحسن فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء/ 92] . والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان، لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا لتولّد ذلک الفعل منه ( خ ط ء ) الخطاء والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔ یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔ اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔ الخطیتۃ یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة/ 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ بقي البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ( ب ق ی ) البقاء کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٣) ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لاچکے تاکہ وہ ہمارا کفر و شرک معاف کردیں اور تم جادو کے معاملہ میں جو ہم پر دباؤ ڈالا ہے اس کو بھی معاف کردیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو ثواب اور بزرگی ہے وہ اس مال میں سے جو تم نے ہمیں دیا ہے کئی گنا اچھی اور پائیدار ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَلَنَا خَطٰیٰنَا وَمَآ اَکْرَہْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ ط) ” تیرے مجبور کرنے پر ہم نے اپنے جادو کے بل پر اللہ کے پیغمبر کا مقابلہ کرنے کی جو جسارت کی ہے ہم اپنے رب سے اس جرم کی معافی مانگتے ہیں۔ ان جادوگروں سے تو یہی کہا گیا ہوگا کہ تمہیں ایک بہت بڑے جادوگر کا مقابلہ کرنا ہے ‘ لیکن جب یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں آئے تو آپ ( علیہ السلام) کی با رعب شخصیت سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور مقابلہ کرنے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوگئے۔ قبل ازیں آیت ٦٢ میں ان کی اس کیفیت کی جھلک دکھائی گئی ہے۔ اب جادوگروں کے اس اقراری بیان سے مزید واضح ہوگیا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ لینے اور آپ ( علیہ السلام) کی تقریر سن لینے کے بعد آپ ( علیہ السلام) سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتے تھے ‘ لیکن بالآخر فرعون کے مجبور کرنے پر وہ اس پر آمادہ ہوگئے تھے۔ (وَاللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ” حق کو قبول کرلینے اور اللہ پر ایمان لا چکنے کے بعد اب ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوچکی ہے کہ بقاء و دوام صرف اللہ ہی کو حاصل ہے اور اسی کا راستہ سب سے بہتر راستہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: اندازہ لگائیے کہ جب ایمان دل میں گھر کر جاتا ہے تو وہ انسان کی سوچ اور اس کے ارادوں میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کردیتا ہے۔ یہ وہ جادوگر تھے جن کی سب سے بڑی معراج یہ تھی کہ فرعون ان کو انعام و اکرام سے نواز کر اپنی خوشنودی اور تقرب عطا کردے۔ چنانچہ مقابلے پر آنے کے وقت فرعوعن سے ان کا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ : اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں کوئی اجرت بھی ملے گی؟ (دیکھئے سورۃ اعراف : 13 لیکن جب حق کھل کر ان کے سامنے آگیا اور اس پر ایمان و یقین دل میں گھر کر گیا تو انہیں نہ فرعون کی ناراضی کا خوف رہا، نہ اپنے ہاتھ پاؤں کٹوانے یا سولی پر لٹکنے کا۔ اللہ اکبر !

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:73) اکرھتنا۔ الکرہ والکرہ سخت ناپسندیدگی۔ ہم معنی ہیں۔ بعض کے نزدیک کرہ (کاف کی فتحہ کے ساتھ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبردستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ (کاف کے ضمہ کے ساتھ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے ناخواستہ طور خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے اور یہ دو قسم پر ہے :۔ (1) ایک وہ جو طبعاً ناگوار ہو۔ (2) جو عقل یا شریعت کی رو سے مکروہ ہو۔ لہٰذا ایک ہی چیز کے متعلق انسان کہہ سکتا ہے کہ میں اسے پسند کرتا ہوں اور برا بھی سمجھتا ہوں یعنی مجھے طبعاً تو پسند ہے لیکن عقل و شریعت کی رو سے اسے برا سمجھتا ہوں۔ کرھت کا لفظ دونوں قسم کی کراہت کے متعلق استعمال ہونا ہے گو زیادہ تر ناگوار (کرہ) کے معنی ہی دیتا ہے۔ اکراہ (افعال) کے معنی ہی دیتا ہے۔ اکراہ (افعال) زبردستی کام پر مجبور کرنا۔ جیسے لا اکراہ فی الدین (2:256) دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ یا ناپسندیدہ کام پر آمادہ کرنا۔ جیسے آیۂ ہذا ۔ وما اکرھتناعلیہ من السحر۔ جادو کے جس کام پر تو نے ہمیں مجبور کیا ہے۔ یہ جملہ معطوف ہے اس کا معطوف علیہ خطینا ہے تاکہ وہ بخش دے ہمارے لئے ہماری خطائوں کو اور اس (قصور) کو بھی جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا ہے۔ یعنی فن سحر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انا امنا بربنا لیغفرلنا خطینا وما اکرھتنا علیہ من السحر (٠٢ : ٣٨) ” ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا ہے ، درگزر فرمائے۔ ‘ تم نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم جادوگری کریں اور ہم تیرے حکم سے سرتابی نہ کرسکتے تھے۔ امید ہے کہ اس ایمان لانے کی وجہ سے اللہ ہمارے گناہ معاف کر دے۔ واللہ خیر و ابقی (٠٢ : ٣٨) ” اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے الا ہے //اللہ نے جادگروں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس سرکش ڈکٹیٹر کے سامنے تم معلم اور مبلغ کا انداز اختیار کرلو۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ یہ ” خَطٰیٰنَا “ پر معطوف ہے جادو پر مجبور کرنے کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس لڑکوں کو جبرًا چھین کر جادوگروں کے حوالے کیا اور ان سے کہا کہ ان کو جادو کے ایسے کمالات سکھا دو کہ دنیا کا کوئی جادوگر ان پر غالب نہ آسکے یہ اسرائیلی جادوگر بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں آئے اور ایمان لانے کے بعد فرعون سے کہا کہ تو نے ہم کو جادو پر مجبور کیا تھا۔ اب ہم اللہ سے یہ گناہ عظیم بخشوانا چاہتے ہیں (ابن کثیر ج 3 ص 159) ۔ یا اکراہ سے مقابلے میں آنے پر مجبور کرنا مراد ہے جیسا کہ بعض روایتوں میں ہے۔ جب جادوگر جمع ہوگئے تو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعض نشانات دیکھ کر یقین کرلیا کہ یہ جادو نہیں اس کا مقابلہ ناممکن ہے۔ مگر فرعون کے ڈر سے بادل ناخواستہ مقابلہ میں شریک ہوئے (روح، بحر وغیرہ) ۔ 48:۔ یہ فرعون کے قول ” اَیُّنَا اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰی “ کا جواب ہے۔ یعنی مومنین کے لیے اللہ کا اجر وثواب تیرے انعامات سے بہتر ہے اور نافرمانوں کے لیے اس کا عذاب تیرے عذاب سے زیادہ دیر پا ہے۔ (” وَاللّٰهُ خَیْرٌ ثَوَابًا “ ) لمن اطاعہ (” وَّ اَبْقٰی “ ) عتابا لمن عصاہ وھو رد لقول فرعون و لتعلمن اینا اشد عذابا وابقی (مدارک ج 2 ص 47) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

73 بس اب ہم اپنے پروردگار پر ایمان لا چکے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہ معاف فرما دے اور اس جادو کو بھی معاف فرما دے جس کا ارتکاب تو نے ہم سے زبردستی کرایا ہے اور اللہ تعالیٰ بدرجہا بہتر ہے وہ ہمیشہ رہنے والا اور سدا باقی رہنے والا ہے۔ یعنی ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہمارے کفر وغیرہ کو معاف کر دے اور تو نے جو ہم کو مجبور کر کے خدا کے پیغمبروں کا جادو سے مقابلہ کرایا ہے اس کو بھی معاف فرما دے اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات کے اعتبار سے بھی بدرجا بہتر اور سزا و جزا کے اعتبار سے بھی دائم اور ہمیشہ رہنے والا ہے لہٰذا اس کا عذاب بھی دائمی ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں زور آوری کروایا کہتے ہیں کہ جادو گر حضرت موسیٰ کی نشانی دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ یہ جادو نہیں مقابلہ نہ کریئے پھر فرعن کی خاطر سے کیا شاید فرعون جو ڈراتا تھا سو ان پر نہ کرسکا دل میں ڈر گیا موسیٰ (علیہ السلام) کی نشانی سے۔ 112