Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 82

سورة طه

وَ اِنِّیۡ لَغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہۡتَدٰی ﴿۸۲﴾

But indeed, I am the Perpetual Forgiver of whoever repents and believes and does righteousness and then continues in guidance.

ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راہ راست پر بھی رہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَامَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ... And verily, I am indeed forgiving to him who repents, believes and does righteous good deeds, meaning, "Whoever turns to Me in repentance, then I will accept his repentance regardless of whatever sin he did." Allah, the Exalted, even accepts the repentance of the Children of Israel who worshipped the calf. Concerning Allah's statement, ... تَابَ ... who repents, This means to turn away from what one was involved in of disbelief, associating partners with Allah, disobedience of Allah or hypocrisy. Concerning Allah's statement, وَامَنَ (and believes), This means the person's belief in his heart. وَعَمِلَ صَالِحًا (and does righteous deeds), his action with his bodily limbs. Concerning Allah's statement, ... ثُمَّ اهْتَدَى and then Ihtada. Ali bin Abi Talhah related that Ibn Abbas said, "This means that he then does not doubt." Qatadah said, "This means he adheres to Islam until he dies." We see here that there is a specific order in which these things are presented. This is similar to Allah's saying, ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَتَوَاصَوْاْ بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْاْ بِالْمَرْحَمَةِ Then he became one of those who believed and recommended one another to perseverance and patience and recommended one another to pity and compassion. (90:17)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

82۔ 1 یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں۔ کفر و شرک اور معاصی سے توبہ، ایمان، عمل صالح اور راہ راست پر چلتے رہنا یعنی استقلال حتٰی کہ ایمان ہی پر اسے موت آئے، ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ و ایمان کے بعد اگر اس نے پھر شرک کا راستہ اختیار کرلیا، حتٰی کہ موت بھی اسے کفر و شرک پر ہی آئے تو مغفرت الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ ۔۔ : نافرمانی اور طغیانی کی وعید کے بعد توبہ کی ترغیب دی۔ معلوم ہوا مغفرت کے لیے چار چیزیں شرط ہیں، ایک توبہ یعنی کفر و شرک اور نافرمانی سے باز آجانا، دوسری ایمان یعنی اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، یوم آخرت اور دوسری ایمانیات پر صدق دل سے اعتقاد رکھنا، تیسری عمل صالح یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات کے مطابق نیک عمل کرنا اور چوتھی آخر دم تک سیدھے راستے پر قائم رہنا۔ ” اهْتَدٰى“ سے یہی مراد ہے اور یہی چیز سب سے مشکل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے لفظ ” ثُمَّ “ (پھر) کے بعد ذکر فرمایا، جیسا کہ : (ۭثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بالْمَرْحَمَةِ ) [ البلد : ١٧ ] میں ہے۔ گویا یہ آیت سورة حم السجدہ کی آیات (٣٠ تا ٣٢) کی ہم معنی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰى۝ ٨٢ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٢) اور میں ایسے لوگوں کی بڑی مغفرت کرنے والا بھی ہوں جو کفر وشرک سے توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں اور اچھے کام کریں اور اچھے اعمال پر ثواب ملنے کو حق سمجھیں یا یہ کہ اہل سنت والجماعت کے طریقہ پر قائم رہیں اور اسی پر انتقال کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60. According to this (verse 82), there are four conditions for forgiveness: (1) Repentance: to refrain from rebellion, disobedience, shirk or disbelief. (2) Faith: sincere belief in Allah and the Messenger and the Book and the Hereafter. (3) Righteous works: to do good deeds according to the instructions of Allah and His Messenger. (4) Guidance: to follow the right way steadfastly and to refrain from straying into any wrong path.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :60 یعنی مغفرت کے لیے چار شرطیں ہیں ۔ اول توبہ ، یعنی سرکشی و نافرمانی یا شرک و کفر سے باز آ جانا ۔ دوسرے ، ایمان ، یعنی اللہ اور رسول اور کتاب اور آخرت کو صدق دل سے مان لینا ۔ تیسرے عمل صالح ، یعنی اللہ اور رسول کی ہدایات کے مطابق نیک عمل کرنا ۔ چوتھے اہتداء ، یعنی راہ راست پر ثابت قدم رہنا اور پھر غلط راستے پر نہ جا پڑنا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:82) اھتدی۔ ماضی واحد مذکر غائب اھتداء (افتعال) مصدر وہ راہ راست پر آیا ۔ اس نے ہدایت اختیار کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 معلوم ہوا کہ بخشش کے لئے چار چیزیں شرط ہیں، ایک تو بہ یعنی شرک و کفر اور نافرمانی سے باز آجانا، دوسرے ایمان یعنی اللہ، رسول یوم آخرت اور دوسرے ایمانیات پر صدق دل سے اعتقاد رکھنا، تیسرے عمل صالح یعنی اللہ و رسول کی ہدایات کے مطابق نیک عمل کرنا اور چوتھے راست روی یعنی مرتے دم تک ایمان اور نیک اعمال پر قائم رہنا اور یہی چیز سب سے زیادہ مشکل ہے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ یعنی ایمان و عمل صالح پر مداومت کریں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانی لغفار لمن تاب و امن و عمل صالحا ثم اھتدی (٠٢ : ٢٨) ” البتہ جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے ، پھر سیدھا چلے ، اس کے لئے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔ “ یہ یاد رہے کہ توبہ صرف لفظ کا نام نہیں ہے کہ کوئی اسے گائے بلکہ یہ تو قلبی عزم کا نام ہے۔ اس کے مفہوم کا تعین ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ ہی ہوتا ہے اور اس کا ظہور عالم واقعہ میں انسانی طرز عمل سے ہوتا ہے۔ اگر توبہ کرلی ، ایمان درست رہا اور عمل نے اس کی تصدیق کی تو تب انسان کو ہدایت یافتہ انسان کہا جاسکتا ہے ، انسان ہدایت اور عمل صالح کی ضمانت غرض جب توبہ کے بعد ہدایت نہ ہو یعنی عملی تبدیلی نہ ہو تو توبہ کا کوئی مفہوم نہیں رہتا۔ یہاں تک ہم بنی اسرائیل کی کامیابی اور اس پر تبصرہ و نصیحت کا منظر دیکھ رہے تھے ، اب پردہ گرتا ہے اور اس کے بعد دوسرے منظر میں حضرت موسیٰ طور ایمان پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ طور پر چالیس روز گزاریں اور اس کے بعد اللہ سے ہم کلا مہو کر اس سے احکام لیں۔ یعنی شکست کے بعد فتح حاصل کرنے کے احکام۔ فتح حاصل کرنا کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے۔ ہر نظریہ کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ نیز احکام لینے کے لئے نفسیاتی تیاری اور اپنے اندر استعداد پیدا کرنا کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے۔ ہر نظریہ کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ نیز احکام لینے کے لئے نفسیاتی تیاری اور اپنے اندر استعداد پیدا کرنا بھی ضروری تھا۔ حضرت موسیٰ پہاڑ پر چڑھ گئے اور قوم کو نیچے چھوڑ دیا اور حضرت ہارون کو ان میں اپنا نائب مقرر کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس ملاقات کا بےحد شوق تھا ، اللہ کے سامنے حاضری دینا بڑا اعزاز تھا ، وہ اس کے لئے بےتاب تھے۔ اس سے قبل وہ اللہ کے ساتھ ہمکلامی کی مٹھاس چکھ چکے تھے۔ اس لئے وہ بےحد شوق سے جلدی میں طور پر پہنچ گئے۔ اللہ کے سامنے کھڑے ہوگئے ، لیکن ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی قوم نے ان کے بعد کیا گل کھلائے ہیں کیونکہ وہ ان کو پہاڑ کے نیچے چھوڑ آئے تھے۔ یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو رب تعالیٰ بتا دیتے ہیں کہ تمہارے بعد بنی اسرائیل نے کیا حرکت کی ہے۔ ذرا منظر کو دیکھیں اور گفتگو سنیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

82 اور بلاشبہ ایسے شخص اور ایسے لوگوں کے لئے بڑی بخشش اور مہربانی کرنے والا ہوں جس نے کفر و عصیان سے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک اعمال کرتا رہا پھر صحیح اور سیدھی راہ پر قائم بھی رہا۔ یعنی جو لوگ غل راہ روی سے توبہ کریں اور باز آجائیں اور ایمان کی راہ اختیار کریں۔ اعمال صالحہ کے پابند رہیں اور ایمان کی راہ پر قائم رہیں تو میں ایسے لوگوں کے ساتھ بڑی بخشش کا برتائو کرنے والا ہوں۔