Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 86

سورة طه

فَرَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۬ ۚ قَالَ یٰقَوۡمِ اَلَمۡ یَعِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ وَعۡدًا حَسَنًا ۬ ؕ اَفَطَالَ عَلَیۡکُمُ الۡعَہۡدُ اَمۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ یَّحِلَّ عَلَیۡکُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَخۡلَفۡتُمۡ مَّوۡعِدِیۡ ﴿۸۶﴾

So Moses returned to his people, angry and grieved. He said, "O my people, did your Lord not make you a good promise? Then, was the time [of its fulfillment] too long for you, or did you wish that wrath from your Lord descend upon you, so you broke your promise [of obedience] to me?"

پس موسیٰ ( علیہ السلام ) سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لوٹے ، اور کہنے لگے کہ اے میری قوم والو! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے نیک وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا اس کی مدت تمہیں لمبی معلوم ہوئی؟ بلکہ تمہارا ارادہ ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو؟ کہ تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ... Then Musa returned to his people in a state of anger and sorrow (Asif). This means that after Allah informed him of what they were doing, he became extremely angry and upset with them. He was very worried for them. During this time he received the Tawrah, which contained their Shariah (Law), this was a great...  honor for them. For they were a people who used to worship other than Allah. Every person with sound reason and good sense could see that what they were doing was false and foolish. This is why Allah said that he (Musa) returned to them in a state of anger and sorrow. The word for sorrow used here is Asif, which is used to emphasize to the severity of his anger. Mujahid said, "In a state of anger and sorrow means worried." Qatadah and As-Suddi said, "Asif here means in a state of sadness because of what his people had done after him." ... قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ... He (Musa) said: "O my people! Did not your Lord promise you a fair promise..." This means, "Did He not promise you in that which I have spoken to you, every good in this life and in the Hereafter, and the good end in the final outcome of things You have already witnessed how He helped you defeat your enemy (Fir`awn) and He made you victorious over him and He blessed you with other bounties as well through His help." ... أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ ... Did then the promise seem to you long in coming, meaning, `in waiting for what Allah had promised you and forgetting His previous favors and the covenant that He made with you before.' ... أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ ... Or did you desire that wrath should descend from your Lord on you, The word `Or' here means `Nay, but.' It is used here to separate between a previous item and a coming item. It is as if it is saying, "Nay, but you want to make permissible the anger of your Lord upon you by what you have done. Therefore, you have broken your promise to me." ... فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي that you broke your promise to me!"   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

86۔ 1 اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انھیں بلایا گیا تھا۔ 86۔ 2 کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ 86۔ 3 قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک...  وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کردی۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] موسیٰ (علیہ السلام) کتاب تورات لے کر جب واپس آئے تو سخت غضب ناک تھے۔ آپ نے آتے ہی اپنی قوم سے پے در پے تین سوال کئے۔ ایک یہ کہ اللہ نے جو تمہاری ہدایت کے لئے کتاب دینے کا وعدہ فرمایا تھا۔ تو یہ گمراہی کی راہ تم نے از خود کیوں اختیار کی ؟ کیا تمہیں اللہ کی ہدایت پسند نہیں تھی ؟ دوسرا سوال یہ تھ... ا کہ اللہ نے جتنی مدت بعد کتاب دینے کا وعدہ کیا تھا، کیا اسمیں کچھ تاخیر ہوگئی تھی، یا اس وعدہ کو طویل مدت گزر چکی تھی اور تم انتظار کرتے کرتے تھک گئے تھے اور پھر یہ تجھے کہ پتہ نہیں کہ اللہ سے کب ہدایت آتی ہے یا آتی بھی ہے یا نہیں اس بنا پر تم نے خود ہی اپنے لئے ایک راہ تجویز کرلی اور اگر یہ دونوں درست تھیں تو پھر کیا تم ایسے شر کام کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دینا چاہتے ہو ؟ یہ گؤسالہ پرستی کا مرض ابھی تک تمہارے دلوں سے نکلا نہیں ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ۔۔ : ” غَضْبَانَ “ مبالغہ کے وزن پر ہے، اس لیے ” غصے سے بھرا ہوا “ ترجمہ کیا ہے۔ ” اَسِفًا “ ” أَسِفَ یَأْسَفُ “ (ع) سے صفت کا صیغہ ہے، اس کا معنی سخت غم و افسوس کرنے والا بھی ہے اور غصے والا بھی۔ (قاموس) یہاں ” غَضْبَانَ “ کے بعد افسوس زیادہ مناسب ... ہے۔ حرف ” فاء “ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مکالمہ اور کتاب دینے کے آخر میں انھیں قوم کے گمراہ ہونے کی اطلاع دی۔ ” فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ “ تو یہ خبر سنتے ہی موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس روانہ ہوگئے۔ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَـنًا : اس وعدے سے مراد توبہ، ایمان اور عمل صالح کے بعد اس پر استقامت اختیار کرنے والے کے لیے مغفرت کا وعدہ، طور کی جانب ایمن پر موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے تورات عطا کرنے کا وعدہ اور من وسلویٰ نازل کرنے کا وعدہ ہے۔ (طبری) اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ ۔۔ : ” الْعَهْدُ “ کا معنی ہے وصیت، کسی آدمی سے کوئی بات طے کرلینا، پختہ وعدہ، قسم، حرمت کا خیال رکھنا، امان، ذمہ، ملاقات، پہچان، زمانہ، وفا، اللہ تعالیٰ کی توحید وغیرہ۔ (قاموس) یہاں ملاقات بھی معنی ہوسکتا ہے اور مدت بھی کہ کیا تمہیں میری ملاقات کو بہت لمبی مدت ہوچکی تھی کہ تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی ؟ تیس دنوں سے دس دن ہی تو زیادہ گزرے تھے، یہ کون سی لمبی مدت تھی کہ تم نے مجھ سے کیے ہوئے سب وعدے توڑ ڈالے۔ وعدہ خلافی سے مراد ان کا طور کے دامن تک جانے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے چلتے رہنے کے بجائے راستے میں ٹھہر جانا، بچھڑے کی پرستش اور مجاوری پر اڑ جانا اور ہارون (علیہ السلام) کے انھیں چلتے رہنے کی تاکید اور بچھڑے کی عبادت ترک کرنے کی نصیحت پر یہ کہنا کہ ” لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ “ یعنی ہم اسی پر مجاور بن کر بیٹھے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے پاس آئیں۔ یہ تمام باتیں وعدے کی خلاف ورزی تھیں۔ (طبری)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَ‌بُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا (Did your Lord not promise you a good promise? - 20:86) Sayyidna Musa (علیہ السلام) returned to his people full of sorrow and anger. First of all he reminded them of the promise which Allah had made to them that He would give them a Book for their guidance by adhering to which they could achieve all their worldly and religious objectives. He said that ... it was for the purpose of receiving the Book that he had started out with them for the mount of Tur. أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ (Did then the time become too long for you? - 20:86) Not much time had elapsed on Allah&s promise and it is inconceivable that the Bani Isra&il could have forgotten it, or if they remembered it, there was no reason for them to despair of its fulfillment on account of delay, thus providing for themselves justification for the worship of the calf. أَمْ أَرَ‌دتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ (Or did you wish that wrath from your Lord befalls you? - 20:86) But since neither of the two eventualities mentioned above could be contemplated, the only conclusion was that they knowingly and of their own choice invited the wrath of Allah.  Show more

اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَـنًا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے رنج و غم کے عالم میں واپس آ کر قوم سے خطاب کیا اور پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کا وعدہ یاد دلایا جس کے لئے وہ سب قوم کو لے کر طور کی جانب ایمن کی طرف چلے تھے کہ یہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ہدایت عطا فرمائیں گے اور جس کے ذری... عہ دین و دنیا کے تمام مقاصد تمہارے پورے ہوں گے۔ اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ ، یعنی اللہ کے اس وعدہ پر کوئی بڑی مدت بھی تو نہیں گزری جس میں تمہارے بھول جانے کا احتمال ہو کہ وعدہ کا انتظار زمانہ دراز تک کرنے کے بعد مایوس ہوگئے اس لئے دوسرا طریقہ اختیار کرلیا۔ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ، یعنی بھول جانے یا انتظار سے تھک جانے کا تو کوئی احتمال نہیں تو اب اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ تم نے خود ہی اپنے قصد و اختیار سے اپنے رب کے غضب کو دعوت دی۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٦) غرض کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدت مکمل ہونے کے بعد غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور فتنہ کا شور وشغب سنا تو فرمانے لگے اے میری قوم کیا تم سے تمہارے رب نے ایک اچھا اور سچا وعدہ نہیں کیا تھا کیا میں تم سے زمانہ دراز کے لیے جدا ہوگیا تھا یا یہ کہ تمہیں یہ منظور ہوا کہ تم...  پر تمہارے رب کا غضب اور عذاب نازل ہو، اس لیے تم نے جو مجھ سے وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا ط) ” اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تم لوگوں کو اپنی کتاب کی صورت میں جامع ہدایت عطا فرمائے گا۔ میں تو اللہ کے اس وعدے کے مطابق طور پر گیا تھا کہ تمہارے لیے اس کی کتاب اور ہدایت لے کر آؤں : (اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ ع... َلَیْکُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ ) ” گویا تمہاری یہ حرکت اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64. That is, did not Allah fulfill the promises He made with you of showing His favors to you? For instance, He safely brought you out of Egypt and not only freed you from the slavery of your enemy but also destroyed him totally. He provided you with provisions in the desert and in the mountainous regions. It may also be translated like this: Did not Allah make a good promise with you? In that cas... e, it will mean: He made a promise that he will give you the law and guidance. Was this not a good promise for your well being and betterment? 65. That is, had a long time passed since those great favors were done to you that you forgot them? Had long ages passed since you were afflicted with persecution by your enemy that you committed such a blasphemy? It may also be translated like this: Had you to wait for a long time for the fulfillment of God’s promise that you became so impatient? In that case, the meaning is obvious: You had not to wait for a long time to see the fulfillment of the promise of guidance. Therefore there was no excuse for what you did. 66. This covenant was the one which every community makes with its Prophet and promises that it will steadfastly follow the guidance brought by him and will not worship anyone except Allah.  Show more

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :64 اچھا وعدہ نہیں کیا تھا بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ۔ متن میں جو ترجمہ ہم نے اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں کا وعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں حاصل ہوتی رہی ہیں ۔ تمہیں مصر سے بخیریت نکالا ، غلامی سے نجات دی ، تمہارے دشمن کو ت... ہس نہس کیا ، تمہارے لیے ان صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں سائے اور خوراک کا بندوبست کیا ۔ کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں ہوئے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہیں شریعت اور ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا ، کیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا ؟ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :65 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا وعدہ پورا ہونے میں بہت دیر لگ گئی کہ تم بے صبر ہو گئے ؟ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر اللہ تعالیٰ ابھی ابھی جو عظیم الشان احسانات کر چکا ہے ، کیا ان کو کچھ بہت زیادہ مدت گزر گئی ہے کہ تم انہیں بھول گئے ؟ کیا تمہاری مصیبت کا زمانہ بیتے قرنیں گزر چکی ہیں کہ تم سرمست ہو کر بہکنے لگے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب صاف ہے کہ ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا ، اس کے وفا ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی ہے جس کو تم اپنے لیے عذر اور بہانہ بنا سکو ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :66 اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو ہر قوم اپنے نبی سے کرتی ہے ۔ اس کے اتباع کا وعدہ ۔ اس کی دی ہوئی ہدایت پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ ۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنے کا وعدہ ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

33: اچھے وعدے سے مراد کوہ طور پر تورات دینے کا وعدہ ہے 34: یعنی مجھے کوہ طور پر گئے ہوئے کوئی ایسی لمبی مدت تو نہیں گذری تھی کہ تم میرا انتظار کیے بغیر اس بچھڑے کو معبود بنا بیٹھو

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:86) غضبان۔ صیغہ مبالغہ۔ سخت غضبناک۔ اسفا۔ خشمناک ہر دو غضبان واسفا منصوب ہیں بوجہ حال ہونے کے رجع موسیٰ سے۔ غضبان غیر منصرف ہے کیونکہ اس میں منجملہ اسباب منع صرف کے دو سبب (صفت اور الف نون زائدہ) پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا ا اس پر تنوین نہیں آسکتی۔ الاسف حزن اور غضب کے مجموعہ کو کہتے ہیں۔ کبھی اسف ک... ا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفرادً بھی بولا جاتا ہے۔ اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے خون قلب کے جوش مارنے کے ہیں اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے طاقت ور آدمی پر پیش آئے تو منقبض ہو کر حزن بن جاتی ہے۔ غضب کے معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے۔ فلما اسفونا انتقمنا منہم (43:55) جب ان لوگوں نے ہمیں غضب ناک کیا (غصہ دلا دیا) تو ہم نے ان سے انتقام لیا۔ آیت ہذا میں بھی اسف کے معنی غضبناک کے ہی ہیں۔ الم یعدکم۔ ہمزہ استفہام کے لئے ہے لم یعد نفی حجد بلم فعل مضارع صیغہ واحد مذکر غائب۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ کیا اس نے تم سے وعدہ نہیں کیا تھا ؟ افطال علیکم العھد۔ الف استفہامیہ۔ طال یطول طولا لمبا ہونا طول علی تاخیر کر کے کسی کو تھکا دینا۔ افطال۔۔ الخ کیا (اس) وعدہ کی (طوالت نے) تم کو تھکا دیا تھا۔ یعنی کیا وعدہ کی مدت اتنی طویل تھی کہ تم (ایفائے وعدہ کی) تاخیر سے تنگ آگئے تھے۔ یا ۔ کیا عہد کی مدت تم پر طویل ہوگئی تھی۔ فاخلفتم موعدی۔ اخلفتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر اخلاف (افعال) مصدر تم نے کلاف کیا۔ اخلاف وعدہ کے معنی وعدہ خلافی کرنا۔ موعدی مضاف مضاف الیہ میرا وعدہ۔ (یہ کہ میرے بعد وہ اس کے دین پر قائم رہیں گے اور کوئی ناشائستہ حرکت نہیں کریں گے)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اور میں اس لئے گیا تھا کہ جا کر توراۃ ل ائوں گو مجھے تیس کے بجائے چالیس دن لگ گئے۔ مگر …8 وعدہ سے مراد ان کا یہ وعدہ ہے کہ جب تک آپس واپس نہ آئیں گے ہم اپنے طریقہ پر قائم رہیں گے اور ہارون کی اطاعت کرتے رہیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی اطلاع پا کر کہ قوم گمراہ ہوچکی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فوری طور پر اپنی قوم کی طرف پلٹنا۔ مدّت پوری ہوتے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فی الفور اپنی قوم کی طرف آئے اور غضب ناک ہو کر پے درپے ان سے تین سوال کیے۔ کیا تمہارے رب نے تمہاری ہدای... ت اور بھلائی کے لیے مجھے تورات دینے کے لیے طور پہاڑ پر نہیں بلایا تھا اور میں تمہیں بتلا کر نہیں گیا تھا ؟ کیا میرے جانے کی مدت بہت طویل ہوگئی تھی ؟ یا پھر تم نے دانستہ طور پر چاہا کہ تم پر اللہ کا غضب نازل ہو ؟ بہر حال تم نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔ گمراہ ہونے والے لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کلمہ پڑھا تھا۔ کلمہ کا معنی ہی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس وقت کے مطابق موسیٰ اللہ کے رسول تھے۔ رسول کا معنی ہے جس کی پوری یکسوئی کے ساتھ تابعداری کی جائے۔ اس کے باوجود بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے موسیٰ (علیہ السلام) کی صرف چالیس دن کی غیر حاضری پر اس عہد کو توڑ دیا حالانکہ ان کی رہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو چھوڑ گئے تھے۔ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معاون اور نبی تھے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی سرتوڑ کوشش کے باوجود یہ لوگ گمراہ ہوگئے۔ مسائل ١۔ بنی اسرائیل بہت ہی تھوڑی مدت میں گمراہ ہوگئے۔ ٢۔ بنی اسرائیل نہایت احسان فراموش اور جلد بازقوم ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ہارون (موسیٰ کے آنے سے) پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ” لوگو تم اس کی وجہ سے فتنے میں پڑگئے ہو ، تمہارا رب تو رحمٰن ہے ، پس تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو۔ “ مگر انہوں نے اس سے کہہ دیا کہ ” ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰ ہمارے پاس واپس نہ آجائے۔ “ یہ ہے وہ فتنہ جس کے ذریعہ بنی ا... سرائیل گمراہ ہوئے لیکن قرآن اس کا تذکرہ اس وقت کرتا ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے سامنے آ کر تحقیق کرتے ہیں۔ اس سے قبل اللہ کے ساتھ مناجات کے موقعہ پر قرآن نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ ان تفصیلات کو خفیہ رکھا تاکہ ان کو اس وقت ظاہر کیا جائے جب موسیٰ (علیہ السلام) خود تحقیقات کرلیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم ایک ایسے مصنوعی بچھڑے کی پوجا کر رہی جو آواز نکالتا ہے۔ یہ بچھڑا سونے سے بنا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہے تمہارا رب اور یہی ہے موسیٰ کا رب۔ موسیٰ غلطی سے طور پر چلے گئے ، رب سے ملاقات کے لئے حالانکہ رب تو یہ ہے حاضر تمہارے سامنے ! ! جب موسیٰ (علیہ السلام) آئے تو نہایت ہی طیش کی حالت میں ان سے پوچھنے لگے۔ یقوم الم یعدکم ربکم وعدا حسناً (٠٢ : ٦٨) ” اے میری قوم کے لوگو ، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کئے تھے۔ “ اللہ نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تم عقیدہ توحید پر جمے رہے تو تم ارض مقدس میں داخل ہوگئے اور تمہیں نصرت ملے گی۔ اس عہد اور اس کے آثار کے ظہور پر کوئی زیادہ طویل عرصہ تک نہ گزر گیا تھا۔ وہ ان کی سخت گوشمالی کرتے ہیں۔ افطال علیکم العھد ام اردتم ان یحل علیکم غضب من ربکم (٠٢ : ٦٨) ” کیا تمہیں دن لگ گئے تھے یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے۔ “ کیونکہ تمہارا یہ عمل تو ایسا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم اللہ کے غضب کے طلبگار ہو ، تم نے گویا عمداً یہ حرکت کی ہے اور قصداً تم اللہ کا غضب چاہت یہو۔ کیا کوئی بہت ہی طویل عرصہ گزر گیا تھا۔ فاخلفتم موعدی (٠٢ : ٦٨) ” تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی۔ “ تم نے یو وعدہ کیا تھا کہ میرے آنے تک تم میرے عہد پر قائم رہو گے۔ تم اپنے نظریات و عمل میں کوئی تبدیلی نہ کرو گے بغیر میری اجازت کے۔ اب ذرا ان کی معذرت کو دیکھو ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طویل ترین غلامی نے ان کے قلب و نظر کو فاسد کردیا تھا اور ان کا دماغ بھی صحیح طرح کام نہ کر رہا تھا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غیر موجودگی میں زیوروں سے سامری کا بچھڑا بنانا، اور بنی اسرائیل کا اس کو معبود بنا لینا، واپس ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) پر ناراض ہونا جب بنی اسرائیل فرعون سے چھٹکارا پا کر دریا پار ہوگئے تو اب انہیں اپنے وطن فلسطین پہنچنا تھا۔ ... اور ایک صحراء کو عبور کرنا تھا اس سفر میں بہت سے امور پیش آئے انہیں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر بلا کر تو ریت شریف عطا فرمائی جس کا اوپر (وَ وٰعَدْنٰکُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ ) میں تذکرہ فرمایا اور من وسلویٰ نازل ہونے اور پتھر سے پانی کے چشمے نکلنے کے واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ معالم التنزل ج ٣ ص ٢٢٧ میں لکھا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) تورات شریف لینے کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو انہوں نے ستر آدمی چن لئے تاکہ ان کو اپنے ساتھ پہاڑ تک لے چلیں، ساتھ ساتھ جارہے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) انہیں پیچھے چھوڑ کر جلدی سے آگے بڑھ گئے اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ پہاڑ کے پاس آجاؤ، اللہ تعالیٰ شانہ نے سوال فرمایا کہ تم اپنی قوم کو چھوڑ کر آگے کیوں بڑھے، موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ وہ لوگ میرے قریب ہی ہیں زیادہ آگے نہیں بڑھا ہوں آپ کی مزید رضامندی کے لیے میں نے ایسا کیا۔ ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور پہاڑ پر پہنچے ادھر گؤ سالہ پرستی کا واقعہ پیش آگیا، واقعہ یوں ہوا کہ بنی اسرائیل جب مصر سے چلنے لگے تو ان کی عورتوں نے قوم فرعون کی عورتوں سے کہا کہ کل کو ہمیں عید منانا ہے اور میلے میں جانا ہے ذرازیب وزینت کے لیے ہمیں عاریتاً یعنی مانگے کے طور پر زیور دے دو ، ہم میلہ سے آکر واپس کردیں گے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ کل کو تو واپس ہی ہوجائیں گے اپنے زیور بنی اسرائیل کی عورتوں کے حوالے کردیئے یہ زیور ان کے ساتھ ہی تھے جب مصر سے نکلے اور دریا پار ہوئے اب وطن جانے کے لیے خشکی کا راستہ تھا وطن پہنچنے میں انہیں چالیس سال لگ گئے انہیں چاللیس سال میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تو ریت شریف عطا ہوئی جب وہ اپنے منتخب افراد کے ساتھ تو ریت شریف لینے کے لیے طور پر پہنچے تو یہاں پیچھے سامری نے جو سنار کا کام کرتا تھا ان زیوروں کو جمع کیا جو بنی اسرائیل کی عورتیں فرعون کی عورتوں سے مانگ کرلے آئی تھیں۔ سامری نے آگ جلائی اور بنی اسرائیل کے لوگوں سے کہا کہ تم یہ زیورات اس میں ڈال دوان لوگوں نے اس کے کہنے سے یہ زیورات آگ میں ڈال دیئے جب یہ پگھل گئے تو اس نے ان سے گائے کے بچھڑے کی صورت بنادی، اس میں سے بچھڑے کی آواز بھی آنے لگی یہ لوگ اس کی پرستش اور پوجا پاٹ میں لگ گئے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ابھی طور پر ہی تھے کہ اللہ جل شانہ نے انہیں مطلع فرمایا کہ تمہاری قوم کو ہم نے فتنہ میں ڈال دیا اور سامری نے ان کو گمراہ کردیا، موسیٰ (علیہ السلام) جب واپس ہوئے تو بہت غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تھے انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے رب نے مجھے کتاب دینے کے لیے بلایا تھا اور اس کتاب میں تمہارے لیے احکام دینے کا وعدہ تھا، یہ تم نے کیا غضب کیا کہ میرے پیچھے بت پرستی میں لگ گئے تمہیں اللہ کے وعدے کا اور میرے آنے کا انتظار کرنا لازم تھا کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا کہ تم اللہ تعالیٰ طرف سے کتاب ملنے سے ناامید ہوگئے اور اس کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوگئے، کیا یہ بات تو نہیں ہے کہ تم نے اپنے رب کا غصہ نازل ہونے کا قصداً وارادتاً انتظام کرلیا اور مجھے سے جو وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کر بیٹھے۔ تم نے جو یہ کھیل کھیلا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے غصہ کو دعوت دی ہے، بنی اسرائیل نے ایک عجیب جواب دیا جو بالکل ہی احمقانہ ہے وہ کہنے لگے کہ یہ جو کچھ ہم نے آپ سے وعدہ کر کے خلاف ورزی کی ہے یہ اپنے اختیار سے نہیں کی۔ واقعہ اس طرح ہوا کہ قوم فرعون کے زیوروں کا جو بوجھ ہم پر لدا ہوا تھا سامری کے کہنے سے ہم نے اسے ڈال دیا یعنی ایک جگہ جمع کردیا پھر سامری نے وہ زیور ڈالا جو اس کے پاس تھا۔ اور سامری نے اس زیور کے مجموعے سے ایک بچھڑا بنا دیا۔ یہ بچھڑا ایسا تھا کہ اس سے گائے کے بولنے کی سی آواز بھی آرہی تھی یہ بچھڑا بن کر تیار ہوا اور اس کی آوازسنی تو بنی اسرائیل کہنے لگے کہ یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے موسیٰ بھول گئے اپنے اس معبود کو چھوڑ کر (العیاذ باللہ) طور پر چلے گئے تاکہ وہاں سے کتاب لیکر آئیں۔ بنی اسرائیل مصر میں مشرکین کو دیکھتے تھے اور شرک کے طریقے ان سے سیکھ لیے تھے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں گائے کی پرستش بھی ہوتی تھی، جب دریا پار کر کے خشکی میں آئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ بت برستی میں مشغول ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی ایسا ہی معبود بنا دو جیسا کہ ان کے لیے معبود ہیں (کما مرفی سورة الاعراف) ان کے ذہنوں میں شرک کی اہمیت بیٹھی ہوئی تھی اس لیے جب گائے کے بچھڑے کا بت سامنے آگیا اور وہ بھی ایسا کہ اس میں آواز آرہی تھی تو اچانک شرک کے جذبہ نے ان پر حملہ کیا اور نہ صرف یہ کہ اس کو اپنا معبود مان لیا بلکہ یہاں تک کہہ گئے کہ موسیٰ کا بھی یہی معبود ہے اور اپنی حماقت و جہالت میں یہاں تک آگے بڑھے کہ یوں بول اٹھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے معبود کو بھول گئے۔ صدیوں سے جو ان کے ذہنوں میں شرک نے جگہ پکڑ رکھی تھی وہ رنگ لے آئی اور اس کا اثر ظاہر ہوگیا اور اسی بچھڑے پر دھرنادے کر بیٹھ گئے جیسا کہ مشرکین کی عادت ہے کہ وہ اپنے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر پڑے رہتے ہیں اور ان کی عبادت سے چمٹے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی حماقت اور جہالت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْھِمْ قَوْلًا) (کیا وہ نہیں دیکھتے کہ یہ بچھڑا ان کی کسی بات کا جواب نہیں دے سکتا) (وَّ لَا یَمْلِکُ لَھُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا) (اور وہ ان کے لیے کسی بھی طرح کے ضرر اور نفع کا اختیار نہیں رکھتا) کچھ تو غور کرتے اور سمجھتے کیا ایسی چیز کو معبود بنایا جائے جس میں نہ بات کرنے کی قوت نہ جواب دینے کی طاقت اور نہ کسی قسم کی کوئی حرکت اور نہ کسی قسم کا نفع یا ضرر پہنچانے کی سکت، بنی اسرائیل نے یہ جو کہا (مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا) (ہم نے آپ کے وعدہ کی خلاف ورزی اپنے اختیار سے نہیں کی) اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ اقدام ہم نے اپنے اختیار سے نہیں کیا بلکہ سامری کے عمل کو دیکھ کر مجبور ہوگئے۔ ان کا یہ عذر، عذر لنگ ہے جو غلط بیانی پر مبنی ہے سامری نے مجبور نہیں کیا، تلوار اٹھا کر بت پرستی پر آمادہ نہیں کیا اس نے تو ایک بچھڑا بنا دیا تھا گو اس کی پرستش میں اس کی رائے بھی شامل تھی لیکن بنی اسرائیل نے جو کچھ کیا اپنے اختیار ہی سے کیا۔ ان زیورات کو جو اوزار یعنی بوجھ فرمایا یہ اس وجہ سے کہ وہ لوگ قوم فرعون سے مانگ کر لائے تھے اور واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا اور جب واپس نہیں دیئے اور ساتھ لے آئے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ زیور تمہارے اوپر بوجھ بنے ہوئے ہیں یعنی تم ان کی وجہ سے گنہگار ہو ان کو پھینک دو اور بعض حضرات نے یوں لکھا ہے کہ سامری نے بچھڑا بنانے کے لیے ان لوگوں کو یہ بات سمجھائی تھی کہ دوسروں کا مال ہے تمہارے لیے حلال نہیں ہے اسے ایک گڑھے میں ڈال دو لہٰذا انہوں نے ایسا ہی کیا۔ کافر حربی کا مال اگر جنگ کر کے حاصل کیا جائے تو غنیمت کے حکم میں ہوتا ہے لیکن سابق امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہیں تھا اور یہ زیور جنگ کے ذریعہ حاصل کئے گئے تھے اس لیے ہارون (علیہ السلام) نے انہیں مشورہ دیا کہ انہیں ڈال دو ، نیز یہ بات بھی ہے کہ جو چیز مانگی ہوئی ہو خواہ کافرہی سے مانگی ہو وہ امانت ہے اور امانت کا حکم یہ ہے کہ جس کے پاس امانت ہو اس کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ رسول اللہ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمانے کا ارادہ کیا تو لوگوں کی جتنی بھی امانتیں تھیں ان کے ادا کرنے کا یہ انتظام فرمایا کہ حضرت علی (رض) کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا کہ جس کی جو امانت ہے اس کو واپس کردینا اور تم اس کام سے فارغ ہو کر ہجرت کرنا۔ اگر ان زیورات کو مال غنیمت تسلیم کرلیا جائے تب بھی بنی اسرائیل کی ملکیت تامہ مستقلہ من کل الوجوہ لکل فرد ثابت نہیں ہوتی کیونکہ تقسیم نہیں کی گئی تھی پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے وہی کیا جو پرانی امتوں کے لیے اموال غنیمت کا قانون تھا یعنی آخر میں اسے جلا دیا اس میں اتنا فرق ہے کہ اس کے جلانے کے لیے آسمان سے آگ نہیں آئی چونکہ عبرت دلانا مقصود تھا کہ دیکھو جسے تم نے معبود بنایا تھا وہ جل رہا ہے اور جل چکا ہے یہی جلانا آسمانی آگ کے قائم مقام ہوگیا۔ اسی سے یہ اشکال بھی رفع ہوگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر بنی اسرائیل کی املاک ضائع کردینے پر ضمان کیوں لازم نہیں آیا (املاک ہوتی تو ضمان ہوتا) پھر یہ بات بھی ہے کہ امام المسلمین کو آلات معصیت کے تلف کا حکم ہے پھر وجوب ضمان کیسا ؟ بچھڑا تو سب سے بڑی معصیت یعنی شرک کا آلہ تھا اس کے اتلاف پر ضمان لازم ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب طور پر تشریف لے گئے تھے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے اور ان کے ذمہ بنی اسرائیل کی نگرانی سپرد فرما گئے تھے جب ان لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی تو ہارون (علیہ السلام) نے انہیں متنبہ فرما دیا اور فرمایا (اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ ) (تم اس کی وجہ سے فتنہ میں ڈالے گئے ہو) (اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ ) (اور اس میں شک نہیں کہ تمہارا رب رحمان ہے اسے چھوڑ کر دوسری چیز کی پرستش میں لگنا فتنہ میں پڑنا ہے میں جو بات کہہ رہا ہوں اس کا اتباع کرو اور اسے مانو) ۔ لیکن بنی اسرائیل تو اس بچھڑے کے دل دادہ ہوچکے تھے ہارون (علیہ السلام) کی نصیحت کچھ بھی کار گرنہ ہوئی۔ بلکہ انہوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جواب دیا اور کہنے لگے کہ ہم تو برابر اسی پر جمے ہوئے بیٹھے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ (u) واپس آجائیں، جب اللہ تعالیٰ شانہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی کہ تمہاری قوم فتنہ میں پڑگئی تو واپس تشریف لائے اور انہوں نے اپنی قوم سے بھی خطاب کیا اور ہارون (علیہ السلام) پر بھی خفگی کا اظہار کیا اور یہ اظہار بھی معمولی نہ تھا بلکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی داڑھی اور سر کے بال کھینچنے لگے اور توریت شریف کی جو تختیاں لیکر آئے تھے ان کو بھی ڈال دیا جس کی وجہ سے ٹوٹ گئیں، ہارون (علیہ السلام) سے سوال فرمایا کہ اے ہارون جب تم نے دیکھ لیا کہ یہ لوگ گمراہ ہوگئے تو اس سے کیا چیز مانع تھی کہ تم مجھے خبر دیتے۔ تم نے میرا اتباع کیوں نہ کیا اور میری نافرمانی کیوں کی۔ جب شرک کا ماجرا دیکھا تو تم میرے پاس چلے آتے ہارون (علیہ السلام) نے جواب میں کہا کہ اے میرے ماں جائے میری داڑھی اور میرے بال نہ پکڑو، مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ آپ یوں فرمائیں گے کہ تم نے بنی سرائیل میں تفریق کردی اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔ یہاں سورة طہ میں ہے کہ ہارون (علیہ السلام) نے انہیں روکا تو تھا اور بتادیا تھا کہ تم فتنہ میں پڑگئے ہو لیکن سختی فرمانا مناسب نہ جانا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کا انتظار فرمایا، اور سورة اعراف میں یوں ہے کہ (قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ کَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) (ہارون نے کہا کہ میرے ماں جائے بات یہ ہے کہ قوم نے مجھے ضعیف سمجھ لیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیتے لہٰذا آپ میرے ذریعہ دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع نہ دیجئے اور مجھے ظالموں کے ساتھ نہ کیجئے) جب ہارون (علیہ السلام) نے یہ بات کہی تو موسیٰ (علیہ السلام) کو احساس ہوا اور اللہ تعالیٰ شانہ سے یوں دعا کی (قَالَ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ) (اے میرے رب مجھے اور میرے بھائی کو بخش دیجئے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرمائیے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم فرمانے والے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا لیس الخبر کالمعاینۃ یعنی خبر دیکھنے کی طرح نہیں ہے پھر آپ نے بطور مثال یوں فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے بچھڑے کے ساتھ ایسا ایسا معاملہ کیا ہے لیکن توریت شریف کی تختیوں کو نہیں ڈالا پھر جب اپنی آنکھوں سے ان کی حرکت دیکھ لی تو (توریت شریف کی) تختیوں کو ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ گئیں۔ (مسند احمد ج ١ ص ٢٧١) جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو توریت شریف کی تختیاں اٹھالیں کمافی سورة الاعراف (وَ لَمَّا سَکَتَ عَنْ مُّوْسَی الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ) مفسرین نے لکھا ہے کہ جب بنی اسرائیل میں بچھڑے کی پرستش کا فتنہ ظاہر ہوا تو اس وقت ان میں تین فرقے ہوگئے ایک فرقہ ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ رہا ان کی اطاعت کی اور گؤ سالہ پرستی سے دور رہے۔ اس جماعت کی تعداد بارہ ہزار بتائی جاتی ہے۔ دوسرا فرقہ وہ تھا جس نے گؤ سالہ پرستی کو اپنا لیا لیکن یوں بھی کہتے تھے کہ موسیٰ واپس تشریف لا کر منع فرمائیں گے تو ہم چھوڑ دیں گے، تیسرا فرقہ وہ تھا جو یوں کہتا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی واپس آکر اسی کو معبود بنالیں گے یہی ہمارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا معبود ہے۔ جب ان آخری دو فرقوں کا جواب حضرت ہارون (علیہ السلام) نے سنا تو اپنے ساتھ بارہ ہزار ساتھیوں کو لیکر علیحدہ ہوگئے لیکن وہیں رہتے سہتے رہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے تو انہوں نے ہارون (علیہ السلام) کو عتاب کیا اور گرفت فرمائی تو انہوں نے اپنا عذر بتادیا کہ میں بارہ ہزار ساتھیوں کو لیکر باقی بنی اسرائیل کو چھوڑ کر کہیں دور چلا جاتا یا ان سے مقابلہ کرتا تو اس سے بنی اسرائیل میں تفرقہ پڑجانے کا اندیشہ تھا۔ میں نے جتنا مناسب جانا اسی قدر کام کردیا ان کو بتا بھی دیا اور ان سے عقیدتاً علیحدہ بھی ہوگیا اپنے موحد ساتھیوں کو الگ کرلیا اس سے آگے مقاتلہ اور مقابلہ کرنا میرے نزدیک مصلحت کے خلاف تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی رائے کو خطائے اجتہادی سمجھ کر چھوڑ دیا۔ اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور اپنے بھائی کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا میں مشغول ہوگئے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57:۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور کی میعاد گذرنے اور تورات لینے کے بعد جب قوم میں واپس آئے تو سخت غضبناک اور متاسف ہوئے۔ یہ غیظ و غضب اللہ کی توحید پر غیرت کی بنا پر تھا۔ ” وَعْدًا حَسَنًا “ سے تورات دینے کا وعدہ مراد ہے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان کو تورات دے گا جو سراپا نور ہدایت ہ... وگی۔ وعدھم ان یعطیھم التوراۃ التی فیھا ھدی ونور ولا وعدا حسن من ذلک واجمل (بحر ج 6 س 268) ۔ 58:۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم سے کطاب کر کے فرمایا۔ میری قوم ! کیا اللہ نے تم سے ایک بہت ہی اچھا وعدہ نہیں فرمایا تھا کہ وہ تمہیں تورات دے گا اور پھر میں اس وعدہ کے مطابق تورات لینے کے لیے کوہ طور پر چلا بھی گیا۔ پھر کیا تم چالیس دن بھی صبر نہ کرسکے اور میرا انتطار نہ کیا۔ کیا یہ مدت اتنی طویل تھی کہ تم انتظار کرتے کرتے اکتا گئے تھے اور پھر بچھڑے کی پوجا میں لگ گئے ؟ یا جان بوجھ کر تم نے شرک کر کے اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دی ہے یہاں تک کہ تم اپنے عہد و پیمان کو بھی پس پشت ڈال دیا جو تم نے مجھ سے کیا تھا کہ میقات سے واپسی تک ہم اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں گے لانھم وعدوہ ان یقیموا علی طاعۃ اللہ عز و جل الی ان یرجع الیھم من الطور (قرطبی ج 11 ص 234) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

86 غرض ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی میعاد پوری کرنے کے بغد غصے اور رنج میں بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور آ کر قوم سے فرمایا اے میری قوم ! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے ایک اچھا اور خوش آئند وعدہ نہیں کیا تھا کیا تم پر مقررہ میعاد سے زیادہ زمانہ اور طویل مدت گزر گئی تھی یا تم نے یہ ارادہ ک... رلیا کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب اور غصہ واقع ہو اس لئے تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا۔ تفصیل تو نویں پارے میں گزر چکی ہے یہاں جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) افسوس کی حالت میں توریت لے کر واپس آئے تو قوم کو خطاب کر کے فرمایا مجھ سے کچھ ایسی تاخیر تو نہیں ہوگئی تھی کہ تم بالکل ناامید ہوگئے یا ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہ پا کر تم نے یہ ارادہ کیا کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہوجائے اور تم نے جو مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کی واپسی تک توحید خداوندی پر قائم رہیں گے اس وعدے کے خلاف کا ارتکاب کیا آخر بات کیا ہوئی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں وعدہ تورات دینے کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم سے تیس دن کا کر گئے تھے پہاڑ پر وہاں چالیس دن لگے پیچھے بچھڑا بنا کر پوجنے لگے۔ 12  Show more