Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 87

سورة طه

قَالُوۡا مَاۤ اَخۡلَفۡنَا مَوۡعِدَکَ بِمَلۡکِنَا وَ لٰکِنَّا حُمِّلۡنَاۤ اَوۡزَارًا مِّنۡ زِیۡنَۃِ الۡقَوۡمِ فَقَذَفۡنٰہَا فَکَذٰلِکَ اَلۡقَی السَّامِرِیُّ ﴿ۙ۸۷﴾

They said, "We did not break our promise to you by our will, but we were made to carry burdens from the ornaments of the people [of Pharaoh], so we threw them [into the fire], and thus did the Samiri throw."

انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے ساتھ وعدے کا خلاف نہیں کیا بلکہ ہم پر زیورات قوم کے جو بوجھ لاد دیئے گئے تھے ، انہیں ہم نے ڈال دیا ، اور اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا ... They said: The Children of Israel said in reply to Musa's blame and rebuke, ... مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا ... We broke not our promise to you of our own will, Meaning by our power and our choice. ... وَلَكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا ... but we were made to carry the weight of the ornaments of the people, then we cast them, Then, they began making lame excuses and they told him how they got rid of that which they were carrying of Coptic jewelry that they had borrowed from them (the Egyptian Copts) when they left Egypt. Therefore they cast it, meaning that they threw it away. Thus, it became a calf that made a moaning sound that would gradually rise in pitch. This calf was an ordeal, a hindrance and test. This is why Allah said, ... فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 یعنی ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ غلطی ہم سے اضطراری طور پر ہوگئی، آگے اس کی وجہ بیان کی

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا : انھوں نے وعدہ خلافی کا نہایت ہی بودا عذر پیش کیا کہ اس وعدہ خلافی میں ہمارا کوئی اختیار ہی نہ تھا۔ سامری نے ہمیں پھسلایا ہی اس طرح کہ ہم میں نیک و بد کی پہچان ہی نہ رہ گئی۔ کوئی پوچھے کہ سامری نے تم پر کوئی فوج کشی کی تھی یا تلوار تان رکھی تھی کہ تمہارا اختیار ختم ہوگیا تھا ؟ قیامت کے دن ہر مجرم اپنے آپ کو بےقصور اور بےاختیار ٹھہرائے گا اور اپنے تمام جرائم کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہرائے گا مگر وہ صاف کہہ دے گا کہ میں نے تم پر کوئی فوج کشی نہیں کی تھی، صرف دعوت دی تھی، تم نہ مانتے تو میں تمہارا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ دیکھیے سورة ابراہیم (٢٢) ۔ وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا ۔۔ : اس آیت کی تفسیر اکثر مفسرین نے یہ کی ہے کہ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے سے پہلے فرعون کی قوم کے لوگوں سے ان کے زیورات ادھار مانگ لیے تھے، بعض نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کام انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے کہنے پر کیا تھا۔ اب وہ ان کے لیے بوجھ بن گئے تھے، کیونکہ وہ مال غنیمت کے حکم میں تھے اور پہلی امتوں کے لیے غنیمت حلال نہ تھی۔ چناچہ ہارون (علیہ السلام) یا سامری کے کہنے پر کہ ان زیورات کو اپنے پاس رکھنا گناہ ہے، سب زیور ایک گڑھے میں پھینک کر انھیں آگ لگا دی گئی اور سامری نے اس سے فائدہ اٹھا کر اس سونے یا چاندی سے بچھڑا بنادیا۔ بعض نے یہ لکھا ہے کہ فرعون کی قوم جب غرق ہوئی اور ان کی لاشیں کنارے پر آئیں تو بنی اسرائیل نے ان کے زیور اتار لیے، اس زمانے میں عورتوں کی طرح مرد بھی سونے چاندی کے کنگن اور زیور وغیرہ پہنتے تھے۔ ” زِيْنَةِ الْقَوْمِ “ سے قوم فرعون کے زیور مراد ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ اصرار ہے کہ یہ سلف کی تفسیر ہے اور اس سے انحراف سلف سے انحراف ہے۔ مگر قرآن و حدیث سے یا کسی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ اس کی طرف معمولی اشارہ بھی نہیں ملتا کہ ہجرت کے وقت پوری قوم کو، حتیٰ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دھوکے سے قوم فرعون کے زیورات حاصل کرنے کی فکر پڑی ہوئی تھی، نہ آیات ہی میں کوئی اشارہ ہے کہ ” زِيْنَةِ الْقَوْمِ “ میں ” القوم “ سے مراد قوم فرعون ہے۔ دراصل یہ بات تورات اور پہلے صحیفوں سے لی گئی ہے، جن میں یہود نے اتنی تحریف کردی ہے کہ انبیاء پر تہمتیں لگانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ داؤد اور لوط (علیہ السلام) پر ان کی تہمتیں معروف ہیں۔ اس واقعہ میں بھی انھوں نے ہارون (علیہ السلام) پر تہمت لگائی ہے کہ بچھڑا بنا کر لوگوں کو اس کی عبادت پر لگانے والے وہ تھے۔ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ھَفَوَاتِھِمْ ] اس کے برعکس قرآن مجید میں دوسرے مقام پر تصریح ہے کہ وہ تمام زیور بنی اسرائیل کے اپنے تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰي مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ) [ الأعراف : ١٤٨ ] ” اور موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا جو ایک جسم تھا، جس کی گائے جیسی آواز تھی۔ “ ” مِنْ حُلِيِّهِمْ 0“ (اپنے زیوروں سے) کی تصریح کے باوجود انھیں قوم فرعون کے زیور قرار دینا عجیب بات ہے۔ اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس زمانے میں نوٹ وغیرہ تو تھے نہیں، نقدی سونے یا چاندی ہی کی صورت میں ہوتی تھی، جسے زیورات کی صورت میں لوگ پہن لیتے یا گھروں میں محفوظ رکھتے، ان کا کافی بوجھ بن جاتا تھا، خصوصاً جب ان کے ساتھ تانبے وغیرہ کی آمیزش اور پہننے کے لیے چمڑے، دھاگے یا لوہے کی زنجیریں وغیرہ بھی ساتھ ہوتیں۔ اس لیے اس سفر میں ذمہ داریاں تقسیم کرتے وقت ہر ایک کے اپنے اپنے بوجھ اٹھانے کے بجائے کچھ لوگوں کے ذمے اسے اٹھانے کی ذمہ داری لگائی گئی۔ ظاہر ہے کہ اتنی اہم ذمہ داری قوم کے سربر آور دہ لوگوں ہی کی ہوسکتی تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) بھی انھی لوگوں سے مخاطب تھے، کیونکہ وہ ایک وقت میں ساری قوم کے ہزاروں، یا بقول بعض لاکھوں لوگوں سے تو بات نہیں کرسکتے تھے۔ انھوں نے یہ وجہ بتائی کہ ہم پر لوگوں کے زیوروں کا بوجھ تھا، ہم نے اسے جس قدر ہو سکے ہلکا کرنے کے لیے آگ میں پھینکا کہ زائد چیزیں جل جائیں اور خالص سونے اور چاندی کی اینٹیں بنا لی جائیں اور منزل پر پہنچ کر ہر ایک کو اس کے نام لکھے ہوئے کے مطابق اس کے حصے میں آنے والا خالص چاندی یا سونا دے دیا جائے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سامری نے اس سے بچھڑے کا مجسمہ بنادیا۔ 3 اللہ تعالیٰ نے سونے اور چاندی میں یہ وصف رکھا ہے کہ یہ بطور قیمت شروع سے مقرر چلے آ رہے ہیں۔ دینار و درہم بھی ان کے بنتے تھے اور یہی فطری طریقہ تھا جس سے ہر شخص کا مال خود اس کے پاس ہوتا تھا۔ چالاک یہودیوں نے بینک بنا کر لوگوں کا سونا چاندی اپنے پاس جمع کرلیا اور انھیں رسیدیں جاری کردیں کہ جب چاہو یہ دکھا کر اپنا سونا چاندی لے لو۔ لوگوں نے صرف اتنی سہولت کی خاطر کہ بوجھ نہ اٹھانا پڑے، ان رسیدوں سے لین دین شروع کردیا، جس نے آگے نوٹوں کی صورت اختیار کرلی۔ اب صرف بوجھ سے بچنے کی خاطر سارا کاروبار یا تو نوٹ پر چلتا ہے یا بینک کے چیکوں پر۔ لوگوں کے پاس کاغذ کے ایک ٹکڑے کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کاغذ کی حیثیت یہ ہے کہ حکومتیں جب چاہتی ہیں اس کی قیمت کبھی آدھی کم کردیتی ہیں، کبھی چوتھا حصہ۔ جو شخص ایک کروڑ روپے کے سونے کا مالک تھا، صرف ایک اعلان کے بعد پچاس لاکھ کے وعدے والے کاغذ کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں رہتا اور اگر نئے نوٹ جاری ہوجائیں اور یہ بر وقت نہ بدلوا سکے تو بالکل ہی خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ بینک دیوالیہ ہوجائے تو اس کا چیک کسی کام کا نہیں رہتا اور ساری رقم ہی برباد ہوجاتی ہے۔ ضروری بوجھ سے جان چھڑانے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو اس کے مخلص بندے یہود کے شکنجے کو توڑ کر سود اور بینکوں کو ختم کرکے سونے یا چاندی کے سکے جاری کریں گے، تاکہ کوئی کسی کا حق نہ مار سکے۔ یہاں مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ بوجھ سے جان چھڑانے میں بنی اسرائیل کو کتنا نقصان ہوا اور اب مسلم اور غیر مسلم صرف بوجھ اٹھائے پھرنے سے بچنے کی خاطر کتنے بڑے خسارے میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں درحقیقت کچھ بھی نہیں، سب یہودی سود خوروں یا ان کے گماشتوں کے پاس ہے۔ ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی مالیت سونے چاندی کی صورت میں محفوظ رکھے، صرف اتنا بیچ لے جتنے استعمال کی ضرورت ہے۔ سونے کی قیمت ہمیشہ ایک رہی ہے اور رہے گی۔ دیکھیے صحیح حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک دینار میں بکری خریدنا منقول ہے، ہجرت کو چودہ سو تیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی بکری کی قیمت یہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا (They said, |"We did not back out of our own volition, of the promise made to you|". - 20:87) The excuse which the Bani Isra&il offered for adopting the worship of the calf was that they did not do so of their own choice but merely followed Sas example. وَلَـٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارً‌ا مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ (But we were burdened with loads from the ornaments of the people. - 20:87) The word أَوْزَارً‌ا (awzar) is the plural of وزر (wizr) which means |"burden|". On the Day of Judgment everybody will carry his bundle of sins on his shoulders just as one carries a load; therefore the sin is also termed as &wizr& (load). The word زینہ means ornament and قوم (the people) refers to the Egyptians from whom Bani Isra&il had borrowed the ornaments on the pretext of wearing them on their festival day, but which they did not return to their owners and carried with them on their flight from Egypt. These ornaments have been described as اوزار in the sense of |"sins|" because these were borrowed articles and by not returning them to their lawful owners the Bani Isra&il had committed a sin. From the hadith ul-futun which has been reproduced in detail in the earlier pages it would appear that Sayyidna Harun علیہ السلام warned them about their guilt and directed them to throw all the ornaments in a pit. According to some other versions it was Samiri who told them that by holding on to something which did not belong to them they were committing a sin and advised them to throw all the ornaments in a pit, which they did. When does the property of infidels become lawful for the Muslims? The non-Muslims who live in a Muslim state and abide by its laws they are known as Dhimmis. Such people as well as those infidels who have entered into a treaty with the Muslims remain in full control of their properties and it is not lawful for the Muslims to deprive them of any part of it. However, the properties of those infidels who are neither Dhimmis nor have any treaty with the Muslims, and who are described by the jurists as (an infidel belonging to enemy country) are lawful for the Muslims. That being so why did Sayyidna Harun (علیہ السلام) describe the ornaments borrowed by the Bani Isra&il from the Egyptians as a burden, meaning sin, and ordered them to throw everything in a pit? One explanation, which a majority of commentators have given is that the properties of infidels of an enemy state carried the same status as that of spoils of war. The law governing the spoils of war before the promulgation of the Islamic code was that while the Muslims could forcibly dispossess the infidels of their properties, they were forbidden to use them for their personal benefits. All the spoils of war (مالِ غنِمَت) thus acquired were collected and placed on a mound as offering where a fire from the sky - such as lightning - consumed them and this was a sign that Allah approved their war against the unbelievers. On the other hand if the fire did not consume offering (the spoils of war) it was considered that Allah did not approve their war so that the spoils were regarded as inauspicious and nobody ever approached them. Under the Islamic Shari&ah some of the old laws were relaxed and as a result Muslims were permitted to use the spoils of war for their own benefit. A Hadith on this issue appears in Sahih of Muslim. According to the laws, in force then, even if the ornaments borrowed by the Bani Isra&il from the Egyptians were considered as spoils of war, those could not have been allowed for the personal benefit of Bani Isra&il. That is why everything was thrown into the pit under the orders of Sayyidna Harun (علیہ السلام) . The research conducted by Imam Muhammad (رح) on this issue from a Juristic point of view is given in his book,: and its commentary by Sarakhsi. His conclusions are very weighty and closest to the truth, namely that the property of a harbi (infidel belonging to an enemy country) cannot be treated as spoils of war in every case. In order to be so treated, and thereby become lawful for the Muslims, it must have been acquired by sword in the course of a proper religious war (jihad). On the other hand the property of a harbi (a citizen of an enemy state) which has been acquired otherwise than in a religious war cannot be treated as spoils of war. Such properties are however termed as فَییء (fai& ) which can be used lawfully by the Muslims only with the consent of the owner. Taxes imposed by an Islamic state and paid by the infidels voluntarily fall in the definition of fai& and their use is permissible even though they have not been acquired in the course of a religious war. The ornaments borrowed by the Bani Isra&il did not fall in either of these two categories. They could not be described as fai& because they were borrowed from the Egyptians who did not transfer their ownership to Bani Isra&il, nor could they be considered as spoils of war because they were not taken in the course of a religious war. Thus according to the Islamic Shari&ah the Bani Isra&il could not have lawfully used the ornaments for their personal benefit. It is well-known that when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) decided to migrate to Madinah, he had with him many valuables which the infidels of Arabia had entrusted to him for safe custody because they had full faith in his honesty and integrity and had, in recognition of these qualities, bestowed upon him the title of Amin ( اَمِین۔ honest). He was so solicitous about these deposits that he placed them in the hands of Sayyidna ` Ali (رض) and specifically directed him to restore them to their rightful owners before migrating to Madinah. This clearly shows that it is not lawful for Muslims to appropriate, for their personal use, the valuables belonging to non-Muslims. The word فَقَذَفنٰھَا - means, |"we cast away the ornaments|". According to the hadtth-ul-futun (narrated earlier in detail) this was done under the orders of Sayyidna Harun (علیہ السلام) while some other versions say that Samiri cajoled the Bani Isra&il into throwing the ornaments in the pit. It is quite possible that both these versions are true (as appears below). فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِ‌يُّ (So did throw Samiri - 20:87) It appears from the hadith-ul-futun related by Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) (reported in earlier pages) that after the Bani Isra&il had thrown away all the ornaments, Sayyidna Harun (علیہ السلام) ordered a big fire to be lit in the pit which melted them and left them in one solid piece. The decision as to the disposal of this precious metal was deferred till the return of Sayyidna Musa& (علیہ السلام) . After all this had happened Samiri approached Sayyidna Harun (علیہ السلام) . He had something in his closed fists and sought permission to throw it in the pit. Sayyidna Harun (علیہ السلام) thinking that he held some ornaments in his fists permitted him to cast them in the pit. Then Samiri said, |"I will certainly throw it, but first I want you to pray to God that a wish which I have may be granted.|" Sayyidna Harun (علیہ السلام) ، unaware of the evil which he planned, prayed to Allah in his behalf, and Samiri opened his hands and threw what he held in the pit. It was not ornaments but only dust from under the hoof marks of the horse of Jibra&il (علیہ السلام) which Samiri had collected after he observed that signs of life appeared in the dust under the hoof marks of the horse. Aided by Shaitan he now wished to put life into a calf by means of this dust. Nevertheless, whether it was the result of the miraculous property of the dust or whether it was a consequence of the prayer of Sayyidna Harun (علیہ السلام) in behalf of Samiri, the molten lump of gold and silver assumed the form of a calf and started making bovine sounds. There are other traditions also which relate that it was Samiri himself who persuaded the Bani Isra&il to throw the ornaments in the pit after which he carved the molten metal in the shape of a calf which had no life. He then sprinkled on it the dust from the hoof marks of the mount of Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) and it became a living calf. All these and similar stories which are based on Isra&ilite traditions have been related by Qurtubi in his commentary and by other writers as well. These traditions cannot be wholly relied upon, yet at the same time we do not possess sufficient ground to disprove them either.

قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا، لفظ ملک بفتح میم و بضم میم دونوں کے معنے تقریباً ایک ہیں اور مراد اس جگہ اس سے اپنا اختیار ہے اور مقصد اس کا یہ ہے کہ ہم نے گو سالہ کی پرستش پر اقدام اپنے اختیار سے نہیں کیا بلکہ سامری کے عمل کو دیکھ کر ہم مجبور ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ دعویٰ غلط اور بےبنیاد ہے۔ سامری یا اس کے عمل نے ان کو مجبور تو نہیں کردیا تھا خود ہی غور و فکر سے کام نہ لیا تو مبتلا ہوگئے آگے سامری کا وہ واقعہ بیان کیا۔ وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ ، لفظ اوزار وزر کی جمع ہے جس کے معنے ثقل اور بوجھ کے ہیں انسان کے گناہ بھی چونکہ قیامت کے روز اس پر بوجھ بن کر لادے جائیں گے اس لئے گناہ کو زر اور گناہوں کو اوزار کہا جاتا ہے۔ زِيْنَةِ الْقَوْمِ ، لفظ زینت سے مراد زیور ہے اور قوم سے مراد قوم فرعون (قبط) ہے جن سے بنی اسرائیل نے عید کا بہانہ کر کے کچھ زیورات مستعار لے لئے تھے اور وہ پھر ان کے ساتھ رہے۔ ان کو اوزار بمعنی گناہوں کا بوجھ اس لئے کہا کہ عاریت کا نام کر کے ان لوگوں سے لئے تھے جس کا حق یہ تھا کہ ان کو واپس کئے جاویں چونکہ واپس نہیں کئے گئے تو اس کو گناہ قرار دیا اور حدیث فتون کے نام سے جو مفصل حدیث اوپر نقل کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو اس کے گناہ ہونے پر متنبہ کیا اور ایک گڑھے میں یہ سب زیورات ڈال دینے کا حکم دیا۔ بعض روایات میں ہے کہ سامری نے اپنا مطلب نکالنے کے لئے ان کو کہا یہ زیورات دوسروں کا مال ہے تمہارے لئے اس کا رکھنا و بال ہے اس کے کہنے سے گڑھے میں ڈالے گئے۔ کفار کا مال مسلمانوں کے لئے کس صورت میں حلال ہے : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کفار جو اہل ذمہ یعنی مسلمانوں کی حکمت میں ان کے قانون کی پابندی کر کے بستے ہیں اسی طرح وہ کفار جن سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ جان و مال وغیرہ کے امن کا ہوجائے ان کافروں کا مال تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لئے حلال نہیں لیکن جو کافر نہ مسلمانوں کا اہل ذمہ ہے نہ اس سے ان کا کوئی عہد و معاہدہ ہے جن کو فقہاء کی اصطلاح میں کافر حربی کہا جاتا ہے ان کے اموال تو مسلمانوں کے لئے مباح الاصل اشیاء کی طرح حلال ہیں پھر ہارون (علیہ السلام) نے ان کو وزر و گناہ کیسے قرار دیا اور ان کے قبضہ سے نکال کر گڑھے میں ڈالنے کا حکم کیوں دیا۔ اس کا ایک جواب تو مشہور ہے جو عامہ مفسرین نے لکھا ہے کہ کفار حربی کا مال لینا اگرچہ مسلمان کے لئے جائز ہے مگر وہ مال بحکم مال غنیمت ہے اور مال غنیمت کا قانون شریعت اسلام سے پہلے یہ تھا کہ کافروں کے قبضہ سے نکال لینا تو اس کا جائز تھا مگر مسلمانوں کے لئے اس کا استعمال اور اس سے نفع اٹھانا حلال نہیں تھا بلکہ مال غنیمت جمع کر کے کسی ٹیلہ وغیرہ پر رکھ دیا جاتا تھا اور آسمانی آگ (بجلی وغیرہ) آ کر اس کو کھا جاتی تھی یہی علامت ان کے جہاد قبول ہونے کی تھی اور جس مال غنیمت کو آگ نہ کھائے وہ علامت اس کی تھی کہ جہاد مقبول نہیں اس لئے وہ مال بھی منحوس سمجھا جاتا اور کوئی اس کے پاس نہ جاتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں جو مخصوص رعایتیں اور سہولتیں دی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مال غنیمت کو مسلمانوں کے لئے حلال کردیا گیا جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اس کی تصریح ہے۔ اس قاعدہ کے اعتبار سے بنی اسرائیل کے قبضہ میں آیا ہوا مال جو قوم فرعون سے لیا تھا مال غنیمت ہی کے حکم میں قرار دیا جائے تب بھی اس کا استعمال ان کے لئے جائز نہیں تھا اسی وجہ سے اس مال کو اوزار کے لفظ سے تعبیر کیا گیا اور حضرت ہارون کے حکم سے اس کو ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا۔ فائدہ مہمہ : لیکن فقہی نظر سے اس معاملہ کی جو تحقیق امام محمد کی کتاب سیر اور اس کی شرح سرخسی میں بیان کی گئی ہے وہ بہت اہم اور اقرب الی الصواب ہے۔ وہ یہ ہے کہ کافر حربی کا مال بھی ہر حال میں مال غنیمت نہیں ہوتا بلکہ اس کی شرط یہ ہے کہ باقاعدہ جہاد و قتال کے ذریعہ بزور شمشیر ان سے حاصل کیا جائے اسی لئے شرح سیر میں مغالبہ بالمحاربہ شرط قرار دیا ہے اور کافر حربی کا جو مال مغالبہ اور محاربہ کی صورت سے حاصل نہ ہو وہ مال غنیمت نہیں بلکہ اس کو مال فیئی کہتے ہیں مگر اس کے حلال ہونے میں ان کفار کی رضاء و اجازت شرط ہے جیسے کوئی اسلامی حکومت ان پر ٹیکس عائد کر دے اور وہ اس پر راضی ہو کہ یہ ٹیکس دیدے تو اگرچہ یہ کوئی جہاد و قتال نہیں مگر رضامندی سے دیا ہوا مال مال فیئی کے حکم میں ہے اور وہ بھی حلال ہے۔ یہاں قوم فرعون سے لئے ہوئے زیورات ان دونوں قسموں میں داخل نہیں کیونکہ یہ ان سے عاریت کہہ کر لئے گئے تھے وہ ان کو مالکانہ طور پر دینے کے لئے رضامند نہ تھے کہ اس کو مال فیئی کہا جائے اور کوئی جہاد و قتال تو وہاں ہوا ہی نہیں کہ مال غنیمت شمار کیا جائے اس لئے شریعت اسلام کی رو سے بھی یہ مال ان کے لئے حلال نہ تھا۔ واقعہ ہجرت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مدینہ طیبہ جانے کا قصد فرما لیا اور آپ کے پاس عرب کے کفار کی بہت سی امانتیں رکھی تھیں کیونکہ سارا عرب آپ کو امانتدار یقین کرتا اور امین کے لفظ سے خطاب کرتا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی امانتوں کو واپس کرنے کا اتنا اہتمام فرمایا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کر کے اپنے پیچھے ان کو چھوڑا اور حکم دیا کہ جس کی امانت ہے اس کو واپس کردی جائے آپ اس سے فارغ ہو کر ہجرت کریں۔ اس مال کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیتم کے تحت حلال قرار نہیں دیا ورنہ وہ مسلمانوں کا حق ہوتا کافروں کو واپس کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ واللہ اعلم فَقَذَفْنٰهَا یعنی ہم نے ان زیورات کو پھینک دیا۔ حدیث فنون مذکورہ کی رو سے یہ عمل حضرت ہارون (علیہ السلام) کے حکم سے کیا گیا اور بعض روایات میں ہے کہ سامری نے ان کو بہکا کر زیورات گڑھے میں ڈلوا دیئے اور دونوں باتیں جمع ہوجائیں یہ بھی کوئی مستبعد نہیں۔ فَكَذٰلِكَ اَلْقَي السَّامِرِيُّ ، حدیث فتون مذکور میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے جب بنی اسرائیل کے سب زیورات گڑھے میں ڈلوا دیئے اور اس میں آگ جلوا دی کہ سب زیورات پگھل کر یک جسم ہوجائیں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد اس کا معاملہ طے کیا جاوے گا کہ کیا کیا جائے۔ جب سب لوگ اپنے اپنے زیورات اس میں ڈال چکے تو سامری بھی مٹھی بند کئے ہوئے پہنچا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میں بھی ڈال دوں۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے یہ سمجھا کہ اس کے ہاتھ میں بھی کوئی زیور ہوگا، فرمایا کہ ڈال دو ۔ اس وقت سامری نے ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میں جب ڈالوں گا کہ آپ یہ دعا کریں کہ جو کچھ میں چاہتا ہوں وہ پورا ہوجائے۔ ہارون (علیہ السلام) کو اس کا نفاق و کفر معلوم نہیں تھا دعا کردی۔ اب جو اس نے اپنے ہاتھ سے ڈالا تو زیور کے بجائے مٹی تھی جس کو اس نے جبرئیل امین کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے کہیں یہ حیرت انگیز واقعہ دیکھ کر اٹھا لیا تھا کہ جس جگہ اس کا قدم پڑتا ہے وہیں مٹی میں نشو و نما اور آثار حیات پیدا ہوجاتے ہیں جس سے اس نے سمجھا کہ اس مٹی میں آثار حیات رکھے ہوئے ہیں شیطان نے اس کو اس پر آمادہ کردیا کہ یہ اس کے ذریعہ ایک بچھڑا زندہ کر کے دکھلا دے۔ بہرحال اس مٹی کا ذاتی اثر ہو یا حضرت ہارون (علیہ السلام) کی دعا کا کہ یہ سونے چاندی کا پگھلا ہوا ذخیرہ اس مٹی کے ڈالنے اور ہارون (علیہ السلام) کی دعا کرنے کے ساتھ ایک زندہ بچھڑا بن کر بولنے لگا جن روایات میں ہے کہ سامری ہی نے بنی اسرائیل کو زیورات اس گڑھے میں ڈالنے کا مشورہ دیا تھا ان میں یہ بھی ہے کہ اس نے زیورات کو پھگلا کر ایک بچھڑے کی مورت تیار کرلی تھی مگر اس میں کوئی زندگی نہیں تھی۔ پھر یہ جبرائیل امین کے نشان قدم کی مٹی ڈالنے کے بعد اس میں حیات پیدا ہوگئی (یہ سب روایات تفسیر قرطبی وغیرہ میں مذکور ہیں اور ظاہر ہے کہ اسرائیلی روایات ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا مگر ان کو غلط کہنے کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰہَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَي السَّامِرِيُّ۝ ٨٧ۙ ملك المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ وزر الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل . قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی: لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» «4» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . ( و ز ر ) الوزر ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں قذف الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي . ( ق ذ ف ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه/ 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء/ 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ/ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات/ 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧) قوم کہنے لگی موسیٰ (علیہ السلام) ہم نے جو تم سے وعدہ کیا تھا، اس کی اپنے اختیار سے خلاف ورزی نہیں کی لیکن آل فرعون کے زیورات کا ہم پر بوجھ لاد رہا تھا اس لیے اس نے اس بچھڑے کی پوجا پر مجبور کیا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ ہم نے ان زیورات کو آگ میں ڈال دیا اور اسی طرح سامری نے بھی اپنے ساتھ کا زیور آگ میں ڈال دیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67. This excuse was put forward by those people who were involved in the shirk fabricated by the Samiri. They meant to say: We did not throw down the ornaments with the intention of setting up a calf nor did we know what was going to be made of these, but when the calf was brought before us, we involuntarily got involved in shirk. The Arabic text which we have translated into: “We were laden with burdens of ornaments of the people”, simply means this: The heavy ornaments which our men and women were wearing like the Egyptians proved very burdensome to us in our wanderings in the desert and we did not know how to get rid of them for it appeared very difficult for us to travel in the desert with them. But according to the Bible these ornaments had been borrowed by every family of the Israelites from their Egyptian neighbors with this intention, “....and ye shall put them upon your sons, and upon your daughters and ye shall spoil the Egyptians....and let every man borrow of his neighbor, and every woman of her neighbor, jewels of silver, and jewels of gold....And the Lord gave the people favor in the sight of the Egyptians....so that they lent unto them such things as they required. And they spoiled the Egyptians.” And that, too, on the advice of Prophet Moses, whom God Himself had instructed to do this noble deed. (Exodus, 3: 14-22, 11: 2-3, and I 2: 35-36). It is a pity that some of our commentators have interpreted this verse in the light of the above traditions of the Bible. They say that the Israelites felt burdened with the weight of those ornaments which they had borrowed from their Egyptian neighbors, with the intention of carrying them away as a spoil bestowed by God. We are of the opinion that the clause of the verse under discussion means this: When the people were tired of carrying their ornaments on their bodies, they decided by mutual consultation that all the ornaments should be gathered at one place and it should be noted down how much gold and silver belonged to each of the owners. Then it should be melted into bars and rods and placed on the backs of the beasts of burden. Accordingly, they might have brought their ornaments and thrown them in the common heap. 68. It is obvious from the context that the answer of the people ended with “threw them”, and Allah Himself has added the remaining story up to the end of the paragraph. It appears from this that the people including the Samiri went on bringing their ornaments and throwing them down into the heap while they were absolutely unaware of what was going to be done by the Samiri. After this the Samiri offered his services to melt it. Then he shaped it into a calf which lowed like a cow. Thus the Samiri deluded the people, saying: This god of yours has come into being by itself for I had simply thrown the gold in the fire.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :67 یہ ان لوگوں کا عذر تھا جو سامری کے فتنے میں مبتلا ہوئے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے زیورات پھینک دیے تھے ۔ نہ ہماری کوئی نیت بچھڑا بنانے کی تھی ، نہ ہمیں معلوم تھا کہ کیا بننے والا ہے ۔ اس کے بعد جو معاملہ پیش آیا وہ تھا ہی کچھ ایسا کہ اسے دیکھ کر ہم نے اختیار شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے ، اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں نے مصر کی رسموں کے مطابق جو بھاری زیورات پہن رکھے تھے وہ اس صحرا نوردی میں ہم پر بار ہو گئے تھے ۔ اور ہم پریشان تھے کہ اس بوجھ کو کہاں تک لادے پھریں ۔ لیکن بائیبل کا بیان ہے کہ یہ زیورات مصر سے چلتے وقت ہر اسرائیلی گھرانے کی عورتوں اور مردوں نے اپنے مصری پڑوسی سے مانگے کو لے لیے تھے اور اس طرح ہر ایک اپنے پڑوسی کو لوٹ کر راتوں رات ہجرت کے لیے چل کھڑا ہوا تھا ۔ یہ اخلاقی کارنامہ صرف اسی حد تک نہ تھا کہ ہر اسرائیلی نے بطور خود اسے انجام دیا ہو ، بلکہ یہ کار خیر اللہ کے نبی حضرت موسیٰ نے ان کو سکھایا تھا ، اور نبی کو بھی اس کی ہدایت خود اللہ میاں نے دی تھی ۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ارشاد ہوتا ہے : خدا نے موسیٰ سے کہا ............................ جا کر اسرائیلی بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر اور ان کو کہہ ................ کہ جب تم نکلو گے تو خالی ہاتھ نہ نکلو گے بلکہ تمہاری ایک ایک عورت اپنی پڑوسن سے اور اپنے اپنے گھر کی مہمان سے سونے چاندی کے زیور اور لباس مانگ لے گی ۔ ان کو تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہناؤ گے اور مصریوں کو لوٹ لو گے ۔ ( باب 3 ۔ آیت 14 تا 22 ) اور خداوند نے موسیٰ سے کہا ........... سو اب تو لوگوں کے کان میں یہ بات ڈال دے کہ ان میں سے ہر شخص اپنے پڑوسی اور ہر عورت اپنی پڑوسن سے سونے چاندی کے زیور لے ، اور خداوند نے ان لوگوں پر مصریوں کو مہربان کر دیا ( باب 11 ۔ آیت 2 ۔ 3 ) اور بنی اسرائیل نے موسیٰ کے کہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لیے اور خداوند نے ان لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزت بخشی کہ جو کچھ انہوں نے مانگا انہوں نے دیا ، سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا ۔ ( باب 12 ۔ آیت 35 ۔ 36 ) افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے بھی قرآن کی اس آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی اس روایت کو آنکھیں بند کر کے نقل کر دیا ہے اور ان کی اس غلطی سے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا ہے کہ زیورات کا یہ بوجھ اسی لوٹ کا بوجھ تھا ۔ آیت کے دوسرے ٹکڑے اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا کا مطلب ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جب اپنے زیورات کو لادے پھرنے سے لوگ تنگ آ گئے ہوں گے تو باہم مشورے سے یہ بات قرار پائی ہو گی کہ سب کے زیورات ایک جگہ جمع کر لیے جائیں ، اور یہ نوٹ کر لیا جائے کہ کس کا کتنا سونا اور کس کی کتنی چاندی ہے ، پھر ان کو گلا کر اینٹوں اور سلاخوں کی شکل میں ڈھال لیا جائے ، تاکہ قوم کے مجموعی سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر لاد کر چلا جاسکے ۔ چنانچہ اس قرارداد کے مطابق ہر شخص اپنے زیورات لا لا کر ڈھیر میں پھینکتا چلا گیا ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ فرعون کے لشکر کا چھوڑا ہوا مالِ غنیمت تھا، اُس دور میں مالِ غنیمت کو استعمال کرنا جائز نہیں تھا۔ اس کے بجائے اُسے ایک میدان میں رکھ دیا جاتا تھا، اور آسمان سے ایک آگ آکر اُسے جلا دیتی تھی، شاید اُن زیورات کو پھینکنے کا یہی مقصد ہو کہ آسمانی آگ انہیں آ کر جلا دے۔ اس کے برخلاف عام طور پر تفسیروں میں یہ روایت مذکور ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تھے تو نکلنے سے پہلے انہوں نے فرعون کی قوم کے ملوگوں سے بہت سے زیورات عید کے موقع پر پہننے کے لئے مستعار لئے تھے وہ سارے زیورات مصر سے نکلتے ہوئے ان کے ساتھ تھے۔ چونکہ یہ زیورات دوسروں کی امانت تھی۔ اس لئے بنی اسرائیل کے لئے جائز نہیں تھا کہ وہ انہیں مالکوں کی اجازت کے بغیر استعمال کریں، دوسری طرف انہیں واپس کرنے کا بھی کوئی راستہ نہیں تھا اس لئے حضرت ہارون علیہ السلام نے ان سے کہا کہ یہ زیورات یہیں پھینک دو، اور ان کے ساتھ وہی معاملہ کرو، جو دُشمن سے حاصل کئے ہوئے مالِ غنیمت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی روایت بہت مستند نہیں ہے، اور احتمال یہ بھی ہے کہ سامری نے اپنا شعبدہ دکھانے کے لئے لوگوں سے کہا ہو کہ تم اپنے اپنے زیور نیچے پھینکو، میں تمہیں ایک تماشا دکھاتا ہوں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عام لوگوں نے جو زیورات پھینکے، اس کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے قذف کا لفظ استعمال فرمایا ہے، اور سامری نے جو کچھ پھینکا، اُس کے لئے دوسرا لفظ ’’القاء‘‘ استعمال فرمایا ہے۔ اس میں یہ بھی امکان ہے کہ یہ صرف اُسلوب کی تبدیلی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ سامری کے پھینکنے سے مراد اس کی شعبدہ بازی کی کاریگری ہو، کیونکہ ’’القاء‘‘ کا لفظ جادوگروں کے کرتب کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ 36: جب سارے لوگوں نے اپنے زیورات پھینک دئیے تو سامری بھی کوئی چیز مٹھی میں دبا کر لایا، اور حضرت ہارون علیہ السلام سے کہا کہ کیا میں بھی پھینک دوں؟ حضرت ہارون علیہ السلام نے سمجھا کہ وہ بھی کوئی زیور ہوگا، اس لئے فرمایا کہ ڈال دو۔ اُس پر سامری نے کہا کہ آپ میرے لئے دعا فرمائیں کہ جب میں ڈالوں تو جو کچھ میں چاہتا ہوں، وہ پورا ہوجائے۔ حضرت ہارون علیہ السلام کو اس کی منافقت معلوم نہیں تھی، اس لئے دعا فرما دی۔ حقیقت میں وہ مٹھی میں زیور کے بجائے مٹی لے کر آیا تھا۔ اور اس نے وہ مٹی ان زیورات پر ڈال کر انہیں پگھلا دیا اور ان سے ایک بچھڑے کی سی مورت بنا لی جس میں سے آواز نکلتی تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:87) بملکنا۔ باء حرف جار۔ ملک مجرورو مضاف نا ضمیر جمع متکلم مضاف الیہ۔ ملک بمعنی اختیار ملکیا ای اختیارنا۔ (الحازن) المفردات میں ہے ایک محاورہ ہے مالاحد فی ھذا ملک غیری کہ میرے سوا اس پر کسی کا اختیار یا قبضہ نہیں ہے۔ آیت ہذا ما اخلفنا موعدک بملکنا۔ کا معنی۔ ہم نے اپنے اختیار سے وعدہ خلافی نہیں کی۔ حملنا۔ ماضی مجہول جمع متکلم۔ ہم پر لادا گیا۔ ہم لادے گئے ۔ ہم سے اٹھوایا گیا۔ تحمیل (تفعیل) مصدر۔ اوزارا۔ جمع وزرۃ کی ۔ بمعنی وز ن۔ بوجھ۔ زینۃ۔ زیور۔ سجاوت۔ چمک دمک۔ یہاں زیور مراد ہے۔ ولکنا حملنا اوزارا من زینۃ القوم۔ (بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ) قوم کے زیورات کا بوجھ ہم پر بھاری ہو رہا تھا۔ یہ زیور آیا قوم موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنا ملکیتی تھا۔ یا جیسا کہ بائبل میں مذکور ہے کہ قوم موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطیوں سے مستعار لیا ہوا تھا۔ یا فرعون کی فوج کے غرق شدہ فوجیوں کے جسموں سے حاصل کیا تھا۔ کچھ بھی ہو اس کا صرف بوجھ سمجھ کر پھینک دینا قابل تسلیم بات نہیں۔ زیورات سے کم قیمتی سامان تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے پاس تھا اس کو کیوں نہ پھینک کر بوجھ ہلکا کرلیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے جب کوئی معقول جواب نہ بن پڑا تو یہ عذر لنگ پیش کردیا ۔ ہوسکتا ہے کہ حقیقت یہ ہو کہ سامری کے دھوکے میں آکر انہوں نے بلا کسی اور وجہ کے محض سامری کے حکم کی تعمیل میں زیورات اکٹھے کر کے دے دئیے ہوں۔ فقذفنھا۔ قذفنا۔ ماضی جمع متکلم فاء حرف تعقیب۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب جس کا مرجع زیورات قوم ہے۔ قذف یقذف (ضرب) قذف مصدر۔ پھر ہم نے ان (زیورات ) کو ڈال دیا۔ ای القیناھا۔ فکذلک القی السامری۔ پس اس طرح (جب سونا فراہم ہوگیا تو) سامری نے اسے (آگ میں) ڈھالا۔ یہاں فقذفناھا پر قوم کا جواب ختم ہوا۔ اس کے بعد کی تفصیل اللہ تعالیٰ خود بیان فرما رہے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 عموماً مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ زبور بنی اسرائیل کی عورتوں نے کسی تقریب کے موقع پر قطیبیوں کی عورتوں سے مستعار لئے تھے اور بعد میں واپس نہ کئے تھے بعض کہتے ہیں کہ جب فرعون اور اس کے لشکر والے سمندر میں غرق ہوگئے اور ان کی لاشیں کناروں پر تیرتی ہوئی ائٓیں تو بنی اسرائیل نے ان کے زیور اتار لئے۔ (فتح القدیر)10 تاکہ ان کے گناہ سے نجات پائیں یا سامری کے سپرد کردیئے تاکہ حضرت موسیٰ کے واپس آنے تک اس کے پاس محفوظ رہیں۔ (شوکانی) 1 یعنی اس نے بھی جو زیور اس کے پاس تھے ڈال دیئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہ معنی نہیں کہ بالکل مضطر ہوگئے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس رائے کہ ہم ابتداء مخلی بالطبع ہو کر اختیار کرتے سامری کا فعل ہمارے لئے منشاء اشتباہ بن گیا، جس سے ہم نے وہ رائے سابق اختیار نہ کی بلکہ رائے بدل گئی گو اس پر بھی عمل اختیار ہی سے ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بےہودہ جواب۔ چاہیے تو یہ تھا بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معذرت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے لیکن انھوں نے حسب عادت بہانہ سازی سے کام لیتے ہوئے یہ عذر لنگ پیش کیا کہ اے موسیٰ دراصل ہم اپنی مرضی سے اس سنگین جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اے موسیٰ ہوا یوں کہ ہمارے پاس لوگوں کے زیورات تھے وہ ہمارے لیے بوجھ بن چکے تھے۔ ہم نے سوچا ان سے جان چھڑائی جائے ہم نے انھیں پھینک دیا۔ ہمارے ساتھ سامری نے بھی اپنا زیور پھینک دیا۔ پھر سامری نے انھیں آگ میں ڈال کر ایک ایسا بچھڑا بنایا۔ جس کے منہ سے عجب آوازیں آنے لگیں۔ سامری نے ہمیں کہا یہی تو تمہارا اور موسیٰ کا رب ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اسی کی تلاش میں کوہ طور کی جانب گئے ہیں۔ ہمارا رب تو خود بخود ہمارے پاس چل کر پہنچا ہے۔ ہم اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے لہٰذا ہم نے مجبور ہو کر اس کی پرستش شروع کی ہے اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟ ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو کوہ طور پر تشریف لے گئے آپ کی غیر حاضری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے اللہ تعالیٰ کی توحید سے ہی منہ موڑ لیا، جس خالق نے فرعون کی غلامی سے ان کو آزادی دی۔ جس کی قدرت سے سمندر کی موجوں نے سمٹ کر ان کے لیے راستے بنا دئیے تھے، جس مالک نے ان کے سامنے ان کے دشمن کو ذلیل کر کے مارا اس وحدہ لا شریک کو بھول گئے۔ اس محسن حقیقی سے بندگی کا رشتہ توڑ کر ایک بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ ان کی عقلیں اتنی اندھی تھیں کہ الٰہ بنانے کے لیے ان کی نظر انتخاب جس چیز پر پڑی وہ دھات کی بنی ہوئی بچھڑے کی مورتی تھی جو نہ بول سکتی تھی اور نہ کچھ سن سکتی تھی یہ اس کے سامنے شورو غل مچاتے ہیں اس کے منہ سے ایک بےمعنی آواز کے بغیر کچھ سنائی نہ دیتا۔ جس قوم نے ہر قدم پر آیات الٰہی کا مشاہدہ کیا تھا اس نیے یہ کیسے باور کرلیا کہ یہ ہمارا الٰہ ہے جس کا ڈھانچہ ان کے سامنے سامری نے تیار کیا تھا ؟۔ اس کی توجیہہ بجز اس کے اور کیا کی جاسکتی ہے کہ غلامانہ زندگی کا طویل عرصہ جو انہوں نے سر زمین مصر میں بسر کیا تھا۔ وہاں وہ اپنے قبطی آقاؤں کو گائے کی پوجا کرتے ہوئے اور ان کی مورتیوں کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ اس چیز نے گائے کے تقدس کا ایسا نقشہ ان کو لوح ذہن پر کندہ کردیا تھا کہ جہاں گائے یا بچھڑے کی کوئی مورتی نظر آئی وہاں وہ بےساختہ اس کے سامنے بچھتے چلے گئے۔ اور عقل وفہم کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو الٰہ تسلیم کرلیا۔ موجودہ تورات میں بچھڑا بنانے کا الزام حضرت ہارون (علیہ السلام) پر لگایا گیا ہے لیکن قرآن جو تمام سابقہ انبیاء کی صداقت اور ان کی عظمت و پاکیزگی کا نقیب ہے۔ اس نے ہمیں صراحت سے بتادیا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا دامن اس الزام سے بالکل پاک ہے یہ کارستانی سامری کی تھی جس نے بنی اسرائیل سے سونے کے زیور جمع کیے انہیں گلایا اور اس سے بچھڑے کا ڈھانچہ تیار کرلیا اور اپنی فنی مہارت سے اس میں یہ بات پیدا کردی کہ جب اس میں ہوا کا گزر ہوتا تو ایک بےمعنی سی بیں بیں کی آواز نکلتی اور یہ کوئی مشکل نہیں آج ہم بیسیوں کھلونے ایسے دیکھتے ہیں جو بےجان ہوتے ہوئے طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں اور مختلف نوعیت کی آوازیں نکالتے ہیں۔ “ (ماخوذ از ضیاء القرآن ) مسائل ١۔ بنی اسرائیل احسان فراموش اور جلد باز قوم ہے۔ ٢۔ بنی اسرائیل کی وجہ سے دنیا میں گائے پرستی کا شرک پھیلا۔ تفسیر بالقرآن الٰہ کے اوصاف : ١۔ الٰہ کا معنٰی معبود وہ ایک ہی ہے۔ ( البقرۃ : ١٦٣) ٢۔ الٰہ کا معنٰی مشکل کشا، حاجت روا۔ ( المؤمن : ٦٥) ٣۔ اللہ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ الٰہ ایک ہی ہے (النحل : ٥١) ٥۔ الٰہ تمہارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ٦۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ شراکت داری سے پاک ہے۔ (الطور : ٤٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ما اخلقنا موعدک بملکنا (٠٢ : ٨٨) ” ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اتخیار سے نہیں کی۔ “ بات اتنی بڑی تھی کہ ہمارے بس میں نہ تھا کہ ہم اس سے باز رہتے۔ ولکنا حملنا اوزارا من زینۃ القوم فقذفنھا (٠٢ : ٨٨) ” معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا۔ “ ان کے پاس مصری عورتوں کے زیورات تھے جو وہ ساتھ لے آئے تھے۔ اس بوجھ کی طرف وہ اشارہ کرتے ہیں۔ ہم نے ان زیورات کو بوجھ اتارنے کے لئے پھینک دیا تھا کیونکہ یہ ہمارے پاس تھے اور تھے حرام۔ سامری نے ان کو چن لیا اور ان سے یہ بچھڑا بنا دیا۔ سامری مصر کا باشندہ تھا جو ان کا ساتھی بن گیا تھا۔ یا یہ بنی اسرائیل ہی میں سے ایک شخص تھا ، جس نے یہ لقب اختیار کرلیا تھا۔ اس نے اس بچھڑے میں ایسے سوراخ بنائے تھے کہ جب ان سے ہوا نکلتی تو بچھڑے جیسی آواز نکلتی تھی۔ اس بچھڑے میں نہ زندگی تھی اور نہ روح تھی۔ کیونکہ وہ تو ایک مردہ جسم تھا جو اس جسم کو کہا جاتا ہے جس میں زندگی نہ ہو۔ جونہی انہوں نے اس بچھڑنے کو آواز کرتے پایا۔ انہوں نے اس خدا کو بھلا دیا جس نے انہیں مصر سے نجات دی تھی یعنی ذلت کی سر زمین سے۔ چناچہ انہوں نے سونے کے اس بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ اپنی کم عقلی اور حماقت کی وجہ سے یہ کہنے لگے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:۔ قوم نے معذرت کے طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا بیشک ہم نے آپ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت پر قائم رہنے کا عہد کیا تھا۔ مگر ہم سے جو عہد شکنی ہوئی ہے یہ ہم نے جان بوجھ کر اور اپنے اختیار سے نہیں کی۔ بلکہ سامری نے چالاکی سے ایسی صورت پیدا کردی جس کے پیش نظر ہم بےاختیار اور مجبور ہوگئے۔ ای من قدرتنا واختیارنا (ابن کثیر ج 3 ص 162) ابن زید لم نملک انفسنا ای کنا مضطرین (قرطبی) یعنی ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ ہم سے سامری نے کرایا ہے۔ 60:۔ اس میں انہوں نے بیچارگی اور اضطرار کی تصویر پیش کی کہ ہوا یوں کہ قبطیوں (قوم فرعون) سے جو زیورات ہم نے بطور استعارہ لیے تھے۔ اب ان کی ہلاکت کے بعد ان کی واپسی کا کوئی امکان نہ تھا اور نہ ان کو اپنے استعمال میں لانا ہمارے لیے جائز تھا کیونکہ وہ غیر کا حق تھا اس لیے اس سے نجات حاصل کرنے اور گناہ سے بچنے کے لیے ہم نے تمام زیورات گھروں سے باہر پھینک دئیے اور سامری نے انہیں پگھلا کر جو کچھ اس کے پاس تھا اس میں ڈال دیا اور اس سے ایک بچھڑے کی شکل کا جانور بنا ڈالا جو بچھڑے کی طرح بولتا تھا اور پھر کہنے لگا۔ تمہارا اور موسیٰ کا معبود تو یہ ہے وہ بھول میں ہیں کہ اپنے معبود کا کلام سننے کے لیے کوہ طور پر چلے گئے ہیں۔ ای فغفل عنہ موسیٰ و ذھب یطلبہ فی الطور (روح ج 16 ص 248) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

87 قوم کے لوگوں نے جواب دیا ہم نے جو تجھ سے وعدہ کیا تھا اس کا خلاف ہم نے اپنے اختیار سے نہیں کیا لیکن واقعہ یہ ہوا کہ فرعونی قوم کے زیورات کا جو بوجھ ہم پر لدا ہوا تھا اس کو ہم نے سامری کے کہنے سے آگ میں ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا۔ یعنی ہوا یہ کہ مصر سے چلتے وقت جو زیور ہم قبطیوں سے عاریتہ مانگ لائے تھے اس کا بوجھ ہم پر تھا اور اس زیور کا حکم ہم کو معلوم نہ تھا کہ اس زیور کا کیا کریں۔ کیونکہ اصلی مالک غرق ہوچکے تھے ان تمام زیورات کو ہم نے سامری کے کہنے سے آگ میں ڈال دیا۔ مقصد یہ تھا کہ گلا کر ایک جگہ کرلیا جائے۔ سامری نے بھی جو کچھ اس کے پاس تھا اسے گلانے کو ڈال دیا۔ مفسرین نے مختلف اقوال اس موقعہ پر ذکر کئے ہیں ہم نے ایک قول کو اختیار کرلیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں فرعون والوں سے عاریت مانگ کرلیا تھا گہنا کر دے یقین جانیں کہ ان کو شادی منظور ہے اس واسطے نکلتے ہیں شہر سے اس بغیر فرعون نکلنے نہ دیتا۔ 12 بہرحال ! اس زیور کے استعمال کو بنی اسرائیل پسندیدہ نہ سمجھتے تھے سامری جو ایک منافق تھا اس نے سب کا زیور لیکر گلا دیا اور ایک بچھڑا بنا لیا جیسا آگے آتا ہے۔