Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 89

سورة طه

اَفَلَا یَرَوۡنَ اَلَّا یَرۡجِعُ اِلَیۡہِمۡ قَوۡلًا ۬ ۙ وَّ لَا یَمۡلِکُ لَہُمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا ﴿۸۹﴾٪  13

Did they not see that it could not return to them any speech and that it did not possess for them any harm or benefit?

کیا یہ گمراہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ تو ان کی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ان کے کسی برے بھلے کا اختیار رکھتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَفَلَ يَرَوْنَ أَلاَّ يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلاً ... Did they not see that it could not return them a word (for answer), This is about the calf. `Do they not see that it does not respond to them when they ask it and when they speak to it!' ... وَلاَ يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا and that it had no power either to harm them or to do them good! Meaning in their worldly affairs and matters of the Hereafter. Ibn Abbas said, "Nay, by Allah, the moaning sound of the calf was nothing but wind that would enter into its behind and come out of its mouth, thus causing it to make a sound." In a Hadith of Al-Fitun recorded from Al-Hasan Al-Basri, it is mentioned that; this calf's name was Bahmut. In reference to the excuse of these ignorant people, they claimed that they were merely ridding themselves of the jewelry of the Copts. In the process of doing so, they cast the jewelry (into the pit of fire) and ended up worshipping the calf. Thus, they were seeking to rid themselves of something detestable, but wound up doing something even worse. This is similar to an authentic narration reported from Abdullah bin Umar. A man from Iraq asked him about the ruling of mosquitoes' blood if it get on one's garment. The man wanted to know if it is permissible to pray in such a garment or not. Ibn Umar replied by saying, "Look at the people of Iraq. They killed the grandson of the Messenger of Allah, Al-Hussein, and yet they're asking about the blood of the mosquito."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت و نادنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ چلا کہ یہ بچھڑا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ نہ نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ جب کہ معبود تو وہی ہوسکتا ہے جو ہر ایک کی فریاد سننے پر، نفع و نقصان پہنچانے پر اور حاجت برآوری پر قادر ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے یعنی ان بدبختوں کو اتنی بھی سمجھ نہ آئی کہ اگر اس بچھڑے کی سی آواز نکلتی بھی ہے تو وہ کیا ان کے سوال کا جواب دے سکتا ہے ؟ بلکہ وہ تو سنتا بھی نہیں پھر جواب کیا دے گا ؟ اور جو چیز نہ سن سکے نہ جواب دے سکے وہ کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہے یا سنوار سکتی ہے ؟ نیز وہ الہٰ کیسے ہوسکتی ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا ۔۔ : یہ وہی دلیل ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور قوم کے سامنے پیش کی تھی : (يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَـيْــــــًٔــا) [ مریم : ٤٢ ] ” اے میرے باپ ! تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تیرے کسی کام آتی ہے۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) کے پیش کردہ اکثر دلائل وہی ہیں جو ان کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیے تھے، دیکھیے سورة شعراء۔ بنی اسرائیل کی عجائب پرستی دیکھیے کہ دھات کے بنے ہوئے بچھڑے کے بےجان مجسمے کو صرف آواز کی وجہ سے معبود، حاجت روا اور مشکل کشا مان بیٹھے۔ مجسمہ بھی اس جانور کا جسے تمام جانوروں سے سادہ لوح سمجھا جاتا ہے اور جو خود انسان کا خدمت گار اور اس کی خوراک ہے۔ یہ نہ سوچا کہ اس مجسمے سے تو وہ خود ہزار گنا بااختیار ہیں کہ بول سکتے ہیں، اپنی مرضی سے چل پھر سکتے ہیں اور بقدر استطاعت کچھ نہ کچھ فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں، جب کہ بت بچھڑے کا ہو یا انسان کا، بات کرنے، چلنے پھرنے، سننے دیکھنے، ہر چیز سے عاری ہے۔ سورة اعراف کی آیات (١٩٤، ١٩٥) میں یہ بات نہایت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَفَلَا يَرَ‌وْنَ أَلَّا يَرْ‌جِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّ‌ا وَلَا نَفْعًا (Do they not then see that it does not respond to them with a word, nor does it have power to harm or benefit them? - 20:89) The excuses put forward by the Bani Isra&il before Sayyidna Musa (علیہ السلام) for the evil deeds end with the previous verse. In this verse Allah reminds them of their folly by pointing out to them that even if the calf had life and made bovine noises would that be sufficient reason to adopt it as the object of their worship? They were well aware that it could not answer their prayers nor had it the power to harm them or to benefit them.

اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا ڏ وَّلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا میں ان کی حماقت اور گمراہی کو بیان فرمایا ہے کہ اگر یہ فی الواقع ایک بچھڑا زندہ ہی ہوگیا اور گائے کی طرح بولنے بھی لگا تو عقل کے دشمنو یہ تو سمجھو کہ خدائی کا اس سے کیا واسطہ ہے جبکہ نہ وہ تمہاری کسی بات کا جواب دے سکتا ہے نہ تمہیں کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس کو خدا ماننے کی حماقت کا کیا جواز ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِـــعُ اِلَيْہِمْ قَوْلًا۝ ٠ۥۙ وَّلَا يَمْلِكُ لَہُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۝ ٨٩ۧ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩) اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی سمجھ کا نقص بیان فرماتے ہیں کہ کیا سامری اور اس کے ساتھی اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا نہ تو انکی کسی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ اس سے کسی نقصان کے دور کرنے اور ان کو کسی قسم کے نفع پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْہِمْ قَوْلاً لا) ” کیا انہیں نظر نہیں آتا تھا کہ وہ بچھڑا ان کی کسی بات کو جواب نہیں دے سکتا تھا۔ اس میں سے تو ایک بےمعنی بھاں بھاں کی آواز نکلتی تھی اور بس !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:89) فتنتم بہ۔ فتنتم۔ ماضی مجہول جمع مذکر حاضر۔ تم آزمائش میں ڈالے گئے ہو اس (بچھڑے) سے۔ یعنی اس بچھڑے کے ذریعہ تمہاری آزمائش ہو رہی ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 پھر یہ خدا کیونکر ہوسکتا تھا ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے بےہودہ بہانے کا جواب۔ بنی اسرائیل کی خدا فراموشی اور جہالت کا اندازہ لگائیں کہ انہیں کے زیورات سے ایک شخص بچھڑا بنا کر کہتا ہے کہ یہ ہے وہ الٰہ جس کی تلاش کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر گئے ہیں۔ جاہل قوم نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ یہ تو سامری کے کرتب کا کرشمہ ہے اور اس نے ہمارے زیورات سے اسے بنایا ہے۔ انھوں نے آنکھیں بند کرکے اس کی پوجا شروع کردی۔ درحقیقت گمراہ اقوام کا ابتدا ہی سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ سوچا ہی نہیں کرتے کہ ہمارے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بت اور ہم نے جن بزرگوں کو غسل دے کر اپنے ہاتھوں قبر میں اتارا ہے۔ دفن ہونے کے بعد اب کس طرح مدد کرسکتے ہیں۔ اگر وہ اس قابل ہوتے تو خود غسل کرکے اپنے قدموں پر چل کر قبر میں جاکر لیٹ جاتے۔ اسی طرح بت پرستوں کا معاملہ ہے جن بتوں اور مجسموں کو اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں۔ ان کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ مدفون بزرگوں کی روح ان میں حلول کرگئی ہے جس وجہ سے ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے، اعتکاف اور سجدہ کرتے اور نذرانے پیش کرتے ہیں۔ کہاں سے ثابت ہوا کہ ان میں بزرگوں کی روح حلول کرگئی ہے۔ اور پھر روحوں کے بارے میں کیا ثبوت ہے کہ یہ سنتے اور مدد کرتے ہیں ؟ سب کچھ جاننے اور دیکھنے کے باوجود لوگ انھیں داتا، دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا کہتے اور مانتے ہیں۔ افسوس کس قدر جہالت کی انتہا ہے۔ اسی جہالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ بچھڑے کی پوجا کرنے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ نہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے نہ انھیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی فائدہ دے سکتا ہے۔ پھر یہ کیسا معبود ہے ؟ افسوس جب انسان شرک میں مبتلا ہوجائے تو اس کی عقل کام نہیں کرتی اسی حقیقت کی قرآن مجید نے نشاندہی فرمائی ہے۔ ” کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں ؟ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجیے تم اپنے شرکاء کو بلاؤ اور میرے بارے میں تدبیر کرو اور مجھے مہلت نہ دو “ [ الاعراف : ١٩٥] مسائل ١۔ بت اور مدفون بزرگ کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے ہیں اور نہ قیامت تک جواب دے سکیں گے۔ ٢۔ بت اور مدفون بزرگ کسی کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افلا یرون الا یرجع الیھم قولاً ولا یملک لھم ضراً ولا نفعاً (٠٢ : ٩٨) ” کیا وہ دیکھتے نہ تھے کہ نہ وہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ وہ تو زندہ بچھڑا بھی نہ تھا کہ وہ ان کی بات سن سکتا اور نہ اس قدر جواب دے سکتا تھا جس قدر ایک زندہ بچھڑا دے سکتا ہے۔ چونکہ یہ بچھڑا تو حیوانیت کے درجے سے بھی نیچے ہے ، لہٰذا وہ ان کے نفع و نقصان کا مالک بھی نہیں ہے۔ یہ نہایت ہی سادہ حقیقت ہے کہ وہ نہ ہل چلاتا ہے نہ کنوئیں سے پانی نکال سکتا ہے نہ آٹے کی چکی چلا سکتا ہے۔ ان سب امور کو ایک طرف رہنے دیں۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) موجود تھے۔ وہ ان کے نبی بھی تھے اور اس نبی کے نئاب تھے جو ان کا نجات دہندہ تھا۔ اس وقت انہوں نے ان کو متنبہ بھی کیا جب ان پر یہ آزمائش آئی۔ انہوں نے کہا تھا :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ یہ چوتھی آیت توحید ہے۔ اور اس سے گوسالہ پرستوں کی حماقت کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ گوسالہ ان کی کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ان کا نفع و نقصان ہی اس کے اختیار میں ہے اور معبود صرف وہی ہوسکتا ہے جو عالم الغیب اور متصرف و مکتار اور کارساز ہو۔ ثم بین اللہ تعالیٰ فساد اعتقادھم بان الالوھیۃ لا تصلح لمن سلبت عنہ ھذہ الصفات (بحر ج 6 ص 219) ای ھو عاجز عن الخطاب والجر والنفع فکیف تتخذونہ الھا (مدارک ج 2 ص 49) ۔ لہذا بےبس اور عاجز کو معبود بنالینا سراسر حماقت اور قضیہ عقل کے صریح خلاف ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89 بھلا کیا یہ گمراہ لوگ اتنی بات بھی نہیں دیکھتے کہ وہ گوسالہ کا آواز دار مجسمہ نہ تو ان کی کسی بات کا جو با دے سکتا ہے اور نہ ان کے کسی نفع یا ضرر پر کوئی اختیار رکھتا ہے۔ یعنی نہ تو نفع اور نقصان کا مالک اور نہ اتنی سمجھ کہ بات کو سمجھ کر کسی بات کا جواب دے ایسے مجسمے کو معبود بنانا کیسی جاہلانہ حرکت ہے۔