Commentary When the Bani Isra&il were smitten with the mischief of calf-worship Sayyidna Harun (علیہ السلام) as the deputy of Sayyidna Musa (علیہ السلام) remonstrated with them but to no avail. They split into three factions. Those who remained loyal to Sayyidna Harun (علیہ السلام) and refused to be misled by Samiri and who numbered, according to Qurtubi, twelve thousand. The second faction adopted calf-worship with the reservation that if Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، on his return, forbade them they would give it up. The third faction consisted of zealots who believed that Sayyidna Musa علیہ السلام would approve of their action and would himself join them in calf-worship but even if he did not, they themselves would never give up their new faith. When Sayyidna Musa (علیہ السلام) returned to his people he rebuked them for the mischief they had caused (as related in the earlier verses). Then he turned to Sayyidna Harun (علیہ السلام) and in a rage seized him by his beard and the hair of his head. He asked him that when the unbelief (کُفر) of the Bani Isra&il had become obvious, why he did not follow him to the Tur mountain and why he disobeyed his orders. مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا ﴿٩٢﴾ أَلَّا تَتَّبِعَنِ (What did prevent you from following me when you saw them going astray. - 20:92-93) One meaning of ittiba& (following) referred to in this verse is that when Sayyidna Haran (علیہ السلام) discovered that the Bani Isra&il had strayed from the righteous path, and were beyond recall, he should have abandoned them and joined Sayyidna Musa (علیہ السلام) at the Tur mountain. The other meaning of the word &follow&, as adopted by some commentators is that when the Bani Isra&il had forsaken the True Faith, Sayyidna Haran (علیہ السلام) should have fought them as Sayyidna Musa (علیہ السلام) would have done had he been present there. In any case Sayyidna Musa blamed Sayyidna Haran (علیہ السلام) that he should either have fought the Bani Isra&il or should have parted company with them and joined Sayyidna Musa (علیہ السلام) at the Tur mountain, and that his continuing to live with them was an unwise act. Sayyidna Haran (علیہ السلام) addressed him as يَا ابْنَ أُمَّ (0 my mother&s son! ) which implied a plea not to judge him too harshly. His excuse was that if he had fought the Bani Isra&il or abandoned them with his twelve thousand men, it would have caused discord and strife among them. He said that he had understood the parting advice of Sayyidna Musa اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ (Take my place among my people and keep things right - 7:142) to mean that he should maintain harmony among the people and prevent differences at all cost. Besides, he said, he had hoped that when he (Sayyidna Musa علیہ السلام) would return, he would be able to handle the situation satisfactorily. A further excuse which he offered and which is reported elsewhere in the Qur&an was: إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي (7:150) which means that the Bani Isra&il have taken me as weak because of the small number of my supporters and were about to kill me. Sayyidna Musa (علیہ السلام) did not press the matter any further with his brother. He then turned to Samiri and asked him to explain his conduct in this whole affair. Qur&an-does not indicate whether he accepted the excuses offered by Sayyidna Haran (علیہ السلام) or whether he considered the latter&s mistake as one of ijtihad (assessment) and dropped the matter. Differences between two prophets when the opinions of both could be right In this affair the considered opinion of Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، by way of ijtihad was that in the situation as it took shape Sayyidna Harun (علیہ السلام) should have totally dissociated himself from the Bani Isra&il by removing himself and his followers from their company, and that by continuing to stay with them he had compromised his position. On the other hand Sayyidna Harun (علیہ السلام) felt, by way of ijtihad, that such an action would have caused a permanent split among the Bani Isra&il and divided them into factions, and since there was hope that they would see the error of their way when Sayyidna Musa (علیہ السلام) returned, he thought it wise to adopt a conciliatory attitude towards them. The purpose of both the prophets was a strict adherence to the commands of Allah and to ensure that the Bani Isra&il remained steadfast in the observance of the True Faith and in their belief in the Oneness of Allah. Where they differed, however, was the manner in which these objectives could be achieved whether to make a complete break with the dissidents or to bear with them in the hope those things would improve ultimately. Both these views have merit and it is not possible to pass a firm and final judgment on them. The differences among the jurists based on ijtihad are of a similar nature and those holding different opinions cannot be charged of having broken any religious laws. As regards Sayyidna Musa (علیہ السلام) seizing his brother by the hairs, it only shows his anger and frustration with the situation which had developed during his absence, but on hearing his explanation, he prayed to Allah to forgive them both.
خلاصہ تفسیر اور ان لوگوں سے ہارون (علیہ السلام) نے (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لوٹنے سے) پہلے بھی کہا تھا کہ اے میری قوم تم اس (گو سالہ) کے سبب گمراہی میں پھنس گئے ہو (یعنی اس کی پرستش کسی طرح درست نہیں ہو سکتی یہ کھلی گمراہی ہے) اور تمہارا رب (حقیقی) رحمان ہے (نہ کہ یہ گو سالہ) سو تم (دین کے بارے میں) میری راہ پر چلو اور (اس بات میں) میرا کہنا مانو (یعنی میرے قول و فعل کی اقتدا کرو) انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو جب تک موسیٰ (علیہ السلام) واپس (ہوکر) آئیں اسی (کی عبادت) پر برابر جمے بیٹھے رہیں گے (غرض ہارون (علیہ السلام) کا کہنا نہیں مانا تھا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی آگئے اور قوم سے اول خطاب کیا جو اوپر آ چکا بعد اس کے ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور) کہا اے ہارون جب تم نے (ان کو) دیکھا تھا کہ یہ (بالکل) گمراہ ہوگئے (اور نصیحت بھی نہیں سنی) تو (اس وقت) تم کو میرے پاس چلے آنے سے کون امر مانع ہوا تھا (یعنی اس وقت میرے پاس چلا آنا چاہئے تھا تاکہ ان لوگوں کو اور زیادہ یقین ہوتا کہ تم ان کے فعل کو نہایت ناپسند کرتے ہو اور نیز ایسے باغیوں سے قطع تعلقات جس قدر زیادہ ہو بہتر ہے) سو کیا تم نے میرے کہنے کے خلاف کیا (کہ میں نے کہا تھا وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ جیسا پارہ نہم میں ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مفسدین کے راستہ کا اتباع نہ کریں جس کے عموم میں یہ بھی داخل ہے کہ مفسدین کے ساتھ تعلقات نہ رکھیں اور سب سے الگ ہوجائیں) ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے مَیّا جائے (یعنی میرے بھائی) تم میری داڑھی مت پکڑ و اور نہ سر (کے بال) پکڑو (اور میرا عذر سن لو میرے تمہارے پاس نہ آنے کی یہ وجہ تھی کہ) مجھ کو یہ اندیشہ ہوگیا کہ (اگر میں آپ کی طرف چلا تو میرے ساتھ وہ لوگ بھی چلیں گے جو گو سالہ پرستی سے الگ رہے تو بنی اسرائیل کی جماعت کے دو ٹکڑے ہوجاویں گے کیونکہ گو سالہ کی پرستش کو برا سمجھنے والے میرے ساتھ ہوں گے اور دوسرے لوگ اس کی عبادت پر ہی جمے رہیں گے اور اس حالت میں) تم کہنے لگو کہ تم نے بنی اسرائیل کے درمیان تفرق ڈال دی ( جو بعض اوقات ان کے ساتھ رہنے سے زیادہ مضر ہوتی ہے کہ مفسدین خالی میدان پا کر بےخطر فساد میں ترقی کرتے ہیں) اور تم نے میری بات کا پاس نہ کیا ( کہ میں نے کہا تھا اَصْلِحْ ، یعنی اس صورت میں آپ مجھے یہ الزام دیتے کہ میں نے تمہیں اصلاح کرنے کا حکم دیا تھا تم نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال کر فساد کھڑا کردیا۔ ) معارف و مسائل بنی اسرائیل میں گو سالہ پرستی کا فتنہ پھوٹ پڑا تو حضرت ہارون (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کی خلافت اور نیابت کا حق ادا کر کے قوم کو سمجھایا مگر جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ان میں تین فرقے ہوگئے ایک فرقہ تو حضرت ہارون کے ساتھ رہا ان کی اطاعت کی اس نے گو سالہ پرستی کو گمراہی سمجھا ان کی تعداد بارہ ہزار بتلائی گئی ہے، کذا فی القرطبی، باقی دو فرقے گو سالہ پرستی میں تو شریک ہوگئے فرق اتنا رہا کہ ان دونوں میں سے ایک فرقے نے یہ اقرار کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) واپس آ کر اس سے منع کریں گے تو ہم گو سالہ پرستی کو چھوڑ دیں گے۔ دوسرا فرقہ اتنا پختہ تھا کہ اس کا یقین یہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی واپس آ کر اسی کو معبود بنالیں گے اور ہمیں اس طریقے کو بہرحال چھوڑنا نہیں ہے جب ان دونوں فرقوں کا یہ جواب حضرت ہارون نے سنا کہ ہم نے تو موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک گوسالہ ہی کی عبادت پر جمے رہیں گے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) اپنے ہم عقیدہ بارہ ہزار ساتھیوں کو لے کر ان سے الگ تو ہوگئے مگر رہنے سہنے وغیرہ کی جگہ وہی تھی اس میں ان کے ساتھ اشتراک رہا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے واپس آ کر اول تو بنی اسرائیل کو وہ خطاب کیا جو پچھلی آیتوں میں بیان ہوا ہے پھر اپنے خلیفہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہو کر ان پر سخت غصہ اور ناراضی کا اظہار کیا ان کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ لئے اور فرمایا کہ جب ان بنی اسرائیل کو آپ نے دیکھ لیا کہ کھلی گمراہی یعنی شرک و کفر میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوگئے تو تم نے میرا اتباع کیوں نہ کیا، میرے حکم کی خلاف ورزی کیوں کی۔ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَهُمْ ضَلُّوْٓا اَلَّا تَتَّبِعَنِ ، اس جگہ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ ارشاد کہ تمہیں میرا اتباع کرنے سے کس چیز نے روکا، اس اتباع کا ایک مفہوم تو وہی ہے جو خلاصہ تفسیر میں اختیار کیا گیا کہ اتباع سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس طور پر چلا جانا ہے اور بعض مفسرین نے اتباع کی مراد یہ قرار دی کہ جب یہ لوگ گمراہ ہوگئے تو آپ نے ان کا مقابلہ کیوں نہ کیا کیونکہ میری موجودگی میں ایسا ہوتا تو میں یقیناً اس شرک و کفر پر قائم رہنے والوں سے جہاد اور مقاتلہ کرتا تم نے ایسا کیوں نہ کیا۔ دونوں صورتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے ہارون (علیہ السلام) پر الزام یہ تھا کہ ایسی گمراہی کی صورت میں یا تو ان سے مقاتلہ اور جہاد کیا جاتا یا پھر ان سے برات اور علیحدگی اختیار کر کے میرے پاس آجاتے ان کے ساتھ رہتے بستے رہنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک ان کی خطا اور غلطی تھی حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اس معاملے کے باوجود ادب کی پوری رعایت کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کو نرم کرنے کے لئے خطاب يَبْنَـؤ ُ مَّ کے الفاظ سی کیا یعنی میری ماں کے بیٹے اس خطاب میں ایک خاص اشارہ سختی کا معاملہ نہ کرنے کی طرف تھا کہ میں آپ کا بھائی ہی تو ہوں کوئی مخالف تو نہیں اس لئے آپ میرا عذر سنیں۔ پھر عذر یہ بیان کیا کہ مجھے خطرہ یہ پیدا ہوگیا کہ اگر میں نے ان لوگوں سے مقابلہ اور مقاتلہ کرنے پر آپ کے آنے سے پہلے اقدام کیا یا ان کو چھوڑ کر خود بارہ ہزار بنی اسرائیل کے ساتھ آپ کے پاس چلا گیا، تو بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا ہوجائے گا اور آپ نے جو چلتے وقت مجھے یہ ہدایت فرمائی کہ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَاَصْلِحْ میں اس اصلاح کا مقتضا یہ سمجھا تھا کہ ان میں تفرقہ نہ پیدا ہونے دوں (ممکن ہے کہ آپ کے واپس آنے کے بعد یہ سب ہی سمجھ جائیں اور ایمان و توحید پر واپس آجائیں) اور دوسری جگہ قرآن کریم میں ہارون (علیہ السلام) کے عذر میں یہ قول بھی ہے کہ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِيْ وَكَادُوْا يَقْتُلُوْنَنِيْ یعنی قوم بنی اسرائیل نے مجھے ضعیف و کمزور سمجھا کیونکہ میرے ساتھی دوسروں کے مقابلہ میں بہت کم تھے اس لئے قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کر ڈالتے۔ خلاصہ عذر کا یہ ہے کہ میں ان کی گمراہی کا ساتھی نہیں تھا جتنا سمجھانا اور ہدایت پر رکھنا میرے بس میں تھا وہ میں نے پورا کیا ان لوگوں نے میری بات نہ مانی اور میرے قتل کرنے کے در پے ہوگئے ایسی صورت میں ان سے مقاتلہ کرتا یا ان کو چھوڑ کر آپ کے پاس جانے کا ارادہ کرتا تو صرف یہ بارہ ہزار بنی اسرائیل میرے ساتھ ہوتے باقی سب مقاتلہ اور مقابلہ پر آجاتے اور باہمی معرکہ گرم ہوجاتا، میں نے اس سے بچنے کے لئے آپ کی واپسی تک کے لئے کچھ مساہلت کی صورت اختیار کی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ عذر سنا تو ہارون (علیہ السلام) کو چھوڑ دیا اور اصل بانی فساد سامری کی خبر لی۔ قرآن میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کی رائے کو صحیح مان لیا یا محض ان کی خطاء اجتہادی سمجھ کر چھوڑ دیا۔ دو پیغمبروں میں اختلاف رائے اور دونوں طرف صواب کے پہلو : اس واقعہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رائے از روئے اجتہاد یہ تھی کہ اس حالت میں ہارون (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو اس مشرک قوم کے ساتھ نہیں رہنا چاہئے تھا ان کو چھوڑ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آجاتے جس سے ان کے عمل سے مکمل بیزاری کا اظہار ہوجاتا۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی رائے از روئے اجتہاد یہ تھی کہ اگر ایسا کیا گیا تو ہمیشہ کے لئے بنی اسرائیل کے ٹکڑے ہوجائیں گے اور تفرقہ قائم ہوجائے گا اور چونکہ ان کی اصلاح کا یہ احتمال موجود تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی کے بعد ان کے اثر سے پھر یہ سب ایمان اور توحید کی طرف لوٹ آویں اس لئے کچھ دنوں کے لئے ان کے ساتھ مساہلت اور مساکنت کو ان کی اصلاح کی توقع تک گوارا کیا جائے۔ دونوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل، ایمان و توحید پر لوگوں کو قائم کرنا تھا مگر ایک نے مفارقت اور مقاطعہ کو اس کی تدبیر سمجھا، دوسرے نے اصلاح حال کی امید تک ان کے ساتھ مساہلت اور نرمی کے معاملہ کو اس مقصد کے لئے نافع سمجھا۔ دونوں جانبین اہل عقل و فہم اور فکر و نظر کے لئے محل غور و فکر ہیں۔ کسی کو خطا کہنا آسان نہیں مجتہدین امت کے اجتہادی اختلافات عموماً اسی طرح کے ہوتے ہیں ان میں کسی کو گناہگار یا نافرمان نہیں کہا جاسکتا رہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ہارون (علیہ السلام) کے بال پکڑنے کا معاملہ تو یہ دین کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے شدت و غضب کا اثر تھا کہ تحقیق حال سے پہلے انہوں نے ہارون (علیہ السلام) کو ایک واضح غلطی پر سمجھا اور جب ان کا عذر معلوم ہوگیا تو پھر اپنے لئے اور ان کے لئے دعا مغفرت فرمائی۔