Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 91

سورة طه

قَالُوۡا لَنۡ نَّبۡرَحَ عَلَیۡہِ عٰکِفِیۡنَ حَتّٰی یَرۡجِعَ اِلَیۡنَا مُوۡسٰی ﴿۹۱﴾

They said, "We will never cease being devoted to the calf until Moses returns to us."

انہوں نے جواب دیا کہ موسیٰ ( علیہ السلام ) کی واپسی تک تو ہم اسی کے مجاور بنے بیٹھے رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "We will not stop worshipping it, until Musa returns to us." meaning, "We will not cease in our worship of this calf until we hear what Musa has to say about it." So they opposed Harun in this matter and they fought against him, nearly killing him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 اسرائیلیوں کو یہ گو سالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون (علیہ السلام) کی بات کی بھی پروا نہیں کی اور اس کی تعظیم و عبادت چھوڑنے سے انکار کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] جب یہ لوگ گؤسالہ پرستی میں مبتلا ہونے لگے تو ہارون (علیہ السلام) نے بروقت ان کو تنبیہ کی تھی۔ یہ بچھڑا قطعا ً تمہارا الہٰ نہیں ہے، تمہارا الہٰ صرف وہی ذات ہوسکتی ہے جو تمہارا خالق ومالک اور تمہارا پروردگار ہے۔ لہذا اس گؤسالہ پرستی سے باز آؤ اور میری بات مان لو اور سامری کے فریب میں نہ آؤ مگر یہ مدتوں سے بگڑی ہوئی قوم بھلا سیدنا ہارون جیسے نرم مزاج آدمی کے حکم کو کیا سمجھتی تھی ؟ کہنے لگے : تم آرام سے بیٹھو اور اپنی خیر مناؤ۔ موسیٰٰ آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ سردست ہم اس کام کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ ۔۔ : ” عَکَفَ یَعْکُفُ عُکُوْفًا “ (ن) کا معنی عبادت اور تقرب کے ارادے سے کسی جگہ بیٹھ رہنا ہے۔ ہارون (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت چھوڑنے اور اپنے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے طور کی طرف جانے کے لیے کہا تو انھوں نے نہایت ڈھٹائی سے ان کی دونوں باتوں کا انکار کردیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واپس آنے تک ہم نہ تمہارے ساتھ جائیں گے اور نہ بچھڑے کی مجاوری چھوڑیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْہِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى۝ ٩١ بَرِحَ وما بَرِحَ : ثبت في البراح، ومنه قوله عزّ وجلّ : لا أَبْرَحُ [ الكهف/ 60] ، وخصّ بالإثبات، کقولهم : لا أزال، لأنّ برح وزال اقتضیا معنی النفي، و «لا» للنفي، والنفیان يحصل من اجتماعهما إثبات، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه/ 91] ( ب ر ح) البرح ابرح ہے یہ لا ازال کی طرح معنی مثبت کے ساتھ مخصوص ہے ۔ کیونکہ برح اور زال میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، لا ، ، بھی نفی کے لئے ہوتا ہے اور نفی پر نفی آنے سے اثبات حاصل ہوجاتا ہے ایس بناء پر فرمایا : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه/ 91] عكف العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] ، أي : محبوسا ممنوعا . ( ع ک ف ) العکوف کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة/ 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج/ 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة/ 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء/ 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف/ 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه/ 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح/ 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩١) حضرت ہارون (علیہ السلام) کو قوم نے جواب دیا کہ ہم تو جب تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے پاس واپس نہ آئیں اسی کی عبادت پر جمے بیٹھے رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی ) ” یہ جواب پوری بنی اسرائیل قوم کی طرف سے نہیں تھا بلکہ صرف ان لوگوں کی طرف سے تھا جو ان میں سے بچھڑا پرستی کے مشرکانہ عقیدے میں مبتلا ہوئے تھے اور پھر اس پر اڑ گئے تھے۔ انہوں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ ہم تو اب اسی کی پرستش کرتے رہیں گے ‘ یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) خود آکر اس بارے میں کوئی فیصلہ کریں۔ یہ لوگ اس سے پہلے بھی ایک بت پرست قوم کی دیکھا دیکھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرچکے تھے (الاعراف : ١٣٨) کہ ان لوگوں کے بتوں جیسا ہمیں بھی کوئی معبود بنا دیں جس کے سامنے بیٹھ کر ہم پوجا پاٹ کرسکیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

69. Here the Quran exonerates Prophet Aaron (peace be upon him) from the sin of taking any part in the calfworship, but in contrast to this, the Bible makes him wholly responsible for making the golden calf and setting it up as a god. According to Exodus: And when the people saw that Moses delayed to come down out of the mount, the people gathered themselves together unto Aaron, and said unto him, Up, make us gods, which shall go before us; for as for this Moses, the man that brought us out of the land of Egypt, we know not what is become of him. And Aaron said unto them, Break off the golden earrings, which are in the ears of your wives, of your sons, and of your daughters, and bring them unto me. And all the people broke off the golden earrings which were in their ears, and brought them unto Aaron. And he received them at his hand, and fashioned it with a graying tool, after he had made it a molten calf: and they said, These be thy gods, O Israel, which brought thee up out of the land of Egypt. And when Aaron saw it, he built an altar before it; and Aaron made proclamation, and said, Tomorrow is a feast to the Lord. (1,32: 1-5). It is just possible that the real name of the Samiri was also Aaron which later on might have misled the Israelites to attribute the making of the golden calf to Prophet Aaron. Thus it is obvious that the Quran has shown a favor to the Jews and Christians by exonerating Prophet Aaron from the sin, but it is an irony that the Christian missionaries and the Orientalists still insist that the Quran is guilty of anachronism and that the calf was made a deity of worship by a holy prophet of theirs. In their blind obduracy they forget that even according to the Bible this was a great sin. (Exodus, 32: 21). A little further on in the same chapter the Bible again contradicts itself. It says that Prophet Moses ordered the Levites to kill all their kinsfolk, their friends and their fellow countrymen who had been guilty of the sin of calf-worship. Accordingly, about three thousand men fell that day. (Exodus, 32: 27-29). Now the question arises: Why was Prophet Aaron not killed, if he was the inventor of the calf-worship? Why didn’t the Levites ask Prophet Moses to kill his brother, Prophet Aaron, who was the real sinner, just as they were asked to kill theirs. The Bible also says that after this Moses went back to the Eternal and prayed Him to forgive their sins or blot him out of His list of the living, and the Eternal answered: Whosoever has sinned against me, him will I blot out of my book (Exodus, 32: 31-33). But we learn from the Bible that the name of Prophet Aaron was not blotted out, but, on the other hand, he and his sons and his family were given the charge of the sanctuary and the office of priesthood (Numbers, 18: 1-7). Thus it is quite evident from the internal testimony of the Bible itself, that it contradicts itself and supports the Quran in its exoneration of Prophet Aaron.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :69 بائیبل اس کے برعکس حضرت ہارون پر الزام رکھتی ہے کہ بچھڑا بنانے اور اسے معبود قرار دینے کا گناہ عظیم ان ہی سے سرزد ہوا تھا : اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لیے دیوتا بنا دے جو ہمارے آ گے چلے ، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو ، جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا ، کیا ہو گیا ۔ ہارون نے ان سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آؤ ۔ چنانچہ سب لوگ ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کر ہارون کے پاس لے آئے ۔ اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی تب وہ کہنے لگے اسے اسرائیل ، یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا ۔ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اس نے اعلان کر دیا کہ کل خداوند کے لیے عید ہو گی ( خروج ، بابا 32 ۔ آیت 1 ۔ 5 ) ۔ بہت ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ غلط روایت اس وجہ سے مشہور ہوئی ہو کہ سامری کا نام بھی ہارون ہی ہو ، اور بعد کے لوگوں نے اس ہارون کو ہارون نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہو ۔ لیکن آج عیسائی مشنریوں اور مغربی مستشرقوں کو اصرار ہے کہ قرآن یہاں بھی ضرور غلطی پر ہے ، بچھڑے کو خدا ان کے مقدس نبی نے ہی بنایا تھا اور ان کے دامن سے اس داغ کو صاف کر کے قرآن نے ایک احسان نہیں بلکہ الٹا قصور کیا ہے ۔ یہ ہے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا حال ۔ اور ان کو نظر نہیں آتا کہ اسی باب میں چند سطر آگے چل کر خود بائیبل اپنی غلط بیانی کا راز کس طرح فاش کر رہی ہے ۔ اس باب کی آخری دس آیتوں میں بائیبل یہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے بعد بنی لادی کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ جن لوگوں نے شرک کا یہ گناہ عظیم کیا ہے انہیں قتل کیا جائے ، اور ہر ایک مومن خود اپنے ہاتھ سے اپنے اس بھائی اور ساتھی اور پڑوسی کو قتل کرے جو گو سالہ پرستی کا مرتکب ہوا تھا ۔ چنانچہ اس روز تین ہزار آدمی قتل کیے گئے ۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ہارون کیوں چھوڑ دیے گئے ؟ اگر وہی اس جرم کے بانی مبانی تھے تو انہیں اس قتل عام سے کس طرح معاف کیا جا سکتا تھا ؟ کیا بنی لادی یہ نہ کہتے کہ موسیٰ ، ہم کو تو حکم دیتے ہو کہ ہم اپنے گناہ گار بھائیوں اور ساتھیوں اور پڑوسیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں ، مگر خود اپنے بھائی پر ہاتھ نہیں اٹھاتے حالانکہ اصل گناہ گار وہی تھا ؟ آگے چل کر بیان کیا جاتا ہے کہ موسیٰ نے خداوند کے پاس جا کر عرض کیا کہ اب بنی اسرائیل کا گناہ معاف کر دے ، ورنہ میرا نام اپنی کتاب میں سے مٹا دے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اسی کا نام اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ہارون کا نام نہ مٹایا گیا ۔ بلکہ اس کے بر عکس ان کو اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل میں بزرگ ترین منصب ، یعنی بنی لادی کی سرداری اور مقدس کی کہانت سے سرفراز کیا گیا ( گنتی ، باب 18 ۔ آیت 1 ۔ 7 ) ۔ کیا بائیبل کی یہ اندرونی شہادت خود اس کے اپنے سابق بیان کی تردید اور قرآن کے بیان کی تصدیق نہیں کر رہی ہے ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:91) لن نبرح علیہ عکفین۔ ای لا نزال مقیمین علی الحجل وعبادتہ ہم بچھڑے کی عبادت پر ڈٹے رہیں گے ہم ہرگز نہیں ہٹیں گے۔ لن نبرح افعال ناقصہ میں سے ہے مضارع منفی کا صیغہ جمع متکلم مؤکد بہ لن۔ عاکفین اسم فاعل بحالت نصب۔ اعتکاف کرنے والے۔ مجاور ۔ گرد جمع ہونے والے۔ ایسے جمنے والے کہ ٹلیں ہی نہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ما ھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون (21:52) یہ کیا مورتیاں ہیں جن کی پوجا پاٹ پر تم جمے بیٹھے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی آ کر اس امر کا تصفیہ کرے کہ آیا ہمارا بچھڑے کی پوجا کرنا درست ہے یا غلط ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

64:۔ یہ گوسالہ پرستوں کی انتہائی سرکشی تھی کہ ایک فعل جو سراسر عقل کے خلاف ہے اور اللہ کا ایک پیغمبر اس سے روک رہا ہے مگر انہوں نے بچھڑے کی عبادت چھوڑنے سے صاف انکا کردیا اور کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو آنے دو پھر دیکھا جائے گا وہ کیا کہتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک گوسالہ پرستی نہ چھوڑنے سے انکا ارادہ یہ نہیں تھا کہ ان کے آنے پر وہ سچ مچ ہی گو سالہ کی عبادت اور اس کا طواف وغیرہ بند کردیں گے بلکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کے جواب میں یہ ان کا محض ایک بہانہ تھا۔ جعلوا رجوعہ (علیہ السلام) الیھم غایۃ لعکوفہم علی عبادۃ العجل لکن لا علی طریق الوعد بترکھا عند رجوعہ (علیہ السلام) بل بطریق التعلل والتسویف الخ (ابو السعود ج 6 ص 96) ۔ 65:۔ یعنی بچھڑے کی عبادت اور اس کی تعظیم پر قائم رہیں گے۔ وہ بچھڑے کے پاس اسے خوش کرنے کے لیے ساز بجاتے اور اس کے گرد ناچ کرتے تھے۔ فلما رجع موسیٰ وسمع الصیاح والجلبۃ وکانوا یرقصون حول العجل الخ (قرطبی ج 11 ص 237، خازن و معالم ج 4 ص 225) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9 1 بنی اسرائیل کے لوگوں نے حضرت ہارون کو جواب دیا ہم تو جب تک موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے پاس لوٹ کر نہ آئے اس وقت تک اسی بچھڑے کی پوجا اور عبادت میں جمے بیٹھے رہیں گے۔ یعنی جب تک موسیٰ واپس نہ آئے ہم تو اپنے اس اعتقاد سے ہٹتے نہیں چناچہ حضرت موسیٰ تشریف لے آئے اور انہوں نے تمام حالات کو ملاحظہ کیا اور سب سے پہلے بھائی پر ناراض ہوئے۔