Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 92

سورة طه

قَالَ یٰہٰرُوۡنُ مَا مَنَعَکَ اِذۡ رَاَیۡتَہُمۡ ضَلُّوۡۤا ﴿ۙ۹۲﴾

[Moses] said, "O Aaron, what prevented you, when you saw them going astray,

موسیٰ ( علیہ السلام ) کہنے لگے اے ہارون! انہیں گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

What happened between Musa and Harun after Musa returned Allah informs of what happened when Musa returned to his people and saw the great matter that had taken place among them. With this he became filled with anger and he threw down the Divine Tablets that he had in his hand. Then, he grabbed his brother Harun by his head and pulled him towards himself. We expounded upon this previously in Surah Al-A`raf, where we mentioned the Hadith, لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَة Information is not the same as observation. Allah tells, قَالَ يَا هَارُونُ ... (Musa) said: "O Harun! Then, he began to blame his brother, Harun, by saying, ... مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا

کوہ طور سے واپسی اور بنی اسرائیل کی حرکت پہ غصہ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت غصے اور پورے غم میں لوٹے تھے ۔ تختیاں زمین پر ماریں اور اپنے بھائی ہارون کی طرف غصے سے بڑھ گئے اور ان کے سر کے بال تھام کر اپنی طرف گھسیٹنے لگے ۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ اعراف کی تفیسر میں گزر چکا ہے اور وہیں وہ حدیث بھی بیان ہوچکی ہے کہ سننا دیکھنے کے مطابق نہیں ۔ آپ نے اپنے بھائی اور اپنے جانشین کو ملامت کرنی شروع کی کہ اس بت پرستی کے شروع ہوتے ہی تو نے مجھے خبر کیوں نہ کی؟ کیا جو کچھ میں تجھے کہہ گیا تھا تو بھی اس کا مخالف بن بیٹھا ؟ میں توصاف کہہ گیا تھا کہ میری قوم میں میری جانشینی کر اصلاح کے درپے رہ اور مفسدوں کی نہ مان ۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اے میرے ماں جائے بھائی ۔ یہ صرف اس لئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زیادہ رحم اور محبت آئے ورنہ باپ الگ الگ نہ تھے باپ بھی ایک ہی تھے دونوں سگے بھائی تھے ۔ آپ عذر پیش کرتے ہیں کہ جی میں تو میرے بھی آئی تھی کہ آپ کے پاس آ کر آپ کو اس کی خبر کروں لیکن پھرخیال آیا کہ انہیں تنہا چھوڑنامناسب نہیں کہیں آپ مجھ پر نہ بگڑ بیٹھیں کہ انہیں تنہا کیوں چھوڑ دیا اور اولاد یعقوب میں یہ جدائی کیوں ڈال دی؟ اور جو میں کہہ گیا تھا اس کی نگہبانی کیوں نہ کی؟ بات یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام میں جہاں اطاعت کا پورا مادہ تھا وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عزت بھی بہت کرتے تھے اور ان کا بہت ہی لحاظ رکھتے تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ يٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ ۔۔ : آیت (٨٦) سے (٨٩) تک موسیٰ (علیہ السلام) کی شدید غصے اور افسوس کے ساتھ واپسی اور قوم کو ڈانٹنے اور ان سے سوال جواب کا ذکر ہے۔ اس کے بعد دو آیات میں اس عرصے میں ہارون (علیہ السلام) کی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی اور قوم کے ان کی کوئی بھی بات نہ ماننے کا ذکر ہے، جس سے مقصود ہارون (علیہ السلام) کا دامن ہر کوتاہی سے پاک قرار دینا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو بچھڑے کی عبادت کرتے دیکھا تھا، انھیں ہارون (علیہ السلام) کی اصلاح کی کوشش اور نصیحت کا علم نہ تھا، اس لیے قوم کو ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ہی انھوں نے شدید غصے کی حالت میں تورات کی تختیوں کو پھینک دیا اور ہارون (علیہ السلام) کا سر پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے ( اعراف : ١٥٠، ١٥١) اور کہنے لگے کہ جب تم نے دیکھا کہ یہ گمراہ ہوگئے ہیں تو تمہیں کس چیز نے روکا کہ میرے پیچھے چلے آؤ اور آ کر مجھے ان کے گمراہ ہونے کی خبر دو ، تو کیا تم نے میرا حکم نہیں مانا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ يٰہٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَہُمْ ضَلُّوْٓا۝ ٩٢ۙ منع المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ الْماعُونَ [ الماعون/ 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق/ 25] ، ويقال في الحماية، ومنه : مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] أي : ما حملک ؟ وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟ يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل : مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ. ( م ن ع ) المنع ۔ یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون/ 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق / 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معنی محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٢۔ ٩٣) غرض کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی واپس آگئے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) سے فرمایا کہ جب تم ان کو گمراہ ہوتے ہوئے دیکھا تو تم میرے پاس چلے آتے اور میرے حکم کی اتباع کرنے سے کون سی چیز مانع تھی، اور تم نے ان مفسدین کو قتل کیوں نہ کردیا کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی (اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے غصہ میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی داڑھی پکڑ لی) ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٢۔ ٩٤:۔ سورة اعراف میں گزر چکا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے خفگی کی باتیں کرچکے تو اسی غصہ کی حالت میں انہوں نے وہ تختیاں اپنے ہاتھ میں سے زمین پر پٹخ دیں جن تختیوں پر اللہ تعالیٰ نے ان کو تورات لکھ کردی تھی اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی ڈاڑھی اور سر کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے اسی واسطے مختصر طور پر یہاں ہارون (علیہ السلام) کی طرف سے ڈاڑھی اور سر کے بالوں کے چھوڑ دینے کی التجا کا ذکر فرمایا ڈاڑھی اور سر کے بالوں کے چھوڑ دینے کی التجا کا ذکر فرمایا ڈاڑھی اور سر کے بالوں کے پکڑنے کا ذکر نہیں فرمایا حاصل کلام یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فقط اس خیال سے ہارون (علیہ السلام) کی ڈاڑھی اور سر کے بال پکڑے تھے کہ ہارون (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا سے کیوں نہیں روکا اور اگر یہ لوگ روکنے سے نہیں رکے تھے تو بارہ ہزار آدمی ان میں کے بچھڑے کی پوجا سے جو بچے ہوئے تھے ان کو ساتھ لے کر کوہ طور پر کیوں نہیں چلے آئے کہ اس سے بچھڑا پوجنے والے تنہا رہ کر اپنی غلطی کو شاید سمجھ جاتے یا ان بارہ ہزار آدمیوں کو ساتھ لے کر بچھڑا پوجنے والوں کا مقابلہ کیوں نہیں کیا لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہوگیا کہ ہارون (علیہ السلام) نے بچھڑا پوجنے والوں کا مقابلہ کرنے میں بنی اسرائیل کی آپس کی پھوٹ کا اندیشہ تھا جس سے خود موسیٰ (علیہ السلام) نے ہی کوہ طور پر جاتے وقت ہارون (علیہ السلام) کو منع کیا تھا تو موسیٰ ( علیہ السلام) کا دل اپنے بھائی کی طرف سے صاف ہوگیا اور انہوں نے اپنے بھائی کے حق میں مغفرت کی دعا مانگی۔ چناچہ اس کا ذکر سورة الاعراف میں گزر چکا ہے۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے خفا ہو کر اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے یہ کہا کہ جب بنی اسرائیل بہک گئے تھے تو تم نے اس کی اطلاع مجھ کو کوہ طور پر آن کر کیوں نہیں دی میں نے جو کوہ طور پر جاتے وقت تم سے کہا تھا کہ بنی اسرائیل کی خبر گیری رکھنا کہ ان میں کسی طرح کی گمراہی نہ پھیلے اس کا خیال تم نے کیوں نہیں رکھا۔ اوپر گزر چکا ہے کہ ان خفگی کی باتوں کے وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کی ڈاڑھی اور سر کے بال پکڑ لئے تھے اس واسطہ ہارون (علیہ السلام) نے کہا بھائی میری ڈاڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑو میں فقط اس خیال سے کوہ طور پر نہیں آیا کہ میرے یہاں سے چلے جانے کے بعد بنی اسرائیل میں کچھ زیادہ پھوٹ نہ پڑجائے اور اس پھوٹ کو دیکھ کر تم کہیں یہ کہنے لگو کہ کوہ طور پر جاتے وقت بنی اسرائیل کی پھوٹ کے روکنے کی نصیحت جو کی گئی تھی وہ نصیحت کیوں نہیں یاد رکھی گئی ١ ؎۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے ایک قصہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت چوری کی سزا میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عورت کا ہاتھ کاٹنا چاہا تو بعضے صحابہ نے اس سزا کی معافی کی سفارش آپ سے کی تھی اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں فرمایا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو ان کا ہاتھ بھی کاٹا جاتا اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ انبیاء شریعت کی تائید کے وقت رشتہ داروں کی کچھ پاس داری نہیں کرسکتے اس واسطے موسیٰ (علیہ السلام) نے شریعت کی تائید کے جوش میں اپنے بھائی کی ڈاڑھی اور سر کے بال پکڑ کر کھینچ لئے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ١٠٠٣ ج ٢ باب کر اہیتہ الشفاعۃ فی الحدالخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:92:93) ما منعک الا تتبعن۔ کس بات نے تجھے منع کئے رکھا کہ تو میری پیروی نہ کرے۔ یعنی میری پیروی کرنے سے تجھے کس امر نے روکے رکھا۔ اس اسلوب بیان کی قرآن مجید میں اور بھی مثالیں ہیں۔ مثلاً ما منعک الا تسجد (7:12) تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکے رکھا۔ بعض کے نزدیک لا زائدہ ہے۔ اذ رایتہم ضلوا۔ بموضع ظرف زمان۔ جب تم نے انہیں دیکھ لیا تھا کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ افعصیت امری۔ کیا تو نے بھی میری نافرمانی کی۔ میرے حکم کو نہ مانا۔ معصیۃ وعصیان سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر حاض رہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

موسیٰ نے ہارون سے کہا ، اے ہارون ، جب تم نے دیکھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو ، کیا تو نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی۔ سرزنش اس بات پر ہو رہی ہے کہ کیوں آپ نے ان کو اس پرستش پر رہنے دیا کیوں نہ تم نے اس کی ممانعت کی۔ میرے صریح احکام کے مطابق کہ میرے بعد کوئی نئی بات پیدا نہ کرنا۔ نہ کسی کو کوئی نئی رسم ایجاد کرنے کی جا ازت دینا۔ اللہ تعالیٰ ان کا مواخذہ کرتے ہیں کہ تم نے میرے احکام نافذ کیوں نہ کئے ؟ کیا تم نے بھی میری نافرمان کی ؟ اس سے قبل قرآن نے فیصلہ دے دیا ہے کہ حضرت ہارون کا موقف کیا تھا۔ وہ بھائی کو حقیقی صورت حالات بتاتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ ذرا غصہ فرد کیجیے وہ بھائی چارے کا واسطہ دے کر کہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کا جواب اور اعتذار سنا تو اس سے مطمئن نہ ہوئے اور غصہ کی حالت میں آگے بڑھ کر حضرت ہارون (علیہ السلام) کے سر اور داڑھی کے بال پکڑ لیے اور فرمایا۔ اے ہارون ! جب تو نے دیکھ لیا تھا کہ وہ شرک میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوچکے ہیں۔ تو تو نے میرے احکام کی تعمیل کیوں نہ کی۔ احکام سے وہی ہدایات مراد ہیں جو وہ کوہ طور پر جانے سے پہلے ان کو دے گئے تھے۔ ان کا خیال تھا۔ شاید ہارون (علیہ السلام) نے حق تبلیغ ادا نہیں کیا اس لیے قوم گمراہ ہوگئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ جلالی طبیعت کے مالک تھے اس لیے قوم کی گمراہی دیکھ کر غضب میں آگئے۔ کان موسیٰ (علیہ السلام) حدیدا متصلبا غضوبا للہ تعالیی وقد شاھد ما شاھدو غلب علی ظنہ تقصیر فی ھرون (علیہ السلام) ففعل بما فعل (روح ج 6 ص 251) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

92 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے ہارون جب تو نے یہ دیکھا تھا کہ یہ بالکل بھٹک گئے اور گمراہ ہوگئے ہیں۔