Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 93

سورة طه

اَلَّا تَتَّبِعَنِ ؕ اَفَعَصَیۡتَ اَمۡرِیۡ ﴿۹۳﴾

From following me? Then have you disobeyed my order?"

کہ تو میرے پیچھے نہ آیا ۔ کیا تو بھی میرے فرمان کا نافرمان بن بیٹھا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَلاَّ تَتَّبِعَنِ ... What prevented you when you saw them going astray; that you followed me not! meaning, "You should have informed me of this matter as soon as it happened." ... أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي Have you then disobeyed my order! "In that which I entrusted to you," referring to Musa's statement, اخْلُفْنِى فِى قَوْمِى وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ Replace me among my people, act in the right way and follow not the way of the mischief-makers. (7:142)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

93۔ 1 یعنی اگر انہوں نے تیری بات ماننے سے انکار کردیا تھا، تو تجھ کو فوراً میرے پیچھے کوہ طور پر آ کر مجھے بتلانا چاہیے تھا تو نے بھی میرے حکم کی پروا نہ کی۔ یعنی جانشینی کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] موسیٰ (علیہ السلام) قوم کی طرف سے یہ عذر لنگ سن کر اسی غصہ کی حالت میں اپنے بھائی ہارون کی طرف متوجہ ہوئے اور جوش غضب میں ان کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ لئے اور کہنے لگے۔ میں تمہیں اپنا نائب بنا کر گیا تھا اور یہ تاکید کی تھی کہ ان لوگوں کے حالات پر کڑی نظر رکھنا تو پھر جب تم نے انھیں شرک میں مبتلا ہوتے دیکھا تو تم نے انھیں کیوں منع نہ کیا ؟ آخر وہ کون سی بات تھی جو تمہارے آڑے آگئی تھی کہ تم نے انھیں منع بھی کیا ؟ کیا تم میری اس تاکید کو یکسر بھول گئے تھے کہ اس بگڑی ہوئیقوم پر کڑی نظر رکھنا اور ان کی اصلاح کی پوری کوشش کرتے رہنا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّا تَتَّبِعَنِ۝ ٠ۭ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ۝ ٩٣ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٣ (اَلَّا تَتَّبِعَنِ ط) ” اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے ” جو آپ میرے پیچھے نہ آگئے “۔ یعنی آپ ( علیہ السلام) میرے پیچھے کوہ طور پر کیوں نہ آگئے اور آکر کیوں نہ مجھے بتایا کہ وہ لوگ یوں گمراہ ہوگئے ہیں۔ (اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ ) ” اگرچہ عمر میں حضرت ہارون (علیہ السلام) بڑے تھے مگر منصب نبوت کے اعتبار سے چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رتبہ ان سے بڑا تھا اس لیے آپ ( علیہ السلام) نے اس انداز میں حضرت ہارون ( علیہ السلام) سے جواب طلبی کی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

70. The “command” refers to the instructions which Prophet Moses (peace be upon him) gave to his brother Prophet Aaron (peace be upon him) when he made him his deputy in his absence when he went up to Mount Toor: After me take my place and do the right and follow not the way of the mischief-makers. (Surah Al-Aaraf, Ayat 142).

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :70 حکم سے مراد وہ حکم ہے جو پہاڑ پر جاتے وقت ، اور اپنی جگہ حضرت ہارون کو بنی اسرائیل کی سرداری سونپتے وقت حضرت موسیٰ نے دیا تھا ۔ سورہ اعراف میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : وَقَالَ مُوْسیٰ لِاَخِیْہِ ھٰرْوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُقْسِدِیْنَ ، اور موسیٰ نے ( جاتے ہوئے ) اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میری جانشینی کرو اور دیکھو ، اصلاح کرنا ، مفسدوں کے طریقے کی پیروی نہ کرنا ( آیت 142 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

38: جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر جارہے تھے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا نائب بناتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ : اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کے پیچھے نہ چلنا۔ یہاں اپنی اسی ہدایت کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب یہ لوگ گمراہی میں پڑگئے تھے تو آپ کو چاہئے تھا کہ ان سے الگ ہو کر میرے پاس چلے آتے۔ اس طرح آپ مفسدوں کے ساتھی بھی نہ بنتے۔ اور میرے ذریعے ان کی اصلاح بھی کرتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یا ” تو نے میرے طریقہ پر عمل کیوں نہ کیا “ اور وہ یہ کہ انہیں مارپیٹ کر درست کرتا اور شرک سے باز رکھتا۔7 حکم سے مراد وہ حکم ہے جو حضرت موسیٰ کوہ طور پر جاتے وقت حضرت ہارون کو دے گئے تھے جس کا بیان سورة اعراف میں ہے کہ اخلقنی فی قومی واضلح ولاتتبع سبیل المفسدین یعنی میری قوم میں میرا جانشین رہنا ان کی اصلاح کرتے رہنا اور فسادیوں کے راستہ کی پیروی نہ کرنا۔ (آیت 142)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

93 تو تجھ کو میرے حکم کی پیروی کرنے سے کیا چیز مانع ہوئی کیا تو نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی۔ یعنی جب تو نے ان کی یہ حالت دیکھی تھی کہ یہ شرک پر مائل ہوگئے ہیں اور کفر و شرک کے شوق میں بےقابو ہوچکے ہیں تو تو نے میرے حکم کی پیروی کیوں نہ کی یعنی ان کا مقابلہ کیوں نہیں کیا۔ بعض علماء نے الایتبعن کی تفسریوں کی ہے کہ میرے پاس کیوں نہ چلا آیا۔ بہرحال ! قوم کی اس ناشائستہ حرکت پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت غضب ناک اور برہم ہوئے اور ہارون پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تو نے میرے حکم کی نافرمانی کی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں چلتے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت ہارون (علیہ السلام) کو نصیحت کر گئے تھے کہ سب کو متفق رکھیو اس واسطے انہوں نے بچھڑا پوجنے والوں کا مقابلہ کیا زبان سے سمجھایا وے نہ سمجھے۔ 12 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ لئے اس پر ہارون (علیہ السلام) نے عرض کیا۔