Surat Tahaa
Surah: 20
Verse: 95
سورة طه
قَالَ فَمَا خَطۡبُکَ یٰسَامِرِیُّ ﴿۹۵﴾
[Moses] said, "And what is your case, O Samiri?"
موسیٰ ( علیہ السلام ) نے پوچھا سامری تیرا کیا معاملہ ہے ۔
قَالَ فَمَا خَطۡبُکَ یٰسَامِرِیُّ ﴿۹۵﴾
[Moses] said, "And what is your case, O Samiri?"
موسیٰ ( علیہ السلام ) نے پوچھا سامری تیرا کیا معاملہ ہے ۔
How As-Samiri made the Calf Allah tells, قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ (Musa) said: "And what is the matter with you. O Samiri!" Musa said to As-Samiri, "What caused you to do what you did What presented such an idea to you causing you to do this!" Muhammad bin Ishaq reported from Ibn Abbas that he said, "As-Samiri was a man from the people of Bajarma, a people who worshipped cows. He still had the love of cow worshipping in his soul. However, he acted as though he had accepted Islam with the Children of Israel. His name was Musa bin Zafar." Qatadah said, "He was from the village of Samarra."
گائے پرست سامری اور بچھڑا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے پوچھا کہ تونے یہ فتنہ کیوں اٹھایا ؟ یہ شخص باجروکا رہنے والا تھا اس کی قوم گائے پرست تھی ۔ اس کے دل میں گائے محبت گھر کئے ہوئے تھی ۔ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا تھا ۔ اس کا نام موسیٰ بن ظفر تھا ایک روایت میں ہے یہ کرمانی تھا ۔ ایک روایت میں ہے اس کی بستی کا نام سامرا تھا اس نے جواب دیا کہ جب فرعون کی ہلاکت کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے تو میں نے ان کے گھوڑے کے ٹاپ تلے سے تھوڑی سی مٹی اٹھا لی ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات یہی ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لے کر چڑھنے لگے تو سامری نے دیکھ لیا ۔ اس نے جلدی سے ان کے گھوڑے کے سم تلے کی مٹی اٹھا لی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل علیہ السلام آسمان تک لے گئے اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی حضرت موسیٰ علیہ السلام قلم کی تحریر کی آواز سن رہے تھے لیکن جب آپ کو آپ کی قوم کی مصیبت معلوم ہوئی تو نیچے اتر آئے اور اس بچھڑے کو جلا دیا ۔ لیکن اس کی اثر کی سند غریب ہے ۔ اسی خاک کی چٹکی یا مٹھی کو اس نے بنی اسرائیل کے جمع کردہ زیوروں کے جلنے کے وقت ان میں ڈال دی ۔ جو بصورت بچھڑا بن گئے اور چونکہ بیچ میں خلا تھا وہاں سے ہوا گھستی تھی اور اس سے آواز نکلتی تھی حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھتے ہی اس کے دل میں خیال گزرا تھا کہ میں اس کے گھوڑے کے ٹاپوں تلے کی مٹی اٹھالوں میں جو چاہوں گا وہ اس مٹی کے ڈالنے سے بن جائے گا اس کی انگلیاں اسی وقت سوکھ گئی تھی ۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ان کے پاس فرعونیوں کے زیورات رہ گئے اور فرعونی ہلاک ہو گئے اور یہ اب ان کو واپس نہیں ہوسکتے تو غمزدہ ہونے لگے سامری نے کہا دیکھو اس کی وجہ سے تم پر مصیبت نازل ہوئی ہے اسے جمع کر کے آگ لگا دو جب وہ جمع ہو گئے اور آگ سے پگھل گئے تو اس کے جی میں آئی کہ وہ خاک اس پر ڈال دے اور اسے بچھڑے کی شکل میں بنالے چنانچہ یہی ہوا ۔ اور اس نے کہہ دیا کہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا رب یہی ہے ۔ یہی وہ جواب دے رہا ہے کہ میں نے اسے ڈال دیا اور میرے دل نے یہی ترکیب مجھے اچھی طرح سمجھا دی ہے ۔ کلیم اللہ نے فرمایا تو نے نہ لینے کی چیز کو ہاتھ لگایا تیری سزا دنیا میں یہی ہے کہ اب نہ تو تو کسی کو ہاتھ لگا سکے نہ کوئی اور تجھے ہاتھ لگا سکے ۔ باقی سزا تیری قیامت کو ہوگی جس سے چھٹکارا محال ہے ان کے بقایا اب تک یہی کہتے ہیں کہ نہ چھونا اب تو اپنے اللہ کا حشر بھی دیکھ لے جس کی عبادت پر اوندھا پڑا ہوا تھا کہ ہم اسے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں چنانچہ وہ سونے کا بچھڑا اس طرح جل گیا جیسے خون اور گوشت والا بچھڑا جلے ۔ پھر اس کی راکھ کو تیز ہوا میں دریا میں ذرہ ذرہ کر کے اڑا دیا ۔ مروی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کی عورتوں کے زیور جہاں تک اس کے بس میں تھے لئے ان کا بچھڑا بنایا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جلا دیا اور دریا میں اس کی خاک بہا دی جس نے بھی اس کا پانی پیا اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اس سے سارے گوسالہ پرست معلوم ہوگئے اب انہوں نے توبہ کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ہماری توبہ کیسے قبول ہو گی ؟ حکم ہوا کہ ایک دوسروں کو قتل کرو ۔ اس کا پورا بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا معبود یہ نہیں ۔ مستحق عبادت تو صرف اللہ تعالیٰ ہے باقی تمام جہان اس کامحتاج ہے اور اس کے ماتحت ہے وہ ہر چیز کا عالم ہے ، اسکے علم نے تمام مخلوق کا احاطہ کر رکھا ہے ، ہر چیز کی گنتی اسے معلوم ہے ۔ ایک ذرہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہر پتے کا اور ہر دانے کا اسے علم ہے بلکہ اس کے پاس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا موجود ہے زمین کے تمام جانداروں کو روزیاں وہی پہنچاتا ہے ، سب کی جگہ اسے معلوم ہے سب کچھ کھلی اور واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔ علم الٰہی محیط کل اور سب کو حاوی ہے ، اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ : ہارون (علیہ السلام) سے جس زبانی اور عملی شدت کے ساتھ سوال ہوا تھا سامری سے سوال کرتے ہوئے وہ شدت نظر نہیں آتی، کیونکہ اپنوں پر غصہ زیادہ آتا ہے اور ان کے معقول عذر بیان کرنے پر غصہ ہی نہیں دل کا ملال بھی ختم ہوجاتا ہے، بلکہ ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ چناچہ ہارون (علیہ السلام) کی بات سن کر موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی : (قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ ڮ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ) [ الأعراف : ١٥١ ] ” اے میرے رب ! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کرلے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم والا ہے۔ “ اس کے برعکس سامری کی بدطینتی پہلے ہی معلوم تھی، سو سوال میں وہ شدت نہیں مگر اس کا عذر گناہ سن کر، جو بدتر از گناہ تھا، اسے ایسی سزا سنائی جو شاید کسی کو بھی نہ دی گئی ہو۔ اس کی مثال جنگ تبوک میں تین مخلص مسلمانوں کے لشکر سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان سے بائیکاٹ ہے، جس کا نتیجہ ان کے اخلاص و امانت کی بدولت ان کی توبہ کی قبولیت اور قرآن میں ہمیشہ کے لیے ذکر خیر کی صورت میں نکلا۔ اس کے برعکس منافقین کا عذر بظاہر قبول کرلیا جاتا ہے، مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں کسی جنگ میں ساتھ لے جانے، ان کا جنازہ پڑھنے، ان کی قبر پر کھڑا ہونے سے منع کردیا جاتا ہے اور آخرت کے بدترین عذاب کی نوید سنا دی جاتی ہے۔
خلاصہ تفسیر (پھر سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے) کہا کہ اے سامری تیرا کیا معاملہ ہے (یعنی تو نے یہ حرکت کیوں کی) اس نے کہا کہ مجھ کو ایسی چیز نظر آئی تھی جو اوروں کو نظر نہ آئی تھی ( یعنی حضرت جبرئیل (علیہ السلام) گھوڑے پر چڑھے ہوئے جس روز دریا سے پار اترے ہیں جو بمصلحت نصرت مؤمنین و اہلاک کفار کے آئے ہوں گے اور تاریخ طبری میں سدی سے بسند نقل کیا ہے کہ حضرت جبرئیل موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس یہ حکم لے کر گھوڑے پر سوار ہو کر آئے تھے کہ آپ طور پر جاویں تو اس وقت سامری نے دیکھا تھا) پھر میں نے اس فرستادہ (خداوندی کی سواری) کے نقش قدم سے ایک مٹھی ( بھر کر خاک) اٹھا لی تھی (اور خود بخود میرے قلب میں یہ بات آئی کہ اس میں زندگی کے اثرات ہوں گے جس چیز پر ڈالی جائے گی اس میں زندگی پیدا ہوجائے گی) سو میں نے وہ مٹھی (خاک اس بچھڑے کے قالب کے اندر) ڈال دی اور میرے جی کو یہی بات) بھائی اور) پسند آئی، آپ نے فرمایا تو بس تیرے لئے اس (دنیوی) زندگی میں یہ سزا (تجویز کی گئی) ہے کہ تو یہ کہتا پھرے گا کہ مجھ کو کوئی ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لئے (اس سزا کے علاوہ) ایک اور وعدہ (حق تعالیٰ کے عذاب کا) ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں (یعنی آخرت میں جدا عذاب ہوگا) اور تو اپنے اس معبود (باطل) کو دیکھ جس (کی عبادت) پر تو جما ہوا بیٹھا تھا ( دیکھ) ہم اس کو جلا دیں گے پھر اس (کی راکھ) کو دریا میں بکھیر کر بہا دیں گے (تاکہ نام و نشان اس کا نہ رہے) بس تمہارا (حقیقی) معبود تو صرف اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ (اپنے) علم سے تمام چیزوں کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ ٩٥ خطب ( حال) الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] ( خ ط ب ) الخطب والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔
(٩٥۔ ٩٦) اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا سامری یہ تو نے بچھڑے کی پوجا کیوں کی، سامری کہنے لگا کہ مجھے ایسی چیز نظر آئی تھی جو بنی اسرائیل کو نہیں آئی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ان کے بغیر تجھے ایسی کیا چیز نظر آئی، وہ کہنے لگا کہ میں حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کو گھوڑے پر سوار دیکھا تھا اور وہ دابۃ الحیاۃ تھا، تو میں نے حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کے گھوڑے کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر خاک اٹھالی تو میں نے اس خاک کو اس بچھڑے کے منہ اور اس کی سرین میں ڈال دی جس کی وجہ سے اس کے منہ سے یہ آواز نکلنے لگی اور میری جی کو یہی بات بھائی ،
٩٥۔ ٩٨:۔ بنی اسرائیل اور ہارون (علیہ السلام) پر خفا ہونے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری سے جو خفگی کی باتیں کی تھیں ان آیتوں میں ان کا ذکر ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری سے پوجھا تو نے یہ بچھڑا بنانے کا فساد کیوں پھیلایا سامری نے جواب دیا کہ فرعون کے ڈوبنے کے وقت جبرئیل (علیہ السلام) جب گھوڑی پر سوار ہو آئے تو بنی اسرائیل میں سے کسی نے ان کو نہیں دیکھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے انہیں مجھے دکھا دیا اور میرے دل میں یہ بات سمائی کہ میں نے ان کے گھوڑی کے قدم کے نیچے کی مٹی میں سے ایک مٹھی مٹی اٹھا لی اور جب میں نے زیور کا بچھڑا بنایا تو میرے دل میں یہ بات سمائی کہ میں اس مٹی کو بچھڑے کے منہ میں ڈال دوں غرق ہونے والے دن فرعون گھوڑے پر سوار تھا اور اس کا گھوڑا دریائے قلزم کے سوکھے راستہ میں جاتے ہوئے ڈرتا تھا اس لیے جبرئیل (علیہ السلام) گھوڑی پر سوار دیکھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کی اس بات کے جواب میں کہا تیرے اس جرم کی سزا یہ ہے کہ جب تک جیتا رہے گا جنگل میں مارا مارا پھرے گا اور آخرت کا عذاب بھی تیرے ذمہ سے ٹل نہیں سکتا۔ پھر فرمایا تو اور تیرے ساتھی جس بچھڑے کی پوجا میں لگے ہوئے تھے اس کو جلایا جاکر اس کی راکھ دریا میں بکھیر دی جائے گی۔ اس کے بعد نصیحت کے طور پر بنی اسرائیل سے فرمایا تمہارا معبود یہ بچھڑا کیوں کر ہوسکتا تھا جس کو کسی کے برے بھلے کی کچھ خبر نہیں بلکہ تمہارا معبود وہ ہے جس کا علم غیب ہے اور کوئی چیز اس کے علم غیب سے باہر نہیں ہے۔ بعضی تفسیروں میں ہے کہ حضرت جبیرئیل (علیہ السلام) کی گھوڑی کے قدموں میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر دی تھی کہ جہاں وہ قدم رکھتی تھی وہاں کی سوکھی گھانس ہری ہوجاتی تھی اللہ کی قدرت سے یہ بات سامری کو نظر آگئی اس لیے اس نے اس گھوڑی کے قدموں کے نیچے کی خاک میں سے ایک مٹھی اچھی چیز سمجھ کر اٹھا رکھی تھی اگرچہ اہل کتاب کی روایت خیال کر کے اکثر مفسروں نے اس قول کو اپنی تفسیروں میں نہیں لکھا ہے لیکن صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خضر (علیہ السلام) کو خضر اس لیے کہتے ہیں کہ جس سوکھی گھانس پر وہ بیٹھتے ہیں وہ سوکھی گھانس ہری ہوجاتی ہے ١ ؎۔ خضر ہری چیز کو کہتے ہیں ابوہریرہ (رض) کی روایت کی بنا پر اگر یہ کہا جائے کہ جس صاحب قدرت نے خضر (علیہ السلام) کے جسم میں ایک خلاف عادت تاثیر پیدا کی ہے اسی نے وہی تاثیر جبرئیل (علیہ السلام) کی گھوڑی کے قدموں میں پیدا کردی تو اس کی قدرت کے آگے یہ کچھ بڑی بات نہیں ہے صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ نوح (علیہ السلام) کے نبی ہونے سے پہلے کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کے مرجانے سے قوم کے لوگوں کو بڑا رنج تھا۔ شیطان نے قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ اگر ان نیک لوگوں کی شکل کی مورتیں بنا کر رکھ لی جائیں تو ان مورتوں کے دیکھنے سے یہ رنج کم ہوجائے گا قوم کے لوگوں نے اس وسوسہ کے موافق عمل کیا آخر رفتہ رفتہ ان مورتوں کی پوجا ہونے لگی ٢ ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ جس طرح کے وسوسہ سے شیطان نے پہلے دنیا میں بت پرستی پھیلائی اسی قسم کے وسوسہ سے بنی اسرائیل میں بچھڑے کی پوجا پھیلائی کہ نعوذ باللہ من ذلک موسیٰ کا خدا اس بچھڑے میں سما گیا ہے نتیجہ جس کا یہ ہوا کہ قوم نوح ( علیہ السلام) کو اس طوفان کی سزا ملی اور بنی اسرائیل کی قتل کی سزا کا ذکر سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٤٨٣ ج ١ باب حدیث الخضر مع موسیٰ علیما السلام۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٧٣٢ ج ٢ تفسیر سورة نوح۔
(20:95) ما خطبک۔ الخطب والمخاطبۃ باہم گفتگو کرنا۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا۔ الخطب اہم معاملہ جس کے بارہ میں کثرت سے تخاطب (باہم گفتگو ) ہوماخطبکتیرا کیا حال ہے تیرا کیا معاملہ ہے ۔ تیری کیا حقیقت ہے (تو نے یہ کیا حرکت کر ڈالی)
فہم القرآن ربط کلام : حضرت ہارون (علیہ السلام) سے وضاحت طلب کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کا سامری کو مخاطب کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ یہ سامری نے جرم کیا ہے۔ انھوں نے بڑے جلال میں آکر سامری سے استفسار فرمایا کہ اے سامری ! تو نے بنی اسرائیل کو کیوں گمراہ کیا ؟ سامری نے کہا میں نے ایک ایسی چیز دیکھی جسے لوگ نہ دیکھ پائے۔ میں نے وہاں سے ایک مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور اسے پگھلے ہوئے زیورات میں ڈال کر بچھڑا بنایا اور یہ سب کچھ میرے اپنے دل و دماغ کا کیا دھرا ہے۔ سامری کے الفاظ اور انداز سے معلو ہوتا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جلال سے ڈر کر اس بات کا اعتراف کیا کہ اس جرم میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں بلکہ یہ میرے ہی نفس کی شرارت ہے۔ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے بڑی معرکہ آراء بحث کی ہے۔ ایک طبقہ کا خیال ہے ” اَثَرَ الرُّسُوْلِ “ سے مراد حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) کے نقش قدم ہیں۔ جب انھوں نے ڈوبتے ہوئے فرعون کے منہ میں مٹی ڈالی تھی تو جبرئیل امین (علیہ السلام) کی سواری جہاں قدم رکھتی وہاں سبزہ اگ آتا۔ سامری نے یہ منظر دیکھ کر وہ مٹی اٹھائی اور بعد ازاں بنی اسرائیل کے زیورات کو پگھلا کر ایک بچھڑا بنایا جس کے منہ میں یہ مٹی ڈالی تو وہ بولنے لگا۔ دوسرا طبقہ اس معاملے میں اس حد تک آگے گزر گیا کہ انھوں نے اسرائیلی روایات کو بنیاد بنا کر حضرت ہارون کو اس کام میں ملوث کر ڈالا حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ بنی اسرائیل کے زیورات سے سامری نے بچھڑا بنایا اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ساتھ اس مٹی کی نسبت جوڑی جس کو اس نے بچھڑے کے منہ میں ڈالا تھا۔ اس میں مٹی کا کوئی کمال نہ تھا یہ سامری کی فنکاری کا نتیجہ تھا کہ اس نے زیورات کو ڈھال کر اس تکنیک کے ساتھ بچھڑے کا پتلا تیار کیا کہ جب اس کی ناک کی طرف سے ہوا داخل ہوتی تو اس کے منہ سے مختلف قسم کی آوازیں آتی۔ جس سے متاثر ہو کر جاہل اور ضعیف الاعتقاد لوگوں نے اسے معبود سمجھ لیا۔
سامری تم بتائو تم نے کیا کیا اور کیوں کیا ؟ یہ لفظ بتاتا ہے کہ سامری نے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سامری سے خطاب، اس کے لیے بددعا کرنا اور اس کے بنائے ہوئے معبود کو جلا کر سمندر میں بکھیر دینا حضرت ہارون (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے خطاب اور عتاب سے فارغ ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تیرا کیا حال ہے یہ حرکت تو نے کیوں کی کس طرح سے کی ؟ اس پر اس نے جواب دیا کہ میں نے وہ چیز دیکھی جو دوسرے لوگوں کو نظر نہ آئی، میں نے اس میں سے ایک مٹھی اٹھالی اور جو مٹھی بھری تھی وہ اس مجسمہ میں ڈال دی جو میں نے چاندی سونے سے بنایا تھا علماء تفسیر نے لکھا ہے کہ سامری بھی بنی اسرائیل میں سے تھا اور ایک قول یہ ہے کہ ان میں سے نہیں تھا بلکہ قوم قبط (فرعون کی قوم) میں سے تھا بنی اسرائیل جب دریا پار ہوئے تو منافق بن کر یہ ان کے ساتھ آگیا عبور دریا کے وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی مدد کے لیے تشریف لائے تھے وہ اس وقت گھوڑے پر سوار تھے خشکی میں پہنچے تو سامری نے دیکھا کہ ان کا گھوڑا جہاں پاؤں رکھتا ہے وہ جگہ سر سبز ہوجاتی ہے اس نے سمجھ لیا کہ اس مٹی میں ایسا اثر پیدا ہوجاتا ہے جو دوسری مٹیوں میں نہیں اس وقت اس نے گھوڑے کے پاؤں کے نیچے سے ایک مٹھی مٹی اٹھالی سامری نے جو یوں کہا (فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ ) اس میں الرسول سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں جس کا ترجمہ فرستادہ کیا گیا ہے یعنی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے۔ بعض مفسرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سامری نے یہ کیسے سمجھا کہ یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں اس کا سیدھا سادھا جواب تو یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے ابتلاء کے لیے جب اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی رؤیت کرادی اور ان کے گھوڑے کے نیچے کی زمین کو اس کی نظروں کے سامنے سر سبز دکھا دیا جبکہ کسی اسرائیلی کو یہ بات حاصل نہیں ہوئی تو اسی طرح اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہی ہوسکتے ہیں جو اس وقت بنی اسرائیل کی مدد کے لیے تشریف لائے ہیں۔ بعض حضرات نے یہ بات بھی فرمائی ہے جسے صاحب درمنثور نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب فرعون اسرائیل بچوں کو قتل کرتا تھا تو سامری کی ماں اسے کسی غار میں چھپا کر آگئی تھی تاکہ ذبح ہونے سے محفوظ رہے اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے اس کی پرورش کرائی وہ اس کے پاس جاتے تھے اور اسے اپنی انگلیاں چٹاتے تھے ایک انگلی میں شہد اور دوسری میں دودھ ہوتا تھا۔ لہٰذا وہ ان کی اس صورت کو پہچانتا تھا جس میں وہ انسانی صورت اختیار کر کے تشریف لایا کرتے تھے اسی صورت میں اس نے اس موقع پر بھی پہچان لیا۔ واللہ اعلم۔ جب سامری نے زیورات کا بچھڑا بنایا تو اس میں حیات کا اتنا اثر آگیا کہ اس بچھڑے کی آواز آنے لگی یہ آواز کا پیدا ہوجانا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے پاؤں کی مٹی کے اثر سے تھا۔ بنی اسرائیل میں شرک کا جو مزاج تھا وہ اپنا کام کر گیا اور یہ لوگ بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے ان کے پست دماغ میں یہ بات تھی کہ اگر یہ واقع میں بچھڑا نہ بن گیا ہوتا تو اس میں سے آواز کیوں آتی لیکن انہوں نے یہ نہ سوچا کہ جب اصل بچھڑا ہی معبود اور نفع و ضرر کا مالک نہیں ہوسکتا تو یہ نقلی بچھڑا کیسے معبود ہوسکتا ہے مشرک کا مزاج ہے کہ جس کسی خلاف عادت چیز کا صادر ہونا دیکھتے ہیں اس کے بہت زیادہ معتقد ہوجاتے ہیں۔ جعلی پیروں اور فقیروں کا تو یہ مستقل دھندہ ہے کہ کچھ شعبدہ کے طریقے پر اور کچھ کیمیائی طریقوں سے بعض چیزوں کی مشق کرلیتے ہیں اور خلاف عادت چیزیں دکھا کر عوام کو معتقد بنالیتے ہیں جبکہ اس کا قرب الٰہی سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اچھا جا دفع ہو یہ کام تو نے ایسا کیا ہے کہ لوگ تیری طرف متوجہ ہوگئے اور تجھے شرک میں اپنا رہنما بنا لیا اور اس طرح سے تو مقتدا بن گیا اب اس کی سزا میں تیرے لیے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ زندگی بھر تو جہاں کہیں بھی جائے گا لامساس کہتا پھرے گا جس کا معنی یہ ہے کہ مجھ سے دور رہو مجھے مت چھوؤ۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے اس کے لیے ایسی صور تحال پیدا فرما دی کہ جو بھی کوئی شخص اسے چھوتا تھا یا وہ کسی کو چھوتا تھا تو دونوں کو تیز بخار چڑھ جاتا تھا۔ لہٰذا لوگ اس سے دور دور رہتے تھے اور وہ بھی خوب زور زور سے کہتا تھا کہ مت چھوؤ۔ مت چھوؤ۔ دنیا میں تو اس کی یہ سزا ملی اور آخرت میں جو سزا ہے وہ اس کے علاوہ ہے اسی کو فرمایا ہے۔ (وَ اِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَہٗ ) (اور بلاشبہ تیرے لیے ایک وعدہ ہے جو ٹلنے والا نہیں ہے) ۔ ہندوستان کے ہندوؤں میں گائے کی پرستش بھی ہے اور چھوت چھات بھی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ گائے کی پرستش ان میں بنی اسرائیل سے آئی ہو۔ جنہوں نے اہل مصر سے سیکھی تھی اور چھوت چھات سامری کی تقلید میں اختیار کرلی ہو وہ تو اس لیے چھوت چھات کرتا تھا کہ اس اور چھونے والے کو بخار نہ چڑھ جائے لیکن بعد کے آنے والے مشرکین نے اسے مذہبی حیثیت دے دی۔ والعلم عند اللہ الخبیر العلیم۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری سے مزید فرمایا کہ اب تو دیکھ جس چیز کو تو معبود بنا کر دھرنا دیئے بیٹھا تھا ہم اس کا کیا حال بناتے ہیں ہم اسے جلادیں گے پھر اسے دریا میں بکھیر کر بہادیں گے تاکہ تو اور تیرا اتباع کرنے والے آنکھوں سے دیکھ لیں اور پوری ہوش مندی کے ساتھ یہ سمجھ لیں کہ اگر یہ معبود ہوتا تو جلانے سے کیوں جلتا، بھلاوہ کیا معبود ہے کہ کسی مخلوق کے جلانے سے جل جائے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کردیا کہ اسے جلا کر سمندر میں بکھیر دیا کچھ بعید نہیں کہ ہندوستان کے ہندو جو اپنے مردوں کو جلا کر اس کی راکھ پانی میں بہادیتے ہیں یہ بھی اسی کا بقیہ ہو جو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے معبود باطل کے ساتھ کیا تھا۔ انہوں نے تو عبرت کے لیے ایسا کیا تھا اور انہوں نے اسے اپنا مذہب بنالیا، آگ میں جہاں اس کا صنم گیا وہیں خود چلے جاتے ہیں بعض مفسرین نے یہ اشکال کیا ہے کہ بچھڑا تو زیورات سے بنایا گیا تھا اور چاندی سونا جلتا نہیں ہے جس کی راکھ ہوجائے بلکہ وہ تو پگھل جاتا ہے لہٰذا اس کی راکھ کیسے بنی۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ بچھڑا جب بولنے لگا تو اس کا قالب بھی بدل گیا اور گوشت پوست والا بچھڑا بن گیا تھا حضرت موسیٰ نے اسے پہلے ذبح فرمایا پھر آگ میں جلا دیا اور راکھ کو سمندر میں بہا دیا۔ اور بعض حضرات نے یوں کہا ہے کہ اسے ریتی سے ریت کر ذرہ ذرہ کردیا پھر سمندر میں ڈال دیا۔ صاحب معالم التنزیل نے ج ٣ ص ٦٣ میں یہ دونوں باتیں لکھی ہیں لیکن دوسری بات کے سمجھنے میں اشکال رہ جاتا ہے کیونکہ چاندی سونے کے ذرات کو ریزہ ریزہ کر کے آگ میں ڈالا جائے تو تب بھی پگھلتے ہیں راکھ نہیں بنتے اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آگ میں ڈالنے پر بطور معجزہ اللہ تعالیٰ نے پگھلانے کے بجائے اسے راکھ بنا دیا۔ ولا اشکال فی ذلک۔ آخر میں فرمایا (اِنَّمَآ اِلٰھُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ) تمہارا معبود اللہ ہی ہے جس کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی عبادت کی جائے۔ (وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا) (وہ اپنے علم سے تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے) اس میں مشرکین کی تردید ہے کہ وہ جن کی عبادت کرتے ہیں انہیں اپنی ذات ہی کا علم نہیں دوسری مخلوق کا کیا علم ہوگا۔
68:۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا جواب سن کر وہ سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا اے سامری ! تم نے یہ حرکت کیوں کی کہ گوسالہ بنا کر قوم کو بت پرستی پر لگا دیا۔ سامری بنی اسرائیل کے قبیلہ سامرہ کا ایک فرد تھا اور سمندر پار کرنے کے بعد در پردہ دین موسیٰ سے مرتد ہوگیا۔ اور منافقانہ طور پر بنی اسرائیل میں شامل رہا۔ بنی اسرائیل نے سمندر سے پار اترنے کے بعد ایک قوم کو گائے کی پوجا کرتے دیکھا۔ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے۔ ” اِجْعَلْ لَّنَا اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَةً “ جس پر انہوں نے ان کو سرزنش کی۔ سامری نے بنی اسرائیل کا مزاج سمجھ لیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچھڑے کا بت بنا کر پوجا کے لیے قوم کے سامنے رکھ دیا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سامری کی قوم گاؤ پرست تھی۔ اس لیے گاؤ پرستی کی محبت اس کے دل میں موجود تھی اور ظاہری طور پر اس نے اسلام کا اظہار کررکھا تھا۔ عن ابن عباس قال کان السامری رجلا من اھل باجرو کان من قوم یعبدون البقر و کان حب عبادۃ القبر فی نفسہ وکان قال اظھرالاسلام مع بنی اسرائیل (ابن کثیر ج 3 س 163) ۔ قال قتادۃ کان السامری عظیما فی بنی اسرائیل من قبیلۃ یقال لہا سامرۃ ولکن عدو اللہ نافق بعد ماقطع البحر مع موسیٰ الخ (قرطبی) ۔