Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 96

سورة طه

قَالَ بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ یَبۡصُرُوۡا بِہٖ فَقَبَضۡتُ قَبۡضَۃً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذۡتُہَا وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتۡ لِیۡ نَفۡسِیۡ ﴿۹۶﴾

He said, "I saw what they did not see, so I took a handful [of dust] from the track of the messenger and threw it, and thus did my soul entice me."

اس نے جواب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جو انہیں دکھائی نہیں دی ، تو میں نے فرستادۂ الٰہی کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی اسے اس میں ڈال دیا اسی طرح میرے دل نے یہ بات میرے لئے بھلی بنا دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ ... (Samiri) said: "I saw what they saw not." This means, "I saw Jibril when he came to destroy Fir`awn." ... فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ ... so I took a handful (Qabdah) from the print of the messenger, This means from the hoof print of his (Jibril's) horse. This is what is well-known with many of the scholars of Tafsir, rather most of them. Mujahid said, فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ (so I took a handful (Qabdah) from the print of the messenger), "From under the hoof of Jibril's horse." He also said, "The word Qabdah means a palmful, and it is also that which is grasped by the tips of the fingers." Mujahid said, "As-Samiri threw what was in his hand onto the jewelry of the Children of Israel and it became molded into the body of a calf, which made a light moaning sound. The wind that blew into it was the cause of its sound." Thus, he said, ... فَنَبَذْتُهَا ... and I threw it. This means, "I threw it along with those who were throwing (jewelry)." ... وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي Thus my inner self suggested to me. This means that his soul considered it something good and it was pleasing to his self. The Punishment of As-Samiri and the burning of the Calf Thereupon, Allah informs that:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

96۔ 1 مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کو گزرتے ہوئے سامری نے دیکھا اور اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی اس نے سنبھال رکھ لی، جس میں کچھ کرامات کے اثرات تھے۔ اس مٹی کی مٹھی اس نے پگھلے ہوئے زیورات یا بچھڑے میں ڈالی تو اس میں سے ایک قسم کی آواز نکلنی شروع ہوگئی جو ان کے فتنے کا باعث بن گئی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] سیدنا موسیٰ اپنی قوم سے پھر اپنے بھائی ہارون سے مخاطب ہونے کے بعد اب سامری سے مخاطب ہوئے اور پوچھا : بتلاؤ سامری ! یہ کیا معاملہ ہے ؟ واضح رہے کہ قرآن نے یہاں خطب کا لفظ استعمال کیا ہے جو کسی ناگوار صورت حال کو دریافت کرنے کے لئے آتا ہے۔ نیز یہ سامری اگرچہ بظاہر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا تھا۔ مگر وہ ایک منافق اور فتنہ پرداز اور ہوشیار انسان تھا جو کفر و شرک کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا۔ وہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی کھل کر مخالفت تو کر نہ سکتا تھا مگر اس تاک میں رہتا تھا کہ کوئی موقع ملے تو قوم کو پھر سے اپنے آبائی دین یعنی گؤسالہ پرستی کی طرف لے جائے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی میں اسے ایسا موقع میسر آگیا تھا۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے سوال پر کہنے لگا : بات یہ ہے کہ میں نے ایک ایسی چیز دیکھ لی تھی جسے دوسرے نہیں دیکھ سکتے تھے اور وہ یہ تھی کہ فرعون کی موت کے وقت جب جبریل آئے تھے تو میں نے ان کی آمد کو محسوس کرلیا تھا اور ان کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی تھی۔ جب میں نے بچھڑے کی شکل بنائی تو اس میں یہ مٹی بھر دی تھی۔ یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب بچھڑا تیار کیا گیا تو اس میں سے بچھڑے کی سی آواز بھی آنے لگی اور یہ سب کچھ میں نے اس لئے کیا کہ میں اس مٹی کی کچھ کرامت دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ تو تھا سامری کا وہ بیان جو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں دیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس کا یہ بیان بھی فریب کاری پر مشتمل تھا۔ وہ صرف یہی نہیں چاہتا تھا کہ پھر سے بت پرستی اور گؤسالہ پرستی کو فروع دے بلکہ حقیقتا وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں خود لیڈر بننا چاہتا تھا۔ آدمی ہوشیار تھا۔ سیدنا ہارون (علیہ السلام) کو کمزور دیکھ کر اس نے اپنے ہشیاری سے اپنے لئے میدان ہموار کرلیا تھا۔ یعنی سامری کا اصل مقصد سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اپنی لیڈری چمکانا تھا۔ اور اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی راہ اور اغراض و مقاصد سے اس کی راہ جدا گانہ ہو لہذا اس نے قوم کو اسی پرانی گؤسالہ پرستی کی راہ پر ڈال دیا جس سے وہ پہلے ہی مانوس تھے اور اس کے دلدادہ تھے۔ اس طرح وہ فی الواقعہ سیدنا موسیٰ کی عدم موجودگی میں قوم کا لیڈر بن گیا تھا۔ اور یہی بات سیدنا ہارون (علیہ السلام) کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے۔ اگر سیدنا ہارون اس شرک کو روکنے میں سختی سے کام لیتے تو قوم دو دھڑوں میں بٹ جاتی اور ان میں خانہ جنگی بپا ہوجاتی پھر حالات قابو سے باہر ہوجاتے۔ بعض علماء نے یہاں رسول سے مراد خود موسیٰ (علیہ السلام) لئے ہیں۔ اس صورت میں یہ جواب سامری کی انتہائی مکاری پر دلالت کرتا ہے، کہ اس طرح اس نے سیدنا موسیٰ کی خوشامد کرکے انھیں بھی اپنے حق میں نرم کرلینے کی ایک کوشش کی تھی۔ قرآن کریم کے انداز سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ سامری کا یہ بیان سب اس کے اپنے مکروفریب پر مشتمل تھا۔ رہی یہ بات کہ بچھڑے میں آواز کیسے پیدا ہوگئی تھی۔ تو یہ بات بھی چنداں مشکل نہ تھی۔ جب اس بچھڑے کے کھلے ہوئے منہ سے ہوا آڑ پار ہوتی تو اس سے بچھڑے کی سی آواز آنے لگتی تھی۔ جیسے باجا میں منہ سے پھونک مارنے سے مختلف قسم کی آوازیں نکلنے لگتی ہیں یا جیسے برقی گھنٹی کا سوچ دبانے سے اس سے مکتلف قسم کی گھنٹیوں سے مکتلف قسم کی اوازیں آتی ہیں۔ اور ان مختلف آوازوں کا تعلق باجے اور برقی گھنٹی کی اندرونی ساخت سے ہوتا ہے۔ اسی طرح سامری نے بچھڑے کے جسم کے اندر پترے اس ترتیب سے رکھ دیئے تھے کہ جب ہوا اس کے جسم سے آڑ پار گزرتی تو وہ آواز نکالنے لگتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ ۔۔ : میں نے اس آیت کی تفسیر کے لیے بہت زیادہ تفاسیر کا مطالعہ کیا، کئی اہل علم سے بھی پوچھا، جو کچھ تفاسیر میں لکھا ہے، میں وہ نقل کرتا ہوں۔ حافظ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ “ (میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں نے نہیں دیکھی) یعنی میں نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا، جب وہ فرعون کو ہلاک کرنے کے لیے آئے تو ” فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ “ (سو میں نے رسول کے پاؤں کے نشان سے ایک مٹھی اٹھا لی) یعنی جبریل (علیہ السلام) کی گھوڑی کے پاؤں کے نشان سے۔ یہی بات بہت سے مفسرین یا زیادہ تر مفسرین کے ہاں مشہور ہے۔ “ (ابن کثیر) جیسا کہ حافظ ابن کثیر (رض) نے ذکر فرمایا، اکثر مفسرین نے یہی تفسیر کی ہے، بلکہ بعض نے تو اس کے علاوہ کسی تفسیر کو سلف کی تفسیر سے انحراف قرار دیا ہے، یعنی سامری نے مٹی کی وہ مٹھی بچھڑے کے مجسمے میں ڈالی تو اس سے گائے کی آواز آنے لگی۔ مگر اس تفسیر کی قرآن، حدیث یا آیات کے سیاق میں کوئی دلیل نہیں۔ شروع سورت سے یہاں تک جبریل (علیہ السلام) کا کوئی ذکر نہیں کہ الف لام عہد کا مان کر جبریل (علیہ السلام) مراد لیے جائیں۔ نہ پورے قرآن میں جبریل (علیہ السلام) کے متعلق ” الرَّسُوْلِ “ (معرف باللام) آیا ہے کہ ان کا لقب مان لیا جائے۔ پھر گھوڑی کا تو دور دور تک کچھ پتا نہیں۔ بعض تابعین کے اقوال یہاں دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ نہ وہ موقع پر موجود تھے اور نہ انھوں نے بتایا کہ یہ تفسیر انھوں نے کہاں سے لی۔ اگر انھوں نے پہلی کسی کتاب سے لی ہے، جیسا کہ ظاہر ہے، تو ہم اس پر یقین نہیں کرسکتے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تصدیق یا تکذیب دونوں سے منع فرمایا ہے۔ شک والی بات علم نہیں ہوسکتی اور نہ قرآن مجید (جس میں کوئی شک نہیں) کی تفسیر شک والی بات کے ساتھ کرنا علم تفسیر ہے۔ اس تفسیر سے پیدا ہونے والے سوالات، مثلاً تمام لوگوں میں سے سامری نے جبریل (علیہ السلام) کو کیسے پہچانا ؟ اسے کیسے معلوم ہوا کہ اس مٹھی میں کیا کرشمہ ہے وغیرہ، سب کے جوابات کے لیے مزید کہانیاں درج کی گئی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں۔ کئی مفسرین نے ابومسلم اصفہانی (معتزلی) کی تفسیر اختیار کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مفسرین نے جو کچھ فرمایا قرآن میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ چناچہ اس کی اور توجیہ ہوسکتی ہے کہ ” الرَّسُوْلِ “ سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور رسول کے پاؤں کے نشان سے ایک مٹھی پکڑنے سے مراد یہ ہے کہ میں نے ان کی سنت اور ان کے طریقے سے کچھ حصہ اخذ کیا۔ بعض اوقات آدمی کہتا ہے : ” فَلَانٌ یَقْفُوْ أَثَرَ فُلَانٍ وَ یَقْتَصُّ أَثَرَہُ “ ” فلاں شخص فلاں کے نشان قدم کا پیچھا کرتا ہے اور اس کے نشان قدم کے پیچھے جاتا ہے۔ “ جب وہ اس کے طریقے پر چلتا ہو۔ مطلب یہ ہوگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب سامری کو ملامت کی اور اس سے قوم کو گمراہ کرنے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا ” بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ “ یعنی مجھے معلوم ہوگیا کہ تم لوگ جس راہ پر ہو وہ حق نہیں تو ” فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ (وَقَدْ کُنْتُ ) “ اس سے پہلے اے رسول ! میں نے آپ کے دین اور طریقے کا کچھ حصہ اختیار کیا تھا، ” فَنَبَذْتُهَا “ پھر میں نے اس طریقے کو پھینک دیا اور اسے چھوڑ کر بچھڑے کی پرستش میرے نفس نے میرے لیے خوشنما بنادی۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے دنیا اور آخرت کے عذاب کی اطلاع دی اور اس نے رسول کو غائب کے صیغے سے اسی طرح ذکر کیا جیسے آدمی اپنے سردار سے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امیر صاحب اس بارے میں کیا فرماتے ہیں اور امیر صاحب کیا حکم دیتے ہیں ؟ رہا اس کا موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا منکر ہونے کے باوجود انھیں رسول کہنا، تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے کفار کا قول ذکر فرمایا : (وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ ) [ الحجر : ٦ ] ” اور انھوں نے کہا اے وہ شخص جس پر یہ نصیحت نازل کی گئی ہے ! بیشک تو تو دیوانہ ہے۔ “ حالانکہ وہ لوگ آپ پر نصیحت کا نزول تسلیم نہیں کرتے تھے۔ رازی لکھتے ہیں کہ ابومسلم نے جو ذکر کیا ہے وہ تحقیق کے زیادہ قریب ہے اور اس میں (پہلے) مفسرین کی مخالفت کے سوا کوئی خرابی نہیں۔ پھر رازی نے اس کی تائید میں کئی چیزیں ذکر کی ہیں۔ بہت سے بعد میں آنے والے مفسرین نے بھی یہ تفسیر اختیار کی ہے، مگر ” بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ “ کے بعد ” فَقَبَضْتُ قَبْضَةً “ کی تفسیر ” وَقَدْ کُنْتُ قَبَضْتُ “ کے ساتھ کرنا تکلف ہے، اسی طرح کسی کی پیروی کے لیے ” یَقْفُوْ “ اور ” یَقْتَصُّ أَثَرَہُ “ تو معروف ہے مگر اس مفہوم کے لیے ” یَقْبِضُ قَبْضَۃً مِنْ أَثَرِہِ “ کے استعمال کی لغت عرب میں کوئی نظیر نہ ابومسلم نے پیش کی ہے، نہ رازی نے اور نہ بعد میں آنے والے کسی بزرگ نے۔ پہلی تفسیر پر ابومسلم کا اعتراض کہ اس کی قرآن میں تصریح نہیں، اس تفسیر پر بھی وارد ہوتا ہے کہ اس کی تصریح بھی قرآن میں نہیں، محض کھینچ کھانچ کر یہ مطلب نکالا گیا ہے۔ ایک اردو مفسر نے یہ بات نکالی ہے کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا۔ اس نے بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کردی۔ پھر مزید جسارت یہ کی کہ خود موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ایک پر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی، اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آیا تھا اور ساتھ ہی یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقش قدم کی ایک مٹھی بھر مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے۔ رسول سے مراد ممکن ہے جبریل ہی ہوں، یا اس نے رسول کا لفظ خود موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے استعمال کیا تھا تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی، وہ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو ذہنی رشوت دینا چاہتا تھا۔ ( ملخص) مگر ساری قوم کے سامنے اس کے جھوٹ پر موسیٰ (علیہ السلام) جیسے پر جلال پیغمبر کا ذہنی رشوت لے کر خاموش رہنا اور صرف اسے سزا سنانے پر اکتفا کرنا اور قوم کے سامنے اس کے جھوٹ اور فریب کو واضح نہ کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک اور عقلی بزرگ نے ” بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ “ کی یہ توجیہ کی ہے کہ اس نے کہا کہ مجھے کشفی مشاہدہ ہوا جو صرف مجھی کو ہوا کہ جبریل (علیہ السلام) کے آتے ہی میں نے ان کے (یا ان کے گھوڑے کے) نقش قدم سے ایک مٹھی خاک اٹھالی ہے اور ایک بچھڑا بنا کر اس میں ڈال دی ہے، جس سے وہ بولنے لگا، مگر اب آپ کے ڈانٹنے سے معلوم ہوا کہ یہ محض میرے نفس کا دھوکا تھا۔ (ملخص) تعجب ہوتا ہے کہ یہ حضرات بات بناتے بناتے کہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے کی تفسیر کشفی مشاہدہ قادیانی طرز تفسیر کے سوا کچھ نہیں۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے سامنے اس فریب کا پردہ چاک نہ کریں ؟ مجھے تو سلامتی اسی میں نظر آتی ہے کہ جس آیت کی تفصیل قرآن مجید کے الفاظ سے واضح نہ ہو اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آئی ہو، اہل کتاب کی کسی روایت پر یقین کرنے یا زبردستی کوئی مطلب نکالنے کے بجائے متشابہات میں سے سمجھ کر اس پر مجمل ایمان رکھا جائے اور اس کی تفصیل اللہ کے سپرد کردی جائے، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) [ آل عمران : ٧ ] ” وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری، جس میں کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں۔ “ آخر ہم حروف مقطعات، اللہ تعالیٰ کی صفات، سد ذوالقرنین، دابۃ الارض، یاجوج ماجوج اور قرآن مجید کی کتنی ہی باتوں کی تفصیل نہیں جانتے، مگر ہمارا ان پر ایمان ہے۔ سامری کے جواب کی تفصیل میں اگر ہمارا کوئی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور ذکر فرما دیتا۔ سو ہمارا ایمان ہے کہ اگرچہ ہم تفصیل نہیں جانتے مگر جو ہمارے رب نے فرمایا وہ حق ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary بَصُرْ‌تُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُ‌وا بِهِ (I perceived something they perceived not - 20:96) The reference here is to Jibra&il (علیہ السلام) . There is a tradition that he was present on his horse at the river crossing when, the Bani Isra&il having crossed it safely to the other side, the Pharaoh and his army entered the river in pursuit of the fugitives. There is another tradition that after Sayyidna Musa (علیہ السلام) had crossed the river Sayyidna Jibra&il came to him riding a horse to invite him to go to the Tur mountain. At that time Samiri alone, and no one else, saw him and the reason, according to a tradition of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، was that he was nourished by Jibra&il when his mother had left him in the cave, and knew him well. (Bayan ul-Qur’ an) فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ‌ الرَّ‌سُولِ (So I picked up a handful of dust from under the foot of the messenger.- 20:96) The رَسُول word (messenger) refers to Jibra&il (علیہ السلام) The Shaitan planted the idea in the heart of Samiri that the earth under the hoofs of the mount of Jibra&il must somehow contain signs of life and he should pick up some of it - which he did. According to the tradition of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) القی فی روعہٖ انَّہ ، لا یلقیھا علی شییء فہقُول کن کذا، الَّا کان (The thought occurred to Samiri was that if he sprinkled this earth on something and uttered the words, |"You become so and so|", it will change its original form and become |"so and so.|" ) It is also related by some exegetes that Samiri observed that grass sprouted unfailingly in the earth under the hoofs of the horse of Jibra&il (علیہ السلام) from which he deduced that it contained traces of life. (کذا فی الکمالین). The same explanation is adopted by Ruh ul-Ma` ani on the authority of Tabi&in and majority of commentators, and it includes comments on doubts expressed by some skeptics فَجِزَاہُ اللہ خیر الجزاء . (Bayanul-Qur۔ an) Later on he moulded the ornaments, which the Bani Isra&il had thrown in the pit, in the shape of a calf and sprinkled the earth on it. By a miracle of Allah it developed signs of life and could even make a sound. The detailed story of Samiri and his calf has been given in (hadith ul-futun) in earlier pages of this volume.

معارف و مسائل بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ ، (یعنی وہ چیز دیکھی جو دوسروں نے نہیں دیکھی) اس سے مراد جبرئیل امین ہیں اور ان کے دیکھنے کے واقعہ میں ایک روایت تو یہ ہے کہ جس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعجاز سے دریائے قلزم میں خشک راستے بن گئے اور بنی اسرائیل ان راستوں سے گزر گئے اور فرعونی لشکر دریا میں داخل ہو رہا تھا تو جبرئیل امین گھوڑے پر سوار یہاں موجود تھے دوسری روایت یہ ہے کہ دریا سے پار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر آنے کی دعوت دینے کے لئے جبرئیل امین گھوڑے پر سوار تشریف لائے تھے ان کو سامری نے دیکھ لیا دوسرے لوگوں کو معلوم نہ ہوسکا اس کی وجہ حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں یہ ہے کہ سامری کی پرورش خود جبرئیل امین کے ذریعہ ہوئی تھی جس وقت اس کی ماں نے اس کو غار میں ڈال دیا تھا تو جبرئیل امین روزانہ اس کو غذا دینے کے لئے آتے تھے اس کی وجہ سے وہ ان سے مانوس تھا اور پہچانتا تھا دوسرے لوگ نہیں پہچان سکے۔ (بیان القرآن) فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ ، رسول سے مراد اس جگہ فرستادہ خداوندی حضرت جبرئیل امین ہیں۔ سامری کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈالی کہ جبرئیل امین کے گھوڑے کا قدم جس جگہ پڑتا ہے وہاں کی مٹی میں حیات و زندگی کے خاص اثرات ہوں گے یہ مٹی اٹھا لی جاوے اس نے نشان قدم کی مٹی اٹھا لی۔ یہ بات حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے القی فی روعہ انہ لا یلقیھا علی شیئی فیقول کن کذا الاکان، یعنی سامری کے دل میں خود بخود یہ بات پیدا ہوئی کہ نشان قدم کی اس مٹی کو جس چیز پر ڈال کر یہ کہا جائے گا کہ فلاں چیز بن جا تو وہ وہی چیز بن جائے گی اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سامری نے گھوڑے کے نشان قدم کا یہ اثر مشاہدہ کیا کہ جس جگہ قدم پڑتا وہیں سبزہ فوراً نمودار ہوجاتا تھا جس سے یہ استدلال کیا کہ اس مٹی میں آثار حیات ہیں، کذا فی الکمالین، اسی تفسیر کو روح المعانی میں صحابہ وتابعین اور جمہور مفسرین سے منقول کہا ہے اور اس میں آج کل ظاہر پرست لوگوں نے جو شبہات نکالے ہیں ان سب کا جواب دیا ہے فجزاہ اللہ خیر الجزاء (بیان القرآن) پھر جب بنی اسرائیل کے جمع کئے زیورات سے اس نے ایک بچھڑے کی ہئیت بنا لی تو اپنے گمان کے مطابق کہ اس مٹی میں آثار حیات ہیں جس چیز میں ڈالی جائے گی اس میں زندگی پیدا ہوجائے گی اس نے یہ مٹی اس بچھڑے کے اندر ڈال دی۔ بقدرت خداوندی اس میں حیات کے آثار پیدا ہوگئے اور بولنے لگا۔ اور حدیث فتون جو پہلے مفصل آ چکی ہے اس میں یہ ہے کہ اس نے حضرت ہارون (علیہ السلام) سے دعا کرائی کہ میں اپنے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس کو ڈالتا ہوں شرط یہ ہے کہ آپ یہ دعا کردیں کہ جو میں چاہتا ہوں وہ ہوجاوے۔ حضرت ہارون اس کے نفاق اور گو سالہ پرستی سے واقف نہ تھے دعا کردی اور اس نے وہ خاک نشان قدم کی اس میں ڈال دی تو حضرت ہارون کی دعا سے اس میں حیات کے آثار پیدا ہوگئے۔ ایک روایت کے حوالے سے یہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ سامری فارس یا ہندوستان کا باشندہ اس قوم کا فرد تھا جو گائے کی پرستش کرتی ہے، مصر پہنچ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا بعد میں پھر مرتد ہوگیا یا پہلے ہی ایمان کا اظہار منافقانہ کیا تھا پھر نفاق ظاہر ہوگیا۔ اس اظہار ایمان کا فائدہ اس کو یہ پہنچا کہ بنی اسرائیل کے ساتھ دریا سے پار ہوگیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِہٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُہَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِيْ نَفْسِيْ۝ ٩٦ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ قبض القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، کقولک : قَبَضْتُ الدّار من فلان، أي : حزتها . قال : تعالی: وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] ، أي : في حوزه حيث لا تمليك لأحد . وقوله : ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان/ 46] ، فإشارة إلى نسخ الظّلّ الشمس . ويستعار القَبْضُ للعدو، لتصوّر الذي يعدو بصورة المتناول من الأرض شيئا، وقوله : يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، أي : يسلب تارة ويعطي تارة، أو يسلب قوما ويعطي قوما، أو يجمع مرّة ويفرّق أخری، أو يميت ويحيي، وقد يكنّى بِالْقَبْضِ عن الموت، فيقال : قَبَضَهُ الله، وعلی هذا النّحو قوله عليه الصلاة والسلام : «ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن» «2» أي : اللہ قادر علی تصریف أشرف جزء منه، فكيف ما دونه، وقیل : راعٍ قُبَضَةٌ: يجمع الإبلَ والِانْقِبَاضُ : جمع الأطراف، ويستعمل في ترک التّبسّط . ( ق ب ض ) القبض ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے جیسے محاورہ ہے : ۔ قبضت الدر من فلان یعنی اسے اپنے تصرف میں لے لیا قرآن میں ہے ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہوگی اور کسی کا ملک نہیں ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان/ 46] پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ میں سورج کے سایہ کو نقل کرنے کی طرف اشارہ ہے اور استعارہ کے طور پر قبض کے معنی تیز دوڑنے کے بھی آتے ہیں اس لحاظ سے کہ گویا دوڑ نے والا زمین سے کسی چیز کو پکڑتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا اور اسے وہی کشادہ کرتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کبھی چھین لیتا ہے اور کبھی عطا کردیتا ہے ۔ یا ایک قوم سے چھین لیتا ہے اور دوسری کو عطا کردیتا ہے اور یا اس کے معنی زندہ کرنے اور مارنے کے ہیں کیونکہ کبھی قبض موت سے کنایہ ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے : ۔ قبضہ اللہ اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا |" ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن»کہ ہر آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے یعنی انسان کے سب سے اشرف جزء پر اللہ تعالیٰ کو تصرف حاصل ہے تو دوسرے اعضاء پر بالا ولٰی تصرف حاصل ہوگا ۔ راعی قبضۃ منتظم چرواہا الا نقباض کے معنی اطراف یعنی ہاتھ پاؤں سمیٹ لینے کے ہیں اور ترک تبسط یعنی بےتکلفی چھوڑ دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ أثر والإيثار للتفضل ومنه :[ آثرته، وقوله تعالی: وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر/ 9] وقال : تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 91] وبَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ الأعلی/ 16] . وفي الحدیث : «سيكون بعدي أثرة» «5» أي : يستأثر بعضکم علی بعض . ( ا ث ر ) اور الایثار ( افعال ) کے معنی ہیں ایک چیز کو اس کے افضل ہونے کی وجہ سے دوسری پر ترجیح دینا اور پسندکرنا اس سے آثرتہ ہے یعنی میں نے اسے پسند کیا ۔ قرآن میں ہے :۔ { وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ } [ الحشر : 9] دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں { تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا } [يوسف : 91] بخدا اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت بخشی ہے ۔ { بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا } [ الأعلی : 16] مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ (5) حدیث میں ہے : سیکون بعدی اثرۃ ۔ ( میرے بعد تم میں خود پسندی آجائے گی ) یعنی تم میں سے ہر ایک اپنے کو دوسروں سے بہتر خیال کرے گا ۔ نبذ النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص . ( ن ب ذ) النبذ کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔ سول والتَّسْوِيلُ : تزيين النّفس لما تحرص عليه، وتصویر القبیح منه بصورة الحسن، قال : بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف/ 18] ( س و ل ) التسویل ۔ کے معنی نفس کے اس چیز کو مزین کرنا کے ہیں جس پر اسے حرص بھی ہو اور اس کے قبح کو خوشنما بناکر پیش کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف/ 18] بلکہ تم اپنے دل سے ( یہ ) بات بنا لائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَکَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ ) ” رسول سے مراد یہاں حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) ہیں۔ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) کہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے تھے تو سامری نے انہیں دیکھ لیا۔ سامری چونکہ راہب تھا ‘ وہ روحانی اور نفسیاتی نوعیت کے مجاہدے بھی کرتا رہتا تھا۔ اس لیے حضرت جبرائیل کسی اور کو تو نظر نہ آئے مگر اسے نظر آگئے۔ زمین پر جہاں آپ ( علیہ السلام) کا قدم پڑ رہا تھا وہاں سے اس نے کچھ مٹی اٹھا لی۔ یہی مٹی اس نے اس بھٹی میں ڈال دی جس میں وہ بچھڑا تیار کرنے کے لیے زیورات کو پگھلا رہا تھا۔ یوں حضرت روح الامین ( علیہ السلام) کے قدموں کی مٹی کی تاثیر سے اس بچھڑے سے وہ آواز آنے لگی۔ یہ گویا اس معاملے کے بارے میں سامری کی وضاحت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73. Here it has been a good deal of divergence of opinion in regard to the interpretation of this verse. According to the majority of the early commentators and their followers, it means: The Samiri saw the Messenger (Angel Gabriel) when he was passing and took a handful of dust from his footprints. Then he sprinkled this upon the idol of the golden calf. This created life in it and it began to low like a living calf. The Quran, in fact, does not say that this actually happened but merely cites the reply given by the Samiri to Prophet Moses (peace be upon him) when the latter took him to task for the great sin he had committed. There are others who interpret the words of the Samiri like this: I saw a weakness in the Messenger (Prophet Moses) or in his creed, which others did not see. Therefore I followed in his footsteps to a certain limit but afterwards I left his way. This interpretation was most probably put forward first of all by Abu Muslim Isfahani. Then Imam Razi not only cited it in his own commentary but also approved of it. And now it is being followed by some modernistic commentators, who try to prove their own favorite theories by giving far-fetched interpretations to the obvious meaning of the words of the Quran. Such people forget that the Quran has not been sent down in the terminology of enigmas, riddles and puzzles but in clear, plain and intelligible Arabic. Therefore the Quran would have never employed the words it has used in the text to convey the meaning given by them because their usage cannot support that far-fetched interpretation. What such interpreters really mean to imply is that Allah has failed to express Himself clearly and plainly; therefore, they wish to come to His rescue by their interpretations in order to save Him from the ridicule of the learned people. If we study the verse in the context in which it occurs, we shall be able to understand easily that the Samiri was a mischief-monger who had contrived his deceitful scheme after a good deal of consideration. As he appears to have been a good craftsman, he caused the golden calf he had made to produce a lowing sound, and successfully deluded the ignorant and simple people. He did not rest content with this but impudently invented the story that he had seen what the common people could not see and that he had taken a handful of the dust from the footprints of the Messenger and sprinkled it on the calf which made it low like a living calf. It is possible that by the Messenger, he meant Prophet Moses (peace be upon him) himself and might have cunningly tried to flatter him, saying, that the dust of his footprints was miraculous. By saying so, he was playing the most subtle trick. He wanted to offer an intellectual bait to Moses (peace be upon him) so that he might feel elated about the miraculous effect of the dust trodden by his feet and utilize his services for propagating his own miraculous acts. Anyhow, the fact is that the Quran has presented the whole thing as a trick of the Samiri and has not given the account as if it were a real event by itself. The subsequent reaction of Prophet Moses (peace be upon him) to the statement of the Samiri clearly shows that he considered it as a deceitful story, and so laid the curse on him.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :73 اس آیت کی تفسیر میں دو گروہوں کی طرف سے عجیب کھینچ تان کی گئی ہے ۔ ایک گروہ جس میں قدیم طرز کے مفسرین کی بڑی اکثریت شامل ہے ، اس کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ سامری نے رسول یعنی حضرت جبریل کو گزرتے ہوئے دیکھ لیا تھا ، اور ان کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی اٹھا لی تھی ، اور یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بت پر ڈالا گیا تو اس میں زندگی پیدا ہو گئی اور جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی ۔ حالانکہ قرآن یہ نہیں کہہ رہا ہے فی الواقع ایسا ہوا تھا ۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی باز پرس کے جواب میں سامری نے یہ بات بنائی ۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مفسرین اس کو ایک امر واقعی ، اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کیسے سمجھ بیٹھے ۔ دوسرا گروہ سامری کے قول کو ایک اور ہی معنی پہناتا ہے ۔ اس کی تاویل کے مطابق سامری نے دراصل یہ کہا تھا کہ مجھے رسول ، یعنی حضرت موسیٰ میں ، یا ان کے دین میں وہ کمزوری نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی ۔ اس لیے میں نے ایک حد تک تو اس کے نقش قدم کی پیروی کی ، مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا ۔ یہ تاویل غالباً سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی کو سوجھی تھی ، پھر امام رازی نے اس کو اپنی تفسیر میں نقل کر کے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ، اور اب طرز جدید کے مفسرین بالعموم اسی کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قرآن معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ صاف اور عام فہم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے ۔ کوئی شخص جو عربی زبان کے معروف محاورے اور روز مرہ سے واقف ہو ، کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ سامری کے اس مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے عربی مبین میں وہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو آیت زیر تفسیر میں پائے جاتے ہیں ۔ نہ ایک عام عرب ان الفاظ کو سن کر کبھی وہ مطلب لے سکتا ہے جو یہ حضرات بیان کر رہے ہیں ۔ لغت کی کتابوں میں سے کسی لفظ کے وہ مختلف مفہومات تلاش کر لینا جو مختلف محاوروں میں اس سے مراد لیے جاتے ہوں ۔ اور ان میں سے کسی مفہوم کو لا کر ایک ایسی عبارت میں چسپاں کر دینا جہاں ایک عام عرب اس لفظ کو ہرگز اس مفہوم میں استعمال نہ کرے گا ۔ زباں دانی تو نہیں ہو سکتا ، البتہ سخن سازی کا کرتب ضرور مانا جا سکتا ہے ۔ اس قسم کے کرتب فرہنگ آصفیہ ہاتھ میں لے کر اگر کوئی شخص خود ان حضرات کی اردو تحریروں میں ، یا آکسفورڈ ڈکشنری لے کر ان کی انگریزی تحریروں میں دکھانے شروع کر دے ، تو شاید اپنے کلام کی دو چار ہی تاویلیں سن کر یہ حضرات چیخ اٹھیں ۔ بالعموم قرآن میں ایسی تاویلیں اس وقت کی جاتی ہیں جبکہ ایک شخص کسی آیت کے صاف اور سیدھے مطلب کو دیکھ کر اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ یہاں تو اللہ میاں سے بڑی بے احتیاطی ہو گئی ، لاؤ میں ان کی بات اس طرح بنا دوں کہ ان کی غلطی کا پردہ ڈھک جائے اور لوگوں کو ان پر ہنسنے کا موقع نہ ملے ۔ اس طرز فکر کو چھوڑ کر جو شخص بھی اس سلسلہ کلام میں اس آیت کو پڑھے گا وہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لے گا کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکر و فریب کی اسکیم تیار کی تھی ۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا ۔ بلکہ اس پر مزید یہ جسارت بھی کی کہ خود حضرت موسیٰ کے سامنے ایک پر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی ۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا ، اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقش قدم کی ایک مٹھی بھر مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے ۔ رسول سے مراد ممکن ہے کہ جبریل ہی ہوں ، جیسا کہ قدیم مفسرین نے سمجھا ہے ۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ اس نے رسول کا لفظ خود حضرت موسیٰ کے لیے استعمال کیا تھا ، تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی ۔ وہ اس طرح حضرت موسیٰ کو ذہنی رشوت دینا چاہتا تھا ، تاکہ وہ اسے اپنے نقش قدم کی مٹی کا کرشمہ سمجھ کر پھول جائیں اور اپنی مزید کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کرلیں ۔ قرآن اس سارے معاملے کو سامری کے فریب ہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے ، اپنی طرف سے بطور واقعہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ اس سے کوئی قباحت لازم آتی ہو اور لغت کی کتابوں سے مدد لے کر خواہ مخواہ کی سخن سازی کرنی پڑے ۔ بلکہ بعد کے فقرے میں حضرت موسیٰ نے جس طرح اس کو پھٹکارا ہے اور اس کے لیے سزا تجویز کی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے گھڑے ہوئے اس پر فریب افسانے کو سنتے ہی انہوں نے اس کے منہ پر مار دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

40: رسول سے مراد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لشکر کے ساتھ تھے۔ عام طور سے مفسرین نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) انسانی شکل میں ایک گھوڑے پر سوار تھے، اور سامری نے دیکھا کہ گھوڑے کا پاؤں جس جگہ پڑتا، وہاں زندگی کے کچھ آثار پیدا ہوجاتے تھے۔ سامری نے سمجھا کہ اس مٹی میں جو زندگی کے آثار پیدا ہورہے ہیں، ان سے یہ کام بھی لیا جا سکتا ہے کہ کسی بے جان چیز پر ڈالنے سے اس میں زندگی کے کچھ خصوصیات پیدا ہوجائیں، چنانچہ اس نے ایک مٹھی اس مٹی کی لے کر بچھڑے پر ڈال دی جس سے آواز نکلنے لگی۔ لیکن بعض مفسرین مثلاً حضرت مولانا حقانی نے تفسیر حقانی جلد 3 ص 272، 273 میں فرمایا ہے کہ یہ سامری کی طرف سے ایک جھوٹا بہانہ تھا، ورنہ بچھڑے میں آواز خلا میں ہوا کے گذرنے سے نکلتی تھی، چونکہ قرآن کریم نے نہ کوئی تفصیل خود بیان فرمائی، نہ کسی مضبوط حدیث سے ثابت ہے، اور نہ کوئی دینی ضرورت اس کے جاننے پر موقوف ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس تفصیل کو اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کیا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:96) بصرت۔ ماضی واحد متکلم۔ میں نے دیکھا۔ مجھے نظر آیا۔ بصر یبصر (کرم) بصر مصدر ۔ جس کے معنی دیکھنے اور معلوم کرنے ہیں۔ البصر آنکھ کو کہتے ہیں اس کی جمع ابصار ہے قوت بینائی کو بصر کہتے ہیں۔ قبضۃ۔ مٹھی بھر۔ تھوڑا سا لے لینا۔ القبض کے معنی ہیں کسی چیز کو پورے پنچے کے ساتھ پکڑنا۔ جیسے قبض السیف اس نے تلوار کو پکڑا۔ قبض علی۔ مٹھی میں لے لینا۔ قبضہ میں لے لیناقبض عن۔ لینے سے ہاتھ کھینچ لینا۔ مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینا۔ جیسے یقبضون ایدیہم (9:67) اور (خرچ کرنے سے) ہاتھ بند کئے رہتے ہیں۔ قبض الی اپنی طرف سمیٹ لینا۔ جیسے ثم قبضنہ الینا قبضا یسیرا (25:46) پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ اثر۔ اس کے حقیقی معنی تو نشان و علامت کے ہیں مگر مجازا نشان قدم کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ فنبذتھا۔ پس میں نے اسے ڈال دیا۔ ماضی کا صیغہ متکلم ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ فائدہ :۔ آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ :۔ اس نے کہا کہ میں نے ایسی چیز دیکھی جو لوگوں کو نظر نہ آئی پس میں نے رسول کے نشان قدم سے ایک مٹھی بھر (مٹی) لے لی پھر میں نے اسے ڈال دیا۔ لیکن آیت کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ جس میں قدیم مفسرین کی اکثریت شامل ہے۔ بیان کرتا ہے کہ سامری نے ایک دفعہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو گھوڑی پر سوار دیکھا تھا اور گھوڑی کے نقش پاء سے ایک مٹھی بھر مٹی لے لی تھی اس گھوڑی کا جہاں قدم پڑتا خشک گھاس سرسبز ہوجاتی اور یہ اس مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بت پر ڈالا گیا تو اس میں زندگی پیدا ہوگئی اور وہ جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی۔ دوسرا گروہ جس میں ابو مسلم اصفہانی، فخری الدین رازی۔ علامہ ابی حیان اندلسی ۔ ابوالکلام آزاد۔ وغیرہ شامل ہیں ان کا بیان ہے کہ مجھے رسول یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یا ان کے دین میں وہ کمزور نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی اس لئے ایک حد تک میں نے ان کے نقش قدم کی پیروی کی مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا۔ ایک تیسرا گروہ جس میں مولانا مودودی، عبداللہ یوسف علی وغیرہ شامل ہیں اس امر کا قائل ہے کہ سامری کا یہ بیان ایک جھوٹی اور من گھڑت کہانی تھی۔ چناچہ مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ :۔ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکروفریب کی سکیم تیار کی تھی اس نے صرف یہی نہی کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کردی تھی۔ اور ساری قوم کے جاہل اور نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ اور مزید اس پر یہ جسارت بھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ایک پر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقش قدم کی ایک مٹھی بھر مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی۔ علامہ عبداللہ یوسف علی رقمطراز ہیں کہ :۔ This answer of the Samiri is a fine example of unblushing effrontery, careful evasion of issues, and invented falsehood. سامری کا یہ جواب اس کی بےباک جرات ۔ اصل الامر سے پہلو تہی اور من گھڑت کذب وافترا کی ایک لاجواب مثال ہے۔ سولت۔ تسویل (تفعیل) مصدر سے۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ اس نے بات بنائی۔ اس نے اچھا کر کے دکھایا۔ تسویل کے معنی نفس کے اس چیز کو مزین کرنے کے ہیں جس پر اسے حرص بھی ہو۔ اور اس کے قبح کو خوشنما بناکر پیش کرنے کے ہیں۔ مثلاً الشیطن سول لہم (47:25) شیطان نے (یہ کام) انہیں مزین کر کے دکھایا یا جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا تھا۔ بل سولت لکم انفسکم امرا (12:18) بلکہ تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی جبرئیل گھوڑے پر جاتے نظر آئے اور ان میں سے کسی کو دکھائی نہ دیئے۔11 یعنی ان کے گھوڑے کے پائوں تلے سے آیت کے الفاظ میں اگرچہ اس چیز کی تصریح نہیں ہے کہ ” الرسول “ سے سامری کی مراد کون تھے لیکن مفسرین سلف فرماتے ہیں کہ ان کی مراد حضرت جبرئیل سے تھی (کذا فی اروح) بعض (معتزلہ) نے اس سے مراد حضرت موسیٰ لئے ہیں یعنی سامری نے کہا ” میں نے پیغمبر کی پکھ اطاعت اختیار کی تھی مگر اب اس کو چھوڑ دیا ہے۔ “ یہ معنی تفسیر بالرای کے مترادف ہے اور سلف کے خلاف ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی حضرت جبرئیل (علیہ السلام) گھوڑے پر چڑھے ہوئے جس روز دریا سے پار اترے ہیں کہ بمصلحت نصرت مومنین و اہلاک کفار کے آئے ہوں گے۔ 8۔ میرے دل میں خود بخود یہ بات پیدا ہوگئی کہ اس میں تحصیل حیات کا اثر ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سامری کے اس جواب کی تفسیر میں کئی اقوال و روایات وارد ہیں۔ اس نے کیا چیز دیکھ لی جو اوروں نے نہ دیکھی ؟ وہ رسول کون تھے جس کے نقش قدم سے انہوں نے مٹھی لی اور پھینک دی ؟ پھر اس فعل کا بچھڑا سازی سے کیا تعلق ہے ؟ بچھڑے میں اس مٹی نے کیا اثرات کیے ؟ ان روایات میں سے بیشتر میں یہ بات ہے کہ سامری نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اس شکل میں دیکھا جس میں وہ زمین پر اترتے ہیں ان کے قدموں کے نیچے سے اس نے خاک اٹھا لی۔ یا اس کے گھوڑے کے قدموں کے نیچے سے خاک اٹھا لی اور اسے سونے سے بنائے ہوئے بچھڑے پر ڈالا اور اس سے آواز آنے لگی۔ یا اس مٹی نے سونے کے ڈھیر سے بچھڑا بنا دیا۔ قرآن کریم نے یہاں اس حقیقت واقعہ کی وضاحت نہیں کی۔ قرآن کریم نے صرف سامری کا قول نقل کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ سامری کی طرف سے عذر لنگ تھا ، اس نے یہ عذر گھڑا تاکہ اپنی اس حرکت کے نتائج سے بچ جائے۔ بچھڑا تو اس سونے سے بنایا تھا جو بنی اسرائیل مصر سے ساتھ لے آئے تھے اور پھر پھینک دیا تھا ۔ سامری نے اس انداز سے بتایا کہ ہوا اس سے ایسی آواز نکالتی تھی جیسا کہ ایک بچھڑے کی آواز آتی ہے۔ اس کے بعد اس نے رسول کے آثار کی مٹی کا ذکر کیا ۔ اس لئے کہ اپنی اس حرکت کو تقدس کا رنگ دے اور اس معاملے کا جوڑ رسول کے نقش قدم سے لگا دے۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے جماعت بنی اسرائیل سے نکال دیا۔ پوری عمر کے لئے اسے ملک بدر کردیا اور آخرت میں اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس مصنوعی الہ کے معاملے میں سامری کے ساتھ سخت برتائو کیا اور الہ کے بارے میں بھی ایسا رویہ اختیار کیا تاکہ لوگ دیکھیں کہ اس الہ نے اپنے بنانے والے کو بھی کوئی مدد نہ پہنچائی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ یہ سامری کا جواب ہے۔ سامری نے کہا کہ مجھ کو ایک ایسی چیز نظر پڑی جو اوروں نے نہیں دیکھی تھی۔ یعنی خدا کے بھیجے ہوئے فرشتہ (جبریل) کو گھوڑے پر سوار دیکھا۔ شاید یہ اسی وقت ہوا ہو جب بنی اسرائیل دریا میں گھسے اور پیچھے پیچھے فرعون کا لشکر گھسا اس حالت میں جبرئیل دونوں جماعتوں کے درمیان کھڑے ہوگئے تاکہ ایک کو دوسرے سے ملنے نہ دیں۔ بہرحال سامری نے کسی محسوس دلیل سے یا وجدان سے یا کسی قسم کے تعارف سابق کی بنا پر سمجھ لیا کہ یہ جبرئیل ہیں ان کے پاؤں یا ان کے گھوڑے کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی وہ ہی اب سونے کے بچھڑے کے منہ میں ڈال دی۔ کیونکہ اس کے جی میں یہ بات آئی کہ روح القدس کی خاک پا میں یقینا کوئی خاص تاثیر ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ سونا تھا کافروں کا مال لیا ہوا فریب سے، اسی میں مٹی بڑی برکت کی۔ حق اور باطل مل کر ایک کر شتہ بن گیا کہ جاندار کی طرح کی روح اور آواز اس میں ہوگئی۔ ایسی چیزوں سے بہت بچنا چاہئے اس سے بت پرستی بڑھتی ہے۔ تنبیہ :۔ آیت کی جو تفسیر اوپر بیان ہوئی، صحابہ وتابعین اور علماء مفسرین سے یہ ہی منقول ہے۔ (عثمانی) ۔ بعض آثار میں ہے کہ جہاں گھوڑا زمین پر پاؤں رکھتا وہاں فورًا سبزہ نمودار ہوجاتا اس سے سامری نے سمجھا کہ اس میں ضرور کوئی کرشمہ ہوگا اس لیے اس کے پاؤں رکھنے کی جگہ سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی۔ وفی بعض الاثار انہ راہ کلما رفع الفرس یدیہ اور جلیہ علی التراب الیبس یخرج النبات فعرف ان لہ شانا فاخذ من موطئہ حفنۃ (روح ج 16 ص 252) ۔ اس کی زیادہ تحقیق سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے ملاحظہ ہو حاشیہ (112) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

96 سامری نے جواب دیا میں نے ایک ایسی چیز دیکھی تھی جو اور سب نے نہیں دیکھی تو میں نے اس فرشتے کے نشان قدم کی مٹی سے ایک مٹھی بھر کے رکھ لی بس وہی مٹی کی مٹھی میں نے اس بچھڑے کے منہ میں ڈال دی اور اس وقت میرے جی نے مجھ کو ایسی ہی صلاح دی۔ یعنی میں نے جبرئیل کو دیکھا اور ان کے پائوں کے نیچے کی مٹی یا ان کے گھوڑے کے پائوں کے نیچے کی مٹی میں ایک خاص اثر محسوس کیا تو میں نے وہ مٹی ایک مٹھی بھر کر رکھ لی اور اس مٹی کو اس بچھڑے کے منہ میں ڈال دیا اس سے یہ آواز پیدا ہوگئی اور یہ بات میں نے اپنے جی سے کی اور میرے نفس نے یہی بات مجھ کو درست بتائی یہ جبرئیل (علیہ السلام) کا آنا یا تو فرعون کے غرق ہونے کے وقت کا ہوگا یا کوئی حکم لیکر آئے ہوں گے اس وقت کا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جس وقت بنی اسرائیل بہتے دریا میں بیٹھے فرعون ساتھ فوج کے بیٹھا جبرئیل (علیہ السلام) بیچ میں ہوگئے کہ ان کو ان کو ان تک نہ ملنے دیں سامرینے پہچانا کہ یہ جبرئیل ہیں ان کے پائوں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی وہی اب اس سونے کے بچھڑے میں ڈال دی سونا تھا کافروں کا مال لیا ایسی چیزوں سے بہت بچنا چاہئے اس سے بت پرستی بڑھتی ہے۔ 12