Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 15

سورة الأنبياء

فَمَا زَالَتۡ تِّلۡکَ دَعۡوٰىہُمۡ حَتّٰی جَعَلۡنٰہُمۡ حَصِیۡدًا خٰمِدِیۡنَ ﴿۱۵﴾

And that declaration of theirs did not cease until We made them [as] a harvest [mowed down], extinguished [like a fire].

پھر تو ان کا یہی قول رہا یہاں تک کہ ہم نے انہیں جڑ سے کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی پڑی آگ ( کی طرح ) کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And that cry of theirs ceased not, till We made them as a field that is reaped, extinct. meaning, "they will keep on saying that, admitting their wrong-doing, until We harvest them as it were, and their movements and voices come to a stop."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی جب تک زندگی کے آثار ان کے اندر رہے، وہ اعتراف ظلم کرتے رہے۔ 15۔ 2 حَصِیْد کٹی ہوئی کھیتی کو اور خُمُوْد آگ کے بج جانے کو کہتے ہیں۔ یعنی بالآخر وہ کٹی ہوئی کھیتی اور بھجی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر ہوگئے، کوئی تاب و توانائی اور حس و حرکت ان کے اندر نہ رہی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] اللہ کے نافرمان اور سرکش لوگوں کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ ڈنڈے کے بغیر سیدھے نہیں ہوتے۔ ان پر جب عذاب الٰہی آجاتا ہے اور موت اپنے سامنے کھڑی دیکھتے ہیں۔ تو اس وقت اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرنے لگتے ہیں اور ایمان بھی لانے پر فوراً تیار ہوجاتے ہیں۔ مگر جس طرح عذاب الٰہی یک دم نہیں آن پڑتا او... ر اس کے آنے کے لئے تدریج و امسال کا قانون مقرر ہے اس طرح اس کے لئے ایک قانون یہ ہے کہ جب آجائے تو پھر واقع ہو کے رہتا ہے پھر ٹل نہیں سکتا اور اس قوم کا صفحہ ہستی سے نام و نشان تک مٹا دیا جاتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ ۔۔ : ” حَصِيْدًا “ ” حَصَدَ یَحْصُدُ “ (درانتی سے کاٹنا) سے ” فَعِیْلٌ“ بمعنی مفعول (مَحْصُوْدٌ) ہے۔ فعیل کا وزن مذکر و مؤنث اور واحد، تثنیہ، جمع سب کے لیے ایک ہی آتا ہے، معنی کٹے ہوئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىہُمْ حَتّٰى جَعَلْنٰہُمْ حَصِيْدًا خٰمِدِيْنَ۝ ١٥ زال ( لایزال) مَا زَالَ ولا يزال خصّا بالعبارة، وأجریا مجری کان في رفع الاسم ونصب الخبر، وأصله من الیاء، لقولهم : زَيَّلْتُ ، ومعناه معنی ما برحت، وعلی ذلك : وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود/ 118] ، وقوله : لا يَزالُ بُن... ْيانُهُمُ [ التوبة/ 110] ، وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد/ 31] ، فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر/ 34] ، ولا يصحّ أن يقال : ما زال زيد إلّا منطلقا، كما يقال : ما کان زيد إلّا منطلقا، وذلک أنّ زَالَ يقتضي معنی النّفي، إذ هو ضدّ الثّبات، وما ولا : يقتضیان النّفي، والنّفيان إذا اجتمعا اقتضیا الإثبات، فصار قولهم : ما زَالَ يجري مجری (کان) في كونه إثباتا فکما لا يقال : کان زيد إلا منطلقا لا يقال : ما زال زيد إلا منطلقا . ( زی ل ) زالہ یزیلہ زیلا اور مازال اور لایزال ہمیشہ حرف نفی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور یہ کان فعل ناقص کی طرح اپنے اسم کی رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں اور اصل میں یہ اجوف یائی ہیں کیونکہ عربی زبان میں زیلت ( تفعیل ) یاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور مازال کے معنی ہیں مابرح یعنی وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود/ 118] وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔ لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة/ 110] وہ عمارت ہمیشہ ( ان کے دلوں میں باعث اضطراب بنی ) رہیگی ۔ وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد/ 31] کافر لوگ ہمیشہ ۔۔۔ رہیں گے ۔ فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر/ 34] تم برابر شبہ میں رہے ۔ اور محاورہ میں مازال زید الا منطلقا کہنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ ماکان زید الا منطلقا کہاجاتا ہے کیونکہ زال میں ثبت گی ضد ہونے کی وجہ نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، ما ، ، و ، ، لا ، ، بھی حروف نفی سے ہیں اور نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے لہذا مازال مثبت ہونے میں گان کیطرح ہے تو جس طرح کان زید الا منطلقا کی ترکیب صحیح نہیں ہے اس طرح مازال زید الا منطلقا بھی صحیح نہیں ہوگا ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ حصد أصل الحَصْد قطع الزرع، وزمن الحَصَاد والحِصَاد، کقولک : زمن الجداد والجداد، وقال تعالی: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] ، ( ح ص د ) الحصد والحصاد کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں اور زمن الحصاد والحصاد یہ زمن من الجداد والجداد کی طرح ( بکسرہ حا وفتحہا ) دونوں طرح آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ آتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] اور جس دن ( پھل توڑ و اور کھیتی ) کا نو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو ۔ میں وہ کھیتی مراد ہے جو اس کی صحیح وقت میں کاٹی گئی ہو ۔ خمد قوله تعالی: جَعَلْناهُمْ حَصِيداً خامِدِينَ [ الأنبیاء/ 15] ، كناية عن موتهم، من قولهم : خَمَدَتِ النار خُمُودا : طفئ لهبها، وعنه استعیر : خمدت الحمّى: سکنت، وقوله تعالی: فَإِذا هُمْ خامِدُونَ [يس/ 29] . ( خ م د ) خمدن ( ن ) النار ۔ آگ کے شعلوں کا ساکن ہوجانا ( جب کہ اس کا انگارہ نہ بجھا ہو ) اور اسی سے بطور استعارہ خمدت الحمی کا محاورہ ہے جس کے معنی بخار کا جوش کم ہوجانے کے ہیں ۔ اور کبھی بطور کنایہ خمود بمعنی موت بھی آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ جَعَلْناهُمْ حَصِيداً خامِدِينَ [ الأنبیاء/ 15] ہم نے ان کو ( کھیتی کی طرح ) کاٹ کر ( آگ کی طرح ) بجھا کر ڈھیر کردیا ۔ فَإِذا هُمْ خامِدُونَ [يس/ 29] سو وہ الہی سے ) ناگہاں بجھ کر رہ گئے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) سو ان کی یہی چیخ و پکار جاری رہی حتی کہ ہم نے انکو ایسا نیست ونابود کردیا جس طرح فصل کٹ گئی ہو اور آگ ٹھنڈی ہوگی ہو حضرموت یمن میں ایک بستی ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بستی والوں کا تذکرہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے ان بستی والوں کی طرف ایک نبی بھیجا انہوں نے اس نبی (علیہ السلام) کو قتل کردیا... ، اللہ تعالیٰ نے اس پاداش میں ان بستی والوں پر بخت نصر بادشاہ کو مسلط کردیا، اس نے سب کو قتل کردیا، کسی کو بھی باقی نہیں چھوڑا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (فَمَا زَالَتْ تِّلْکَ دَعْوٰٹہُمْ حَتّٰی جَعَلْنٰہُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ ) ” حَصِیْد کے معنی کٹی ہوئی کھیتی کے ہیں ‘ جبکہ خامِدِیْنَ سے مراد یہ ہے کہ وہ بجھی ہوئی آگ کی طرح ہوگئے۔ یعنی ان کی آبادیاں ایسی ویران ہوئیں کہ زندگی کی کوئی رمق وہاں نظر نہ آتی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:15) ما زالت افعال ناقصہ میں سے ہے یعنی وہ ختم نہ ہوا بدستور جاری رہا۔ مازلت افعل۔ میں کرتا رہا۔ ما زالت (ان کی یہ چیخ و پکار) جاری رہی۔ دعوہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا دعویٰ ۔ ان کی چیخ و پکار۔ ما زالت تلک دعوہم۔ ان کی یہ چیخ و پکار جاری رہی۔ وہ یہ چیخ و پکار کرتے ہی رہے۔ حصیدا۔ کٹی ہوئی کھیتی۔ جڑ...  سے کٹی ہوئی حصاد سے بروزن فعیل بمعنی مفعول صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ حصاد وحصید کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے واتوا حقہ یوم حصادہ (6:141) اور جس دن پھل توڑو یا کھیتی کاٹو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو۔ خمدین۔ بجھنے والے۔ خمود سے اسم فاعل جمع مذکر ۔ بحالت نصب۔ خمدت النار۔ آگ کے شعلوں کا ساکن ہوجانا (جب کہ اس کا انگارا نہ بجھا ہو) قرآن مجید میں ہے فاذاہم خمدون۔ (36:39) سو وہ ناگہاں بجھ کر رہ گئے۔ حتی جعلنہم حصیدا خمدین۔ تا آنکہ ہم نے ان کو (کھیتی کی طرح) کاٹ کر اور (آگ کی طرح) بجھا کر ڈھیر کردیا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 جب اللہ کا عذاب آ گھیرتا ہے تو بدکار سے بدکار قومیں بھی گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اسی طرح واویلا مچاتی ہیں۔ مگر اس وقت اعتراف گناہ اور توبہ تلابے فائدہ ہے۔ ( سورة غافر :85)5 بعض نے ان بستیوں سے میں کے شہر مراد لئے ہیں۔ جن پر سخت نصر کو مسلط کیا گیا تھا اور اس نے ان کو تلوار کے گھاٹ اتار کر لاشو... ں کے ڈھیر لگا دیئے۔ (کذافی القرطبی) شاہ صاحب نے بھی اپنی توضیح میں اسی کو اتخیار کیا ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فما زالت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خمدین (١٢ : ٥١) ” وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انہیں کھلیان کردیا ‘ زندگی کا ایک شرارہ ان میں نہ رہا “۔ یہ آدمیوں کا کھلیان تھا جس میں نہ حرکت تھی نہ حرارت۔ ابھی تک تو وہ ایک ایسا قریہ تھا کہ جس میں ہر طرف زندگی دوڑتی نظر آتی تھی اور یہ گائوں نہایت خوبصورت تھا۔ یہاں اب قرآ... ن مجید اس نظریہ حیات ‘ جس پر کلام ہوا۔ اور اللہ کی اس تکوینی سنت جس کے مطابق یہ کائنات چلتی ہے ‘ کے درمیان ربط قائم فرماتے ہیں۔ یہ تکوینی سنت ہے جس نے اس کی فصل کو کاٹ کر پیس ڈالا۔ کیونکہ انہوں نے رب تعالیٰ کی تشریعی سنت کی پیروی نہ کی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جس حق پر یہ کائنات قائم ہے اور جس حق پر پیغمبروں کی دعوت قائم ہے وہ ایک ہے اور اس کائنات اور زمین و آسمان کا ان دونوں سچائیوں سے رابطہ ہے۔ مشرکین کے پاس دعوت اسلامی کی جو جدید ہدایات آئیں وہ ان کا استقبال مذاق اور استہزائے کرتے اور لہو میں مشغول ہو کر منہ موڑ لیتے۔ وہ اس بات سے غافل رہے کہ یہ کس قدر اہم اور سچی دعوت نے یوم حساب قریب ہے اور وہ اس سے بھی غافل ہیں بلکہ مذاق کرتے ہیں تو اللہ کی تکوینی سنت بھی اپنا کام جاری رکھتی ہے اور وہ بھی مشرکین کے اس انکار اور اعراض کا نوٹس لیتی ہے کیونکہ حق ایک ہے وہ شریعت میں ہو یا کائنات میں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

15 ان کی چیخ و پکار یہی رہی یہاں تک کہ ہم نے ان کو کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی ہوئی آگ کی طرح ڈھیر کردیا۔ یعنی عذاب آجانے کے بعد ندامت کچھ مفید نہ ہوئی اور ظلم کا اعتراف کچھ کام نہ آیا اور ہم نے ایسا کردیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی یا بجھی ہوئی آگ کہ سوائے کوڑے اور راکھ کے ڈھیر کے اور کچھ نہیں۔