Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 30

سورة الحج

ذٰلِکَ ٭ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ وَ اُحِلَّتۡ لَکُمُ الۡاَنۡعَامُ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ ﴿ۙ۳۰﴾

That [has been commanded], and whoever honors the sacred ordinances of Allah - it is best for him in the sight of his Lord. And permitted to you are the grazing livestock, except what is recited to you. So avoid the uncleanliness of idols and avoid false statement,

یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے ۔ اور تمہارے لئے چوپائے جانور حلال کر دیئے گئے بجز ان کے جو تمہارے سامنے بیان کئے گئے ہیں پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reward for avoiding Sin Allah says: ذَلِكَ ... Such (is the Pilgrimage): `This is what We have commanded you to do in the rituals (of Hajj), and this is the great reward that the person who does that will gain.' ... وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ ... and whoever honors the sacred things of Allah, means, whoever avoids disobeying Him and does not transg... ress that which is sacred, and regards committing sin as a very serious matter, ... فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ... then that is better for him with his Lord. means, he will attain much good and a great reward for doing that. Just as the one who does acts of obedience will earn a great reward, so too, the one who avoids sin will earn a great reward. Cattle are Lawful Allah says: ... وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الاْأَنْعَامُ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ ... The cattle are lawful to you, except those (that will be) mentioned to you. means, `We have made permissible for you all the An`am (cattle etc.),' and Allah has not instituted things like Bahirah or a Sa'ibah or a Wasilah or a Ham. ... إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ ... except those mentioned to you. the prohibition of; Al-Maytah, blood, the flesh of swine, and that on which Allah's Name has not been mentioned while slaughtering (that which has been slaughtered as a sacrifice for others than Allah, or has been slaughtered for idols) and that which has been killed by strangling, or by a violent blow, or by a headlong fall, or by the goring of horns -- and that which has been (partly) eaten by a wild animal -- unless you are able to slaughter it (before its death) - and that which is sacrificed (slaughtered) on An-Nusub. This was the view of Ibn Jarir, who recorded it from Qatadah. The Command to shun Shirk and Lying Allah says: ... فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الاْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ So shun the Rijis of the idols, and shun false speech. From this it is clear what Ar-Rijs means, i.e., avoid the abomination, which means idols. Shirk is mentioned in conjunction with false speech, as in the Ayah: قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالاِثْمَ وَالْبَغْىَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَـناً وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللَّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ Say: "(But) the things that my Lord has indeed forbidden are; Al-Fawahish (immoral sins) whether committed openly or secretly, sins (of all kinds), unrighteous oppression, joining partners with Allah for which He has given no authority, and saying things about Allah of which you have no knowledge". (7:33) This includes bearing false witness. In the Two Sahihs it was reported from Abu Bakrah that the Messenger of Allah said: أَلاَ أُنَبِّــيُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَايِرِ Shall I not tell you about the worst of major sins? We said, "Yes, O Messenger of Allah." He said: الاِْشْرَاكُ بِاللهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ . : أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ أَلاَ وَشَهَادَةُ الزُّور and indeed giving false statements, and indeed bearing false witness... and he kept on repeating it until we wished that he would stop." Imam Ahmad recorded that Khuraym bin Fatik Al-Asadi said, "The Messenger of Allah prayed As-Subh (Al-Fajr), and when he had finished, he stood up and said: عَدَلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ الاِْشْرَاكَ بِاللهِ عَزَّ وَجَل Bearing false witness is on a par with the association of others with Allah. Then he recited this Ayah: ... فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الاْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاء لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ... So shun the Rijs of the idols, and shun lying speech. Hunafa' Lillah, not associating partners unto Him; Allah says:   Show more

بت پرستی کی گندگی سے دور رہو فرماتا ہے یہ تو تھے احکام حج اور ان پر جو جزا ملتی ہے اس کا بیان ۔ اب اور سنو جو شخص حرمات الٰہی کی عزت کرے یعنی گناہوں سے اور حرام کاموں سے بچے ، ان کے کرنے سے اپنے آپ کو روکے اور ان سے بھاگا رہے اس کے لئے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے ۔ جس طرح نیکیوں کے کرنے پر اجر ہے اسی...  طرح برائیوں کے چھوڑنے پر بھی ثواب ہے ۔ مکہ حج عمرہ بھی حرمات الٰہی ہیں ۔ تمہارے لئے چوپائے سب حلال ہیں ہاں جو حرام تھے وہ تمہارے سامنے بیان ہو چکے ہیں ۔ یہ جو مشرکوں نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام نام رکھ چھوڑے ہیں یہ اللہ نے نہیں بتلائے ۔ اللہ کو جو حرام کرنا تھا بیان فرما چکا جیسے مردار جانور بوقت ذبح بہا ہوا خون سور کا گوشت اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا ہوا ، گلا گھٹا ہوا وغیرہ ۔ تمہیں چاہے کہ بت پرستی کی گندگی سے دور رہو ، من یہاں پر بیان جنس کے لئے ہے ۔ اور جھوٹی بات سے بچو ۔ اس آیت میں شرک کے ساتھ جھوٹ کو ملادیا جیسے آیت ( قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 33؀ ) 7- الاعراف:33 ) یعنی میرے رب نے گندے کاموں کو حرام کردیا خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ ۔ اور گناہ کو سرکشی کو اور بےعلمی کے ساتھ اللہ پر باتیں بنانے کو ۔ اسی میں جھوٹی گواہی بھی داخل ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا میں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاؤں ؟ صحابہ نے کہا ارشاد ہو فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر تکیہ سے الگ ہٹ کر فرمایا اور جھوٹ بولنا اور جھوٹی شہادت دینا ۔ اسے بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش کہ آپ اب نہ فرماتے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں کھڑے ہو کر تین بار فرمایا جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر کردی گئی پھر آپ نے مندرجہ بالا فقرہ تلاوت فرمایا ۔ اور روایت میں ہے کہ صبح کی نماز کی بعد آپ نے کھڑے ہو کر یہ فرمایا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمان بھی مروی ہے اللہ کے دین کو خلوص کے ساتھ تھام لوباطل سے ہٹ کر حق کی طرف آجاؤ ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرانے والوں میں نہ بنو ۔ پھر مشرک کی تباہی کی مثال بیان فرمائی کہ جیسے کوئی آسمان سے گر پڑے پس یا تو اسے پرند ہی اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی ہلاکت کے دور دراز گڑھے میں پہنچا دے گی ۔ چنانچہ کافر کی روح کو لے کر جب فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور وہیں سے وہ پھینک دی جاتی ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ سورۃ ابراہیم میں گزر چکی ہے سورۃ انعام میں ان مشرکوں کی ایک اور مثال بیان فرمائی ہے یہ اس کی مثل کے ہے جسے شیطان باؤلا بنا دے ۔ الخ ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 ان حرمتوں سے مراد وہ مناسک حج ہیں جن کی تفصیل ابھی گزری ہے۔ ان کی تعظیم کا مطلب، ان کی اس طرح ادائیگی ہے جس طرح بتلایا گیا ہے۔ یعنی ان کی خلاف ورزی کر کے ان حرمتوں کو پامال نہ کرے۔ 30۔ 2 جو بیان کئے گئے ہیں ' کا مطلب ہے جن کا حرام ہونا بیان کردیا گیا، جیسے آیت (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَة... ُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ ) 5 ۔ المائدہ :3) میں تفصیل ہے۔ 30۔ 3 رجس سے مراد گندگی اور پلیدی کے ہیں یہاں اس سے مراد لکڑی، لوہے یا کسی اور چیز کے بنے ہوئے بت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ نجاست ہے اور اللہ کے غضب اور عدم رضا کا باعث، اس سے بچو۔ 30۔ 4 جھوٹی بات میں، جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی ہے (جس کو حدیث میں شرک اور حقوق والدین کے بعد تیسرے نمبر پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے) اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے، وہ اسکی طرف منسوب کی جائیں۔ مثلًا اللہ کی اولاد ہے وغیرہ۔ فلاں بزرگ کے اختیارات میں شریک ہے یا فلاں کام پر اللہ کس طرح قادر ہوگا جیسے کفار بعث بعد الموت پر تعجب کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں یا اپنی طرف سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کرلینا جیسے مشرکین بحیرہ سائبہ وصیلہ اور عام جانوروں کو اپنے اوپر حرام کرلیتے تھے یہ سب جھوٹ ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] حرمت اللہ سے مراد اللہ کی حرام کردہ اشیاء بھی ہیں اور قابل احترام اشیاء یعنی شعائر اللہ بھی۔ یعنی ان سب چیزوں کی حرمت و احترام کا پورا پورا خیال رکھنا چاہئے اور تعمیر کعبہ کا اولین مقصد یہ تھا کہ اسے شرکیہ اعمال و افعال اور بتوں کی نجاستوں سے پاک و صاف رکھا جائے۔ اور قریش مکہ نے ایسی نجاستوں ک... ا بھی۔۔ خیال نہ رکھا اور جو لوگ اللہ کی توحید کے قائل تھے ان کے بیت اللہ میں داخلہ پر بھی پابندیاں لگا دیں۔ گویا اللہ کے گھر اور اس کے شعائر کی ہر طرح سے توہین کی۔ نیز اس مقام پر حرمت سے مراد عموماً حج، عمرہ، کعبہ، قربانی اور احرام سے متعلق احکام ہیں۔ جیسے کسی۔۔ لڑائی جھگڑا کرنے، احرام کی حالت میں شکار کرنے اور صحبت کرنے سے بچنا اور ایسے احکام کا پورا پورا پاس رکھنا ضروری ہے اور یہ چیز ان کے حق میں ہیں اور اللہ کے ہاں بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے۔ [٤٥] یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام چرنے والے چوپائے انسان کے لئے حلال قرار دیئے ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جن کا ذکر پہلے کئی مقامات پر آچکا ہے اور وہ ہیں مردار خواہ وہ جانور کسی بھی طریقہ سے مرگیا ہو (٢) ہر وہ جانور یا چیز جو غیر اللہ کے نام پر مشہور کی جائے اس جملہ میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین مکہ نے جو بحیرہ وصیلہ، سائیہ اور حام قسم کے مویشی حرام قرار دے رکھے ہیں۔ یہ قطعاً اللہ کی طرف سے حرام کردہ نہیں ہیں۔ [٤٦] یعنی آستانوں کی آلائشوں اور بتوں کی پرستش سے یوں بچو جیسے انسان گندگی کے ڈھیر سے بچتا ہے اور اسے اس گندگی کے نزدیک جانے سے بھی گھن آتی ہے۔ تمام جانور اللہ کی مخلوق و مملکوک ہیں۔ لہذا اسی کے نام پر اور اسی کے لئے کعبہ کی نیاز ہوسکتے ہیں۔ کسی۔۔ یا آستانہ پر ذبح کیا ہوا جانور مردار کی طرح حرام اور نجس ہے۔ لہذا ایسے کاموں سے بچنا ضروری ہے۔ [٤٧] قول الزور میں دونوں الفاظ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ زور کے معنی صرف جھوٹ نہیں بلکہ ہر وہ بات ہے جو حق سے ہٹی ہوئی ہو اور اس کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ قول الزور کے مقابلہ میں قرآن میں قولاً سدیداً کے الفاظ آئے ہیں یعنی ایسی بات جس مسیں کوئی رخنہ، ایہام، ہیرا پھیری اور۔۔ نہ ہو اور قول الزور ایسی بات ہے جس میں یہ باتیں، ان میں سے کوئی ایک موجود ہو اور صاحب فقہ اللغہ~ن~ کے نزدیک زور ایسا جھوٹ ہے جسے بنا کر سنوار کر پیش کیا جائے کہ وہ بھلا اور درست معلوم ہو۔ اس لحاظ سے اللہ کے پیدا کئے ہوئے جانوروں کو غیر اللہ سے نامزد کرکے انھیں ذبح کرنا، بلادلیل شرعی حلال کو حرام بنانا اور حرام کو حلال بنالینا یہ سب قول الزور ہی کی اقسام ہیں اور افتراء علی اللہ بھی ہیں۔ ہر قول الزور کی ایک قسم شہادۃ السور ہے۔ یعنی ایسی شہادت جس میں ہیرا پھیری سے کام لیا جائے۔ اہم واقعہ کو غیر اہم اور غیر اہم کو اس طرح اہم بنا کر پیش کیا جائے۔ جس سے کسی ایک فریق کی حق تلفی ہوجائے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاوے۔ اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ یہاں اس آیت میں شرک کے ساتھ ہی قول الزور کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ آپ نے فرمایا : && میں تمہیں بڑے بڑے گناہ بتلاؤں ؟ && ہم نے عرض کیا : && یارسول اللہ ! ضرور بتلائیے && فرمایا : && اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا && اس وقت آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا : && جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو ! جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا && آپ برابر یہی الفاط دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ میں سمجھا کہ آپ چپ ہی نہ ہونگے && (بخاری۔ کتاب الادب باب عنوان الوالدین من الکبائر)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ : یہ لفظ دو کلاموں کے درمیان فاصلے کے لیے آتا ہے اور اس سورت میں تین دفعہ آیا ہے۔ ایک یہ، ایک آیت (٣٢) میں : (ذٰلِكَ ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ ) اور ایک آیت (٦٠) میں : (ذٰلِكَ ۚ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ) اس کا مبتدا محذوف مانتے ہیں ” اَلْأَمْرُ ذٰلِکَ “ یعنی حج...  کا معاملہ تو یہ ہوا اور۔۔ وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ : یعنی اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمتوں کی تعظیم خود بندے کے لیے بہتر ہے، کیونکہ یہ اس کے لیے اس کے رب کی رضا حاصل کرنے کا باعث ہے، جس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ ” حرمٰت “ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کے احترام کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، جیسے حرم، مسجد حرام، حرمت والے مہینے، ہدایا یعنی مکہ میں قربانی کے لیے جانے والے اونٹ، قلائد یعنی وہ بھیڑ بکریاں اور گائیں جن کے گلے میں قلادے (پٹے اور ہار) ڈالے ہوئے ہوں وغیرہ۔ ان سب کی تکریم ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے چلی آرہی ہے، مگر مشرکین نے اپنے ملت ابراہیم کے پیروکار ہونے کے دعوے کے باوجود ان حرمتوں کو پامال کیا اور خود ساختہ چیزوں کو حرمت والا قرار دے لیا، جیسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ۔ ” وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ “ کا مطلب یہ بھی ہے کہ احرام میں جو کام اللہ تعالیٰ نے حرام کیے ہیں، مثلاً شکار کرنا، شہوانی افعال، لڑائی جھگڑا، فسق و فجور وغیرہ، تو ان کے ارتکاب کو جو شخص بہت بڑا گناہ سمجھ کر ان سے اجتناب کرے تو یہ اس کے رب کے ہاں اس کے لیے بہتر ہے۔ وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٣) اور سورة نحل (١١٥) ۔ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ۔۔ : ” اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ “ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان چوپاؤں کے حلال ہونے کا حکم دیا جو مشرکین نے حرام کر رکھے تھے، مثلاً بحیرہ، سائبہ وغیرہ اور ” اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ “ کے ساتھ ان جانوروں کو حرام قرار دیا جو مشرکین نے حلال کر رکھے تھے، مثلاً غیر اللہ کے نام پر ذبح کردہ جانور اور مردار وغیرہ۔ مشرکین کے بعض جانوروں کو حرام اور بعض کو حلال کرنے کا باعث بتوں کی عبادت تھی اور یہ ان کا اللہ پر صاف جھوٹ اور بہتان تھا کہ حلال و حرام کا یہ حکم اس کا حکم ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شرک اور جھوٹ دونوں سے بچنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس گندگی سے بچو جو بتوں کی صورت میں ہے اور جھوٹی بات سے بچو۔ یعنی مشرکین نے اللہ کے ساتھ جو بتوں کو شریک بنا رکھا ہے اور اللہ کے ذمے بعض چیزوں کو حلال یا حرام کرنے کا بہتان باندھ رکھا ہے تم اس شرک سے اور اس جھوٹ اور بہتان سے اجتناب کرو۔ ” قَوْلَ الزُّوْرِ “ کا لفظ عام ہے، اس لیے اس میں جھوٹی شہادت دینا، کسی پر بہتان لگانا، غرض کوئی بھی جھوٹ بولنا شامل ہے اور سب سے اجتناب کا حکم ہے۔ ” الرِّجْسَ “ کا معنی گندگی ہے، ” مِنْ “ بیان کرنے کے لیے ہے، یعنی گندگی ظاہری بھی ہوتی ہے مگر خاص طور پر حکم دیا کہ اس معنوی گندگی سے بچو جو بتوں کی صورت میں ہے۔ ابن جزی فرماتے ہیں : ” مِنْ لِبَیَانِ الْجِنْسِ کَأَنَّہُ قَال الرِّجْسُ الَّذِيْ ھُوَ الْأَوْثَانُ ۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ (22:30) are the things sanctified by Allah Ta’ ala, that is the religious laws. They are a source of welfare in this world and in the Hereafter for those pious Muslims who seek to learn them and act upon them. وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ (And permitted to you are the cattle, except those mentioned to you through recitation (of the ... verses) - 22:30) The word اَنعَام (cattle) includes camels, cows, goats, sheep etc. which are made lawful at all times and even when one is in the state of ihram. Then the verse contains an exception in the words إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ (except those mentioned to you.. - 22:30) These are the animals which have been made unlawful in all circumstances, whether one is in the state of ihram or not. The detail of these animals is given in other verses, such as carrion, an animal which is beaten to death, or slaughtered without reciting the name of Allah, or in the name of someone other than Allah. فَاجْتَنِبُوا الرِّ‌جْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ (So refrain from the filth of the idols - 22:30) The word رِجس means filth or moral impurity, and أَوْثَانِ is the plural of وَثَن which means idol. Idols have been described as filth, because they fill a man&s heart and soul with moral impurity. وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ‌ (And refrain from a word of falsehood - 22:30) The phrase قَوْلَ الزُّورِ‌ means lies. Anything which is contrary to truth is a lie and false, whether it is corrupt beliefs and practices or whether it is false evidence. The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم once said ` Among the major sins are associating anyone with Allah, disobedience of one&s parents, giving false evidence and telling lies in general talk&. He used the phrase; قَوْلَ الزُّورِ‌ (word of falsehood) repeatedly. (Bukhari)   Show more

خلاصہ تفسیر یہ بات تو ہوچکی (جو حج کے خصوص احکام تھے) اور (اب دوسرے عام احکام جن میں حج اور علاوہ حج کے دوسرے مسائل بھی ہیں سنو کہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کے محترم احکام کی وقعت کرے گا سو یہ اس کے حق میں اس کے رب کے نزدیک بہتر ہے (احکام کی وقعت کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کا علم بھی حاصل کرے اور یہ ... بھی کہ ان پر عمل کا اہتمام کرے اور احکام خداوندی کی وقعت کا اس کے لئے بہتر ہونا اس لئے ہے کہ وہ عذاب سے نجات اور دائمی راحت کا سامان ہے) اور ہاں مخصوص چوپاؤں کو باستثنائی ان (بعض بعض) کے جو تم کو پڑھ کر سنا دیئے گئے ہیں (یعنی سورة انعام وغیرہ کی آیت قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا میں حرام جانوروں کی تفصیل بتلا دی گئی ہے ان کے سوا دوسرے چوپائے) تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے۔ (اس جگہ چوپایہ جانوروں کے حلال ہونے کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے کسی کو احرام کی حالت میں عام چوپائے جانوروں کی ممانعت کا شبہ نہ ہوجائے اور جب دین و دنیا کی بھلائی احکام خداوندی کی تعظیم میں منحصر ہے) تو تم لوگ گندگی سے یعنی بتوں سے کنارہ کش رہو (کیونکہ بتوں کو خدا کے ساتھ شریک کرنا تو حکم الٰہی سے کھلی بغاوت ہے اس جگہ شرک سے بچنے کی ہدایت خاص طور پر اس لئے کی گئی کہ مشرکین مکہ اپنے حج میں جو تلبیہ پڑھتے تھے اس میں الا شریکا ھو لک ملا دیتے تھے یعنی اللہ کا کوئی شریک بجز ان بتوں کے نہیں ہے جو خود اسی اللہ کے ہیں) اور جھوٹی بات سے بچتے رہو (خواہ وہ عقائد کا جھوٹ ہو جیسے مشرکین کا اعتقاد شرک یا دوسری قسم کا جھوٹ) اس طور سے کہ اللہ کی طرف جھکے رہو اس کے ساتھ (کسی کو) شریک مت ٹھہراؤ اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو (اس کی حالت ایسی ہوگی جیسے) گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر پرندوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں یا اس کو ہوا نے کسی دور دراز جگہ لے جا کر پٹک دیا۔ یہ بات بھی (جو بطور قاعدہ کلیہ کے تھی) ہوچکی اور (اب ایک ضروری بات قربانی کے جانوروں کے متعلق اور سن لو کہ) جو شخص دین خداوندی کے ان (مذکورہ) یادگاروں کا پورا لحاظ رکھے گا تو اس کا یہ لحاظ رکھنا دل کے ساتھ خدا سے ڈرنے سے حاصل ہوتا ہے (یادگاروں کا لحاظ رکھنے سے مراد احکام الٰہیہ کی پابندی ہے جو قربانی کے متعلق ہیں خواہ ذبح سے قبل کے احکام ہوں یا ذبح کے وقت ہوں جیسا اس پر اللہ کا نام لینا یا بعد ذبح کے ہوں جیسے اس کا کھانا یا نہ کھانا کہ جس کا کھانا جس کے لئے حلال ہے وہ کھائے جس کا کھانا جس کے لئے حلال نہیں وہ نہ کھائے۔ ان احکام میں کچھ تو پہلے بھی ذکر کئے جا چکے اور کچھ یہ ہیں کہ) تم کو ان سے ایک معین وقت تک فوائد حاصل کرنا جائز ہے (یعنی جب تک وہ قواعد شرعیہ کے مطابق ہدی نہ بنائے جاویں تو ان سے دودھ یا سواری بار برداری وغیرہ کا فائدہ اٹھانا جائز ہے مگر جب ان کو بیت اللہ اور حج یا عمرہ کے لئے ہدی بنادیا تو پھر ان سے کوئی نفع اٹھانا جائز نہیں (پھر یعنی ہدی بننے کے بعد) اس کے ذبح حلال ہونے کا موقع بیت عتیق کے قریب ہے (مراد پورا حرم ہے یعنی حرم سے باہر ذبح نہ کریں) ۔ معارف و مسائل حُرُمٰتِ اللّٰهِ سے مراد اللہ کی محترم اور معزز بنائی ہوئی چیزیں یعنی احکام شرعیہ ہیں۔ ان کی تعظم یعنی ان کا علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا سرمایہ سعادت دنیا و آخرت ہے۔ وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ ، انعام سے مراد اونٹ، گائے، بکرا، مینڈھا، دنبہ وغیرہ ہیں کہ یہ جانور حالت احرام میں بھی حلال ہیں اور اِلَّا مَا يُتْلٰى میں جن جانوروں کو مستثنیٰ کرنے کا ذکر ہے ان کا بیان دوسری آیات میں آیا ہے وہ مردار جانور اور موقوذہ اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو یہ سب ہمیشہ کے لئے حرام ہیں حالت احرام کی ہو یا غیر احرام کی۔ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ، (جس کے معنے ناپاکی اور گندگی کے ہیں اور اوثان وثن کی جمع ہے بت کے معنے میں۔ بتوں کو نجاست اس لئے قرار دیا کہ وہ انسان کے باطن کو شرک کی نجاست سے بھر دیتے ہیں۔ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ، قول زور سے مراد جھوٹ ہے، حق کے خلاف جو کچھ ہے وہ باطل اور جھوٹ میں داخل ہے خواہ عقائدہ فاسدہ شرک و کفر ہوں یا معاملات میں اور شہادت میں جھوٹ بولنا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب کبیرہ گناہوں میں سے بڑے کبیرہ یہ گناہ ہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور عام باتوں میں جھوٹ بولنا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخری لفظ وَقَوْلَ الزُّوْرِ کو بار بار فرمایا (رواہ البخاری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ۝ ٠ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝ ٠ۭ وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ۝ ٣٠ۙ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا ... کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ حلَال حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ اجتناب ورجل جَنِبٌ وجَانِبٌ. قال عزّ وجل : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] ، وقال عزّ وجل : وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] عبارة عن تركهم إياه، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] ، وذلک أبلغ من قولهم : اترکوه . الاجتناب ( افتعال ) بچنا ، یکسو رہنا ، پہلو تہی کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو گے ۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو ۔۔۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] میں بتوں سے اجتناب کے معنی ہیں کہ انہوں نے طاغوت کی عبادت یکسر ترک دی اس طرح وہ طاغوت سے دور رہے ۔ نیز فرمایا :۔ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ ۔ اور یہ یعنی اجتنبوا بنسیت اترکوہ کے زیادہ بلیغ ہے ۔ رجس الرِّجْسُ : الشیء القذر، ، والرِّجْسُ يكون علی أربعة أوجه : إمّا من حيث الطّبع، وإمّا من جهة العقل، وإمّا من جهة الشرع، وإمّا من کلّ ذلک کالمیتة، فإنّ المیتة تعاف طبعا وعقلا وشرعا، والرِّجْسُ من جهة الشّرع : الخمر والمیسر، وقیل : إنّ ذلک رجس من جهة العقل، وعلی ذلک نبّه بقوله تعالی: وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] ، لأنّ كلّ ما يوفي إثمه علی نفعه فالعقل يقتضي تجنّبه، وجعل الکافرین رجسا من حيث إنّ الشّرک بالعقل أقبح الأشياء، قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] ، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس/ 100] ، قيل : الرِّجْسُ : النّتن، وقیل : العذاب ( ر ج س ) الرجس پلید ناپاک جمع ارجاس کہا جاتا ہے ۔ جاننا چاہیے کہ رجس چار قسم پر ہے ( 1 ) صرف طبیعت کے لحاظ سے ( 2 ) صرف عقل کی جہت سے ( 3 ) صرف شریعت کی رد سے ( 4 ) ہر سہ کی رد سے جیسے میتہ ( مردار سے انسان کو طبعی نفرت بھی ہے اور عقل و شریعت کی در سے بھی ناپاک ہے رجس جیسے جوا اور شراب ہے کہ شریعت نے انہیں رجس قرار دیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ چیزیں عقل کی رو سے بھی رجس ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219]( مگر ) فائدہ سے ان کا گناہ ( اور نقصان ) بڑھ کر ۔ میں اسی معنی پر تنبیہ کی ہے کیونکہ جس چیز کا نقصان اس کے نفع پر غالب ہو ضروری ہے کہ عقل سلیم اس سے مجتنب رہنے کا حکم دے اسی طرح کفار کو جس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ شرک کرتے ہیں اور شرک عند العقل قبیح ترین چیز ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جس کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے تو اس ( سورت ) نے ان کی ( پہلی ) خباثت پر ایک اور خباثت پڑھادی ۔ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس/ 100] اور خدا ( شرک وکفر کی ) نجاست انہیں لوگون پر ڈالتا ہے جو ( دالائل وحدانیت ) میں عقل کو کام میں نہیں لاتے ۔ بعض نے رجس سے نتن ( بدبو وار ) اور بعض بت عذاب مراد لیا ہے وثن الوَثَن : واحد الأوثان، وهو حجارة کانت تعبد . قال تعالی: إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثاناً [ العنکبوت/ 25] وقیل : أَوْثَنْتُ فلانا : أجزلت عطيّته، وأَوْثَنْتُ من کذا : أکثرت منه . ( و ث ن ) الوثن ( بت ) اس کی جمع اوثان ہے اور اوثان ان پتھروں کو کہا گیا ہے جن کی جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثاناً [ العنکبوت/ 25] کہ تم جو خدا کو چھوڑ کر بتوں لے بیٹھے ہو ۔ اوثنت فلان ۔ کسی کو بڑا عطیہ دینا ۔ اوثنت من کذا کسی کام کو کثرت سے کرنا ۔ زور الزَّوْرُ : أعلی الصّدر، وزُرْتُ فلانا : تلقّيته بزوري، أو قصدت زوره، نحو : وجهته، ورجل زَائِرٌ ، وقوم زَوْرٌ ، نحو سافر وسفر، وقد يقال : رجل زَوْرٌ ، فيكون مصدرا موصوفا به نحو : ضيف، والزَّوَرُ : ميل في الزّور، والْأَزْوَرُ : المائلُ الزّور، وقوله : تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف/ 17] ، أي : تمیل، قرئ بتخفیف الزاي وتشدیده «1» وقرئ : تَزْوَرُّ «2» . قال أبو الحسن : لا معنی لتزورّ هاهنا، لأنّ الِازْوِرَارَ الانقباض، يقال : تَزَاوَرَ عنه، وازْوَرَّ عنه، ورجلٌ أَزْوَرُ ، وقومٌ زَوَّرٌ ، وبئرٌ زَوْرَاءُ : مائلة الحفر وقیل لِلْكَذِبِ : زُورٌ ، لکونه مائلا عن جهته، قال : ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان/ 4] ، وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة/ 2] ، لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] ، ويسمّى الصّنم زُوراً في قول الشاعر : جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصم لکون ذلک کذبا ومیلا عن الحقّ. ( ز و ر ) الزور ۔ سینہ کا بالائی حصہ اور زرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اپنا سینہ اس کے سامنے کیا یا اس کے سینہ کا قصد ( کیا اس کی ملا قات کی ) جیسا کہ وجھتہ کا محاورہ ہے یعنی اس کے سامنے اپنا چہرہ کیا یا اس کے چہرہ کا قصد کیا رجل زائر : ملاقاتی ۔ زائر کی جمع زور آتی ہے جیسا کہ سافر کی جمع سفر مگر کبھی رجل زور بھی آجاتا ہے اس صورت میں یہ مصدر ہوتا ہے جیسا کہ ضعیف کا لفظ ہے نیز الزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونا کے ہیں اور جس کے سینہ میں ٹیٹرھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف/ 17] کے معنی یہ ہیں کہ سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے یہاں تز اور میں حرف زاد پر تشدید بھی پڑھی جاتی ہے اور بغیر تشدید کے بھی اور بعض نے تزور ( افعال ) پڑھا ہے مگر الحسن (رض) فرماتے ہیں یہ قرات یہاں موزوں نہیں ہے کیونکہ الازورار کے معنی ہیں منقبض ہونا ۔ کہا جاتا ہے تز اور عنہ وازور عنہ اس نے اس سے پہلو تہی کی ۔ اس سے ایک جانب ہٹ گیا اور جس کنویں کی کھدائی میں ٹیڑھا پن ہوا سے بئر زوراء کہا جاتا ہے ۔ اسی سے جھوٹ کو الزور کہتے میں کیونکہ وہ بھی جہت راست سے ہٹا ہوا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان/ 4] ظلم اور جھوٹ سے ۔ وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] جھوٹی بات سے ۔ مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة/ 2] اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] وہ جھوٹی شہادت نہیں دیتے ۔ اور شاعر کے قول ۔ جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصموہ اپنے وہ جھوٹے خدا لے کر آگئے اور ہم اپنے بہادر سردار کو میں زور کے معنی بت کے ہیں کیونکہ بت پرستی بھی جھوٹ اور حق سے ہٹ جانے کا نام ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ذلک ومن یعظم حرمات اللہ فھو خیر لہ عند ربہ۔ یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد (اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا لحاظ کرے تو یہ اس کے رب کے ہاں خود اسی کے لئے بہتر ہوگا) اس سے مراد … واللہ اعلم… یہ ہے کہ احرام کے دوران ان تمام افعال و حرکات سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اور ا... حرام کے دوران اس کی منہیات کے ارتکاب کی سنگینی کا اعتراف کرتے ہوئے، اجتناب کیا جائے جنہیں اس نے حرام قرار دیا ہے تاکہ اس کے حج اور احرام دونوں کی حفاظت ہوجائے۔ اس کا یہ رویہ اس کے رب کے نزدیک اس کی کوتاہی ، غفلت اور لاپرواہی کے رویے سے بہتر ہے۔ حلال جانور قول باری ہے (واحلت لکم الانعام الا مایتلی علیکم اور تمہارے لئے مویشی جانور حلال کئے گئے ما سوا ان چیزوں کی جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ ” ماسوا ان چیزوں کے جو اللہ کی کتاب میں تمہیں پڑھ کر سنائی گئی ہیں یعنی مردار، خون، سور کا گوشت ضرب کھا کو، اوپر سے گر کر اور ٹکر کھا کر مرجانے والے جانور، درندے کا پھاڑ ا ہوا جانور اور آستانے پر ذبح کیا ہوا جانور۔ دوسرا قول یہ ہے کہ تمہارے لئے احرام کی حالت میں مویشی جانور یعنی اونٹ ، گائے، بیل اور بھیڑ بکریاں حلال کردیئے گئے ہیں ما سوا شکار کے جو تمہیں بتایا جا چکا ہے۔ اس لئے کہ محرم کے لئے شکار حرام ہے۔ بت ناپاک ہیں قول باری ہے (فاجتنبوا الرجس من الاوثان پس بتوں کی گندگی سے بچو) یعنی بتوں کی عظمت بجا لانے سے بچو، ان کی تعظیم نہ کرو اور ان پر مشرکین کی طرح جانوروں کے چڑھاوے چڑھانے سے پرہیز کرو، اللہ تعالیٰ نے بتوں کو رجس کے نام سے موسوم کیا تاکہ ان کی گندگی ظاہر ہوجائے اور ان کی بےمائیگی واضح ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پلید سمجھنے کا اس لئے حکم دیا کہ مشرکین ان پر اپنے جانوروں کی قربانی کرتے تھے اور انہیں ان جانوروں کے خون سے لت پت کردیتے تھے اور ان تمام نجاستوں کے باوجود ان کی عظمت بجا لاتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی تعظیم اور ان کی پرستش سے روک دیا اور گندگی اور نجاست کی ان صورتوں کی بنا پر جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے انہیں رجس کے نام سے موسوم کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لئے رجس کہا ہے کہ ان سے اسی طرح اجتناب ضروری ہے جس طرح گندگیوں اور نجاستوں سے۔ جھوٹی گواہی کا بیان قول باری ہے (واجتنبوا قول الزور اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو) زور جھوٹ کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ جھوٹ کی تمام صورتوں کے لئے عا م ہے۔ جھوٹ کی سب سے سنگین صورت اللہ کا انکار ہے۔ نیز اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ اس میں جھوٹی گواہی بھی داخل ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل نے، انہیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے، انہیں عبید کے دو بیٹوں محمد اور یعلیٰ نے سفیان العصفری سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حبیب بن النعمان سے اور انہوں نے حضرت خریم بن فاتک سے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز پڑھائی پھر فرمایا (عدلت شھادۃ الزوربالا شراک باللہ ۔ جھوٹی گواہی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے برابر قرار دیا گیا ہے) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی (فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور حنفاء للہ غیر مشرکین بہ پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو، یکسو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو) وائل بن ربیعہ نے حضرت عبداللہ مسعود سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے فرمایا۔ جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ “ پھر آپ نے درج بالا آیت تلاوت کی ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن العباس (مس پرنٹ ہے چیک کرلیں) ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اسے تعزیری سزا نہیں دی جائے گی۔ ہمارے نزدیک یہ قول اس پر محمول ہے کہ اگر وہ توبہ کرے۔ لیکن اگر وہ اس پر اصرار کرے تو میرے نزدیک اسے تعزیری سزا دنیے میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک جھوٹی گواہی دینے والے کو پیٹا جائے گا۔ اس کا منہ کالا کر کے اس کی تشہیر کی جائے گی اور پھر اسے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ عبداللہ بن عامر نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر کے پاس جھوٹی گواہی دینے والے ایک شخص کو لایا گیا۔ آپ نے اس کے کپڑے اتروا لئے اور پورا دن اسے لوگوں کے سامنے کھڑا رکھا اور فرمایا :” یہ فلاں بن فلاں ہے، اسے پہچان لو۔ “ پھر اسے قید میں ڈال دیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں العباس بن الوید البزاز نے، انہیں خلف بن ہشام نے ، انہیں حما دبن زید نے حجاج سے، انہوں نے مکحول سے کہ حضرت عمر نے جھوٹی گواہی دینے والے کے متعلق فرمایا کہ اس کی پشت پر پٹائی کی جائے گی، سر مونڈ دیا جائے گا، منہ کالا کیا جائے گا اور طویل عرصے تک اسے قید میں رکھا جائے گا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠) یہ بات تو جو احکام مذکورہ اور واجبات کی ادائیگی کے بارے میں تھی ہوچکی، اب یہ کہ جو احکام حج کی توقیر کرے گا سو یہ اس کے حق میں اس کے رب کے نزدی ثواب کے اعتبار سے بہتر ہے اور ان مخصوص جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کے گوشت کا کھانا تمہارے لیے حلال کردیا گیا، سوائے ان بعض جانوروں کے جن کی حرمت سورة م... ائدہ میں تمہیں بتا دی گئی ہے، جیسا کہ مردار، خون، سؤر کا گوشت کہ ان کا کھانا تمہارے لیے حرام ہے، لہذا تم شراب خوری اور بت پرستی کو بالکل قطعا چھوڑ دو ، اور علاوہ اس کے تم باطل اور جھوٹی بات کو بھی چھوڑ دو کیوں کہ کفار زمانہ جاہلیت میں اپنے حج کے تلبیہ میں یہ الفاظ کہا کرتے تھے، ”۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک “۔ اللہ تعالیٰ نے اس بےہودہ بات سے ان کو روک دیا خالص اللہ تعالیٰ کے لیے تلبیہ پڑھو اور خاص اسی کے لیے حج کرو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (ذٰلِکَق وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَہُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ط) ” اللہ نے جس جس چیز کو محترم ٹھہرایا ہے وہ سب ” حرمات اللہ “ ہیں۔ اس میں خود بیت اللہ اور حرمت والے مہینے بھی شامل ہیں۔ پھر جیسا کہ سورة المائدۃ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ قربانی کے جانور جن کی گردنوں میں قلادے ڈال... ے گئے ہوں وہ بھی اور خود عازمینِ حج (اآمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ ) (آیت ٢) بھی محترم ہیں۔ یہ سب حرمات اللہ ہیں اور ان سب کی تعظیم لازمی ہے۔ (وَاُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ ) ” یعنی خنزیر کے بارے میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ وہ حرام ہے۔ باقی بکری ‘ بھیڑ ‘ گائے ‘ اونٹ وغیرہ کی قربانی دی جاسکتی ہے۔ (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ) ” یعنی شرک سے بچنا تمہاری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ مکہ میں اس وقت بت پرستی عام تھی جو شرک کی بد ترین شکل ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. Though the command is of a general nature, here it refers particularly to the prohibitions which are connected with the Sacred Mosque, Hajj, Umrah and Makkah. Incidentally, there is a subtle hint in it to the Quraish; who had driven out the Muslims from Makkah and debarred them from Hajj and violated the sanctity of the Ancient House by associating indecent, filthy, and ungodly rites with Hajj...  and the House in contradiction to the ways of Abraham. 55. “And the cattle have been made lawful for you” has been cited here for two objects. (1) It is to refute the custom of the Quraish under which certain cattle, bahirah. saibah, wasilah and ham, were considered unlawful. They are being told that these are also lawful like other cattle. (2) It is not unlawful as was held by the Quraish to eat the flesh of the cattle even in the state of Ihram. 56. This refers to (Surah Al-Anaam, Ayat 145) and (Surah An-Nahal, Ayat 115) in which Allah has forbidden the Muslims to eat what dies of itself, blood, flesh of swine or what has been slaughtered in any name other than Allah’s. 57. That is, refrain from and guard against the worship of idols just as you avoid filthy and dirty things. 58. Though the expression “false speech” is general and implies lies, false evidence, calumny, etc., here it particularly refers to those false creeds, rites, and rituals and superstitious things on which kufr and shirk have been founded. It is obvious that there is no greater lie than associating others with Allah in His Being, Attributes, Powers and Rights. It was a falsehood to make bahirah, etc. unlawful. See also (Surah An-Nahal, Ayat 116). To take a false oath and give a false evidence also come under this commandment. A tradition from the Prophet (peace be upon him) says: A false evidence is equal to shirk with Allah. That is why according to the Islamic Law, a false witness should be punished and disgraced. Imams Abu Yusuf and Muhammad have expressed the opinion that a person who brings a false witness in the court should be publicly exposed and sentenced to a long imprisonment. This was the actual practice in the time of Umar. According to Makhul, he said: Such a person should be whipped, his head shaved and face blackened and he should be sentenced to a long imprisonment. Abdullah bin Amir has reported from his father that a person’s false evidence was established in Umar’s court, whereupon the Caliph kept him exposed to public for a day, saying that he was so and so and a false witness so that people might recognize him, and then he imprisoned him. These days this can be done by publishing the culprit’s name in the newspapers, etc.  Show more

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :54 بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں وہ حرمتیں بدرجہ اولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرم مکہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں ۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قر... یش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسک حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کے ان بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے قائم کر دی گئی تھیں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :55 اس موقع پر مویشی جانوروں کی حلت کا ذکر کرنے سے مقصود دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے ۔ اول یہ کہ قریش اور مشرکین عرب بحیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں ، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں ۔ دوم یہ کہ حالت احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے ۔ اس لیے بتایا گیا کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :56 اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورہ انعام اور سورہ نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ ( اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے ۔ ( الانعام ، آیت 145 ۔ النحل ، آیت 115 ) ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :57 یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھن کھاتا ہے اور دور ہٹتا ہے ۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہی آدمی ان سے نجس اور پلید ہو جائے گا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :58 اگرچہ الفاظ عام ہیں ، اور ان سے ہر جھوٹ ، بہتان ، اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں خاص طور پر اشارہ ان باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفر و شرک کی بنیاد ہے ۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا اور اس کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے ۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی برہ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکین عرب بحیرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے ، جیسا کہ سورہ نحل میں فرمایا: وَلَا تَقُوْا لِمَا تصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ، اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو آیت 116 ۔ اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے ، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عُدِلت شھادۃ الزور بالاشراک باللہِ ، جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے ، اور پھر آپ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی ۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے ۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اس کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے ۔ یہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول اور فعل بھی ہے ۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا: یُضْرب ظھرہ و یحلق رأسہ و یسخم وجھہ ویطال جلسہ ، ’‘اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں ، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے ۔ عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہوگئی تو انہوں نے اس کو ایک دن بر سر عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے ، اسے پہچان لو ، پھر اس کو قید کر دیا ۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تدبیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: جانوروں کی قربانی کا ذکر آیا تو مشرکین عرب کی اس جاہلانہ رسم کی بھی تردید کردی گئی جس کی رو سے انہوں نے بتوں کے نام پر بہت سے جانوروں کو حرام قرار دے رکھا تھا (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ انعام : 137 تا 144) چنانچہ یہ بتا دیا گیا کہ یہ سب چوپائے تمہارے لیے حلال ہیں، سوائے ان چیزوں کے جنہیں قرآن کری... م نے سورۂ مائدہ :3 میں حرام قرار دیا ہے۔ پھر اسی کے ساتھ جس بنیاد پر مشرکین ان جانوروں کو حرام قرار دیتے تھے، یعنی بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ماننا اور ان کے نام پر جانوروں کو چھوڑ دینا، اس بنیاد کو بھی یہ فرما کر ختم کردیا گیا ہے کہ بتوں کی گندگی سے اور جھوٹی باتوں سے بچو۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ ٣١:۔ کعبہ کی تعظیم اور حج کی باتوں میں سے چند باتوں کا ذکر فرمایا کہ یہ باتیں جو لوگ سن چکے یہ اللہ کی بتلائی ہوئی ادب کی باتیں ہیں ان میں سے مناہی کی باتوں سے جو شخص باز رہے گا اور جن باتوں کے کرنے کا حکم ہے ان کو بجا لاوے گا تو اسی شخص کے حق میں یہ فرمانبرداری بہتر ہے کہ اس کو اس فرمانبرداری ک... ا بدلہ ملے گا ورنہ اللہ کی بادشاہت تو ایسی بادشاہت ہے کہ اس کو کسی کی نیکی بدی کی کچھ پرواہ نہیں ہے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا دنیا کے جنات اور انسان نیک ہوجاویں تو اس سے اللہ کی بادشاہت میں کچھ بڑھ نہ جائے گا اور اگر یہ سب بد ہوجاویں تو اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں سے کچھ گھٹ نہ جائے گا ‘ اس حدیث سے فھو خیرلہ عند ربہ کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نیک کام کرنے کا حکم لوگوں کی بھلائی کے لیے دیا جاتا ہے ‘ ورنہ اللہ کی بادشاہت میں کسی کی نیکی کی کچھ پرواہ نہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رح) کی روایت ہے یہ حدیث قدسی بھی گزر چکی ہے کہ ہر ایک نیکی کا بدلہ دس گنے اجر سے لے کر سات سو تک اور بعضی نیکیوں کا بدلہ اس سے بھی زیادہ دیا جائے گا۔ نیک کام کرنے میں جو نیک لوگوں کی بھلائی اور بہتری ہے اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ‘ سورة المائدہ میں گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ بہت سے جانوروں کو بتوں کے نام ٹھہرا کر ان جانوروں کے گوشت کا کھانا حرام سمجھتے تھے اس واسطے آگے فرمایا ‘ سوائے ان جانوروں کے جن کی تفصیل ان لوگوں کو سورة المائدہ کی آیت حرمت علیکم المیتۃ میں سمجھا دی گئی ہے اور چوپائے اللہ تعالیٰ نے انسان پر حلال کردیئے ہیں ‘ ان کے بڑوں میں سے قوم خزاعہ کے سردار ایک شخص عمرو بن لحی نے بت پرستی کی اور بتوں کے نام جانوروں کے حرام ٹھہرانے کی رسم ان لوگوں میں جو پھیلائی ہے اس کو اللہ کا حکم ٹھہرانا بالکل جھوٹ ہے ان لوگوں کو بت پرستی کی گندگی اور اس جھوٹ سے باز آنا اور خالص اللہ کی عبادت میں لگے رہنا چاہیے کیونکہ عمروبن لحی کے بہکانے سے جن نیک لوگوں کے نام کی مورتوں کی یہ مشرک لوگ پوجا کرتے ہیں ‘ قیامت کے دن وہ نیک لوگ تو ان لوگوں کی صورت سے بیزار ہوجاویں گے اور ان مشرکوں کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے بتوں کو دوزخ کا ایندھن بنا دیا جائے گا ‘ اس لیے ان مشرکوں کی مثال ایسی ہے جس طرح کوئی شخص آسمان پر سے گر پڑے اور زمین اس کے پہنچنے تک یا تو پرندہ جانور اس کی بوٹیاں نوچ کر کھا جاویں یا ہوا کے جھونکوں سے وہ کہیں ایسی دور جگہ جاپڑے جہاں اس کی ہڈیوں تک کا بھی کچھ ٹھکانا نہ لگے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح آسمان پر سے گرنے والے شخص کی کوئی صورت راحت کی نہیں ہے ‘ قیامت کے دن یہی حال مشرکوں کا ہوگا ‘ صحیح بخاری ‘ مسند امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے سورة المائدہ میں روایتیں گزر چکی ہیں ١ ؎ کہ بت پرستی اور بتوں کے نام جانوروں کو حرام ٹھہرانے کی رسم قرش خزاعہ میں قبیلہ کے سردار عمر وبن لحی نے پھیلائی اور اس رسم کے پھیلانے سے پہلے پہل اسی شخص نے ملت ابراہیمی کو بگاڑا۔ (١ ؎ دیکھئے ص ١٠١۔ ١٠٢ ج ٢ تفسیر ہذا )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:30) ذلک۔ اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) یہ محل رفع میں ہے۔ مبتدا جس کی خبر محذوف ہے ای ذلک حکم اللہ وامرہ۔ (2) یہ خبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے۔ ای اللازم ذلک۔ اولواجب ذلک۔ (3) یہ مفعول ہے اور اس کا فعل محذوف ہے۔ اور تقدیر کلام یوں ہے۔ اتبعوا ذلک او احفظوا ذلک۔ اور ذلک کا اشارہ احکام متذکرہ بالا...  کی طرف ہے۔ من یعظم۔ من شرطیہ۔ یعظم مضارع مجزوم (بوجہ عمل من) واحد مذکر غائب تعظیم (تفعیل) مصدر۔ جو بڑا سمجھے گا۔ جو تعظیم کرے گا۔ ادب کرے گا۔ حرمت اللہ۔ مضاف مضاف الیہ حرمت۔ جمع ہے اس کا واحد حرمۃ اور حرمۃ اور حرمۃ ہے۔ حرم بھی جمع آئی ہے۔ الحرمۃ۔ ہر وہ باحرمت شے جس کی بےحرمتی ممنوع نہ ہو۔ الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو۔ منع کردیا گیا ہو۔ جس کی بےادبی وبحرمتی ممنوع ہو جیسے مسجد حرام وغیرہ۔ وہ مقدس وقابل تعظیم ہوئی۔ اور جس چیز کا استعمال یا اس کا کرنا ممنوع ہوا۔ جیسے مردے کا گوشت کھانا یا زنا کرنا۔ وہ ناپاک اور ناقابل نفرین ہوئی۔ حرمت اللہ۔ اللہ کی حرمتیں (جن کا ادب ضروری ہو) ۔ فھو۔ ھو ضمیر واحد مذکر غائب۔ ای التعظیم۔ احلت۔ ماضی مجہول۔ واحد مؤنث غائب۔ وہ حلال کردی گئی۔ (حرام کی ضد) احلال (افعال) مصدر۔ الا ما یتلی علیکم۔ سوائے ان (چوپایوں) کے جن کی حرمت کے متعلق تمہیں بتادیا گیا ہے۔ مثلاً حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومام اھل بہ لغیر اللہ بہ۔۔ الآیۃ (5:3) اور تم پر حرام کئے گئے ہیں۔ مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر اللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو۔۔ الخ۔ فاجتنبوا۔ پس تم بچو، تم پرہیز کرو اجتناب مصدر سے۔ فعل امر جمع مذکر حاضر حاضر کا صیغہ ہے۔ الرجس۔ ناپاک، پلید۔ گندہ۔ عقوبت۔ عذاب۔ بلا۔ اس کی جمع ارجاس ہے۔ رجس کی چار صورتیں ہیں :۔ (1) طبعی۔ (2) عقلی۔ (3) شرعی۔ (4) ہر سہ کی رو سے۔ عقلی۔ مثلاً شرک۔ ولحم خنزیر۔ شرعی۔ جیسے جواوشراب۔ اور تینوں (طبعی۔ عقلی۔ شرعی) کا مجموعہ جیسے مردار۔ کہ اس سے انسان کو طبعاً بھی نفرت ہے اور عقلی وشرعی لحاظ سے بھی ناپاک ہے۔ الاوثان۔ وثن کی جمع۔ بت۔ مورتی۔ ہر وہ چیز جس کی خدا کے سوا پرستش کی جائے وہ وثن ہے۔ مثلاً بت۔ مورتی۔ پتھر۔ قبر۔ جھنڈا۔ وغیرہ اوثان ہیں جب ان کی پوجا کی جائے۔ الزور۔ سینہ کے بالائی حصہ کو کہتے ہیں۔ اور زرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اپنا سیبہ اس کے سامنے کیا یعنی اس سے ملاقات کی۔ نیزالزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونے کے بھی ہیں۔ اور آیت کریمہ تز اور عن کھفہم (18:17) کے معنی یہ ہیں کہ سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے۔ الزور کو جھوٹ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حق سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ قول الزور۔ جھوٹ کی بات۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ جیسے خانہ کعب حرم اور مکہ معظمہ یا ترجمہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے انہیں برا سمجھے یعنی ان سے باز رہے جیسے احرام میں شکار یا لڑائی جھگڑا وغیرہ۔ 12 ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے سورة مائدہ آیت 3 اور نحل :115 ۔ 13 ۔ جھوٹ بولنے میں ہر وہ چیز شامل ہے جو حق کے خلاف ہو جیسے شرک، بہتان، جھ... وٹی گواہی، جھوٹی قسم اور اپنی مرضی سے چیزوں یا جانوروں کی تحریم و تحلیل وغیرہ۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” جھوٹی گواہی “ کو سب سے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ (شوکانی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ عام اس سے کہ حج کے احکام مذکور ہوں یا حج کے احکام غیر مذکورہ یا حج کے متعلق نہ ہوں۔ 3۔ کیونکہ موجب ثواب و ننجی عن العذاب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قربانی اور بیت اللہ کے طواف کے بعد اللہ کی مقرر کردہ حرمتوں کا احترام کرنے کا اشارہ۔ حج کی ادائیگی کے بعد ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمات کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ جنھیں سورة البقرۃ میں شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ ان حرمتوں میں بیت اللہ کا احترام، صفا اور مروہ، مزدلفہ میں...  مشعر حرام، قربانی کا جانور اور اس کا گوشت، مسلمان کا احترام و اکرام یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمتیں ہیں، ان کا احترام کرنے کا حکم ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمتوں کا احترام کیا۔ حرمتوں کا خیال رکھنے والے کے لیے اس کے رب کے ہاں خیر ہے۔ اس سے پہلے قربانی کا ذکر ہو رہا تھا اس لیے یہ وضاحت کردی کہ تمہارے لیے وہی جانور حلال ہیں جن کا ذکر تمہارے سامنے کردیا گیا ہے۔ لہٰذا بتوں کی نجاست سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ بتوں کو ناپاک قرار دے کر ان کے متعلقات تمام امور کو ناجائز قرار دیا گیا ہے نہ ان کے نام پر کوئی چیز ذبح کرنی چاہیے اور نہ ہی بتوں کا احترام اور ان کے وسیلے سے مانگنا چاہیے۔ اسی طرح قول زور سے بھی بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ الزوّر سے مراد جھوٹ ہے بیشک اسے کتنا ہی بنا سنوار کر بولا جائے۔ غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز دینے والوں کو جب اس کام سے روکا جاتا ہے تو وہ بڑے خوبصورت الفاظ میں اپنے موقف کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ” قَوْلَ الزُّوْرِ “ کے الفاظ لا کر یہ باور کروایا گیا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کو جس قدر اچھے الفاظ کا جامہ پہنایا جائے وہ جھوٹ ہی رہتا ہے اس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھوٹی گواہی کو بھی ” قَوْلَ الزُّوْرِ “ قرار دیا ہے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلْکَبَاءِرُ الْاِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَےْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْےَمِےْنُ الْغَمُوْسُ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَفِی رِوَاے َۃِ اَنَسٍ وَّشَھَادَۃُ الزُّوْرِ بَدَلَ الْےَمِےْنِ الْغَمُوْسِ ) [ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) ذکر کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ بڑے گناہ ہیں۔ (١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (٢) والدین کی نافرمانی کرنا ‘ (٣) ناحق کسی کو قتل کرنا (٤) اور جھوٹی قسم اٹھانا (بخاری) حضرت انس (رض) کی روایت میں جھوٹی قسم کی جگہ جھوٹی شہادت دینے کے الفاظ ہیں۔ “ مسلمانوں کا مال، جان اور عزت محترم ہے : (عَنْ أَبِيْ بَکْرَۃَ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ النَّحْرِ فَإِنَّ دِمَآءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِيْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِيْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ ۔۔ ) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی ] ” حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسا کہ تمہارے لیے آج کا دن، مہینہ اور یہ شہر قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کیوں نہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمتوں کا احترام کرنا لازم ہے۔ ٢۔ وہی جانور حلال ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ ٣۔ بتوں ور ان کے متعلقات سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ٤۔ جھوٹ اور ملمع سازی سے بچنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمات : ١۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو حرمت والا گھر قرار دیا ہے۔ (المائدۃ : ٩٧) ٢۔ اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ (التوبۃ : ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ (النمل : ٩١) ٤۔ اے ایمان والو ! حرمت والے مہینوں، حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور جن کے گلے میں علامتیں آویزاں ہیں اور ان کا مال اور آبرو جو عزت والے گھر کا قصد کرکے آئیں انھیں حلال نہ ٹھہراؤ۔ (المائدۃ : ٢) ٥۔ حرمت والی اشیاء کی حرمت کی پاسداری کرنی میں خیر ہے۔ ( الحج : ٣١) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر کا احترام کرنے کو تقویٰ قرار دیا ہے۔ ( الحج : ٣٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک ومن ……مکان سحیق (٣١) اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔ یہ اللہ کی ہاں بہت بڑی نیکی اور خیر ہے۔ انسانی شعور اور انسانیضمیر کی دنیا میں بھی خیر کثیر ہے۔ واقعی اور عملی زندگی میں بھی یہ خبر ہے ، کیونکہ جو ضمیر حرمتوں کا شعور رکھتے ہوئے بچنے کی کوشش ... کرے گا وہی پاک ہوگا۔ جس زندگی میں اللہ کی حرمتوں کا احترام ہوگا۔ وہی زندگی امن وامان اور سلامتی کی نعمت سے مالا مال ہو سکتی ہے اور اس میں کسی پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں ہو سکتی۔ ایسی ہی زندگی میں امن کے مقامات اور اطمینان کے گھر مل سکتے ہیں۔ مشرکین بھی بعض جانوروں کا احترام کرتے تھے۔ مثلاً بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام۔ ان کے نزدیک یہ جانور محترم تھے اور ان کو ہاتھ لگانا بھی جرم تھا۔ لیکن یہ مشرکین کی خود ساختہ حرمتیں تھیں۔ اللہ کی طرف سے ان کے بارے میں کوئی حکم نہ تھا تو یہاں کہہ دیا کہ اللہ نے کھانے کے جانوروں میں سے جو حرام قرار دیتے ہیں ان کا ذکر ہو چا ہے مثلاً مردار ، خون ، خنزیر اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کی نذر ہو۔ واحلت لکم الانعام الا مایتلی علیکم (٢٢ : ٣٠) ” تمہارے لئے مویشی حلال کئے گئے ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں۔ “ یہ اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی مقرر کردہ کوئی حرمت نہ ہو۔ اللہ کے سوا کسی کو حلال و حرام قرار دینے کی اجازت نہیں اور اللہ کی شریعت کے سوا کسی اور شریعت کے مطابق احکام جاری نہ ہوں۔ حلت اور حرمت کی بحث ہی کی مناسبت سے بتوں کی گندگی سے بچنے کی بھی تاکید کردی گئی۔ مشرکین بتوں پر جانور ذبح کرتے تھے حالانکہ یہ ناپاکی تھی۔ رجس اس ناپاکی کو کہتے ہیں جس کا تعلق انسان کے نفس ، ضمیر اور دماغ سے ہو ، شرک اسی قسم کی معنوی ناپاکی ہے۔ شرک قلب و ضمیر کو اسی طرح ناپاک کر دیات ہے جس طرح گندگی کپڑے کو ناپاک کردیتی ہے۔ پھر شرک اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے اور سفید جھوٹ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ اس بڑے جھوٹ کے ساتھ ساتھ تمام جھوٹوں سے بچو۔ فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور (٢٢ : ٣٠) ” بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔ “ قرآن مجید نے جھوٹ کو شرک کے ساتھ جوڑ کر اس کے گناہ کو اور بھیانک بنا دیا ہے۔ امام احمد روایت کرتے ہیں کہ قاتک اسدی نے حضور ت سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نما زپڑھی اور منہ پھیر کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا۔ عدلت شھادۃ الزور الا شراک باللہ عزوجل ” اور جھوٹی شہادت کو شرک کے برابر کردیا گیا ہے۔ “ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کی خواہش یہ ہے کہ لوگ ہر قسم کے شرک کو چھوڑ دیں اور ہر قسم کے جھٹ کو چھوڑدیں اور خلاص عقیدہ توحیدہ پر جم جائیں۔ حنفآء اللہ غیر مشرکین بہ (٢٢ : ٣١) ” یکسو ہو کر اللہ کے بندے ہو جائو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ “ اس کے بعد آیت میں ایک خوفناک منظر ایک مثال کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جو شخص توحید کے بلند افق سے گرا تو اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ شرک کی پستیوں میں جا گرتا ہے اور وہ اس طرح ختم ہوجاتا ہے کہ اس کا نام و نشان ہی نہیں رہتا۔ گویا وہ تھا ہی نہیں۔ ومن یشرک باللہ فکانما خرمن السمآء فتخطفہ الطیر اوتھوی بہ الریح فی مکان سحیق (٢٢ : ٣١) ” اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔ اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اسے ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ “ یہ منظر ایسے شخص کا ہے جو بہت ہی بلند جگہ سے گر جائے جیسا کہ آسمان سے گر کر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور اسے پرندے اچک لے جائیں یا ہوا اسے نظروں سے دور پھینک دے۔ یا ہوا اسے ایسی جگہ پھینک دے ایسے گڑھے میں جہاں اسے کوئی قرار نصیب نہ ہو۔ یعنی اس منظر میں تمام مراحل بڑی تیزی سے سرانجام پاتے ہیں۔ سخت تیزی اور پھر اقدامات لگاتار ہیں اور ہر مرحلے کے … کا استعمال ہے۔ جو ترتیب واقعات بغیر فاصلہ وقت پر دلالت کرتی ہے یعنی یہ شخص بڑی تیزی سے منظر سے غائب ہوتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز ہے تصویر کشی کا۔ پھر جس طرح قرآن کریم نے شرک کرنے والے کی تصویر کشی کی ہے فی الواقعہ بھی اس کی حالت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ توحید اور ایمان کے بلند مقام سے گر جاتا ہے اور اس کی شخصیت منتشر ہوجاتی ہے کیونکہ اس کیپ اس وہ مضبوط اساس یعنی عقیدہ توحید ہی نہ رہا جس پر وہ کھڑا ہو سکے۔ اب اس کے لئے کوئی جائے قرار ہی باقی نہیں ہے۔ پرندے اس کو اچک لیں گے یعنی خواہشات نفسانیہ اور ادہام و خرافات ہر طرف سے اسے اپنی طرف کھینچیں گے۔ چونکہ اس کے ہاتھ میں مضبوط رسی نہ ہوگی اس لئے وہ ہر طرف کھینچتا چلا جائے گا۔ کبھی ایک طرف گرے گا اور کبھی دوسری طرف کیونکہ اسکے پائوں کے نیچے مضبوط بنیاد نہ ہوگی۔ اب بات آگے بڑھتی ہے۔ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کی حرمتوں کا احترام کرو اور ان سے تعرض نہ کرو۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے شعائر کی تعظیم کر ، شعائر لالہ کیا ہیں۔ وہ جانور جو حج کے موقع پر ذبح ہوں گے ، ان کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ موٹے تازے ہوں اور قیمتی ہوں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی حرمات اور شعائر کی تعظیم کا حکم، شرک اور جھوٹ سے بچنے کی تاکید ہر مشرک کی مثال، جانوروں کے فوائد کا تذکرہ دونوں آیتوں کے شروع میں جو لفظ ذٰلِکَ ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ یہ اسم اشارہ فصل بین الکلامین یا کلام واحد کی دو وجوہ بیان کرنے کے درمیان بولا جاتا ہے، یہ ... ایسا ہی ہے جیسے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات تو ہوچکی اب آئندہ بات سنو پھر ایک قول یہ بھی لکھا کہ یہاں لفظ امتشلوا محذوف ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو کچھ پہلے بیان ہوا ہے اس پر عمل کرو، (وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ) ( اور جس شخص نے اللہ کی حرمات کی تعظیم کی تو وہ اس کے رب کے پاس اس کے لیے بہتر ہے) لفظ حرمات حرمت کی جمع ہے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ حرمت سے ہر وہ چیز مراد ہے جس کا شرعاً احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے تمام احکام شرعیہ جن کا بندوں کو حکم دیا گیا ہے (خواہ حج سے متعلق ہو خواہ دوسری عبادات سے) ان سب کا احترام کرنا لازم ہے۔ اور سب سے بڑا احترام یہ ہے کہ دل و جان سے تسلیم کرے اور اخلاص کے ساتھ حکم کے مطابق عمل کرے اس کے عموم میں نماز، روزہ کا احترام، علم دین کا احترام اور سارے اعمال دینیہ کا احترام آجاتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ حج میں جو حرمات ہیں وہ یہ ہیں گناہ نہ کرے۔ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے۔ میاں بیوی والے تعلق کام میں نہ لائے۔ خشکی کا شکار نہ کرے، احرام کی خلاف ورزیاں نہ کرے، جو شخص اللہ کی حرمات کی تعظیم کرے گا نفع میں رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کی قدر دانی فرمائے گا اور قیامت کے دن ان پر اجر وثواب دے گا۔ (وَ اُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ ) (اور تمہارے لیے چوپائے حلال کردیئے گئے یعنی ان کے ذبح کرنے اور کھانے کی اجازت دی گئی ہے) (اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ ) (مگر جن کی تم پر تلاوت کی گئی) یعنی جس کا بیان قرآن کریم کی دوسری آیات میں پڑھ کر سنا دیا گیا ہے یہ بیان سورة بقرہ اور سورة مائدہ اور سورة انعام میں ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی بھی اس کی تفصیل بتادی گئی ہے، صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہاں اس بات کا ذکر یہ بتانے کے لیے ہے کہ حلال جانور جنہیں عام طور پر ذبح کر کے کھاتے ہیں (مثلاً اونٹ، گائے، بکرا، بھیڑ، دنبہ) احرام میں ان کے ذبح کرنے کی ممانعت نہیں ہے صرف خشکی کے جانوروں کا شکار کرنے کی ممانعت ہے۔ (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ) (سو تم نا پاکی سے یعنی بتوں سے بچو) مشرکین جانوروں کو بتوں کے تقرب کے لیے ذبح کرتے تھے اور یہ ان کے نزدیک بتوں کی عبادت تھی اس لیے فرمایا کہ حلال جانوروں کو کھاؤ پیو، لیکن بتوں کی عبادت میں استعمال نہ کرو۔ نہ دیوی دیوتا اور بتوں کے لیے ذبح کرو اور نہ ذبح کرنے کے بعد ان کے گوشت کا ان پر چڑھاوا چڑھاؤ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید سکھائی تھی اور قربانی کی ابتداء کی تھی اور یہ قربانی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تھی لیکن بعد میں اہل عرب مشرک ہوگئے جو بتوں کے لیے احرام باندھتے تھے اور ان کے تقرب کے لیے جانوروں کو ذبح کرتے تھے اور تلبیہ میں بھی شرک کے الفاظ کا اضافہ کرتے تھے اور یوں کہتے ہیں الاشریکا ھولک اس لیے حج کے ذیل میں یہ بات بیان فرمائی کہ جانوروں کا استعمال کھانے پینے کے لیے ہے غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے کے واسطے نہیں۔ (وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ) (اور جھوٹی بات سے بچو) اس میں ہر طرح کے جھوٹ سے بچنے کا حکم فرما دیا۔ جھوٹی بات، جھوٹی خبر، جھوٹی قسم، جھوٹا وعدہ، سب سے بچنا فرض ہے جھوٹ سے بچنے کا حکم تو عام ہے لیکن یہاں خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ مشرکین عرب جو شرک کر کے کام کرتے تھے جن میں بعض جانوروں کی تحلیل اور تحریم بھی تھی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے جس کا بیان سورة مائدہ کی آیت (مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّ لَا سَآءِبَۃٍ ) (الایۃ) کی تفسیر میں گزر چکا ہے سورة اعراف میں (وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْھَآ اٰبَآءَ نَا وَ اللّٰہُ اَمَرَنَا بِھَا) میں بھی ان کی گمراہی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (دیکھو انوار البیان جلد دوم) حضرت خریم بن فاتک (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ کھڑے ہوگئے اور تین بار فرمایا کہ جھوٹی گواہی کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ ) اس کا مطلب یہ ہے کہ بتوں سے اور جھوٹی بات سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے ہوئے رہو یعنی عقیدہ بھی توحید کا رکھو اور اعمال بھی اس کے حکم کے مطابق انجام دو ۔ شرک سے دور رہو۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38:۔ ” وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللّٰهِ الخ “ یہ تحریمات اللہ کا ذکر ہے حالت احرام میں جن اعمال کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے مثلاً بحالت احرام شکار کرنا وغیرہ ان کو حرام سمجھنا عین تقوی ہے۔ 39:۔ ” وَ اُحِلَّتْ لَکُمْ الخ “ تحریمات مشرکین کا ابطال ہے یعنی اپنے طواغیت کی خاطر بحیرہ، سائبہ م... ت بناؤ اللہ نے اس کی اجازت نہیں دی یہ چوپائے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیے ہیں اس لیے انہیں کھاؤ۔ ” اِلَّا مَا یُتْلیٰ عَلَیْکُمْ “ میں تحریمات اللہ کا بیان ہے یعنی اللہ کی حرام کی ہوئی چیزیوں کو حرام سمجھو اور انہیں حلال مت جانو اور مایتلی علیکم سے سے الرجس مراد ہے جو اس کے متصل بعد مذکور ہے یا اس سے مراد حرمت علیکم المیتۃ الخ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس سے اللہ کے حلال کو حرام نہ کرو صرف انہی چیزوں کو حرام سمجھو جنہیں اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے مثلاً شرک، غیر اللہ کی نذر و نیاز وغیر۔ والمعنی ان اللہ تعالیٰ احل لکم الانعام کلھا الا مابین فی کتابہ فحافظوا علی حدودہ ولا تحرموا شیئا مما احل کتحریم البعض البحیرۃ ونحوھا و تحلوا مما حرم کا حلالھم اکل الموقوذۃ والمیتۃ وغیرھما۔ (مدارج ج 3 س 78) ۔ الا ما یتلی علیکن ایۃ تحریمہ استثناء متصل کما اختارہ الاکثرون عنھا علی ان ما عبارۃ عما حرم منھا العارض کالمیتۃ وما اھل بہ لغیر اللہ تعالیٰ (روح ج 17 ص 174) 40:۔ ” فَاجْتَنِبُوْا الخ “ من الاوثان میں من بیانیۃ ہے اور الاوثان سے پہلے مضاف محذوف ہے ای عبادۃ الاوثان (معالم و خازن) ۔ الرجس کے معنی نجاست اور پلیدی کے ہیں اصل عبارت اس طرح تھی۔ فاجتنبوا الرجس الذی ھو عبادۃ الاوثان۔ یعنی غیر اللہ کی عبادت (دعا) پکار اور نزر و منت جو سراسر ناپاک اور نجس ہے اس سے اجتناب کرو یعنی بالرجس عبادۃ الاوثان و قد روی ذلک عن ابن عباس وابن جریج فکانہ قیل اجتنبوا من الاوثان الرجس وھو العبادۃ (روح ج 17 ص 148) ۔ اس صورت میں من بعضیہ ہوگا۔ 41:۔ ” وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الخ “ یہ ” اِجْتَنِبُوْا “ اول پر معطوف ہے اور اعادہ فعل مزید اہتمام اور تاکید کیلئے ہے ” قَوْلَ الزُّوْر “ سے مراد مشرکانہ اقوال ہیں جیسا کہ مشرکین حج کے وقت تلبیہ میں اپنی طرف سے مشرکانہ الفاظ بڑھا لیا کرتے تھے۔ قیل ھو قول المشرکین فی تلبیتھم لبیک لا شریک لک لبیک الا شریکا ھو لک تملکہ ومالک (معالم و خازن ج 5 ص 16) ۔ یا غیر اللہ کی نذر و منت ماننا اور تحریمات مشرکین مراد ہیں کانہ تعالیٰ لما حث علی تعطیم الھرمات اتبع ذالک بما فیہ رد لما کانت الکفرۃ علیہ من تحریم البحائر والسوائب ونحوھا (روح) سورة مائدہ کی تفسیر (ص 261 حاشیہ 11) میں گذر چکا ہے کہ حضرت شیخ قدس سرہ کے نزدیک ” ما اھل به “ میں ما سے مراد وہ قول ہے جو غیر اللہ کی نذر مانتے وقت زبان سے ادا کیا جاتا ہے اور ” قول الزور “ سے بھی وہی قول مراد ہے۔ واجتنبوا قول الزور ای النذر لغیر اللہ والذبح علی غیر اسمہ۔ حاصل یہ کہ غیر اللہ کی نذر و نیاز کھانے سے بھی بچو اور نذر غیر اللہ ماننے سے بھی اجتناب کرو۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) یہ بات تو سن چکے اور جو کوئی بڑائی رکھے اللہ تعالیٰ کے ادب اور اس کی حرمتوں کی اور اس کے محترم احکام کی عزت و وقعات کرے گا تو یہ اس کے پروردگار کے ہاں اس کے لئے بہتر ہوگا اور ان چوپایوں کے سوا جن کی حرمت تم کو سنا دی گئی ہے دوسرے چوپائے تمہارے لئے حلال کردیئے گئے ہیں سو تم بتوں کی ناپاکی اور گن... دگی سے بچتے رہو اور جھوٹی بتا سے بچو۔  Show more