Noun

عَقِيمٍ

barren

نحس

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
---
---
---
---
---
---
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْعُقْمُ: اصل میں اس خشکی کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا اثر قبول کرنے سے مانع ہو۔ چنانچہ محاورہ ہے۔ عَقَمَتْ مَفَاصِلُہٗ: (اس کے جور بند خشک ہوگئے) دَائٌ عُقَامٌ لاعلاج مرض۔ اَلْعَقِیْمُ: (بانجھ) وہ عورت جو مرد کا مادہ قبول نہ کرے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے۔ عَقَمَتِ الْمَرْئَۃُ اَوِالرَّحِمُ: عورت بانجھ ہوگئی یا رحم خشک ہوگیا۔ قرآن پاک میں ہے: (فَصَکَّتۡ وَجۡہَہَا وَ قَالَتۡ عَجُوۡزٌ عَقِیۡمٌ ) (۵۱:۲۹) اور اپنا منہ لپیٹ کر کہنے لگی کہ (اے ہے ایک تو بڑھیا) (دوسرے) بانجھ۔ اور رِیْحٌ عَقِیْمٌ (خشک ہوا) میں یہ بھی ہوسکتا کہ فعیل بمعنی فاعل ہو۔ یعنی وہ ہوا جو بادلوں کو ساتھ نہیں لاتی یا درخت کو باردار نہیں کرتی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فعیل بمعنی مفعول ہو جیساکہ اَلْعَجُوْزُ الْعَقِیْمُ میں ہے اس صورت میں رِیْحٌ عَقِیْمٌ: کے معنی ہوں گے وہ ہوا جو کسی چیز کا اثر اپنے اندر نہ رکھتی ہو چونکہ ایسی ہوا نہ کسی چیز کے اثر کو قبول کرتی ہے اور نہ کسی سے متاثر ہوتی ہے اس لیے نہ وہ کچھ دیتی ہے اور نہ ہی کسی چیز پر اثر انداز ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (اِذۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الرِّیۡحَ الۡعَقِیۡمَ ) (۵۱:۴۱) جب ہم نے ان پر خشک ہوا چلائی۔ یَوْمگ عَقِیْمٌ سخت دن، جس میں کسی قسم کا سامانِ فرحت نہ ہو۔(1)

Lemma/Derivative

4 Results
عَقِيم