Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 100

سورة المؤمنون

لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا ؕ وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾

That I might do righteousness in that which I left behind." No! It is only a word he is saying; and behind them is a barrier until the Day they are resurrected.

کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں ہرگز ایسا نہیں ہوگا یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے ، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّ ... "My Lord! Send me back, so that I may do good in that which I have left behind!" No! This is like the Ayat: وَأَنفِقُواْ مِن مَّا رَزَقْنَـكُمْ مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ And spend of that with which We have provided you before death comes to one of you, until His saying: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (And Allah is All-Aware of what you do. (63:10-11) وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ And warn mankind of the Day when the torment will come unto them upto His saying; مَا لَكُمْ مِّن زَوَالٍ (that you would not leave (the world for the Hereafter). (14:44) And His saying: يَوْمَ يَأْتِى تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَأءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَأءَ فَيَشْفَعُواْ لَنَأ أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِى كُنَّا نَعْمَلُ On the Day the event is finally fulfilled, those who neglected it before will say: "Verily, the Messengers of our Lord did come with the truth, now are there any intercessors for us that they might intercede on our behalf Or could we be sent back so that we might do deeds other than those deeds which we used to do." (7:53) And; وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُواْ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَأ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـلِحاً إِنَّا مُوقِنُونَ And if you only could see when the criminals shall hang their heads before their Lord (saying): "Our Lord! We have now seen and heard, so send us back, that we will do righteous good deeds. Verily, we now believe with certainty." (32:12) And; وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ رَبِّنَا If you could but see when they will be held over the (Hell) Fire! They will say: "Would that we were but sent back! Then we would not deny the Ayat of our Lord. .." until His saying; وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ (And indeed they are liars). (6:27-28) And; وَتَرَى الظَّـلِمِينَ لَمَّا رَأَوُاْ الْعَذَابَ يَقُولُونَ هَلْ إِلَى مَرَدٍّ مِّن سَبِيلٍ And you will see the wrongdoers, when they behold the torment, they will say: "Is there any way of return!" (42:44) And; قَالُواْ رَبَّنَأ أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ They will say: "Our Lord! You have made us to die twice, and You have given us life twice! Now we confess our sins, then is there any way to get out!" (40:11) and the Ayah after it: And; وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَأ أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَـلِحاً غَيْرَ الَّذِى كُـنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَأءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُواْ فَمَا لِلظَّـلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ Therein they will cry: "Our Lord! Bring us out, we shall do righteous good deeds, not what we used to do." (Allah will reply:) "Did We not give you lives long enough, so that whosoever would receive admonition could receive it And the warner came to you. So taste you (the evil of your deeds). For the wrongdoers there is no helper." (35:37) Allah says that they will ask to go back, when death approaches, on the Day of Resurrection, when they are gathered for judgment before the Compeller (Allah) and when they are in the agonies of the punishment of Hell, but their prayer will not be answered. Here Allah says: ... كَلَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَايِلُهَا ... No! It is but a word that he speaks; The word Kalla (No!) is a word that is used to rebuke, and the meaning is: "No, We will not respond to what he asks for and We will not accept it from him." ... كَلَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَايِلُهَا ... It is but a word that he speaks, refers to his asking to go back so that he can do righteous deeds; this is just talk on his part, it would not be accompanied by any action. If he were to go back, he would not do any righteous good deeds, he is merely lying, as Allah says: وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ But if they were returned, they would certainly revert to that which they were forbidden. And indeed they are liars. (6:28) Qatadah said: "By Allah, he will not wish to go back to his family and tribe, or to accumulate more of the things of this world or satisfy his desires, but he will wish that he could go back to do acts of obedience to Allah. May Allah have mercy on a man who does that which the disbeliever will wish he had done when he sees the punishment of Hell." Barzakh and Punishment therein Allah says: ... وَمِن وَرَايِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ and in front of them is Barzakh until the Day when they will be resurrected. Abu Salih and others said that: وَمِن وَرَايِهِم (and in front of them), means before them. Mujahid said, Al-Barzakh is a barrier between this world and the Hereafter. Muhammad bin Ka`b said, "Al-Barzakh is what is between this world and the Hereafter, neither they are the people of this world, eating and drinking, nor are they with the people of the Hereafter, being rewarded or punished for their deeds." Abu Sakhr said, "Al-Barzakh refers to the graves. They are neither in this world nor the Hereafter, and they will stay there until the Day of Resurrection." ... وَمِن وَرَايِهِم بَرْزَخٌ ... and in front of them is Barzakh. In these words is a threat to those wrongdoers at the time of death, of the punishment of Barzakh. This is similar to the Ayat: مِّن وَرَايِهِمْ جَهَنَّمُ In front of them there is Hell. (45:10) وَمِن وَرَايِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ and in front of him will be a great torment. (14: 17) ... إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ until the Day when they will be resurrected. means, he will be punished continually until the Day of Resurrection, as it says in the Hadith: فَلَ يَزَالُ مُعَذَّبًا فِيهَا He will continue to be punished in it. meaning, in the earth.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1001یہ آرزو، ہر کافر موت کے وقت، دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت، بارگاہ الٰہی میں قیامت کے وقت اور جہنم میں دھکیل دیئے جانے کے وقت کرتا ہے اور کرے گا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قرآن کریم میں اس مضمون کو متعدد، جگہ بیان کیا گیا ہے۔ 1002کَلَّا، ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ہے یعنی ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے۔ 1003اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ایسی بات ہے کہ جو ہر کافر نزع (جان کنی) کے وقت کہتا ہے۔ دوسرے معنی ہیں کہ یہ صرف بات ہی بات ہے عمل نہیں، اگر انھیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو ان کا یہ قول، قول ہی رہے گا عمل اصلاح کی توفیق انھیں پھر نصیب نہیں ہوگی، کافر دنیا میں اپنے خاندان اور قبیلے کے پاس جانے کی آرزو نہیں کرے گا، بلکہ عمل صالح کے لئے دنیا میں آنے کی آرزو کرے گا۔ اس لئے زندگی کے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عمل صلاح کر لئے جائیں تاکہ کل قیامت کو یہ آرزو کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے (ابن کثیر) 1004دو چیزوں کے درمیان حجاب اور آڑ کو برزخ کہا جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان جو وقفہ ہے، اسے یہاں برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مرنے کے بعد انسان کا تعلق دنیا کی زندگی سے ختم ہوجاتا ہے اور آخرت کی زندگی کا آغاز اس وقت ہوگا جب تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ درمیان کی زندگی ہے۔ انسان کا وجود جہاں بھی اور جس شکل میں بھی ہوگا، بظاہر وہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہوگا، یا راکھ بنا کر ہواؤں میں اڑا دیا یا دریاؤں میں بہا دیا ہوگا یا کسی جانور کی خوراک بن گیا ہوگا، مگر اللہ تعالیٰ سب کو ایک نیا وجود عطا فرما کر میدان محشر میں جمع فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٦] کلا یہاں دو معنی دے رہا ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ چونکہ مرنے کے بعد دوبارہ کسی انسان کو اس دنیا میں واپس بھیجنا میرے قانون اور میری مشیت کے خلاف ہے۔ لہذا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اور دوسرا یہ کہ یہ جو مرنے والا کہہ رہا ہے کہ میں اب دنیا میں جاکر برے اعمال کے بجائے نیک اعمال بجا لاؤں گا تو یہ ایک بےکار سی بات ہے۔ کیونکہ موت کے وقت کے حالات کا مشاہدہ کرلینے اور فرشتوں کو دیکھ لینے کے بعد تو ایمان بالغیب رہتا ہی نہیں۔ اور مطلوب ایمان بالغیب ہے نہ کہ ایمان بالشہادۃ موجود اور دیکھی ہوئی چیز کا اقرار تو ہر شخص کرلیتا ہے اور اسے ایمان یا ایمان بالغیب نہیں کہہ سکتے نہ ہی اس عورت میں یہ دنیا دارالامتحان رہتی ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ انسان کی عادت ہے کہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے پھر جب وہ مصیبت دور ہوجائے اور خوشحالی میسر ہو تو وہ مصیبت کے اوقات اور اس مصیبت میں اللہ کے کئے ہوئے وعدہ وغیرہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اور اس صورت کی عام مشاہدہ سے بھی تائید ہوجاتی ہے۔ اور قرآن کریم کی کئی آیات سے بھی۔ اس لحاظ سے بھی کسی مرنے والے انسان کو دوبارہ دنیا میں بھیجنا بےکار ہے۔ لہذا موت کے وقت جو کچھ وہ مرنے والا کہہ رہا ہے محض ایک بکواس ہی ہوگی جس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ [٩٧] یہاں برزخ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی پردہ، آڑ، روک وغیرہ ہے اور بعض کے نزدیک یہ لفظ فارسی لفظ پردہ ہی کا معرب ہے۔ لیکن، روک یا پردہ ایسا نہیں جیسے دو چیزوں کے درمیان کوئی کپڑا لٹکا کر یا دیوار بنا کر ہر چیز کو دوسری سے اوجھل کردیا جاتا ہے۔ جبکہ اس روک میں ایک طویل مدت زمانی بھی شامل ہے۔ اور یہ برزخ کسی انسان کی موت کے وقت سے لے کر اس کے دوبارہ جی اٹھنے تک کے زمانہ کو محیط ہے۔ اہل برزخ سے عالم دنیا بھی اوجھل ہوتا ہے اور عالم عقبیٰ سے بھی۔ اس عالم برزخ کو اللہ تعالیٰ نے موت کے زمانہ سے تعبیر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس عرصہ کے دوران موت کے اثرات غالب ہوتے ہیں۔ تاہم روح چونکہ زندہ ہی رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتی ہے۔ لہذا اس عرصہ میں ہی زندگی کے تھوڑے بہت آثار پائے جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں بہت کو عذاب وثواب بھی ہوتا ہے لیکن عذاب وثواب قیامت کے عذاب وثواب کی نسبت بہت ہلکا ہوتا ہے اسی عرصہ کے عذاب کو عذاب قبر کہتے ہیں خواہ میت کا جسم قبر میں موجود ہو یا گل سڑ گیا ہو یا درندوں نے کھالیا ہو یا پانی کی تہہ میں چلا گیا ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ : تاکہ میں جو کچھ مال و متاع چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں، یا اس دنیا میں جا کر کوئی نیک عمل کرلوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے : ” قتادہ نے آیت : (حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ ) کے متعلق کہا کہ علاء بن زیاد فرمایا کرتے تھے کہ آدمی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اس مرنے والے کی جگہ رکھ کر سوچے کہ گویا اس کی موت آپہنچی تھی اور اس نے رب تعالیٰ سے مہلت مانگی تو اسے مل گئی، سو وہ اس مہلت میں جس قدر ہو سکے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرلے۔ اور قتادہ نے فرمایا، اللہ کی قسم ! نہ وہ گھر والوں کی طرف جانے کی تمنا کرے گا، نہ اولاد کی طرف، بلکہ یہی تمنا کرے گا کہ واپس جا کر اللہ کی اطاعت کرلے۔ سو کوتاہی کرنے والے کافر کی آرزو دیکھو اور ملی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اس پر عمل کرلو۔ “ كَلَّا : اس کے دو معنی ہیں اور دونوں مراد ہیں، ایک یہ کہ ہرگز ایسا نہ ہوگا کہ تم دنیا میں واپس جاؤ اور دوسرا یہ کہ تمہارا کہنا کہ میں واپس جا کر نیک عمل کروں گا، ہرگز درست نہیں۔ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا : یعنی یہ صرف ایک بات ہوگی جو وہ کہے گا، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، بلکہ وہ صاف جھوٹ کہہ رہا ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ) [ الأنعام : ٢٨ ] ” اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ “ دوسرا مطلب یہ کہ یہ صرف اس کے منہ کی بات ہوگی جو وہ بار بار کہے گا، مگر اسے اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسی بات ہے جو ہر کافر مرتے وقت ضرور ہی کہنے والا ہے۔ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ : ” وَرَاءٌ“ کا معنی آگے بھی ہے اور پیچھے بھی، یہاں دونوں معنی مراد ہیں کہ آگے ایک اور عالم برزخ آ رہا ہے، جسے قبر کی زندگی بھی کہا جاتا ہے، جہاں پہنچ کر دنیا والوں سے پردہ ہوجاتا ہے اور آخرت بھی سامنے نہیں آتی۔ ہاں کافر کے لیے آخرت کے عذاب کا تھوڑا سا نمونہ سامنے آتا ہے، جس کا مزہ قیامت تک چکھتا رہے گا۔ اسی طرح اہل ایمان کے لیے راحت و نعمت میسر ہوتی ہے۔ دونوں کا احادیث میں ذکر ہے اور آیات میں بھی۔ دیکھیے سورة مؤمن (٤٥، ٤٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَ‌ائِهِم بَرْ‌زَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ Never! It is just a word he has to utter. And in front of them there is a barrier till the day when they will be resurrected. (23:100) The word بَرْ‌زَخٌ (Barzakh) means |"barrier|" and implies anything which intervenes between two conditions or two objects. For this reason it also means the intervening period between death and the Day of Judgment. The meaning of this verse is that the wish of the infidel who has died to be returned to this world is fruitless, because he has reached the Barzakh from which no return is possible and a second life cannot be given until the Day of Resurrection, when all the dead will rise and be brought back to life.

كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ، برزخ کے لفظی معنے حاجز اور فاصل کے ہیں۔ دو حالتوں یا دو چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو اس کو برزخ کہتے ہیں اسی لئے موت کے بعد قیامت اور حشر تک کے زمانے کو برزخ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیاوی حیات اور آخرت کی حیات کے درمیان حد فاصل ہے اور معنے آیت کے یہ ہیں کہ جب مرنے والا کافر، فرشتوں سے دوبارہ دنیا میں بھیجنے کو کہتا ہے تو یہ کلمہ تو اس کو کہنا ہی تھا کیونکہ اب عذاب سامنے آ چکا ہے مگر اس کلمہ کا اب کوئی فائدہ اس لئے نہیں کہ وہ اب برزخ میں پہنچ چکا ہے جس کا قانون یہ ہے کہ برزخ سے لوٹ کر کوئی دنیا میں نہیں آتا اور قیامت اور بعث و نشر سے پہلے دوسری زندگی نہیں ملتی۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا۝ ٠ۭ اِنَّہَا كَلِمَۃٌ ہُوَقَاۗىِٕلُہَا۝ ٠ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝ ١٠٠ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ برزخ البَرْزَخ : الحاجز والحدّ بين الشيئين، وقیل : أصله برزه فعرّب، وقوله تعالی: بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ [ الرحمن/ 20] ، والبرزخ في القیامة : الحائل بين الإنسان وبین بلوغ المنازل الرفیعة في الآخرة، وذلک إشارة إلى العقبة المذکورة في قوله عزّ وجل : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد/ 11] ، قال تعالی: وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [ المؤمنون/ 100] ، وتلک العقبة موانع من أحوال لا يصل إليها إلا الصالحون . وقیل : البرزخ ما بين الموت إلى القیامة . ( ب ر ز خ ) البرزخ کے معنی دو چیزوں کے درمیان حد فاصل اور روک کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ دراصل یہ برزۃ ( پردہ ) سے معرب ہے قرآن میں ہے بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ [ الرحمن/ 20] دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کہہ سکتے ۔ اور برزخ اس کا وٹ کو بھی کہا گیا ہے جو آخرت میں انسان اور اس کے منازل رفیقہ تک پہنچنے کے درمیان حائل ہوگی جسے قرآن نے آیت : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد/ 11] مگر وہ گھاٹی پر سے ہوکر نہ گزرا ۔ میں عقبۃ کہا ہے چناچہ فرمایا وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [ المؤمنون/ 100] اور ان کے پیچھے برزخ ہے ( جہاں وہ ) اس دن تک کہ ( دوبارہ ) اٹھائے جائیں گے ( رہنیگے ) 23 ۔۔۔۔ ا ) لہذا عقبۃ سے مراد وہ موانع ہیں جو بلند درجات تک پہنچنے سے روک لیتے ہیں جن تک کہ نیک لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں برزخ سے موت اور حشر کے مابین کی مدت مراد ہے ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قسم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٠) تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں اور وہاں آپ کی تکذیب کی ہے تو پھر وہاں جاکر نیک کام کروں اور آپ پر ایمان لاؤں، اللہ تعالیٰ تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہرگز اس کو دنیا کی طرف واپس نہیں کیا جائے گا، یہ واپس ہونے کی درخواست اس کی ایک بات ہے جس کو یہ کہے جارہا ہے اور یہ اسے کوئی سودمند نہ ہوگی اور ان لوگوں کے آگے ایک چیز آڑ کی آنے والی ہے یعنی قبر یہاں تک کہ ان کو قبروں سے اٹھایا جائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٠ (لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا ط) ” اے میرے پروردگار ! اب اگر تو مجھے واپس دنیا میں بھیج دے تو میں اپنے مال و اسباب کو تیرے راستے میں اور تیرے دین کی خدمت میں لٹا دوں گا ! (وَمِنْ وَّرَآءِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ) ” موت کے بعد تو اب بعث بعد الموت تک ان کے لیے عالم برزخ کی زندگی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90. It occurs at several places in the Quran that each of the criminals, after his death till his entry into Hell, and even after that, will plead again and again: Lord, send me back to the world, I will no more disobey Thee, I will now do righteous deeds. See (Surah Al-Anaam, Ayats 27, 28); (Surah Al-Aaraf, Ayat 53); (Surah Ibrahim, Ayats 44, 45); (Surah Ash-Shuara, Ayat 102); (Surah Al-Fatir, Ayat 37); (Surah Az- Zumar, Ayats 58, 59); (Surah Al-Momin, Ayats 10-12), and (Surah Ash-Shura, Ayats 44 )along with the relevant E.Ns. 91. That is, he will never be sent back nor given another opportunity, for in that case the test and trial for which man is sent to this world becomes meaningless. For further explanation, see (Surah Al-Baqarah, Ayat 210 and E. N. 228 )thereof, and E.Ns 6, 139, 140 of Surah Al-Anaam) and (E.N. 26 of Surah Younus). 92. That is, now, when he has met his doom, he has nothing more to say than that he should be sent back to the world; so let him say what he likes; he will never be allowed to go back. 93. That is, now there is a barrier between them and the world, which will not allow them to go back to it. Therefore they shall remain in that state until the Day of Resurrection.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :90 یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل بجہنم ہونے تک ، بلکہ اس کے بعد بھی ، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے ، اب ہماری توبہ ہے ، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے ، اب ہم سیدھی راہ چلیں گے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، آیات 27 ۔ 28 ۔ الاعراف ، 53 ۔ ابراہیم ، 44 ، 45 ۔ مومنون ، 105 تا 115 ۔ الشعراء ، 102 ۔ السجدہ ، 12 تا 14 ۔ فاطر ، 37 ۔ الزمر ، 58 ۔ 59 ۔ المومن ، 10 تا 12 ۔ الشوریٰ ، 44 ۔ مع حواشی ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :91 یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔ از سرنو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس بھیجا جائے تو لامحالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی ۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے ۔ یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا ۔ اول الذکر سورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے یا نہیں ، اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے ۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے اس کے بعد کون ایمان نہ لائے گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا ۔ رہی دوسری صورت ، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہو چکا ہے اسے پھر بعینہ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے کے لیے بھیجنا لاحاصل ہے ، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 228 ۔ الانعام ، حواشی 6 ۔ 139 ۔ 140 ۔ جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 26 ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :92 یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ بات قابل التفات نہیں ہے ۔ شامت آ جانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیا کہے گا ۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے ۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے ۔ لہٰذا اسے بکنے دو ۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جا سکتا ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :93 برزخ فارسی لفظ پردہ کا معرب ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی ، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اس حد فاصل میں ٹھہرے رہیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

31: مرنے کے بعد سے قیامت تک مردہ جس عالم میں رہتا ہے، اسے عالم برزخ کہا جاتا ہے، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد تمہارا دنیا میں واپس جانا اب ممکن نہیں، کیونکہ تمہارے سامنے عالم برزخ ہے، جو قیامت تک باقی رہے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:100) لعلی۔ لعل حرف مشبہ بالفعل ہے اس کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے یہاں پر یہ تعلیل کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ای ارجعون لاجل ان اعمل صالحا (ای رب) مجھے واپس بھیج دے تاکہ میں نیک عمل کمائوں۔ بعض کے نزدیک ترجی (امید) و توقع کے لئے آیا ہے۔ توقع ہے کہ میں اچھے کام کروں۔ اول الذکر زیادہ موزوں ہے۔ فیما۔ میں فی بمعنی الذی ہے ای الذی ترکت (فی الدنیا) ۔ کلا۔ حرف ردع وزجر ہے (ردع یردع ردع۔ روکنا۔ ہٹانا) بمعنی ہرگز نہیں یعنی یہ اس کی استدعا کہ اسے واپس بھیج دیا جائے دنیا میں ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ انھا کلمۃ ھو قائلھا۔ یہ ایک رٹ ہے جو وہ لگائے جا رہا ہے۔ ورائ۔ مصدر ہے من کی وجہ سے مجرور ہے۔ اس کے معنی آڑ۔ حدفاصل۔ آگے۔ ہونا۔ پیچھے ہونا۔ علاوہ۔ یہ فصل اور حد بندی پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے سب معنی میں مستعمل ہے۔ من ورائہم۔ ان کے آگے۔ ان کے سامنے۔ برزخ۔ دو چیزوں کے درمیان جو آڑ اور رکاوٹ ہو اسے برزخ کہتے ہیں یہاں مراد برزخ سے موت اور قیامت کا درمیانی وقفہ ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد قبر ہے۔ تفسیر ماجدی میں ہے کہ موت کے بعد روح انسانی ایک درمیانی عالم میں رہتی ہے اور حشر تک رہے گی۔ اس کا اصطلاحی نام عالم برزخ ہے ۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ بینھما برزخ لا یبغین (55:20) دونوں ہی کے درمیان ایک آڑ ہے کہ اس سے وہ دونوں تجاوز نہیں کرسکتے۔ یبعثون۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب بعث مصدر۔ وہ اٹھائے جائیں گے البعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے۔ اٹھا کھڑا کرنے اور کسی طرف بھیجنے کے ہیں قرآن مجید میں ارشاد ہے ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا۔ (16:36) اور ہم نے ہر قوم میں ایک پیغمبر بھیجا۔ یوم یبعثون سے مراد روز قیامت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ ” جسے وہ کہے گا ہی “ مگر اس کی کوئی شنوائی نہ ہوگی کیونکہ اسے عمل کے لئے جو مہلت ملنی تھی ایک مرتبہ دنیا میں مل چکی۔ دوبارہ عمل کے لئے کوئی موقع اسے نہ دیا جائے۔ (شوکانی) 2 ۔ مراد ہے عالم برزخ جسے قبر کی زندگی بھی کہا جاتا ہے۔ برزخ کے لغوی معنی دو چیزوں کے درمیان پردہ یا آڑ کے ہیں۔ قبر کی زندگی کو برزخ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی کے درمیان پردہ یا آڑ ہے۔ احادیث سے بھی اس عالم (قبر) میں نیکوں کے لئے آرام اور بدوں کے لئے سزا اور تکلیف کا ثبوت ملتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اور وہ بات پوری ہونے والی نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن ۔۔۔۔ یبعثون (٢٣ : ١٠٠) ” “۔ برزخ یعنی پردہ حائل ہے۔ نہ وہ اہل دنیا سے ہوتے ہیں اور نہ اہل آخرت سے ہوتے ہیں۔ یہ اس برزخ کے عالم میں ہیں اور قیام قیامت تک یہ لوگ یہاں رہیں گے۔ اب سیاق کلام قیامت میں داخل ہوجاتا ہے جب کہ صور پھونکا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برزخ اور محشر کے احوال و اھوال، کافروں کی دعا قبول نہ ہونا، کافروں کا دنیا میں مذاق بنانا ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ جو لوگ کفر پر جمے ہوئے ہیں ان کی کافرانہ زندگی اسی طرح گزرتی رہتی ہے یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کے سر پر موت آ کھڑی ہوتی ہے اور آخرت کے حالات کا معائنہ ہونے لگتا ہے اور روح قبض کرنے والے فرشتے نظر آنے لگتے ہیں (جو بری طرح کافر کی روح قبض کرتے ہیں اور اسے مارتے جاتے ہیں) تو اس وقت وہ اپنی زندگی پر نادم ہوتا ہے اور پشیمان ہو کر اللہ تعالیٰ شانہٗ سے یوں عرض کرتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے اسی دنیا میں لوٹا دیجیے اور موت کو ہٹا دیجیے امید ہے کہ اب میں واپس ہو کر نیک کام کروں گا یعنی آپ کے رسول کی تصدیق بھی کروں گا اور اعمال کے اعتبار سے بھی درست رہوں گا اچھے اعمال میں لگا رہوں گا، اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کلاَّ (ہر گز نہیں) (یعنی اب تو مرنا ہی ہے واپسی نہیں ہوسکتی) واپسی کی کوئی صورت نہیں جب موت کا وقت آگیا تو اب اس میں تاخیر نہیں ہوسکتی (اِِنَّہَا کَلِمَۃٌ ھُوَ قَاءِلُہَا) (یہ بات ہے جسے وہ کہتا ہے) لیکن اس کی بات کے موافق فیصلہ ہونے والا نہیں ہے (وَمِنْ وَّرَآءِہِمْ بَرْزَخٌ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ) (اور ان کے آگے اس دن تک برزخ ہے جس دن اٹھائے جائیں گے) برزخ حاجز یعنی آڑ کو کہتے ہیں جو دو حالتوں یا دو چیزوں کے درمیان حائل ہو، موت کے بعد قیامت قائم ہونے تک کا جو وقفہ ہے اسے برزخ کہا جاتا ہے جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو برزخ میں چلا جاتا ہے مومن صالح اچھی حالت میں ہیں اور کافر برابر عذاب میں رہتا ہے۔ جس کسی کے سر پر موت آ کھڑی ہو تو وہ ٹلنے والی نہیں روح صالح اچھی اور عالم برزخ میں پہنچ گئی، اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو شخص ماں کے پیٹ سے دنیا میں آگیا اب واپس وہاں نہ جائے گا اور جب موت آگئی تو دنیا میں واپس نہ آئے گا اور جب قیامت آئے گی تو قبروں میں واپس نہیں لوٹائے جائیں گے اور قیامت کے دن کے حساب کتاب سے فارغ ہو کر جو حضرات جنت میں بھیج دیئے جائیں گے وہاں سے واپس نہ ہونگے اور کافر دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے اور وہ وہاں سے واپس نہ ہونگے، حاصل یہ ہے کہ ہر بعد والی منزل میں پہنچ کر پہلی منزل کی طرف واپس نہ ہونگے، ہاں بعض مسلمان اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں چلے جائیں گے وہ عذاب بھگت کر وہاں سے نکال دیئے جائیں گے کہ اس میں ان کو مستقل طریقہ پر داخل نہیں کیا جائے گا (مستقل طور پر کافر ہی دوزخ میں داخل ہوں گے) ۔ برزخ : اس وقفہ کا نام جو موت اور قیامت کے درمیان ہے جو لوگ دفن کیے جاتے ہیں اور جو لوگ جلا دیئے جاتے ہیں اور جنہیں جانور کھا جاتے ہیں ان سب پر برزخ کے احوال گزرتے ہیں اور ہر ایک کے اپنے اپنے دین اور اعمال کے اعتبار سے وہاں اچھی زندگی والے بھی ہیں اور بری زندگی والے بھی ہیں، جیسا کہ احادیث شریفہ میں تفصیل آئی ہے ہم نے ایک رسالہ میں ان احوال کو جمع کردیا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

76:۔ ” کلا الخ “ ” کلا “ کلمہ ردع ہے یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوسکتے گا۔ اس کا یہ خیال غلط اور یہ امید باطل ہے کہ اب اسے دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے گا حسرت اور ندامت کی وجہ سے وہ یہ بات کہتا رہے گا مگر بےفائدہ۔ ” و من ورائھم برزخ الخ “ ان کا موت کے بعد دنیا میں واپس آنا محال ہے کیونکہ اب وہ عالم برخ میں داخل ہوچکے ہیں۔ عالم برزخ موت سے قیامت تک کا زمانہ ہے جو دنیا اور آخرت میں حائل ہے جو شخص اس عالم میں پہنچ گیا اب دنیا کی طرف اس کی واپسی محال ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(100) تاکہ دنیا جس کو میں چھوڑ آیا ہوں اس میں واپس جاکر میں نیک عمل کروں۔ کہا جاتا ہے ہرگز نہیں یعنی ایسا نہیں ہوگا یہ محض اس کی ایک بات ہے جس کو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے آگے ایک آڑ اور پردہ ہے یعنی عالم برزخ میں اس دن تک کے لئے جس دن لوگ دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ یعنی جب مرتے وقت ملک الموت اور اس کے اعوان و ہمراہی فرشتوں کو دیکھتا ہے تو اپنی غلطی کا احساس کرتا ہے اور ندامت سے کہتا ہے کہ اے پروردگار مجھ کو واپس لوٹا دیجئے یہ بات اصل میں تو ملک الموت اور اس کے اعوان سے کہتا ہے اور پروردگار کا نام بطور مدد کے لیتا ہے۔ یا خطاب پروردگار ہی کو کرتا ہے اور بطور ادب و احترام جمع کا لفظ استعمال کرتا ہے اور یہ لوٹانے کی درخواست اس لئے کرتا ہے تاکہ یمان لائوں اور ایمان پر جو نیک عمل مرتب ہوتے ہیں وہ بجالائوں اس وقت جواب ملتا ہے کہ واپس نہیں ہوسکتا یہ ایک بات ہے جس کو یہ کہہ رہا ہے یعنی موت کے آجانے کی وجہ سے لامحالہ یہ اس کو کہنا ہی ہے اور واپسی کی درخواست کرنی ہی ہے لیکن ایسا ہوگا نہیں اور ان کے آگے یا پیچھے ایک آڑ اور پردہ ہے جس کے باعث یہ واپس نہیں آسکتے جس دن تک لوگ دوباروہ اٹھائے جائیں یعنی قیامت تک۔ موت سے لے کر قیامت تک کے درمیانی حصہ کو عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ مفسرین کے اس آیت کی تفسیر میں بھی چند اقوال ہیں مگر ہم نے راجح قول کو اختیار کرلیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں معلوم ہوا یہ جو لوگ کہتے ہیں آدمی مرکر پھر آتا ہے سب غلط ہے قیامت کو اٹھیں گے اس سے پہلے ہرگز نہیں۔ 12۔ یہ تو مرتے وقت کا بیان تھا اب آگے قیامت کا مختصراً ذکر ہے۔