Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 101

سورة المؤمنون

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾

So when the Horn is blown, no relationship will there be among them that Day, nor will they ask about one another.

پس جبکہ صور پھونک دیا جائیگا اس دن نہ تو آپس کے رشتے ہی رہیں گے ، نہ آپس کی پوچھ گچھ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The sounding of the Trumpet and the weighing of Deeds in the Scales Allah says: فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ ... Then, when the Trumpet is blown, Allah says that when the Trumpet is blown for the Resurrection, and the people rise from their graves, ... فَلَ أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَيِذٍ وَلاَ يَتَسَاءلُون there will be no kinship among them that Day, nor will they ask of one another. meaning that lineage will be of no avail on that Day, and a father will not ask about his son or care about him. Allah says: وَلاَ يَسْـَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً يُبَصَّرُونَهُمْ And no friend will ask a friend (about his condition), though they shall be made to see one another. (70:10-11) meaning, no relative will ask about another relative, even if he can see him and even if he is carrying a heavy burden. Even if he was the dearest of people to him in this world, he will not care about him or take even the slightest part of his burden from him. Allah says: يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَـحِبَتِهُ وَبَنِيهِ That Day shall a man flee from his brother. And from his mother and his father. And from his wife and his children. (80:34-36) Ibn Mas`ud said, "On the Day of Resurrection, Allah will gather the first and the last, then a voice will call out, `Whoever is owed something by another, let him come forth and take it.' And a man will rejoice if he is owed something or had been mistreated by his father or child or wife, even if it is little." This is confirmed in the Book of Allah, where Allah says: فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَإ أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَيِذٍ وَلاَإ يَتَسَاءلُون Then, when the Trumpet is blown, there will be no kinship among them that Day, nor will they ask of one another. This was recorded by Ibn Abi Hatim. فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَيِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

قبروں سے اٹھنے کے بعد جب جی اٹھنے کا صور پھونکا جائے گا اور لوگ اپنی قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے ، اس دن نہ تو کوئی رشتے ناتے باقی رہیں گے ۔ نہ کوئی کسی سے پوچھے گا ، نہ باپ کو اولاد پرشفقت ہوگی ، نہ اولاد باپ کا غم کھائے گی ۔ عجب آپا دھاپی ہوگی ۔ جیسے فرمان ہے کہ کوئی دوست کسی دوست سے ایک دوسرے کو دیکھنے کے باوجود کچھ نہ پوچھے گا ۔ صاف دیکھے گا کہ قریبی شخص ہے مصیبت میں ہے ، گناہوں کے بوجھ سے دب رہا ہے لیکن اس کی طرف التفات تک نہ کرے گا ، نہ کچھ پوچھے گا آنکھ پھیرلے گا جیسے قرآن میں ہے کہ اس دن آدمی اپنے بھائی سے ، اپنی ماں سے ، اپنے باپ سے ، اپنی بیوی سے ، اور اپنے بچوں سے بھاگتا پھرے گا حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا پھر ایک منادی ندا کرے گا جس کسی کا کوئی حق کسی دوسرے کے ذمہ ہو وہ بھی آئے اور اس سے اپنا حق لے جائے ۔ تو اگرچہ کسی کا کوئی حق باپ کے ذمہ یا اپنی اولاد کے ذمہ یا اپنی بیوی کے ذمہ ہو وہ بھی خوش ہوتا ہوا اور دوڑتا ہوا آئے گا اور اپنے حق کے تقاضے شروع کرے گا جسے اس آیت میں ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو چیز اسے نہ خوش کرے وہ مجھے بھی ناخوش کرتی ہے اور جو چیز اسے خوش کرے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے قیامت کے روز سب رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے لیکن میرا نسب میرا سبب میری رشتہ داری نا ٹوٹے گی اس حدیث کی اصل بخاری مسلم میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے اسے ناراض کرنے والی اور اسے ستانے والی چیزیں مجھے ناراض کرنے والی اور مجھے تکلیف پہنچانے والی ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا لوگوں کا کیا حال ہے کہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ بھی آپ کی قوم کو کوئی فائدہ نہ دے گا واللہ میرے رشتہ دنیا میں اور آخرت میں ملا ہوا ہے ۔ اے لوگو! میں تمہارا میرسامان ہوں ، جب تم آؤ گے ، ایک شخص کہے گا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فلاں بن فلاں ہوں ، میں جواب دونگا کہ ہاں نسب تو میں نے پہچان لیا لیکن تم لوگوں نے میرے بعد بدعتیں ایجاد کی تھیں اور ایڑیوں کے بل مرتد ہوگے تھے ۔ مسند امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہم نے کئی سندوں سے یہ روایت کی ہے کہ جب آپ نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کیا تو فرمایا کرتے تھے واللہ مجھے اس نکاح سے صرف یہ غرض تھی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر سبب ونسب قیامت کے دن کٹ جائے گا مگر میرا نسب اور سبب یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے ان کا مہر از روئے تعظیم وبزرگی چالیس ہزار مقرر کیا تھا ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل رشتے ناتے اور سسرالی تعلقات بجز میرے ایسے تعلقات کے قیامت کے دن کٹ جائیں گے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جہاں میرا نکاح ہوا ہے اور جس کا نکاح میرے ساتھ ہوا ہے وہ سب جنت میں بھی میرے ساتھ رہیں تو اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی ۔ جس کی ایک نیکی بھی گناہوں سے بڑھ گئی وہ کامیاب ہوگیا جہنم سے آزاد اور جنت میں داخل ہوگیا اپنی مراد کو پہنچ گیا اور جس سے ڈرتا تھا اس سے بچ گیا ۔ اور جس کی برائیاں بھلائیوں سے بڑھ گئیں وہ ہلاک ہوئے نقصان میں آگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن ترازو پر ایک فرشتہ مقرر ہوگا جو ہر انسان کو لاکر ترازو کے پاس بیچوں بیچ کھڑا کرے گا ، پھر نیکی بدی تولی جائے گی اگر نیکی بڑھ گئی تو باآواز بلند اعلان کرے گا کہ فلاں بن فلاں نجات پا گیا اب اس کے بعد ہلاکت اس کے پاس بھی نہیں آئے گی اور اگر بدی بڑھ گئی تو ندا کرے گا اور سب کو سنا کر کہے گا کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہلاک ہوا اب وہ بھلائی سے محروم ہوگیا اس کی سند ضعیف ہے داؤد ابن حجر راوی ضعیف و متروک ہے ایسے لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے دوزخ کی آگ ان کے منہ جھلس دے گی چہروں کو جلادے گی کمر کو سلگا دے گی یہ بےبس ہوں گے آگ کو ہٹا نہ سکیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پہلے ہی شعلے کی لپٹ ان کا سارے گوشت پوست ہڈیوں سے الگ کرکے ان کے قدموں میں ڈال دے گی وہ وہاں بدشکل ہوں گے دانت نکلے ہوں گے ہونٹ اوپر چڑھا ہوا اور نیچے گرا ہوا ہوگا اوپر کا ہونٹ تو تالو تک پہنچا ہوا ہوگا اور نیچے کا ہونٹ ناف تک آجائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1011محشر کی ہولناکیوں کی وجہ سے ابتداء ایسا ہوگا، بعد میں وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی اور ایک دوسرے سے پوچھ گچھ بھی کریں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٨] جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو یہی دن مردوں کا اپنی قبروں سے جی کر اٹھنے اور اللہ کے حضور حاضر کئے جانے کا دن ہوگا اسی دن کو قیامت کا دن کہا جاتا ہے یہ دن چونکہ ہمارے موجودہ حساب کے مطابق پچاس ہزار برس کا ہوگا۔ لہذا اس مدت میں انسان کو بہت سی قسم کے حالات اور واقعات سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس آیت میں جو کیفیت بیان کی گئی ہے۔ وہ زندہ ہونے کے بعد ابتدائی کیفیت ہے۔ اس وقت دہشت اور ہولناکی اس قدر زیادہ ہوگی کہ ہر ایک کو اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی سب رشتہ داریاں بھول جائیں گے۔ پھر جبکہ ہر آدمی اپنے حقیقی رشتہ داروں سے بھی الگ رہنے اور دور بھاگنے کی کوشش کرے گا ایک دوسرے کا حال پوچھتا تو دور کی بات ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ : نسب سے مراد وہ قرابت ہے جو ولادت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ ” بَيْنَهُمْ “ سے مراد کفار ہیں، کیونکہ پیچھے انھی کا ذکر آ رہا ہے۔ عالم برزخ کے بعد جب قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کے لیے صور میں پھونکا جائے گا تو کفار کی باہمی تمام نسبی قرابتیں ختم ہوجائیں گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کسی کا باپ یا بیٹا یا بھائی نہیں رہے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس نسبی تعلق کی وجہ سے جو ایک دوسرے کی مدد ہوتی ہے، وہ نہیں ہوگی، جیسا کہ فرمایا : (يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ 34؀ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ 35؀ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيْهِ 36؀ۭلِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ ) [ عبس : ٣٤ تا ٣٧ ] ” جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا۔ اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بےپروا بنا دے گی۔ “ یہ حال مجرموں کا ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِيْ مِنْ عَذَابِ يَوْمِىِٕذٍۢ بِبَنِيْهِ 11 ۝ ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِيْهِ 12 ۝ ۙوَفَصِيْلَتِهِ الَّتِيْ تُـــــْٔوِيْهِ 13 ۝ ۙوَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ ثُمَّ يُنْجِيْهِ ) [ المعارج : ١١ تا ١٤ ] ” مجرم چاہے گا کاش کہ اس دن کے عذاب سے (بچنے کے لیے) فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو۔ اور اپنے خاندان کو، جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔ اور ان تمام لوگوں کو جو زمین میں ہیں، پھر اپنے آپ کو بچا لے۔ “ یہ معاملہ صور پھونکنے کے وقت ہوگا۔ بعد میں بھی کفار کا حال یہی رہے گا۔ البتہ ایمان والوں کو ان کی نسبی قرابت کا فائدہ ہوگا اور دوستی کا بھی، جیسا کہ فرمایا : (وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ) [ الطور : ٢١ ] ” اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ۔ ان کے پیچھے چلی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان سے ان کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے۔ “ اور دوستی کے متعلق فرمایا : (اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ) [ الزخرف : ٦٧ ] ” سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، مگر متقی لوگ۔ “ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ : یہاں ایک سوال ہے کہ یہاں فرمایا کہ وہ ایک دوسرے سے سوال نہیں کریں گے، جب کہ دوسری جگہ فرمایا : (وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ ) [ الصافآت : ٢٧ ] ” اور ان کے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے، ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ “ ایسا کیوں ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا دن ہے۔ اس میں مختلف مواقع اور مختلف حالتیں ہوں گی، کسی حالت میں ایک دوسرے سے سوال کریں گے اور کسی میں نہیں کریں گے۔ لہٰذا ان آیات میں تعارض نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ‌ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ Thereafter, when the Sur (the trumpet) is blown, there are no ties of kinship between them, - 23:101. On the Day of Judgment the صُور (trumpet) will be sounded twice. The result of the first sound will be that everything - the earth, the skies and every living thing in between will perish and when the second sound is given, every dead thing will come back to life. This is clearly mentioned in the Qur&an in the verse ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَ‌ىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُ‌ونَ (Then it shall be blown again, and lo! They shall stand beholding - 39:68). There is difference of opinion whether in the present verse the reference is to the first call or to the second call. According to Ibn Jubair, Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) thought that it refers to the first call. On the other hand Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud رضی اللہ تعالیٰ عنہما says that reference here is to second call and, according to ` Ata (رح) as Sayyidna ` Abbas (رض) also supports this view and which has also been adopted in Tafsir Mazhari. Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) says that on the Day of Judgment every man and woman will be assembled in the gathering place (مَحشَر) where a herald appointed by Allah will identify each person by his name and his father&s name and invite any one from amongst those present who has a claim against him to come forward and receive it. This proclamation will please everyone - a father having a claim against his son, a wife having a claim against her husband, a sister having a claim against her brother (and vice versa) - and they will all come forward to receive their dues. The present verse describes this situation: فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ (There are no ties of kinship between them - 23:101). The same situation has been described in the verse يَوْمَ يَفِرُّ‌ الْمَرْ‌ءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (Upon the day when a man shall flee from his brother, his mother, his father, his consort, his sons, - 80:34). Difference between the condition of believers and infidels in mahshar (gathering place on the Day of Judgment) The condition described above will apply to the unbelievers only who in their selfishness will abandon their dear and near relatives. As for the believers, Allah has said أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّ‌يَّتَهُمْ (We shall join their seed with them. - 52:21) which means that the children of good Muslims, if they themselves are believers also, will be united with their parents. According to a hadith the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"On the Day of Judgment when everybody will be dry with thirst, Muslim children who had died as minors will come out carrying water from Paradise, and when people will ask them for it, they will reply that water is for their parents only whom they are searching|". The gist of this discussion is that whereas in the case of infidels no one will be of any help to each other nor will anyone recognize the dear ones in mahshar, the case of Muslim will be exactly the opposite. The believers will help each other and will also intercede for other Muslims. There is also a hadith which Ibn ` Asakir has related on the authority of Sayyidna ` Umar (رض) in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"On the Day of Judgment all relationships arising out of a common ancestry or from marriage ties will be severed except in my own case.|" Scholars have interpreted this verse to mean that all the Muslims of the Ummah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are part of his family, because he is the father of the Ummah and his wives are the mothers. وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (nor will they question one another - 23:101). However their is another verse وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (And advance one upon another, asking each other question - 37:27). Discussing this latter verse Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) says that in mahshar there will be different stations, and the conditions in each station will be different. There will be a time when nobody will speak to anybody, but in another station when the terror which earlier overwhelmed the gathering abates, people will converse with one another. (Mazhari)

خلاصہ تفسیر پھر جب (قیامت کا روز ہوگا اور) صور پھونکا جاوے گا تو (ایسی ہول وہیبت میں گرفتار ہوں گے کہ) ان میں (جو) باہمی رشتے ناتے (تھے) اس روز (وہ بھی گویا) نہ رہیں گے (یعنی کوئی کسی کی ہمدردی نہ کرے گا جیسے اجنبی اجنبی ہوتے ہیں) اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا (کہ بھائی تم کس حالت میں ہو، غرض نہ رشتہ ناتا کام آوے گا نہ دوستی اور تعارف، پس وہاں کام کی چیز ایک ایمان ہوگا جس کی عام شناخت کے لئے کہ سب پر ظاہر ہوجاوے ایک ترازو کھڑی کی جاوے گی اور اس سے اعمال و عقائد کا وزن ہوگا) سو جس شخص کا پلہ (ایمان کا) بھاری ہوگا (یعنی وہ مومن ہوگا) تو ایسے لوگ کامیاب (یعنی نجات پانے والے) ہوں گے (اور مذکور ہول وہیبت کے حالات کہ نہ کسی کا رشتہ کام آوے نہ دوستی اور نہ کوئی کسی کو پوچھے کہ کس حال میں ہو، یہ ان مومنین کو پیش نہ آئیں گے لقولہ تعالیٰ لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ ۔ الایة) اور جس شخص کا پلہ (ایمان کا) ہلکا ہوگا (یعنی وہ کافر ہوگا) سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا اور جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے ان کے چہروں کو (اس جہنم کی) آگ جھلسی ہوگی اور اس (جہنم) میں ان کے منہ بگڑے ہوں گے (اور ان سے حق تعالیٰ بالواسطہ یا بلا واسطہ ارشاد فرما ویں گے کہ) کیوں کیا میری آیتیں (دنیا میں) تم کو پڑھ کر سنائی نہیں جایا کرتی تھیں، اور تم ان کو جھٹلایا کرتے تھے (یہ اس کی سزا مل رہی ہے) وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب (واقعی) ہماری بدبختی نے ہم کو (ہمارے ہاتھوں) گھیر لیا تھا اور (بیشک) ہم گمراہ لوگ تھے (یعنی ہم جرم کا اقرار اور اس پر ندامت و معذرت کا اظہار کر کے درخواست کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب ہم کو اس (جہنم) سے (اب) نکال دیجئے (اور دوبارہ دنیا میں بھیج دیجئے لقولہ تعالیٰ فی الم السجدة فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا) پھر اگر ہم دوبارہ (ایسا) کریں تو ہم بیشک پورے قصور وار ہیں (اس وقت ہم کو خوب سزا دیجئے اور اب چھوڑ دیجئے) ارشاد ہوگا کہ اسی (جہنم) میں راندے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات مت کرو (یعنی ہم نہیں منظور کرتے، کیا تم کو یاد نہیں رہا کہ) میرے بندوں میں ایک گروہ (ایمانداروں کا) تھا جو (بیچارے ہم سے) عرض کیا کرتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو ہم کو بخش دیجئے اور ہم پر رحمت فرمائیے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں سو تم نے (محض اس بات پر جو ہر طرح قابل قدر تھی) ان کا مذاق مقرر کیا تھا (اور) یہاں تک (اس کا مشغلہ کیا) کہ ان کے مشغلہ نے تم کو ہماری یاد بھی بھلا دی اور تم ان سے ہنسی کیا کرتے تھے (سو ان کا تو کچھ نہ بگڑا چند روز کی کلفت تھی کہ صبر کرنا پڑا جس کا یہ نتیجہ ملا کہ) میں نے ان کو آج ان کے صبر کا یہ بدلہ دیا، کہ وہی کامیاب ہوئے (اور تم اس ناکامی میں گرفتار ہوئے مطلب جواب کا یہ ہوا کہ تمہارا قصور اس قابل نہیں کہ سزا کے وقت اقرار کرنے سے معاف کردیا جاوے کیونکہ تم نے ایسا معاملہ کیا جس سے ہمارے حقوق کا بھی اتلاف ہوا اور حقوق العباد کا بھی۔ اور عباد بھی کیسے ہمارے مقبول اور محبوب جو ہم سے خصوصیت خاصہ رکھتے تھے کیونکہ ان کو سخریہ بنانے میں ان کی ایذاء کہ اضاعة حق العبد ہے اور تکذیب حق جو منشا سخریہ کا ہے کہ اضاعة حق اللہ ہے دونوں لازم آئے پس اس کی سزا کے لئے دوام اور تمام ہی مناسب ہے اور مومنین کو ان کے سامنے جنت کی نعمتوں سے کامیاب کرنا یہ بھی ایک سزا ہے کفار کیلئے کیونکہ اعداء کی کامیابی سے روحانی ایذا ہوتی ہے یہ تو جواب ہوگیا ان کی درخواستوں کا آگے تنبیہ ہے ان کے بطلان اعتقاد و مشرب پر تاکہ ذلت پر ذلت و حسرت پر حسرت ہونے سے عقوبت میں شدت ہو، اس لئے) ارشاد ہوگا کہ (اچھا یہ بتلاؤ) تم برسوں کے شمار سے کس قدر مدت زمین میں رہے ہوگے (چونکہ وہاں کے ہول وہیبت سے ان کے ہوش و حواس گم ہوچکے ہوں گے اور اس دن کا طول بھی پیش نظر ہوگا) وہ جواب دیں گے کہ (برس کیسے، بہت رہے ہوں گے تو) ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ہم رہے ہوں گے (اور سچ یہ ہے کہ ہم کو یاد نہیں) سو گننے والوں سے (یعنی فرشتوں سے کہ اعمال و اعمار سب کا حساب کرتے تھے) پوچھ لیجئے، ارشاد ہوگا کہ (یوم اور بعض یوم تو غلط ہے مگر اتنا تو تمہارے اقرار سے جو کہ صحیح بھی ہے ثابت ہوگیا کہ) تم (دنیا میں) تھوڑی ہی مدت رہے (لیکن) کیا خوب ہو تاکہ تم (یہ بات اس وقت) سمجھتے ہوتے (کہ دنیا کی بقا ناقابل اعتبار ہے اور اس کے سوا اور کوئی دار القرار ہے مگر وہاں تو بقاء کو دنیا ہی میں منحصر سمجھا اور اس عالم کا انکار کرتے رہے وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ ، اور اب جو غلطی ظاہر ہوئی اور صحیح سمجھے تو بیکار، اور غلطی اعتقاد پر تنبیہ کے بعد آگے پھر اس اعتقاد پر زجر ہے، جو بطور خلاصہ مضمون فرد قرار داد جرم کے ہے کہ) ہاں تو کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تم کو یوں ہی مہمل (خالی از حکمت) پیدا کردیا ہے اور یہ (خیال کیا تھا) کہ تم ہمارے پاس نہیں لائے جاؤ گے (مطلب یہ کہ جب ہم نے آیات میں جن کا صدق دلائل صحیحہ سے ثابت ہے قیامت اور اس میں اعمال کے بدلے کی خبر دی تھی تو معلوم ہوگیا تھا کہ مکلفین کی تخلیق کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کا منکر ہونا کتنا بڑا امر منکر تھا) ۔ معارف و مسائل فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ ، قیامت کے روز صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا نفخہ اولیٰ یعنی پہلے صور کا یہ اثر ہوگا کہ سارا عالم زمین و آسمان اور جو اس کے درمیان ہے فنا ہوجائے گا اور نفخہ ثانیہ سے پھر سارے مردے زندہ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے قرآن کریم کی آیت ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ اس آیت میں صور کا نفخہ اولیٰ مراد ہے یا نفخہ ثانیہ، اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس سے بروایت ابن جبیر منقول ہے کہ اس آیت میں مراد نفخہ اولیٰ ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا اور بروایت عطا یہی بات حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے کہ مراد اس جگہ نفخہ ثانیہ ہے۔ تفسیر مظہری میں اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول یہ ہے کہ قیامت کے روز ایک ایک بندے مرد و عورت کو محشر کے میدان میں لایا جائے گا اور تمام اولین و آخرین کے اس بھرے مجمع کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ایک منادی یہ نداء کرے گا کہ یہ شخص فلاں بن فلاں ہے اگر کسی کا کوئی حق اس کے ذمہ ہے تو سامنے آجائے اس سے اپنا حق وصول کرلے۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ بیٹا اس پر خوش ہوگا کہ میرا حق باپ کے ذمہ نکل آیا، اور باپ کا کوئی حق بیٹے پر ہوا تو باپ خوش ہوگا کہ اس سے وصول کروں گا اسی طرح میاں بیوی اور بھائی بہن جس کا جس پر کوئی حق ہوگا یہ منادی سن کر اس سے وصول کرنے پر آمادہ اور خوش ہوگا، یہی وہ وقت ہے جس کے متعلق اس آیت مذکورہ میں آیا ہے فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ ، یعنی اس وقت باہمی نسبی رشتے اور قرابتیں کام نہ آئیں گی کوئی کسی پر رحم نہ کرے گا، ہر شخص کو اپنی اپنی فکر لگی ہوگی یہی مضمون اس آیت کا ہے يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ ، وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ ، وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيْهِ ، یعنی وہ دن جس میں ہر انسان اپنے بھائی سے، ماں اور باپ سے، بیوی اور اولاد سے دور بھاگے گا۔ محشر میں مومنین اور کفار کے حالات میں فرق : مگر یہ حال کافروں کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ اوپر اس کا ذکر موجود ہے مومنین کا یہ حال نہیں ہوگا کیونکہ مومنین کا حال خود قرآن نے یہ ذکر کیا ہے اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ، یعنی مومنین صالحین کی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ (بشرط ایمان) اپنے آباء صالحین کے ساتھ لگا دیں گے اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز جس وقت محشر میں سب پیاسے ہوں گے تو مسلمان بچے جو نابالغی کی حالت میں مر گئے تھے وہ جنت کا پانی لئے ہوئے نکلیں گے لوگ ان سے پانی مانگیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو اپنے ماں باپ کو تلاش کر رہے ہیں یہ پانی ان کے لئے ہے (رواہ ابن ابی الدنیا عن عبداللہ بن عمر و عن ابی ذر۔ مظہری) اسی طرح ایک صحیح حدیث میں جس کو ابن عساکر نے بسند صحیح حضرت ابن عمر سے نقل کیا ہے یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہر نسبی تعلق یا زوجیت کے تعلق سے جو رشتے پیدا ہوں گے وہ سب منقطع ہوجائیں گے ( کوئی کسی کے کام نہ آوے گا) بجز میرے نسب اور میری زوجیت کے رشتہ کے، علماء نے فرمایا کہ اس نسب نبوی میں ساری امت کے مسلمان بھی داخل ہیں کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے باپ اور آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ رشتہ اور دوستی کا کوئی تعلق کسی کے کام نہ آنا یہ حال محشر میں کافروں کا ہوگا مومنین ایک دوسرے کی شفاعت اور مدد کریں گے اور ان کے تعلقات ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ، یعنی آپس میں کوئی کسی کی بات نہ پوچھے گا اور دوسری ایک آیت میں جو یہ مذکور ہے وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ ، یعنی محشر میں لوگ باہم ایک دوسرے سے سوالات کریں گے اور حالات پوچھیں گے۔ اس کے بارے میں حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ محشر میں مختلف موقف ہوں گے ہر موقف کا حال مختلف ہوگا۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ کوئی کسی کو نہ پوچھے گا پھر کسی موقف میں جب وہ ہیبت اور ہول کا غلبہ کم ہوجائے گا تو باہم ایک دوسرے کا حال بھی دریافت کریں گے۔ (مظھری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَہُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ۝ ١٠١ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ صور الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران/ 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» «4» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» «1» ، وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن «3» وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ «4» ، وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ «5» ، وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش «6» أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «7» بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «8» من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع . ( ص و ر ) الصورۃ : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔ نسب النَّسَب والنِّسْبَة : اشتراک من جهة أحد الأبوین، وذلک ضربان : نَسَبٌ بالطُّول کالاشتراک من الآباء والأبناء . ونَسَبٌ بالعَرْض کالنِّسْبة بين بني الإِخْوة، وبني الأَعْمام . قال تعالی: فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان/ 54] . وقیل : فلان نَسِيبُ فلان . أي : قریبه، وتُستعمَل النّسبةُ في مقدارَيْنِ مُتجانِسَيْنِ بَعْضَ التَّجَانُسِ يختصُّ كلّ واحد منهما بالآخر، ومنه : النَّسِيبُ ، وهو الانْتِسَابُ في الشِّعْر إلى المرأة بذِكْر العشق، يقال : نَسَبَ الشاعر بالمرأة نَسَباً ونَسِيباً. ( ن س ب ) النسب والنسبۃ کے معنی ابواین میں سے کسی ایک کی طرف سے رشتہ درای کے ہیں اور نسب دوقسم پر ہے نسب بالطول یعنی وہ رشتہ جو آباء اور ابناء کے درمیان پایا جاتا ہے : ۔ دوم نسب بالعرض یعنی وہ رشتہ جو بنو الا عمام یعنی عم زاد بھائیوں کے درمیان ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان/ 54] پھر اس کو صاحب نسب اور صاحب قرابت دامادی بنایا ۔ فلان نسیب فلان وہ فلاں کا قریبی رشتہ دار ہے اور نسبۃ کے معنی ان دو مقدار روں کے درمیان باہمی مناسبت کے بھی آتے ہیں جن میں کسی قسم کی مجانست ہو اسی سے نسیب کا لفظ ہے جس کے معنی اشعاری میں عورت کے محاسن ذکر کر کے اس کے ساتھ عشق کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ اور یہ سب انشا عر بالمرء ۃ نسبا ونسیبا کا مصدر ہے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠١) پھر جب بعث بعد الموت کے لیے صور پھونکا جائے گا تو ان میں باہمی جو رشتے ناتے تھے قیامت کے دن وہ بھی باقی نہیں رہیں گے اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَءِذٍ وَّلَا یَتَسَآءَ لُوْنَ ) ” اس دن ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور کوئی کسی کاُ پر سان حال نہیں ہوگا : (یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ ) ( عبس) ” جس دن انسان بھاگے گا اپنے بھائی سے ‘ اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے ‘ اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ جس دن ان میں سے ہر شخص کی ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بےپروا کر دے گی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

94. It does not mean that the father will not remain father and the son will not remain son, etc. It only means that they will not be able to help each other, nor shall they be able to inquire about each other as father and son, for each one will be worried and anxious about his own plight. See (Surah Al-Maarij, Ayats 10-14), and (Surah Abasa, Ayats 34- 37).

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :94 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باپ باپ نہ رہے گا اور بیٹا بیٹا نہ رہے گا ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس وقت نہ باپ بیٹے کے کام آئے گا نہ بیٹا باپ کے ۔ ہر ایک اپنے حال میں کچھ اس طرح گرفتار ہو گا کہ دوسرے کو پوچھنے تک کا ہوش نہ ہو گا کجا کہ اس کے ساتھ کوئی ہمدردی یا اس کی کوئی مدد کر سکے ۔ دوسرے مقامات پر اس مضمون کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ : وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْماً ، کوئی جگری دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا ، ( المعارج ، آیت 10 ) اور یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْ مَئِذٍ بِبَنِیْہِ وَصَاحِبَتِہ وَاَخِیْہِ وَفَصِیْلَتَہِ الَّتِیْ تُؤْوِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعاً ثُمَّ یُنْجِیْہِ ، اس روز مجرم کا جی چاہے گا کہ اپنی اولاد اور بیوی اور بھائی اور اپنی حمایت کرنے والے قریب ترین کنبے اور دنیا بھر کے سب لوگوں کو فدیے میں دے دے اور اپنے آپ کو عذاب سے بچا لے ( المعارج آیات 11 تا 14 ) اور یَوْمَ یَفِرُّ المَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہ وَبَنِیہ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنھُمْ یَوْمَئِذٍ شَانٌ یُّغْنِیْہِ ، وہ دن کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں اور باپ اور بیوی اور اولاد سے بھاگے گا ۔ اس روز ہر شخص اپنے حال میں ایسا مبتلا ہو گا کہ اسے کسی کا ہوش نہ رہے گا ( عبس ، آیات 34 تا 37 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

32: دنیا میں رشتہ دار اور دوست ایک دوسرے کے بارے میں یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ قیامت کا منظر اتنا ہولناک ہوگا کہ ہر شخص کو اپنی فکر پڑی ہوگی، اور اسے اتنی فرصت نہیں ہوگی کہ وہ رشتہ داروں اور ملاقاتیوں کا حال معلوم کرے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠١۔ ١٠٤:۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اور عبد اللہ بن مسعود کا اس باب میں اختلاف ١ ؎ ہے کہ ان آیتوں میں پہلے صور کا ذکر ہے یا دوسرے کا۔ رفع اس اختلاف کا یہ ہے کہ یہاں صور کے ذکر کے بعد عملوں کے تولے جانے کا تذکرہ فرمایا ہے اور اس پر سب سلف کا اتفاق ہے کہ عملوں کا تولا جانا دوسرے صور کے بعد ہوگا اس سبب سے عبداللہ بن مسعود کا قول قوی معلوم ہوتا ہے کہ ان آیتوں میں دوسرے صور کا ذکر ہے ترمذی ‘ ابوداؤد کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی صحیح روایت سورة الاعراف میں گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ قیامت کے دن میزان میں خوش اخلاقی بڑی بھاری چیز ٹھہرے گی ‘ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اعمال کو ایک طرح کا ہلکا اور بھاری جسم دیا جاوے گا ‘ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اعمال کو جسم دیا جاوے گا اور اس جسم کو تولے جانے کے بعد جن کے نیک عملوں کا پلڑا بھاری ہوگا ‘ وہ جنتی قرار پاویں گے اور جن کے بدعملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ دوزخ میں جاویں گے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ آخر کو دوزخ سے نکل کر جنت میں جاوے گا ‘ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیتوں میں جن لوگوں کے ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا ذکر ہے قیامت کے دن یہ وہی لوگ ہوں گے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہ ہوگا ‘ اسی واسطے آگے کی آیت میں فرمایا ہے کہ یہ لوگ قرآن کی آیتوں کو جھٹلانے والے ہوں گے جن لوگوں کے نیک عمل اور بدعمل برابر ہوں گے ان کا ذکر ان آیتوں میں نہیں ہے لیکن سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار ہے جسکا نام اعراف ہے جن لوگوں کے نیک عمل اور بدعمل برابر ہوں گے ان کو جنتیوں اور دوزخیوں کے فیصلہ تک اس دیوار پر ٹھہرایا جاوے گا ‘ پھر جنتیوں اور دوزخیوں کے فیصلہ کے بعد یہ اعراف والے بھی جنت میں جاویں گے۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں انس بن مالک سے روایت ٢ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی پر ظلم زیادتی کرنے کی فریاد کر کے اس کی سب نیکیاں لے لے گا ‘ اس کے بعد بھی ظلم زیادتی کا معاوضہ پورا نہ ہوگا تو اپنے گناہ اس ظالم بھائی پر ڈال دینے کی خواہش کرے گا ‘ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ١ ؎ ہے ‘ حشر کے دن رشتہ داروں کے آپس میں پڑجانے کا ذکر جو آیتوں میں ہے اس کا حال اس حدیث سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ صحیح سند سے مسند امام احمد ‘ ترمذی ‘ مستدرک حاکم وغیرہ میں ابوسعید خدری سے روایت ٢ ؎ ہے جس کا حاصل وہی ہے جو شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں بیان کیا ہے کہ جلتے جلتے تمام بدن سوج کر نیچے کا ہونٹ ناف تک لٹک پڑے گا اور اوپر کا ہونٹ سر پر جا چڑھے گا۔ یہ حدیث وَھُمْ فِیْھَا کَا لِحُوْنَ کی گویا تفسیر ہے ‘ دوزخیوں کی زبان کے گھسٹنے اور لوگوں کو اس کے روندنے کا ذکر جو شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں کیا ہے یہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کا خلاصہ ہے یہ حدیث ترمذی ‘ بیہقی وغیرہ میں ٣ ؎ ہے اور اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابوالمخارق ہے جس کو ترمذی نے غیر مشہور بتلایا ہے لیکن یہ ابو المخارق الو العجلان کی کنیت سے زیادہ مشہور ہے اور امام بخاری کے مفرد کے معتبر راوی حمید بن ابی غنیہ وغیرہ نے ابو العجلان سے روایت لی ہے اس واسطے ابو العجلان کو بالکل غیر مشہور نہیں کہا جاسکتا۔ (١ ؎ فتح البیان ص ٢٢٩ ج ٣ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٠٥ ج ٤ فصل فی ذکر الحساب وغیرہ ؎ فتح الباری ص ١٦٧ ج ٦ باب ) (١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٠٥ ج ٤ فصل فی ذکر الحساب وغیرہ ) (٢ ؎ الدر المنثور ص ١٦ ج ٥ ) (٣ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٨٤ ج ٤ فضل فی عظم اہل النار )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:101) نفخ۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ نفخ مصدر (باب نصر) پھونکا جائے گا۔ نفخ۔ ینفخ پھونکنا۔ نفخۃ ونفخۃ ایک بار پھونکنا۔ پیٹ پھولنا۔ انساب۔ نسب کی جمع۔ قرابتیں۔ رشتہ داریاں۔ رشتے ناطے۔ بوجہ عمل لا منصوب ہے۔ یتساء لون۔ مضارع جمع مذکر غائب تسائل (تفاعل) سے مصدر۔ باہم پر ساں حال نہ ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یعنی وہ اپنے رشتے ناتوں پر فخر نہ کریں گے یا رشتے ناتے کچھ فائدہ نہ دے سکیں گے۔ حدیث میں ہے : کل نسب و سبب منقطع الائسبی و سببی۔ کہ میرے نسب اور تعلق کے بغیر سب تعلقات منقطع ہوجائیں گے۔ اس حدیث کی بنا پر حضرت عمر (رض) نے ام کلثوم (رض) بنت علی (رض) بن ابی طالب سے چالیس ہزار مہر کے بدلے نکاح کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نسب اس عموم سے مستثنیٰ ہے (ابن کثیر) 4 ۔ دوسری آیت میں ہے : وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآئَ لُوْنَ (صافات :27) مگر قیامت کے دن مختلف مواقف ہونگے اور ان میں مختلف حالتیں ہوں گی۔ کسی حالت میں ایک دوسرے سے سوال کرینگے اور کسی میں نہیں کرینگے۔ لہٰذا ان آیات میں تعارض نہیں ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی کوئی کسی کی ہمدردی نہ کرے گا۔ 3۔ غرض نہ رشتہ ناتا کام آوے گا، نہ دوستی اور تعارف بس وہاں کام کی چیز ایک ایمان ہوگا جس کی عام شناخت کے لئے کہ سب پر ظاہر ہوجاوے ایک ترازو کھڑی کی جاوے گی، اور اس سے اعمال و عقائد کا وزن ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاذا۔۔۔۔۔ ولایتسآء لون (١٠١) ۔ تمام رابطے کٹ جائیں گے۔ وہ اقدار ختم ہوجائیں گی جن کے مطابق وہ دنیا میں زندگی بسر کرتے تھے۔ فلآ۔۔۔۔۔ یومئذ (٢٣ : ١٠١) ” اس دن ان کے درمیان کوئی رشتہ نہ رہے گا “۔ اس قدر خوف چھا جائے گا کہ سب خاموش ہوں گے۔ چپ کھڑے ہوں گے ‘ کوئی بات ہی نہ کرے گا۔ اب یہاں نہایت سرعت اور اختصار کے ساتھ حساب و کتاب کا میزان پیش کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (فَاِِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلاَ اَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَءِذٍ وَّلاَ یَتَسَاءَ لُوْنَ ) (سو جب صور پھونکا جائے گا تو ان کے درمیان اس دن نسب باقی نہ رہیں گے اور نہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں گے) اس میں یہ بتایا کہ برزخ کا زمانہ گزرنے کے بعد جب قیامت قائم ہوگی تو لوگوں کے آپس کے جو انساب یعنی رشتہ داریوں کے تعلقات تھے وہ اسی وقت ختم ہوجائیں گے یعنی کوئی کسی کو نہیں پوچھے گا بلکہ آپس میں ایک دوسرے سے دور ہونے اور بھاگنے کی راہ اختیار کریں گے۔ سورة عبس میں فرمایا ہے (یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ ) (جس روز آدمی اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے گا ان میں ہر شخص کو ایسا مشغلہ ہوگا جو اس کو اور کسی کی طرف متوجہ نہ ہونے دیگا) ۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے منقول ہے کہ جب دوسری بار صور پھونک دیا جائے گا تو مرد اور عورت جو بھی ہو اولین و آخرین سب کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور ایک پکارنے والا پکارے گا کہ یہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے جس کسی کا اس پر حق ہو اپنا حق لینے کے لیے آجائے یہ اعلان سن کر انسان کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس بات سے خوش ہوگا کہ اچھا ہے کہ میرے باپ پر یا میری اولاد پر یا میری بیوی پر یا میرے بھائی پر میرا کچھ حق نکل آئے تو وصول کرلوں (وہاں نیکی برائیوں کے ذریعہ لین دین ہوگا) اس کے بعد حضرت ابن مسعود نے آیت کریم (فَلَاْ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ ) کی تلاوت فرمائی۔ اور حضرت ابن مسعود سے (فَلَاْ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ ) کی ایک تفسیر یوں نقل کی گئی ہے کہ اس دن آپس میں نسب پر فخر نہ کریں گے جیسا کہ دنیا میں کرتے ہیں اور نہ آپس میں یوں سوال کریں گے کہ تم ہمارے رشتہ دار تھے بحق رشتہ داری یا بحق اللہ کچھ مدد کرو۔ یہ اشکال ہوتا ہے کہ یہاں (وَ لاَ یَتَسَآءَ لُوْنَ ) فرمایا اور دوسری آیت میں (وَ اَقْبَلَ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَتَسَآءَ لُوْنَ ) فرمایا ہے اس میں بظاہر تعارض سا ہے اگر (وَ لاَ یَتَسَآءَ لُوْنَ ) یہ تفسیر کی جائے کہ آپس میں ایک دوسرے سے مدد اور صلہ رحمی کا سوال نہیں کریں گے جو نسب کی بنیاد پر ہو اور مدد کے لیے کوئی کسی کا نہ پوچھے گا تو کوئی تعارض نہیں رہتا کیونکہ دوسری آیت میں جس سوال کا ذکر ہے وہ سوال رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں ہے، اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ قیامت کے احوال مختلف ہونگے تو آپس میں کچھ پوچھ پاچھ کرلیں گے۔ (معالم التنزیل بذیادتہ ج ٣ ص ٣١٨۔ ٣١٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

77:۔ ” فاذا نفخ الخ “ تخویف اخروی ہے نفخ سے نفخہ ثانیہ مراد ہے جب سب لوگ قبروں سے زندہ ہو کر نکلیں گے اس وقت عالم برزخ ختم ہوجائے گا اور عالم آخرت کی ابتدا ہوگی۔ دنیا میں تو لوگ خاندانی وجاہت پر فخر کرتے ہیں ایک دوسرے کے خاندان پوچھتے ہیں مگر اس جہان میں نسلی امتیاز کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی اور نہ کسی سے کوئی یہ پوچھے گا کہ تو کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہاں کوئی رشتہ کام نہیں آئے گا۔ اور نہ خاندانی فخر و غرور سے کچھ فائدہ ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(101) پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا اور صور میں پھونک ماری جائے گی تو اس دن لوگوں کے مابین نہ رشتے ناتے کا کوئی اثر باقی رہے گا اور نہ آپس میں کسی کو کوئی پوچھے گا یعنی ایسی افراتفری ہوگی کہ رشتے ناتے ایسے ہوجائیں گے جیسے کبھی تھے ہی نہیں وہاں مارے ہیبت کے ایک دوسرے سے بات ہی نہ کرسکے گا یہ شاید نفخہ ثانیہ کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے خوب فرمایا یعنی باپ بیٹا ایک دوسرے کے شامل نہیں ہر ایک سے اس کے عمل کا حساب ہے۔ 12۔ محمد بن علی (رح) نے فرمایا کہ تمام انساب منقطع ہوجائیں گے مگر ایک پروردگار کی عبودیت اور بندگی کی نسبت قائم رہے گی۔