فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٠٢﴾ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَـٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ﴿١٠٣﴾ So, the one whose scales (of good deeds) turn out to be heavy, then such people are the successful ones, [ 102] and the one whose scales turn out to be light, then such people are the ones who harmed their own selves; in Jahannam (Hell) they are to remain forever. (23: 102, 103) In this verse there is a comparison between perfect Muslims and the infidels and their deeds and the end which awaits them. There is further evidence in the Qur&an that in the case of perfect Muslims the pan in which evil deeds are placed for balancing will be totally empty, whereas in the case of unbelievers the pan in which the good deeds are placed will be empty. At another place the Qur’ an says فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا (We shall not assign to them any weight - 18:105) meaning that on the Day of Judgment, the infidels or their deeds will carry no weight. This is so far as the perfect Muslims and the infidels are concerned. As for the Muslims who have committed sins and whose good deeds and evil deeds will be placed in the two pans of the scale for weighing, there is no specific mention about them in the Qur&an which is, in general, silent about the punishment and reward of erring Muslims. Perhaps the reason for this is that during the period when the Qur&an was being revealed, all the Companions (رض) were upright men and generally free from major sins, but if somebody committed a sin incidentally, he repented and was forgiven by Allah. (Mazhari) There is a verse of the Qur&an which deals with people who have a mixed bag of good and evil deeds (خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا) (They had mixed a good deed with another that was evil - 9:102). Sayyidna ` Abbas (رض) says about such people that if their good deeds exceed their bad deeds, even by a single deed they will go to Paradise and if their evil deeds exceed their good by a single deed, they would go to Hell. But a believer Muslim will be sent to Hell for the purpose of purification only just as gold and iron and other metals are subjected to heating process to remove their impurities and as soon as they are purged of their sins, they will be admitted to Paradise. Also according to Sayyidna ` Abbas (رض) on the Day of Judgment the weighing scale will be so precise and finely tuned that it will be tipped by a grain of رَایٔی rye and a man whose good and bad deeds are of equal weight in the scale will join of (People of A` raf) and spend a while between heaven and hell waiting for a decision, but ultimately he too would go to Paradise (Ibn Abi Hatim, Mazhari). The above story of Sayyidna ` Abbas (رض) deals only with believers who have committed sins, and makes no mention of unbelievers. How will the deeds be weighed? There are different versions about the method for the weighing of deeds, and all of them are derived from hadith. One version is that the believers and the infidels will be weighed bodily in the scale of justice and the infidel will not be able to tilt the scale however obese and corpulent he may be (Bukhari and Muslim, quoting Abu Hurairah (رض) . Another version says that the scrolls on which their deeds are recorded will be weighed. Tirmidhi, Ibn Majah, Ibn Hayyan have taken this version from Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) . And according to a third version a man&s deeds which were weightless and intangible in this world, will be made solid on the Day of Judgment and will be placed on the scales and weighed. Tabrani has related this version from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) on the authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . The words and the text: of all these hadiths are given in full in Tafsir Mazhari which may be consulted if required. Abdur Razzaq has quoted a hadith in his book under the chapter on فَضلُ اِلعِلَم (the merits of knowledge) on the authority of Ibrahim Nakha` i which supports the just preceded version. This version has it that on the Day of Judgment a person&s deeds will be brought for weighing and when placed in the pan, they will fail to tilt it. Then something resembling clouds will be brought and put in the pan of good deeds which will then weigh down. The man will then be asked what was it that lent weight to the pan of his good deeds, but he will express his ignorance. Then he will be informed that the object in question was his learning which he used to impart to other people. Dhahabi has included a hadith in فَضلُ اِلعِلَم which he heard from Sayyidna ` Imran Ibn Husain (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"On the Day of Judgment the blood of the martyrs will be weighed against the ink of scholars (with which they wrote books on the science of religion) and the latter will be heavier than the former.|" (Mazhari) After giving the above mentioned versions about the weighing of deeds, Tafsir Mazhari says that it is not wholly inconceivable that man himself and his deeds may be weighed physically or that he and his record of deeds may be weighed together. Thus there is no inconsistency in these three versions.
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ، وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فِيْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ ، یعنی میزان عمل میں جس شخص کا نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا وہ ہی فلاح پانے والے ہیں اور جس کا پلہ نیکیوں کا ہلکا رہے گا تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں خود اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا اور اب وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنے والے ہیں۔ اس آیت میں مقابلہ صرف مومنین کاملین اور کفار کا ہے اور انہیں کے وزن اعمال کا اور ان میں سے ہر ایک کے انجام کا ذکر کیا گیا کہ مومنین کاملین کا پلہ بھاری ہوگا ان کو فلاح حاصل ہوگی، کفار کا پلہ ہلکا رہے گا ان کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا پڑے گا۔ اور قرآن کریم کی دوسری تصریحات سے ثابت ہے کہ اس جگہ مومنین کاملین کا پلہ بھاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پلے یعنی سیئات و معاصی کے پلے میں کوئی وزن ہی نہ ہوگا وہ خالی نظر آئے گا۔ اور کفار کا پلہ ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے پلہ میں کوئی وزن ہی نہ ہوگا بالکل خالی جیسا ہلکا رہے گا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا، یعنی ہم کفار اور ان کے اعمال کا قیامت کے دن کوئی وزن ہی قائم نہ کریں گے۔ یہ حال تو مومنین کاملین کا ہوا اور جن سے گناہ سرزد ہی نہیں ہوئے یا توبہ وغیرہ سے معاف کردیئے گئے وزن اعمال کے وقت سیئات کے پلہ میں ان کے نام پر کچھ نہ ہوگا۔ دوسری طرف کفار ہیں جن کے نیک اعمال بھی شرط ایمان موجود نہ ہونے کے سبب میزان عدل میں بےوزن ہوں گے۔ باقی رہا معاملہ گنہگار مسلمانوں کا جن کے نیکیوں کے پلہ میں بھی اعمال ہوں گے اور سیئات کے پلہ میں بھی اعمال ہوں گے ان کا ذکر اس آیت میں صراحةً نہیں کیا گیا بلکہ عموماً قرآن کریم میں گنہگار مسلمانوں کی سزا و جزاء سے سکوت ہی اختیار کیا گیا ہے اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ نزول قرآن کے زمانے میں جتنے مومنین صحابہ کرام تھے وہ سب کے سب عدول تھے یعنی عموماً تو وہ کبیرہ گناہوں سے پاک ہی رہے اور اگر کسی سے کوئی گناہ ہو بھی گیا تو اس نے توبہ کرلی توبہ سے معاف ہوگیا۔ (مظھری) قرآن مجید کی ایک آیت خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّـــًٔـا میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کے نیک و بداعمال مل جلے ہیں۔ ان کے متعلق حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قیامت کے روز ان لوگوں کے اعمال کا حساب اس طرح ہوگا کہ جس شخص کی نیکیاں اس کے گناہوں سے بڑھ جائیں خواہ ایک ہی نیکی کی مقدار سے بڑھے وہ جنت میں جائے گا اور جس شخص کی سیئات اور گناہ نیکیوں سے بڑھ جائیں خواہ ایک ہی گناہ کی مقدار سے بڑھے وہ دوزخ میں جائے گا مگر اس مومن گنہگار کا دوزخ میں داخلہ تطہیر اور پاک کرنے کے لئے ہوگا جیسے لوہے، سونے وغیرہ کو آگ میں ڈال کر میل اور زنگ سے صاف کیا جاتا ہے اس کا جہنم میں جانا بھی ایسا ہی ہوگا۔ جس وقت جہنم کی آگ سے اس کے گناہوں کا زنگ دور ہوجاوے گا تو جنت میں داخل ہونے کے قابل ہوجاوے گا، جنت میں بھیج دیا جائے گا اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قیامت کی میزان عمل ایسا صحیح وزن کرنے والی ہوگی کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کمی بیشی ہوگی تو پلہ جھک جائے گا یا اٹھ جائے گا۔ اور جس شخص کی حسنات اور سیئات میزان عمل میں بالکل برابر سرابر رہیں گے تو وہ اصحاب اعراف میں داخل ہوگا اور ایک زمانہ تک دوزخ اور جنت کے درمیان حکم ثانی کا منتظر رہے گا اور بالآخر اس کو بھی جنت میں داخلہ مل جائے گا (رواہ ابن ابی حاتم۔ مظہری) ابن عباس کے اس قول میں کفار کا ذکر نہیں صرف مومنین گنہگاروں کا ذکر ہے۔ وزن اعمال کی کیفیت : بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود انسان مومن و کافر کو میزان عدل میں رکھ کر تولا جائے گا۔ کافر کا کوئی وزن نہ ہوگا خواہ وہ کتنا ہی فربہ اور موٹا ہو۔ (بخاری و مسلم من حدیث ابی ہریرة) اور بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال تولے جائیں گے۔ ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے یہ مضمون حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے۔ اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے اعمال جو دنیا میں بےوزن بےجسم اعراض ہوتے ہیں محشر میں ان کو مجسم کر کے میزان عمل میں رکھا جائے گا وہ تولے جائیں گے۔ طبرانی وغیرہ نے یہ روایت ابن عباس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔ ان سب روایات حدیث کے الفاظ اور متن تفسیر مظہری میں مکمل موجود ہیں وہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی آخری قول کی تائید میں ایک حدیث عبد الرزاق نے فضل العلم میں ابراہیم نخعی سے نقل کی ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص کے اعمال وزن کے لئے لائے جائیں گے اور ترازو کے پلہ میں رکھے جائیں گے تو یہ پلہ ہلکا رہے گا پھر ایک چیز ایسی لائی جائے گی جو بادل کی طرح ہوگی اس کو بھی اس کے حسنات کے پلہ میں رکھ دیا جائے گا تو یہ پلہ بھاری ہوجائے گا اس وقت اس شخص سے کہا جائے گا کہ تم جانتے ہو یہ کیا چیز ہے (جس نے تمہاری نیکیوں کا پلہ بھاری کردیا) وہ کہے گا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ تو بتلایا جائے گا کہ یہ تیرا علم ہے جو تو لوگوں کو سکھایا کرتا تھا۔ اور ذہبی نے فضل علم میں حضرت عمران بن حصین سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز شہیدوں کا خون اور علماء کی روشنائی (جس سے انہوں نے علم دین کی کتابیں لکھی تھیں) باہم تولے جائیں گے تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون سے زیادہ نکلے گا۔ (مظھری) وزن اعمال کی کیفیت کے متعلق تینوں قسم کی روایات نقل کرنے کے بعد تفسیر مظہری میں فرمایا کہ اس میں کوئی بعد نہیں کہ خود انسان اور اس کے اعمال کو جسمانی شکل میں تولا جائے یا اس کے نامہ اعمال کو اس کے ساتھ رکھ کر تولا جائے اس لئے ان تینوں روایتوں میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں۔