Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 105

سورة المؤمنون

اَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ بِہَا تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾

[It will be said]. "Were not My verses recited to you and you used to deny them?"

کیا میری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت نہیں کی جاتی تھیں؟ پھر بھی تم انہیں جھٹلاتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Rebuking the People of Hell, their admission of Their Wretchedness and their Request to be brought out of Hell This is a rebuke from Allah to the people of Hell for the disbelief, sins, unlawful deeds and evil actions that they committed, because of which they were doomed. Allah says: أَلَمْ تَكُنْ ايَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ "Were not My Ayat recited to you, and then you used to deny them!" meaning, `I sent Messengers to you, and revealed Books, and cleared the confusion for you, so you have no excuse.' This is like the Ayat: لِيَلَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ in order that mankind should have no plea against Allah after the Messengers. (4:165) وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً And We never punish until We have sent a Messenger. (17:15) كُلَّمَا أُلْقِىَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَأ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ Every time a group is cast therein, its keeper will ask: "Did no warner come to you" Until His saying; فَسُحْقًا لاًّصْحَـبِ السَّعِيرِ (So, away with the dwellers of the blazing Fire!) (67:8-10)

مکمل آگاہی کے بعد بھی محروم ہدایت کافروں کو ان کے کفر اور گناہوں پر ایمان نہ لانے پر قیامت کے دن جو ڈانٹ ڈپٹ ہوگی ، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تمہاری طرف رسول بھیجے تھے ، تم پر کتابیں نازل فرمائی تھیں ، تمہارے شک زائل کردئیے تھے تمہاری کوئی حجت باقی نہیں رکھی تھی جیسے فرمان ہے کہ تاکہ لوگوں کا عذر رسولوں کے آنے کے بعد باقی نہ رہے ۔ اور فرمایا ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے ایک اور روایت میں ہے جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی اس سے وہاں کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آگاہ کرنے والے آئے نہ تھے ؟ اس وقت یہ حرماں نصیب لوگ اقرار کریں گے کہ بیشک تیری حجت پوری ہوگئی تھی لیکن ہم اپنی بدقسمتی اور سخت دلی کے باعث درست نہ ہوئے اپنی گمراہی پر اڑ گئے اور راہ راست پر نہ چلے ۔ اللہ اب تو ہمیں پھر دنیا کی طرف بھیج دے اگر اب ایسا کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں اور مستحق سزا ہیں ، جیسے فرمان ہے آیت ( فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ 11؀ ) 40-غافر:11 ) ہمیں اپنی تقصیروں کا اقرار ہے کیا اب کسی طرح بھی چھٹکارے کی راہ مل سکتی ہے ؟ لیکن جواب دیا جائے گا کہ اب سب راہیں بند ہیں ۔ دار فنا ہوگیا ، اب دار جزا ہے ۔ توحید کے وقت شرک کیا ، اب پچھتانے سے کیا حاصل ؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَكُنْ اٰيٰـتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِہَا تُكَذِّبُوْنَ۝ ١٠٥ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) اور ان سے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ کیوں کیا میری آیات یعنی قرآن کریم دنیا میں تمہیں پڑھ کر سنایا نہیں جایا کرتا تھا اور تم ان کو جھٹلایا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٥۔ ١٠٧:۔ اوپر ذکر تھا کہ جلتے جلتے دوزخیوں کا تمام بدن سوج کر نیچے کا ہونٹ ناف تک لٹک پڑے گا اور اوپر کا ہونٹ سر کے اوپر چلا جاوے گا ‘ یہ تو ان لوگوں کی بدصورتی کا حال ہوا ‘ سینڈھ کا پھل جو ان لوگوں کو کھانے کو ملے گا جس کا ذکر سورة والصافات میں آوے گا ‘ اس پھل کی مذمت ترمذی ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ وغیرہ کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی صحیح روایت ٤ ؎ میں یوں آئی ہے کہ اس پھل کے عرق کا ایک قطرہ زمین پر اگر آن پڑے تو اس کی بدبو سے تمام دنیا کے لوگ گھبرا جاویں ‘ سورة محمد میں آوے گا کہ دوزخیوں کو سینڈھ کا پھل کھلایا جاوے گا ‘ جب وہ پھل ان کے حلق میں پھنسے گا تو ایسا کھولتا ہوا پانی ان کو پلایا جاوے گا جس سے ان کی انتڑیاں کٹ کر نکل پڑیں گی ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اس طرح کے عذاب کے وقت ان کو ذلیل کرنے کے لیے ان سے کہا جاوے گا کہ دوزخ کے عذاب کی قرآن کی آیتوں کو دنیا میں تم لوگوں کو سنائی جاتی تھیں اور تم اس عذاب کو جھٹلاتے تھے اب یہ وہی عذاب ہے جس میں تم لوگ گرفتار ہو ‘ اس کے جواب میں یہ لوگ کہیں گے کہ یا اللہ تیرے علم غیب کے موافق دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے جس طرح کہ ہم بدبخت ٹھہرے تھے ‘ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد وہی بدبختی ہمارے سر پر سوار رہی ‘ اس لیے ہماری ساری زندگی گمراہی میں گزری ‘ اب اگر اس آگ سے ہم کو نکالا جاکر دنیا میں دوبارہ بھیجا جاتا تو ضرور ہم نیک کام کریں گے اور اگر اس دفعہ بھی ہم اپنی زندگی گمراہی میں گزاریں تو ہم کو سخت مجرم قرار دیا جاوے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا اپنے علم غیب کے نتیجے کے طور پر وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ سورة الانعام میں گزر چکا ہے اگر دنیا میں ان لوگوں کو دوبارہ بھیجا جاوے تو پھر یہ لوگ وہی کریں گے جو پہلی دفعہ کرچکے ‘ اوپر حدیث اور سورة الانعام کی آیتوں کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہ لوگ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد اپنی ساری عمر گمراہی میں گزاریں گے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں یہ بات بھی ٹھہری ہوئی تھی کہ اگر ان لوگوں کو دوبارہ دنیا میں بھیجا جاوے تو پھر یہ لوگ وہی کریں گے جو پہلی دفعہ کرچکے ‘ اس واسطے ان لوگوں کو یہ درخواست اللہ تعالیٰ کے نزدیک منظوری کے قابل قرار نہ پائی بلکہ اس درخواست پر وہ خفگی کا جواب ملا ‘ جس کا ذکر آگے کی آیت میں ہے۔ (٤ ؎ ایضا۔ فصل فی طعام اہل النار ص ٤٨٠ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا جہنم میں واویلا اور فریادیں کرنا ان کی فریادیوں کے جواب میں ملائکہ اور رب ذوالجلال کا فرمان۔ جہنمی جہنم کے عذاب سے تنگ آکر واویلا اور آہ وزاریاں کریں گے ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کیا تمہارے پاس میرے فرامین نہیں پہنچے تھے ؟ جہنمی زاروقطار روتے ہوئے عرض کریں گے ہمارے پروردگار کیوں نہیں ہمیں تیرے احکام اور ارشادات پہنچے لیکن اے ہمارے رب ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہوں میں شامل ہوگئے۔ اے ہمارے رب ہماری فریادیں قبول فرما اور ہمیں جہنم سے نجات عطا فرما۔ ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے اگر ہم پھر نافرمانی کریں تو ہم حقیقتاً ظالم ہوں گے۔ جہنمی اپنی فریادوں، آہ و زاریوں کے بعد یہ امید کیے ہوں گے کہ شاید ہمیں جہنم سے نجات مل جائے لیکن اللہ تعالیٰ بڑے غضب ناک اور پورے جاہ و جلال کے ساتھ حکم صادر فرمائے گا پلٹ جاؤ اور جہنم میں ذلیل و خوار ہوتے رہو آئندہ تمہیں میرے ساتھ کلام کرنے کی اجازت نہ ہوگی اب میرے ساتھ ہرگز کلام نہ کرنا۔ (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُلْقَی عَلَی أَہْلِ النَّارِ الْجُوعُ فَیَعْدِلُ مَا ہُمْ فیہِ مِنَ الْعَذَابِ فَیَسْتَغِیثُونَ فَیُغَاثُونَ بِطَعَامٍ مِنْ ضَرِیعٍ لاَ یُسْمِنُ وَلاَ یُغْنِی مِنْ جُوعٍ فَیَسْتَغِیثُون بالطَّعَامِ فَیُغَاثُونَ بِطَعَامٍ ذِی غُصَّۃٍ فَیَذْکُرُونَ أَنَّہُمْ کَانُوا یُجِیزُونَ الْغُصَصَ فِی الدُّنْیَا بالشَّرَابِ فَیَسْتَغِیثُون بالشَّرَابِ فَیُرْفَعُ إِلَیْہِمُ الْحَمِیمُ بِکَلاَلِیبِ الْحَدِیدِ فَإِذَا دَنَتْ مِنْ وُجُوہِہِمْ شَوَتْ وُجُوہَہُمْ فَإِذَا دَخَلَتْ بُطُونَہُمْ قَطَّعَتْ مَا فِی بُطُونِہِمْ فَیَقُولُونَ ادْعُوا خَزَنَۃَ جَہَنَّمَ فَیَقُولُونَ أَلَمْ تَکُ تَأْتِیکُمْ رُسُلُکُمْ بالْبَیِّنَاتِ قَالُوا بَلَی قَالُوا فادْعُوا وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِینَ إِلاَّ فِی ضَلاَلٍ قَالَ فَیَقُولُونَ ادْعُوا مالِکًا فَیَقُولُونَ (یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ ) قَالَ فَیُجِیبُہُمْ (إِنَّکُمْ مَاکِثُونَ ) قَالَ الأَعْمَشُ نُبِّءْتُ أَنَّ بَیْنَ دُعَاءِہِمْ وَبَیْنَ إِجَابَۃِ مَالِکٍ إِیَّاہُمْ أَلْفَ عَامٍ قَالَ فَیَقُولُونَ ادْعُوا رَبَّکُمْ فَلاَ أَحَدَ خَیْرٌ مِنْ رَبِّکُمْ فَیَقُولُونَ (رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَالِّینَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ ) قَالَ فَیُجِیبُہُمْ (اخْسَءُوا فیہَا وَلاَ تُکَلِّمُونِ ) قَالَ فَعِنْدَ ذَلِکَ یَءِسُوا مِنْ کُلِّ خَیْرٍ وَعِنْدَ ذَلِکَ یَأْخُذُونَ فِی الزَّفِیرِ وَالْحَسْرَۃِ وَالْوَیْلِ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ طَعَامِ أَہْلِ النَّارِ ] ” حضرت ابی دردا ( علیہ السلام) بیان کرتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور وہ بھوک اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ مبتلا ہونگے۔ کھانا طلب کریں گے تو انہیں کھانے میں سوکھی گھاس پیش کی جائے گی جس سے نہ تو وہ موٹے ہو پائیں گے اور نہ ان کی بھوک دور ہوگی وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں ایسا کھانا دیا جائے گا جو ان کے حلق میں اٹک جائے گا تو وہ کہیں گے کہ دنیا میں کھانا حلق میں پھنس جاتا تھا تو ہم پانی کے ساتھ اسے نیچے اتارتے تھے وہ پانی طلب کریں گے تو انہیں گرم پانی لوہے کے پیالوں میں پیش کیا جائے گا۔ جب اسے اپنے چہروں کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے جھلس جائیں گے جب اسے اپنے پیٹ میں داخل کریں گے تو ان کے پیٹ کٹ کے رہ جائیں گے وہ کہیں گے کہ جہنم کے داروغے کو بلاؤ تو انہیں جواب دیا جائے گا کیا تمہارے پاس رسول آیات لے کر نہیں آئے تھے جواب دیں گے ہاں ! تو فرشتے کہیں گے تم چیختے چلاتے رہو تمہاری فریاد رائیگاں جائے گی۔ وہ کہیں گے مالک کو پکاروتو جہنمی مالک کو پکاریں گے کہ وہ اللہ سے کہے کہ ہمارے مرنے کا فیصلہ فرمادے۔ انہیں جواب دیا جائے گا تم ہمیشہ اسی میں رہو گے۔ اعمش نے کہا ان کو مالک کی طرف سے ایک ہزار سال کے بعد جواب دیا جائے گا۔ دوزخی کہیں اپنے پروردگار کو پکارو تمہارے رب سے بہتر کوئی نہیں تو وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم گمراہ ہوگئے اے ہمارے پروردگار ہمیں اس جہنم سے نکال دے اگر ہم دوبارہ ایسے اعمال کریں تو ہم ظالم ہوں گے انہیں جواب دیا جائے گا اسی دوزخ میں رہو اور کسی قسم کی کلام نہ کرو اس پر جہنمی ہر بھلائی سے ناامید ہوجائیں گے اور وہ آہ وزاری کریں گے اور کھانے پینے پر حسرت کریں گے اور واویلا کریں گے۔ “ (جہنم کو کنٹرول کرنے والے فرشتے کا نام ” مالک “ ہے۔ ) مسائل ١۔ جہنمیوں کی آہ وبقاء اور فریاد نہیں سنی جائے گی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ پورے غضب کے ساتھ جہنمیوں کو دھتکار دیں گے جہنمی اپنی بدبختی اور گمراہی پر افسوس کریں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا جہنم میں واویلا اور آہ و زاریاں : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم تکن۔۔۔۔۔۔۔ تکذبون (١٠٥) ” جب انہوں نے یہ سوال سنا توانکو یہ خیال آیا کہ شاید ان کو بات کرنے کی اجازت ہے اور وہ جواب دے سکتے ہیں اور شاید اپنے گناہوں کا اعتراف انہیں کوئی فائدہ دے دے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ایک سوال کے جواب کا تذکرہ فرمایا اللہ تعالیٰ کا سوال ہوگا (اَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلَی عَلَیْکُمْ فَکُنْتُمْ بِہَا تُکَذِّبُوْنَ ) (کیا تمہارے پاس میری آیات نہیں آئی تھیں جو تم پر پڑھی جاتی تھیں سو تم انہیں جھٹلاتے تھے) (قَالُوْا رَبَّنَآ غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَالِّینَ ) (وہ جواب دیں گے کہ اے ہمارے رب ہم پر بد بختی غالب آگئی اور ہم گمراہ لوگ تھے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

79:۔ ” الم تکن الخ “ یہ زجر ہے اور اس سے پہلے یقال لھم مقدر ہے جب انہیں جہنم میں ڈالا جائے گا اس وقت اللہ کی طرف سے فرشتے ان سے کہیں گے کیا دنیا میں میری آیتیں تمہیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں اور تم ان کا انکار کرتے تھے۔ ” قالوا ربنا الخ “ جواب میں وہ کہیں گے۔ ہمارے پروردگار ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی اور ہم گمراہ ہوگئے ہمارے پروردگار ایک بار ہمیں دوزخ سے نکال کر عمل کرنے کا موقع عطا فرما۔ اب بھی اگر ہم نے ویسے ہی برے کام کیے تو واقعی ہم ظالم ہوں گے پھر جس طرح تو چاہے ہمیں عذاب دے لینا۔ ” قال اخسئوا الخ “ اللہ کی طرف سے آواز آئے گی دور ہوجاؤ اور مت بولو۔ یہ کلمہ تحقیر ہے جس طرح کتے کو دھتکارا جاتا ہے اسی طرح ان کو دھتکار دیا جائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(105) کیا تم کو میری آیتیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں اور تم ان کی تکذیب نہیں کیا کرتے تھے۔ یعنی تم کو قرآن کریم سنایا جاتا تھا اور تم اس کی تکذیب کیا کرتے تھے اور جھوٹا بتاتے تھے۔