Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 109

سورة المؤمنون

اِنَّہٗ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡ عِبَادِیۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿۱۰۹﴾ۚۖ

Indeed, there was a party of My servants who said, 'Our Lord, we have believed, so forgive us and have mercy upon us, and You are the best of the merciful.'

میرے بندوں کی ایک جماعت تھی جو برابر یہی کہتی رہی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لا چکے ہیں تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّهٗ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ ۔۔ : ” فَرِيْقٌ“ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے وہ بندے کفار اور ان کے عقیدہ و عمل سے یکسر الگ گروہ تھے۔ مقصود اس کلام سے کفار کو دنیا میں اہل ایمان کے ساتھ ان کے سلوک کی اور اہل ایمان کی موجودہ حالت کی خبر دے کر حسرت و افسوس دلانا ہے۔ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا : ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا : ( أَيُّ أَفْضَلُ ؟ قَالَ إِیْمَانٌ باللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ ) [ بخاري، الإیمان، باب من قال إن الإیمان ھو العمل : ٢٦ ]” کون سا عمل افضل ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ “ یعنی میرے بندوں میں سے ایک گروہ کے لوگ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لانے کے عمل کا وسیلہ پیش کرکے مجھ سے دعا کیا کرتے تھے۔ اس سے دعا کے وقت اپنے کسی خالص عمل کا وسیلہ پیش کرنا ثابت ہوا۔ دیکھیے (اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ) کی تفسیر اور آل عمران کی آیت (١٩٣) کی تفسیر۔ فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا : ” غَفَرَ “ کا معنی پردہ ڈالنا ہے۔ ” اَلْمِغْفَرُ “ خَود کو کہتے ہیں، جو لوہے کا ہوتا ہے اور دشمن کی ضرب سے پردے کا کام دیتا ہے، یعنی اے ہمارے رب ! ہم تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائے ہیں، اس لیے تو ہمارے گناہوں اور لغزشوں پر پردہ ڈال، ایسا پردہ کہ کراماً کاتبین کے دفتر میں بھی نظر نہ آئے اور ہم پر رحم کر۔ وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ : یہاں بقاعی (رض) نے واؤ عطف کا نکتہ بیان فرمایا ہے (اور انھوں نے تقریباً ہر ایسی جگہ مقام کے مطابق کوئی نکتہ بیان فرمایا ہے، جو صاحب ذوق حضرات کے لیے نہایت پر لطف ہے) وہ کہتے ہیں کہ واؤ کا مطلب یہ ہے کہ ” وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ “ سے پہلے ایک جملہ ہے جس پر ” وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ “ کا عطف ہے۔ ’ وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ 3“ کی مناسبت سے پورا کلام اس طرح ہے : ” فَأَنْتَ خَیْرُ الْغَافِرِیْنَ وَ أَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ ۔ “ واؤ عطف سے چونکہ بات واضح ہو رہی ہے، اس لیے ” أَنْتَ خَیْرُ الْغَافِرِیْنَ “ کو حذف کردیا، کیونکہ مسلمہ قاعدہ ہے : ” خَیْرُ الْکَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ “ کہ بہترین کلام وہ ہے جس میں الفاظ کم ہوں اور وہ مدلل ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّہٗ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ۝ ١٠٩ۚۖ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٩) میرے بندوں میں ایک گروہ ایمانداروں کا تھا جو مجھ سے عرض کیا کرتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار تجھ پر اور تیری کتاب اور تیرے رسول پر ایمان لے آئے سو ہمارے گناہوں کو معاف فرما دیجیے اور ہم پر رحمت فرمائیے اور ہمیں عذاب نہ دیجیے، آپ ہم پر والدین سے بھی زیادہ رحم فرمانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٩۔ ١١١:۔ مشرکین مکہ کا یہ خیال تھا کہ ان میں کے جو لوگ مالداری یا قوم کے سر کردہ ہونے کے سبب سے دنیا میں عزت وآبرو رکھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی عزت دار ہیں ‘ اسی واسطے بلال (رض) ‘ عمار (رض) ‘ صہیب (رض) اور خباب (رض) جیسے غریب صحابہ (رض) کو یہ مالدار مشرک چھیڑا کرتے تھے اور طرح طرح کی مسخراپن کی باتیں کیا کرتے تھے ‘ کبھی کہتے کہ اسلام کوئی عزت کی چیز ہوتی تو یہ غریب لوگ اسلام لانے میں ہم عزت دار لوگوں سے کبھی آگے قدم نہ بڑھاتے چناچہ یہ ذکر سورة الاحقاف میں تفصیل سے آوے گا کبھی اس طرح کی اور باتیں کرتے تھے جن کا ذکر مناسب موقعوں پر آیا ہے ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے خباب بن الارت کی روایت گزر چکی ہے جس میں خباب کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ شکایت کی کہ اب تو مشرکین ہمیں بہت ستاتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کا جو وعدہ فرمایا ہے ‘ وقت مقررہ پر ضرور اس کا ظہور ہوگا ‘ وقت مقررہ تک صبر کرنا چاہیے ‘ اس حدیث کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے مطلب یہ ہوا کہ جن دوزخیوں کے عذاب میں گرفتار ہونے کا اوپر ذکر تھا ان کے عذاب کا ایک سبب تو اوپر کی آیتوں میں تھا کہ وہ لوگ قرآن کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے ‘ ان آیتوں میں اسی عذاب کا یہ دوسرا سبب بیان فرمایا یہ عذاب میں گرفتار وہ لوگ ہیں جو قرآن کی آیتوں کو جھٹلاتے بھی تھے اور جو غریب ایماندار لوگ قرآن کی آیتوں کو مانتے تھے ان کو مسخراپن سے ستاتے بھی تھے کہ اس ستانے کے پیچھے اپنے ان انجام کو بالکل بھول گئے تھے جو آج درپیش ہے کہ ہمیشہ کے عذاب میں گرفتار اور اس عذاب سے نجات پانے اور دنیا میں دوبارہ جا کر نیک کام کرنے کی التجا کر رہے ہیں اور جن غریب ایمانداروں کو یہ مالدار مشرک طرح طرح سے دنیا میں ستاتے تھے اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت کے موافق وہ غریب اس پر صبر کر کے چپکے ہو رہتے تھے ان کا انجام بھی ان مشرکوں کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ وہ جنت میں بادشاہت کر رہے ہیں ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے بڑے بڑے مالدار نافرمان لوگوں کو قیامت کے دن جب دوزخ میں ڈالا جائے گا تو دوزخ میں ڈالتے ہی فرشتے ان سے پوچھیں گے کہ دنیا کے جس عیش و آرام کے نشہ نے تم کو عقبیٰ سے غافل رکھا ‘ اس عذاب کے آگے دنیا کا وہ عیش و آرام تم کو کچھ یاد ہے تو اس کے جواب میں وہ قسم کھا کر کہیں گے کہ نہیں ‘ اسی طرح جنت میں داخل ہوتے ہی ایماندار غریب اہل جنت سے فرشتے پوچھیں گے کہ دنیا کی وہ غریبی کی حالت جس پر تم نے صبر کیا اور اس صبر کے اجر میں تم کو یہ بادشاہوں کا سا ہمیشہ کا عیش و آرام ملا ‘ اس عیش و آرام کے آگے دنیا کی وہ تنگ دستی اور غریبی تم کو کچھ یاد ہے تو وہ بھی قسم کھا کر کہیں گے کہ نہیں ‘ جن دو فرقوں کا حال ان آیتوں میں ہے ان کا انجام اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:109) انہ۔ ضمیر شان ہے انہ کان فریق من عبادی۔ شان یہ ہے کہ میرے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا تھا جو۔۔ فاتخذتموہم۔ اتخذتموا۔ اصل میں اتخذتم تھا۔ ضمیر ہم کے اتصال کی بنا پر وائو جمع لایا گیا ہے۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب تم نے ان کو ٹھہرایا۔ ہم ضمیر فریق کے لئے ہے جس سے مراد عام مؤمنین یا اصحاب رسول اللہ علیہ وسلم یا اصحاب الصفہ ہیں۔ سخریا۔ سخر یسخر (سمع۔ فتح) سخر وسخر وسخر وسخر وسخرۃ مصدر۔ سخر یسخر ٹھٹھا کرنا۔ مذاق اڑانا۔ حقارت کے ساتھ کسی سے مخول کرنا۔ استہزا کرنا۔ قرآن مجید میں ہے : قال ان تسخروا منا فانا نسخر منکم کما تسخرون (11:38) اس نے (حضرت نوح (علیہ السلام) نے) جواب دیا اگر آج تم ہم پر ہنستے ہو تو جس طرح تم (ہم پر) ہنستے ہو (اسی طرح) ہم (ایک دن ) تم پر ہنسیں گے۔ علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں رجل سخرۃ ہنسی اڑانے والا۔ اور سخرۃ وہ ہے جس کی لوگ ہنسی اڑائیں۔ اور ہنسی اڑانے والے کے اس فعل کو سخریۃ وسخریۃ کہا جاتا ہے۔ سخریا۔ بمعنی ٹھٹھا ۔ ہنسی۔ دل لگی۔ سخر سے اسم بھی ہے اور مصدر بھی۔ مؤخر الذکر کی صورت میں یا نسبت مبالغہ کے لئے بڑھا دی گئی ہے۔ سخر یسخر (باب فتح) بمعنی تابع بنانا۔ مغلوب کرنا۔ ذلیل کرنا۔ بیگار لینا بھی ہے باب تفعیل سے بمعنی تسخیر کرنا۔ بمعنی تسخیر کرنا۔ مطیع کرنا۔ تابع بنانا کے معنی میں اکثر استعمال ہوا ہے مثلاً سخرلکم الشمس والقمر (14:33) اس نے سورج اور چاند کو تمہارے اختیار میں کردیا۔ اور سخر لکم الفلک (14:32) کشتیوں کو تمہارے اختیار میں کردیا۔ یا سبحان الذی سخر لنا ھذا (43:13) پاک ہے وہ ذات جس نے ان چیزوں کو ہمارے بس میں کردیا۔ سخریا۔ اتخذتم کا مفعول ثانی ہے اور مفعول اول ہم ضمیر جمع مذکر غائب ہے۔ انسوکم۔ انسوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ انسی ینسنی انساء (افعال) سے کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ انہوں نے تم کو بھلا دیا۔ نسی مادہ۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فانسہم انفسہم (59:19) اور ان لوگون کی طرح نہ ہوجائو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا سو اللہ نے خود ان کی جانوں کو ان سے بھلا دیا۔ باب افعال سے انسی ینسی متعدی بدومفعول ہے انسوکم ذکری۔ انہوں نے تم سے میری یاد بھلادی۔ یعنی ان کے ساتھ ٹھٹھا مخول کا جو مشغلہ تم نے اختیار کر رکھا تھا اس مشغلے کی وجہ سے تم ہماری یاد سے غافل ہوگئے ۔ وکنتم منہم تضحکون۔ اور تم ان کی ہنسی اڑاتے رہتے تھے (کنتم تضحکون ماضی استمراری کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے) یہ جملہ فاتخذتموہم سخریا کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رب ذوالجلال کا جہنمیوں کو دوسرا جواب۔ جہنمیوں کو جہنم میں دھتکارتے وقت اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرمائیں گے کہ کیا تم وہ لوگ نہیں ہو ؟ جنہوں نے میرے بندوں کو اس وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنایا کیونکہ وہ مجھ پر ایمان رکھتے تھے، مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے اور مجھ سے رحم کی درخواست کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اے رب تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ انہیں مذاق کرنے کی وجہ سے تم نے میری نصیحت کو فراموش کردیا۔ اپنے بندوں کے ایمان، صبر اور دعاؤں کی وجہ سے انہیں بہترین اجر سے سرفراز کرتا ہوں۔ ان کے مقابلے میں آج تمہاری سزا یہ ہے کہ تم ہمیشہ ہمیش جہنم کی آگ میں جلتے اور چلاّتے رہوگے۔ جنیتوں کا اجر اور جہنمیوں کی سزا : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَاأتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا اِنْ شِءْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ‘ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں ‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا تصور پیدا ہوا۔ اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔ “ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْضِعُ سَوْطٍ فِیْ الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک کوڑے کے برابر (گز بھر) جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ‘ اس سے بہتر ہے۔ “ وَعَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ ) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِہَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ ] حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کو ٹخنوں تک ‘ بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ مَنْکِبَیِ الْکَافِرِ فِیْ النَّارِ مَسِیْرَۃُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ للرَّاکِبِ الْمُسْرِعِ ۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ ضِرْسُ الْکَافِرِ مِثْلُ اُحُدٍ وَغِلْظُ جِلْدِہٖ مَسِیْرَۃُ ثَلٰثٍ ) [ رواہ مسلم : باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم میں کافر کے کندھوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہوگا کہ تیز رفتارسوار کے لیے تین دن کی مسافت ہوگی ایک اور روایت میں ہے کہ دوزخ میں کافر کی داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی اور اس کے جسم کی موٹائی تین رات کی مسافت کے برابر ہوگی۔ “ مسائل ١۔ نیک لوگوں کو مذاق کرنے کی سزا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور اس کا رحم مانگنا چاہیے۔ ٣۔ صبر کرنے والوں کو قیامت کے دن پوری پوری جزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن صبر کرنے کا صلہ : ا۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الشوریٰ : ٤٣) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ صبر کرنے والوں کا صلہ جنت ہے۔ (الدھر : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انہ کان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تضحکون ” ‘ تمہارا جرم صرف یہی نہیں ہے کہ تم نے کفر کیا اور خود اپنی ذات کو کفر میں رکھا۔ اگر چہ یہ بھی جرم عظیم تھا مگر تم نے اس سے بھی عظیم تر جرم کیا ہے۔ وہ یہ کہ تم نے ایمان لانے والوں کے ساتھ مزاح کیا۔ جو ایمان لائے تھے اور رحمت رب کے طلبگار تھے تم ان کا مذاق اڑاتے تھے اور اس طرح اپنے آپ کو ذکر الہی اور نصیحت آموزی سے محروم کرتے تھے حالانکہ اس کائنات میں دلائل ایمان موجود تھے۔ آج دیکھو ‘ تمہارا مقام کیا ہے اور ان لوگوں کا مقام و مرتبہ کیا ہے جن سے تم مذاق کرتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کا مزید فرمان ہوگا (اِِنَّہٗ کَانَ فَرِیقٌ مِّنْ عِبٰدِیْ ) (بلاشبہ میرے بندوں میں سے ایک گروہ تھا جو یوں دعا کرتے تھے) کہ اے ہمارے اللہ ہم ایمان لائے سو ہماری مغفرت فرما دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے اور آپ رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر رحم فرمانے والے ہیں اس جماعت کو تم نے مذاق اور ٹھٹہ اور مسخرہ پن کا نشانہ بنا لیا تھا اور تم اس درجہ ان کے پیچھے پڑے کہ انھوں نے تمہیں میری یاد بھلا دی یعنی تم ان کو مذاق بنانے میں ایسے لگے کہ میری یاد کی تمہیں فرصت ہی نہیں رہی۔ تم ان کا مذاق بھی بناتے تھے اور ان سے ہنستے بھی تھے تم نے اپنے کیے کا نتیجہ بھگت لیا اور ہمیشہ کے لیے دوزخ میں چلے گئے اور انہوں نے اپنے ایمان اور عمل صالحہ کا پھل پا لیا آج میں نے انہیں ان کے صبر کر نیکی وجہ سے یہ بدلہ دیا کہ وہی کامیاب ہیں (وہ ہمیشہ کے لیے جنت میں چلے گئے) سورة آل عمران میں فرمایا (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ) (سو جو شخص دوزخ سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ ہی کامیاب ہوا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

80:۔ ” انہ کان الخ “ یہ ادخال الٰہی ہے اور جملہ ماقبل کے لیے علت تمہیں یہ سزا اس لیے دی جارہی ہے کہ تم عناد اور سرکشی میں انتہا کو پہنچ چکے تھے دین حق استہزاء کرتے تھے یہاں تک کہ جو لوگ ایمان لا چکے تھے تم ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے جو ضعاء مومنین مثلاً حضرت بلال، صہیب اور خبیب وغیرہم (رض) اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور رحمت کی دعائیں مانگتے تھے یہ صنادید قریش ابو جہل وغیرہ ان کی ہنسی اڑاتے۔ فرمایا حق کے انکار اور حق ماننے والے سے تمسخر ہی نے تمہیں عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ ” حتی انسوکم الخ “ یعنی ان ایمان والوں عداوت و تمسخر میں تم اس قدر منہمک تھے کہ یہی چیز تمہارے لیے میرے زکر اور میری توحید کو ماننے سنیان کا باعث بن گئی ای اشغلتم بالاستہزاء بھم عن ذکری (قرطبی ج 12 ص 155) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی توحید کو ماننے والوں اور توحید کی تبلیغ کرنے والوں کو حقیر سمجھنا اور استہزاء و تمسخر سے ان کو ذلیل کرنے کی کوشش کرنا غضب خداوندی اور عذاب آخرت کا موجب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(109) کیا یہ واقعہ نہیں کہ میرے بندوں میں سے ایک فریق اور ایک جماعت تھی جس کے لوگ مجھ سے یوں کہا کرتے تھے اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو تو ہم کو بخش دے اور ہماری مغفرت فرمادے اور ہم پر رحم کر اور تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر رحم کرنے والا ہے یعنی ایک فریق غریب مسلمانوں کا بھی تھا جو ایمان کا اعلان کرتا تھا اور ہم سے بخشش اور رحم کی درخواست کیا کرتا تھا تم ایسے نیک اور شریف لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا کرتے تھے۔