Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 115

سورة المؤمنون

اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۱۱۵﴾

Then did you think that We created you uselessly and that to Us you would not be returned?"

کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا ... Did you think that We had created you in play, means, `did you think that you were created in vain, with no purpose, with nothing required of you and no wisdom on Our part!' Or it was said that "in play" meant to play and amuse yourselves, like the animals were created, who have no reward or punishment. But you were created to worship Allah and carry out His commands. ... وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَأ تُرْجَعُونَ and that you would not be brought back to Us! means, that you would not be brought back to the Hereafter. This is like the Ayah: أَيَحْسَبُ الاِنسَـنُ أَن يُتْرَكَ سُدًى Does man think that he will be left neglected! (75:36)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] یعنی تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم اس دنیا میں عیش و آرام کرنے اور مزے لوٹنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ اسی دنیا میں نہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ملتا ہے نہ اپنے خیال کے مطابق نیک اعمال کرنے والوں کو ان کی نیکی کا بدلہ ملتا ہے اور نہ ہی کوئی انسان دوبارہ زندہ ہو کر واپس آیا ہے۔ جو یہ خبر دے کہ ظالموں کو اس کے ظلم کی سزا ملی ہے۔ لہذا تم نے یقین کرلیا کہ یہی دنیا ہی دنیا ہے جیسے ہی بن پڑے یہاں عیش و عشرت کا سامان اکٹھا کرلو حالانکہ اگر تم اس کائنات کے نظام عدل میں ذرا بھی غور کرتے تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ یہ کائنات اور اس میں انسان کو محض ایک کھیل تماشہ کے طور پر نہیں بنایا گیا لیکن ہر سبب ایک نتیجہ پیدا کر رہا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہارے اچھے اور برے اعمال کا کوئی نتیجہ مرتب نہ ہو۔ اور چونکہ دنیا کی زندگی اعمال کے نتیجہ بھگتنے کے لحاظ سے بہت قلیل ہے۔ لہذا مرنے کے بعد اب طویل زندگی کا قیام ضروری ہوا۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیا جاسکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا ۔۔ : یعنی پھر کیا تم نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم اس دنیا میں عیش کرنے اور مزے لوٹنے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ (دیکھیے قیامہ : ٣٦) تم نے دیکھا کہ اس دنیا میں نہ ظالموں کو ان کے ظلم کا پورا بدلا ملتا ہے، نہ اپنے خیال میں نیک اعمال کرنے والوں کو ان کی نیکی کا بدلا ملتا ہے اور نہ کوئی انسان دوبارہ زندہ ہو کر آیا جو تمہیں بتاتا کہ اچھے اعمال والوں کو ان کی جزا اور ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا ملی ہے۔ لہٰذا تم نے یقین کرلیا کہ یہی دنیا ہی دنیا ہے، جس قدر ہو سکے یہاں عیش و عشرت کا سامان جمع کرلو۔ اس کے سوا زندگی کا کوئی مقصد نہیں، نہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے، نہ کسی کے سامنے پیش ہونا ہے، حالانکہ اگر تم اس کائنات کے نظام عدل میں ذرا بھی غور کرتے، یا رسول کی بات پر یقین کرتے تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ اس کائنات اور اس میں انسان کو محض کھیل تماشے کے طور پر اور بےمقصد نہیں بنایا گیا، بلکہ ہر کام کا ایک نتیجہ ہے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہارے اچھے اور برے اعمال کا کوئی نتیجہ نہ نکلے اور چونکہ دنیا کی زندگی اعمال کا نتیجہ بھگتنے کے لیے بہت تھوڑی ہے، اس لیے مرنے کے بعد ہم نے ہمیشہ کی زندگی رکھی ہے، تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝ ١١٥ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ عبث العَبَثُ : أن يَخْلُطَ بعمله لعبا، من قولهم : عَبَثْتُ الأَقِطَ «3» ، والعَبَثُ : طعامٌ مخلوط بشیء، ومنه قيل : العَوْبَثَانِيُّ «4» لتمرٍ وسمن وسویق مختلط . قال تعالی: أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء/ 128] ، ويقال لما ليس له غرض صحیح : عَبَثٌ. قال : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون/ 115] . ( ع ب ث ) العبث دراصل اس کے معنی ہیں کسی کام کے ساتھ کھیل کود کو ملا دینا اور یہ عبثت الاقط کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے پنیز کے ساتھ اور چیز کو ملادیا اور العبث وہ کھانا جو کسی چیز کے ساتھ خلط ملط کیا گیا ہو اسی اعتبار سے کھجور ۔ گھی اور ستو کے آمیزہ کو عوبثانی کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء/ 128] تم ہر بلند مقام پر بےمقصد پڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہو نیز العبث مہر اس کام کو کہتے ہیں جس کی کوئی صحیح غرض نہ ہو قرآن میں ہے : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون/ 115] کیا تم یہ خیال کئے بیٹھے ہو کہ ہم نے تم کو یونہی بےغرض وغایت پیدا کردیا ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٥) یا یہ کہ ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا خوب ہوتا اگر تم دنیان میں اس چیز کو سمجھتے اور میرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تصدیق کرتے تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ تم قبروں میں کم ہی رہے ہو۔ مکہ والو خصوصا کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں یوں ہی مہمل پیدا کردیا ہے کہ اوامرو نواہی اور ثواب و عذاب کا تم سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ تم مرنے کے بعد ہمارے پاس نہیں لائے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٥ (اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ) ” گزشتہ آیات کے سیاق وسباق میں اس آیت کا ترجمہ صیغہ ماضی میں ہوگا اور اس مفہوم میں اس کے مخاطب وہی جہنمی لوگ ہوں گے جن کا ذکر پیچھے سے چلا آ رہا ہے۔ اور اگر اسے گزشتہ سلسلہ کلام سے علیحدہ پڑھا جائے تو اس کا ترجمہ صیغہ حال میں کیا جائے گا اور پھر اس کا مخاطب ہر پڑھنے سننے والا اور دنیا کے ہر زمانے کا ہر انسان ہوگا کہ اے لوگو ! کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں بےمقصد اور بیکار پیدا کیا ہے اور تمہیں ہمارے پاس واپس آکر اپنے ایک ایک عمل کا حساب نہیں دینا ہے ؟ عقلی اور منطقی طور پر یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آخرت کے تصور کے بغیر انسانی تخلیق کا مقصد سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اگر انسان عام حیوانات جیسا حیوان ہوتا تو پھر واقعی حیات بعد الممات اور آخرت کی کوئی ضرورت نہیں تھی ‘ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حیوانات کے برعکس انسان کے اندر فطری طور پر اخلاقی حس اور نیکی و بدی کی تمیز (moral sense) پیدا کی گئی ہے۔ اس اخلاقی حس کے نتیجے میں انسانی سطح پر جو اخلاقی اقدار (moral values) وجود میں آئی ہیں وہ کسی قوم ‘ کسی علاقے یا زمانے تک محدود نہیں ‘ بلکہ مستقل permanent ) اور آفاقی (universal) ہیں۔ چناچہ ” گندم از گندم بروید جوز جو “ (گندم سے گندم اگتی ہے اور جو سے جو) کے اصول کے مطابق اچھائی کا نتیجہ اچھا نکلنا چاہیے اور برائی کا برا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ اور ہمیشہ لازمی طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ عام طور پر اس کے برعکس ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ صورت حال منطقی طور پر تقاضا کرتی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا وجود میں آئے ‘ جہاں ہر انسان کی موجودہ زندگی کے ایک ایک فعل اور ایک ایک عمل کا احتساب کر کے مصدقہ آفاقی اصولوں کے مطابق عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا اہتمام ہو۔ یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید مختلف مواقع پر ایمان بالآخرت کے لیے بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ بہر حال ایک ذی شعور انسان بالآخر اس منطقی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے اور بےاختیار پکار اٹھتا ہے : (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ ) ( آل عمران) ۔ ” اے ہمارے پروردگار ! تو نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا ‘ تو پاک ہے ‘ پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

102. The Arabic word abathan in the text also means “for the sake of sport”. Then the verse will mean: Did you think that We had created you merely for the sake of sport and there was no purpose behind your creation? Therefore you may eat, drink, be merry and enjoy yourself as you please.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :102 اصل میں لفظ عَبَثاً کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، جس کا ایک مطلب تو ہے کھیل کے طور پر ۔ اور دوسرا مطلب ہے کھیل کے لیے پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے ۔ کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بطور تفریح بنا دیا ہے ، تمہاری تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے ، محض ایک بے مقصد مخلوق بنا کر پھیلا دی گئی ہے ۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہو گا : کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ تم بس کھیل کود اور تفریح اور ایسی لاحاصل مصروفیتوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو جن کا کبھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

36: جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، ان کے موقف کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بے مقصد پیدا کردی ہے۔ یہاں جس کے جو جی میں آئے کرتا رہے۔ اس کا کوئی بدلہ کسی اور زندگی میں ملنے والا نہیں ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی غلط بات منسوب کرے، لہذا آخرت پر ایمان اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا منطقی تقاضا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٥:۔ منکرین حشر کا یہ بھی جواب ہے کہ دنیا کے نیک وید کی جزاو سزا کے لیے پھر دوبارہ جینا نہ ہوتا تو دنیا کا پیدا کرنا بےفائدہ ہوتا جس سے اللہ کی شان پاک ہے ‘ اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں عقل مند لوگ اس طرح کے بےفائدہ کام سے پرہیز کرتے ہیں جس طرح کا بےفائدہ کام یہ لوگ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ مثلا کیھتی کرتے ہیں تو اناج پیدا ہونے کی نیت سے ‘ باغ لگاتے ہیں تو میوہ کھانے کے ارادہ سے ‘ پھر تمام مخلوقات کو جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ‘ بغیر سزاوجزا کے اس کو بلا نتیجہ ٹھہرانا ان لوگوں کی بڑی نادانی ہے ‘ ایک بیمار شخص عبداللہ بن مسعود کے پاس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں آیا ‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے یہ آیت پڑھ کر اس بیمار پر دم کی ‘ وہ اچھا ہوگیا ‘ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا یہ آیت تو ایسی ہے کہ اگر اعتقاد سے کوئی شخص پہاڑ کو جگہ سے ہلا دینے کی نیت سے آیت کو پڑھ کر پہاڑ پر پھونکے تو پہاڑ بھی جگہ سے ہل جاوے ‘ عبد اللہ بن معسود کی یہ روایت مسند ابی یعلی تفسیر ابن ابی حاتم ‘ تفسیر ابن مردویہ وغیرہ کی کئی کتابوں میں ١ ؎ ہے اس واسطے ایک سند سے دوسری سند کو تقویت ہوجاتی ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرۃ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان نے اپنی پہلی پیدائش کا جو انکار کیا اس سے اس نے اپنے پیدا کرنے والے کو جھٹلایا جو انسان کو زیبا نہیں تھا کیونکہ اگر انسان ذرا بھی غور کرتا تو یہ بات اس کی سمجھ میں اچھی طرح آجاتی کہ جس صاحب قدرت نے پانی کے ایک قطرہ سے انسان کا پتلا بنا کر اس میں روح پھونک دی ‘ اس کو آدم (علیہ السلام) کے ایک پتلا کی طرح خاک کے بہت سے پتلوں کا بنا دینا اور ان میں روح کا پھونک دینا کیا مشکل ہے۔ اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ مشکل طریقہ کی پہلی پیدائش کو آنکھوں سے دیکھ کر آسان طریقہ کی دوسری دفعہ کی پیدائش کے جو لوگ منکر ہیں وہ گویا اس عقلی تجربہ سے بےبہرہ ہیں کہ جو کام مشکل طریقہ سے ایک دفعہ کیا جاچکا ہو ‘ آسان طریقہ سے پھر دوسری دفعہ اس کا کیا جانا بالکل آسان ہے ‘ سورة الروم میں اللہ تعالیٰ نے اس مطلب کو ذرا تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٧ ج ٥ وفتح البیان ٢٣٣ نیز دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص ٢٥٩ ج ٣۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:115) افحسبتم۔ میں ہمزہ استفہام کے لئے ہے حسبتم ماضی جمع مذکر حاضر حسبان مصدر۔ کیا تم نے گمان کیا۔ کیا تم نے جانا عبثا۔ خلقنکم سے حال ہے بمعنی عابثین۔ بےمقصد۔ بےفائدہ۔ یا یہ خلقنکم کا مفعول لہ ہے۔ فضول۔ لغو۔ عبث۔ انکم۔ معطوف ہے۔ اور انما معطوف علیہ۔ انما خلقنکم عبثا معطوف علیہ و حرف عطف انکم الینا لا ترجعون معطوف۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ مطلب یہ کہ جب ہم نے آیات میں جن کا صدق دلائل صحیحہ سے ثابت ہے بعث و مجازاة کی خبر دی تھی تو معلوم ہوگیا تھا کہ مکلفین کی تخلیق کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے، اس کا منکر ہونا کتنا بڑا امر منکر تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افحسبتم۔۔۔۔۔۔۔۔ لاترجعون ” معلوم ہونا چاہیے۔ حکمت تخلیق کا لازمی تقاضا ہے کہ بعث بعد الموت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا قیام مقدر کردیا ہے۔ اس کے مقاصد تدبیر کائنات کا حصہ ہیں۔ قیامت تخلیق کا منطقی نتیجہ ہے۔ بعث کے ساتھ تخلیق کائنات اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے اور مقصد تخلیق پورا ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت سے وہی لوگ غفلت کرسکتے ہیں جن کے دلوں پر پردے آگئے ہوں اور جن کی فطرت مسخ ہوچکی ہو ‘ جو حکمت الہیہ پر کبھی غورو فکر کرنے کی تکلیف ہی نہیں کرتے حالانکہ یہ حکمت اس کائنات کے اندر بکھری پڑی ہے۔ سورة کا خاتمہ عقیدہ توحید کے اعلان پر ہوتا ہے اور اعلان کردیا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے شرک کیا وہ عظیم خسارے میں پڑگئے جبکہ اہل توحید فلاح پائیں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کی رحمت کے طلبگارہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 84:۔ ” افحسبتم الخ “ یہ زجر ہے دنیا میں تم اس طرح غافل رہے اور سرکشی کرتے رہے گویا تم ہمیشہ ہی دنیا میں رہو گے اور کبھی ہمارے سامنے حاضر نہیں ہوگے تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں بس یونہی بغیر کسی حکمت کے پیدا کردیا ہے اور تم ہمارے احکام اور اوامرو نواہی سے بالکل آزاد ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(115) کیا تم لوگوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ ہم نے تم کو مہمل اور بےفائدہ اور کھیلنے کو پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہیں لوٹائے جائوگے۔ اور واپس نہیں کئے جائوگے یعنی تمہارا پیدا کرنا حکمت سے خالی ہے۔ عبثا کے دو مطلب ہوسکتے ہیں یعنی تمہارا پیدا کرنا یہ ہم نے کوئی عبث اور محض بیکار کام کیا ہے۔ معاذ اللہ یا تم کو کھیل تماشے کے لئے پیدا کیا ہے ہم نے تو تم کو اس دارلتکلیف میں تکلیف کے لئے پیدا کیا ہے پھر دارالتکلیف سے دارالجزا کی طرف واپسی لازمی ہے جہاں محسن کو ثواب دیا جائے گا اور مجرم پر عتاب ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دنیا میں تو نیکی اور بدی کا اثر نہیں ملتا اگر دوسرا دن نہ ہو بدلے کا تو یہ سب کھیل تھا۔ 12