Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 118

سورة المؤمنون

وَ قُلۡ رَّبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿٪۱۱۸﴾  6

And, [O Muhammad], say, "My Lord, forgive and have mercy, and You are the best of the merciful."

اور کہو کہ اے میرے رب! تو بخش اور رحم کر اور تو سب مہربانوں سے بہتر مہربانی کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقُل ... And say: رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ My Lord! Forgive and have mercy, for You are the best of those who show mercy! Here Allah is teaching us to recite this supplication, for forgiveness, in a general sense, means wiping away sins and concealing them from people, and mercy means guiding a person and helping him to say and do good things. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Mu'minun. All praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٠] اوپر اسی سورة کی آیت نمبر ١٠٩ میں ذکر ہوا ہے کہ جب میرے بندے مجھ سے مغفرت اور رحم کی دعا کرتے تو کافر ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کا انجام بتلانے کے بعد پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ سے رحم اور مغفرت کی دعا مانگتے رہا کریں۔ اور اللہ چونکہ سب سے بڑھ کر اور سب سے رحم کرنے والا ہے لہذا تمہیں یقین رکھنا چاہئے کہ وہ تم پر رحم کرتے ہوئے تمہاری تقصیرات اور خطاؤں کو معاف فرما دے گا۔ سورۃ النور

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سورت کی ابتدا ان لوگوں کے ذکر سے ہوئی تھی جو فلاح پانے والے ہیں اور اختتام ان لوگوں کے ذکر سے ہو رہا ہے جو فلاح نہیں پائیں گے۔ وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ ۔۔ : اس سے پہلے آیت (١٠٩) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کامیاب ہونے والے بندوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ یہ دعا ” رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ “ کرتے ہیں اور سورت کے آخر میں انھی بندوں کی طرح کفار و مشرکین سے کٹ کر اپنے رب کی مغفرت اور رحمت کے دامن میں پناہ لینے کا حکم دیا۔ وہ تمام دعائیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لفظ ” قُلْ “ کے ساتھ حکم دیا ہے، نہایت جامع دعائیں ہیں اور عجیب و غریب اسرار رکھتی ہیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرنے کا حکم ہے، جن کے پہلے پچھلے تمام گناہ اللہ نے معاف فرما دیے (دیکھیے فتح : ٢) تو امت کو تو بدرجۂ اولیٰ یہ دعا کرنے کا حکم ہے۔ 3 ابن کثیر نے فرمایا : ” اَلْغَفْرُ “ کا لفظ جب مطلق آئے تو اس کا معنی گناہ کو مٹانا اور لوگوں کے سامنے اس پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے اور ” رحمت “ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اقوال و افعال میں سیدھا رکھے اور اپنی توفیق خاص سے نوازے۔ وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ : یہ مختصر جملہ ہے، مکمل جملہ یوں ہے : ” رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ فَأَنْتَ خَیْرُ الْغَافِرِیْنَ وَ أَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ “ اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے آیت (١٠٩) کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ سب رحم کرنے والوں سے بہتر اس لیے ہے کہ دوسرے سب رحم کرنے والے اسی کا عطا کردہ رحم کرتے ہیں اور وہ بھی اس کی رحمت کے سویں حصے میں سے اپنے حصے میں آنے والے رحم سے۔ 3 ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : ” مجھے ایسی دعا سکھائیں جو میں اپنی نماز میں کروں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، یوں کہو : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْلِيْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِيْ إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) [ بخاري، الأذان، باب الدعاء قبل السلام : ٨٣٤ ] ” اے اللہ ! یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، بہت زیادہ ظلم اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا، سو مجھے بخش دے، عظیم بخشش اپنے پاس سے اور مجھ پر رحم کر، کیونکہ تو ہی غفور و رحیم ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

رَّ‌بِّ اغْفِرْ‌ وَارْ‌حَمْ (My Lord, forgive and have mercy - 23:118). Here the object of the forgiveness and having mercy has not been mentioned. What is there to be forgiven and to whom is mercy to be shown? And this seems to suggest a general prayer for forgiveness which would include deliverance from harm and suffering, and a general prayer for mercy which would include the grant of every wish. Since protection from bodily harm and acquisition of legitimate gains is the object of all human activity, this prayer covers both these aspects. (Mazhari) And the reason why the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was commanded to recite this prayer of forgiveness and mercy, even tough he is impeccable, is to impress upon his followers the special merit of this prayer. (Qurtubi) Surah Al-Mu&minun began with the verse قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (Success is really attained by the believers - 23:1) and ends withإِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُ‌ونَ (Surely, the infidels will not achieve success - 23:117) which shows that success will come to believers only and that the unbelievers will have no share of it.

رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ یہاں اغفر اور ارحم دونوں کا مفعول ذکر نہیں کیا گیا کہ کیا معاف کریں اور کس چیز پر رحم کریں اس سے اشارہ عموم کی طرف ہے کہ دعاء مغفرت شامل ہے ہر مضر اور تکلیف دہ چیز کے ازالہ کو اور دعا رحمت شامل ہے ہر مراد اور محبوب چیز کے حاصل ہونے کو۔ کیونکہ دفع مضرت اور جلب منفعت جو انسانی زندگی اور اس کے مقاصد کا خلاصہ ہیں دونوں اس میں شامل ہوگئے (مظھری) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعا مغفرت و رحمت کی تلقین باوجودیکہ آپ معصوم اور مرحوم ہی ہیں دراصل امت کو سکھانے کیلئے ہے کہ تمہیں اس دعا کا کتنا اہتمام کرنا چاہئے (قرطبی) اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ ، سورة مومنون کی ابتدا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤ ْمِنُوْنَ سے ہوئی تھی اور انتہا لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ پر کی گئی، جس سے معلوم ہوا کہ فلاح یعنی مکمل کامیابی مومنین ہی کا حصہ ہے کفار اس سے محروم ہیں۔ تمت سورة المومنون فی ثمانیة ایام من اول المحرم ١٣٩١ ھ وذلک فی یوم عاشوراء یوم الاثنین وللہ الحمد اولہ واخرہ وایاہ اسال التوفیق لاتمام الباقی کما یحب و یرضاہ وان یتقبل منی و یجعلہ ذخرا لاخرتی و ھو المستعان۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ۝ ١١٨ۧ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٨) اور اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو یوں دعا کیا کیجیے کہ اے میرے پروردگار میری امت کی خطائیں معاف کر اور میری امت پر رحم فرما اور اس کو عذاب مت دے یقینا تو ہی ارحم الراحمین ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

107. Compare and contrast this prayer with (verse 109). Here the Prophet (peace be upon him) has been told to make the same prayer as contained in (verse 109), as if to say, You (and your followers) should supplicate Allah with the same prayer so that, if the people scoff at you, they themselves might provide a proof of a strong case against themselves.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :107 یہاں اس دعا کی لطیف معنویت نگاہ میں رہے ۔ ابھی چند سطر اوپر یہ ذکر آچکا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دشمنوں کو معاف کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمائے گا کہ میرے جو بندے یہ دعا مانگتے تھے ، تم ان کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اس کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ( اور ضمناً صحابہ کرام کو بھی ) یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم ٹھیک وہی دعا مانگو جس کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں ۔ ہماری صاف تنبیہ کے باوجود اب اگر یہ تمہارا مذاق اڑائیں تو آخرت میں اپنے خلاف گویا خود ہی ایک مضبوط مقدمہ تیار کر دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استغفار کا حکم دے کر دراصل امت کو تعلیم دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتدا میں وہ استغفار کیا کرے۔ اس آیت کا تعلق اوپر کے مضمون سے یہ ہے کہ پہلے کفار و مشرکین کا حال بیان کیا گیا ہے اور اب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کٹ کر صرف اللہ کے ہو رہیں اور اسی کی رحمت و مغفرت کے دامن میں پناہ لیں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ آپ کا مغفرت و رحمت مانگنا اپنے درجہ کے موافق ہے، پس اس سے شبہ معصیت کا نہیں ہوسکتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں دعا کی تلقین فرمائی (وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ ) (اور آپ یوں دعا کیجیے کہ اے میرے رب بخش دیجیے اور رحم فرمائیے اور آپ رحم فرمانے والوں میں سب سے بہتر رحم فرمانے والے ہیں) اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے امت آپ کی تابع ہے ساری امت اس فرمان پر عمل کرے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت طلب کیا کریں۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ ولقد حصل الفراغ من تفسیر سورة المومنون فی الیلۃ الحادیۃ عشر من ربیع الاخر سنۃ ١٤١٥ ھ الحمد للہ اولاً و آخراً و ظاھراً و باطنا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

87:۔ ” وقل رب اغفر الخ “ آخر میں حضرت پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور رحمت طلب کرنے کا حکم دیا گیا کیونکہ عفو و رحمت سے کوئی بھی بےنیاز نہیں ہوسکتا اور یہی دو چیزیں ہیں جن کے ذریعہ انسان اللہ کے عذاب و عقاب سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ لان رحمہ اذا ادرکت احدا اغنت عن رحمۃ غیرہ ورحمۃ غیرہ لا تغنیہ عن رحمتہ (مدارک ج 3 ص 100) سورة مومنون میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” قد افلح المومنون “ تا ” ھم فیھا خالدون “ عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے امور ثلاثہ کا بیان۔ 2 ۔ ” ولقد خلقنا الانسان “ تا ” وعلیھا وعلی الفلک تحملون “ (رکوع 1) نفی شرک فی التصرف پر دلائل عقلیہ۔ 3 ۔ ” ولقد ارسلنا نوحا “ تا ” افلا تتقون “۔ (رکوع 2) نفی شرک اعتقادی۔ 4 ۔ ” یا ایہا الرسل کلوا من الطیبت “ تا ” انی بما تعملون علیم “ (رکوع 4) ۔ نفی شرک فعلی۔ 5 ۔ ” ان الذین ھم من خشیۃ ربھم مشفقون “ تا ” وھم لھا سبقون “ (رکوع 4) دفع عذاب کے لیے امور ثلاثہ کا اعادہ۔ 6 ۔ ” ولو اتبع الحق اھواءھم لفسدت السموات والارض و من فیھن “ نفی کارسازی از غیر اللہ۔ 7 ۔ ” وھو الذی انشا لکم السمع “ تا ” افلا تعقلون “ (رکوع 5) ۔ نفی شرک اعتقادی۔ 8 ۔ ” قل لمن الارض و من فیھا “ تا ” قل فانی تسحرون “۔ نفی شرک اعتقادی پر تین دلائل عقلیہ علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ 9 ۔ ” ما اتخذ اللہ من ولد “ تا ” فتعالی اللہ عما یشرکون “۔ نفی شرک فی التصرف۔ 10 ۔ ” فتعالی اللہ الملک الحق ‘ تا ” وانت خیر الراحمین “ (رکوع 6) نفی شرک ہر قسم سورة مومنون ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(118) اور آپ یوں دعا کیجئے اے میرے پروردگار میری کوتاہیوں کو معاف فرما اور بخش دے اور میرے حال پر رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ یہ دعا مسلمانوں کو تعلیم فرمائی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرمایا یعنی آپ کے واسطہ سے امت کو تعلیم دی گئی۔ شروع سورت میں فرمایا تھا قد افلح المؤمنون آخر سورت میں فرمایا انہ لایفلح الکفرون۔ تم سورة المؤمنون