Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 13

سورة المؤمنون

ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪۱۳﴾

Then We placed him as a sperm-drop in a firm lodging.

پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً ... Thereafter We made him a Nutfah. Here the pronoun refers back to humankind, as in another Ayah: الَّذِى أَحْسَنَ كُلَّ شَىْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الاِنْسَـنِ مِن طِينٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَلَةٍ مِّن مَّأءٍ مَّهِينٍ and He began the creation of man from clay. Then He made his offspring from semen of despised water. (32:7-8) meaning, weak, as He says: أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّأءٍ مَّهِينٍ فَجَعَلْنَـهُ فِى قَرَارٍ مَّكِينٍ Did We not create you from a despised water, Then We placed it in a place of safety. (77:20-21) meaning the womb, which is prepared and readily equipped for that, ... فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ... in a safe lodging. إِلَى قَدَرٍ مَّعْلُومٍ فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَـدِرُونَ For a known period. So We did measure; and We are the Best to measure. (77:22-23) meaning, for a known period of time, until it is established and moves from one stage to the next. Allah says here,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

131محفوظ جگہ سے مراد رحم مادر ہے، جہاں نو مہینے بچہ بڑی حفاظت سے رہتا اور پرورش پاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] یعنی رحم مادر ایسا محفوظ مقام ہے جہاں نطفہ کو نشوونما کے لئے مناسب حرارت تو ملتی رہتی ہے لیکن شدید گرمی یا سردی وغیرہ کے اثرات سے بالکل محفوظ ہوتا ہے اور وہ وہاں سے ہل بھی نہیں سکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ : اس میں آدم (علیہ السلام) کے بعد نسل انسانی کی پیدائش کا ذکر ہے، یعنی پھر اس مٹی کو یا مٹی سے بنی ہوئی اس مخلوق کو پانی کا ایک قطرہ بنا کر ایک نہایت محفوظ ٹھکانے (رحم مادر) میں رکھا۔ مٹی سے پانی کا قطرہ بنانا، جس میں مٹی کا نام و نشان نہیں اور اسے ماں کے رحم کے نہایت محفوظ ٹھکانے میں رکھ کر پانی کے قطرے کو نو (٩) ماہ میں مکمل انسان بنادینا سب اس کی قدرت کا کمال ہے۔ ” قَرَارٍ مَّكِيْنٍ “ کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورة مرسلات (٢٠ تا ٢٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the next verse : ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً (then We made him a sperm-drop) this same point has been mentioned differently. The meaning of all this is that the first life i.e. Sayyidna &Adam علیہ السلامٍ was created from earth and continued further with the sperm which is a refined element of the same earth. This is how a majority of commentators have explained this verse. Another view is that (extract of clay) may also mean human seed because it is produced from the food which a man takes and the food grows out of the earth.

اس کو لفظ ثم سے فرمایا ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً کیونکہ مٹی سے غذا کا پیدا ہونا پھر غذا کا جزو بدن ہونا پھر اس میں سے جزء خاص کا نطفہ کی صورت میں تبدیل ہونا انسانی قیاس کی رو سے بڑا وقت چاہتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ۝ ١٣۠ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ نطف النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به . ( ن ط ف ) النطفۃ ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔ قرار قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64] ( ق ر ر ) قرر فی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا مكين وقوله : ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير/ 20] أي : متمکّن ذي قدر ومنزلة . ( مکین ) اس آيت میں مکین بمعنی متمکن یعنی صاحب قدر ومنزلت ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير/ 20] جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے در جے والا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ) ” رحم (uterus) کو ایک محفوظ ٹھکانہ قرار دیا گیا ہے ‘ جس کی دیوار بہت مضبوط ہوتی ہے۔ نطفہ رحم مادر میں پہنچتا ہے اور بیضۂ انثی کے ساتھ مل کر ovum fertilized رحم کی دیوار کے اندر embed ہوجاتا ہے ‘ گویا دفن ہوجاتا ہے جیسے بیج زمین کے اندر دفن ہوجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: محفوط جگہ سے مراد رحم مادر ہے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:13) جعلنہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع الانسان ہے ہ اصل میں مضاف الیہ ہے جس کا مضاف محذوف ہے اصل میں جعلنا نسلہ ہے مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ کو اس کے قائم لایا گیا ہے۔ نطفۃ۔ اصل میں آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مراد مرد کی منی لی جاتی ہے۔ کنایہ کے طور پر موتی کو بھی نطفۃ کہا جاتا ہے۔ قرار۔ ٹھہرنے کی جگہ (یعنی رحم) آرام کی جگہ۔ قرارگاہ ۔ ٹھکانا۔ مکین۔ کون مصدر سے صفت مشبہ (باب نصر) مضبوط۔ محفوظ۔ حصین۔ علقۃ۔ جمے ہوئے خون کی پھٹکی۔ خون کی وہ پھٹکی جو اس میں لگی رہتی ہے معلق ہوتی ہے۔ مضغۃ۔ گوشت کا ٹکڑا۔ بوٹی۔ مضغ مصدر (باب فتح ونصر) بمعنی چبانا۔ مضاغ چبانے کی چیز۔ فکسونا۔ ماضی جمع متکلم کسی یکسو (باب نصر) ہم نے پہنایا۔ کسوۃ لباس۔ انشانہ۔ ماضی جمع متکلم۔ انشاء (افعال) مصدر۔ ہم نے اس کو پیدا کیا۔ ہم نے اس کی پرورش کی۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب الانسان کی طرف راجع ہے۔ ثم انشانہ خلقا اخر۔ پھر ہم نے اس کو ایک نئی مخلوق بنا کر پیدا کیا۔ تبارک۔ وہ بہت برکت والا ہے۔ وہ بڑی برکت والا ہے۔ تبارک مصدر (تفاعل) بمعنی بابرکت ہونا۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اس فعل کی ان معنوں میں گردان نہیں آتی اور صرف ماضی کا صیغہ مستعمل ہے اور وہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے آتا ہے۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الٰہی ثابت ہونے کے ہیں۔ تبارک بہ۔ نیک فال لینا۔ کسی سے نیک شگون لینا۔ بارک اللہ لک وفیک وعلیک۔ اللہ تجھ کو مبارک کرے۔ فتبرک اللہ۔ پس بڑا بابرکت ہے اللہ۔ احسن۔ بہت اچھا۔ افعال التفضیل کا صیغہ واحد مذکر۔ الخلقین۔ پیدا کرنے والے۔ بنانے والے۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ خلق کا لفظ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے :۔ (1) کسی چیز کو کسی موجود مادے اور سابقہ مثال کے بغیر پیدا کرنا۔ ابداع الشیء من غیر اصل ولا احتذائ۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے مخصوص ہے اور یہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی۔ (2) کسی چیز کو سابقہ مادہ سے کسی موجودہ مثال کے مطابق بنا لینا۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں میں بھی پائی جاسکتی ہے اس کو صنعت کی صفت کہا جائے گا۔ اس لحاظ سے آیتہ ہذا میں الخالقین بمعنی الصانعین آیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آدم کی تخلیق کا دوسرا مرحلہ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آسمان اور ستارے کی قسم کھا کر انسان کو توجہ دلائی ہے کہ انسان کو اپنی تخلیق پر غور کرنا چاہیے کہ اسے کس طرح پیدا کیا گیا ہے۔ انسان اچھل کر نکلنے والے پانی کے قطرہ سے پیدا کیا گیا ہے یہ اچھل کر نکلنے والا قطرہ کہاں سے نکلتا ہے اس کی وضاحت فرمائی کہ یہ مرد کی پشت اور عورت کی چھاتی کی ہڈیوں سے نکلتا ہے پھر عورت کے رحم میں مخصوص جگہ پہنچ کر ایک مدت تک ٹھہرجاتا ہے۔ علم الجنین (embryology) کی رو سے یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنین (Foetus) کے اندر انثیین (Testes) یعنی وہ غدود جن سے مادّۂ منویہ پیدا ہوتا ہے، ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں۔ جہاں سے بعد میں یہ آہستہ آہستہ فوطوں میں اتر جاتے ہیں۔ یہ عمل ولادت سے پہلے اور بعض اوقات اس کے کچھ بعد ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کے اعصاب اور رگوں کا منبع ہمیشہ وہی مقام ( بَیْنَ الصُّلْبِ وَالتَّرَاءِبِ ) ہی رہتا ہے۔ بلکہ ان کی شریان (Artery) پیٹھ کے قریب شہ رگ (Aorta) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ کا سفر طے کرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ اس طرح حقیقت میں ” اُنثیین “ پیٹھ ہی کا جز ہیں جو جسم کا زیادہ درجۂ حرارت برداشت نہ کرنے کی وجہ سے فوطوں میں منتقل کردیے گئے ہیں۔ علاوہ بریں مادۂ منویہ اگرچہ ” انثیین “ پیدا کرتے ہیں اور وہ کیسۂ منویہ (Seminal vesicles) میں جمع ہوجاتا ہے مگر اس کے اخراج کا مرکز تحریک ( بَیْنَ الصُّلْبِ وَالتَّرَاءِبِ ) ہی ہوتا ہے اور دماغ سے اعصابی رو جب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (Triger action) سے کیسۂ منویہ سکڑتا ہے اور اس سے ماء دافق پچکاری کی طرح نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن کا بیان ٹھیک ٹھیک علم طب کی جدید تحقیقات کے مطابق ہے۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن : تفسیر سورة طارق)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” ثُمَّ جَعَلْنٰهُ الخ “ یہ انسانی زندگی کے ادوار اربعہ میں سے پہلے دور کا ذکر ہے پھر اس دور میں یعنی رحم مادر میں انسان کو چھ حالتوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ پہلی حالت وہ ہے جب نطفہ رحم مادر میں ٹھہرتا ہے اس آیت میں اسی حالت اولیٰ کا ذکر ہے۔ ضمیر مفعول الانسان کی طرف راجع ہے اور اس سے پہلے مضاف مقدر ہے۔ ای ثم جعلنا نسلہ ویکون (النطفۃ) منصوبا بنزع الخافض واختارہ بعض المھققین ای ثم خلقنا الانسان من نطفۃ کائنۃ فی قرار الخ (روح ج 18 ص 13) اور ” قرار مکین “ یعنی قرار کی محفوظ جگہ سے مراد رحم مادر ہے۔ (فی قرار) مستقر یعنی الرحم (مدارک ج 3 ص 87) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) پھر ہم نے اس کو یعنی آدم (علیہ السلام) کی نسل کو نطفے سے بنایا جس کو ہم نے ایک محفوظ مقام میں رکھا یعنی نسل انسانی کو نطفہ سے پیدا کیا جو مٹی ہی کا جوہر ہے پھر اس کو ایک مدت معینہ تک ایک محفوظ مقام یعنی ماں کے رحم میں رکھا۔ بعض حضرات نے مکین کا ترجمہ مضبوط کیا ہے۔