Surat ul Mominoon
Surah: 23
Verse: 15
سورة المؤمنون
ثُمَّ اِنَّکُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوۡنَ ﴿ؕ۱۵﴾
Then indeed, after that you are to die.
اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو ۔
ثُمَّ اِنَّکُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوۡنَ ﴿ؕ۱۵﴾
Then indeed, after that you are to die.
اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو ۔
After that, surely you will die. means, after first being created from nothing, you will eventually die. ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ
[١٦] یعنی تمہارا اس دنیا میں آنا بھی تمہارے اپنے اختیار سے نہ تھا بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق تھا اور اب اگر تم دنیا میں رہنا چاہو اور مرنے سے بچنے کی کوشش کرو تو یہ بات بھی ناممکن ہے۔ کیونکہ اللہ کا قانون یہی ہے کہ تمہیں موت آکے رہے گی اور یہاں سے تمہاری اخروی زندگی کا آغاز ہوجائے گا۔ جیسا کہ نطفہ سے تمہاری دنیوی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ بالفاظ دیگر موت دنیوی زندگی اور اخروی زندگی کی سرحد پر واقع ہے۔
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ : اگرچہ مٹی اور نطفے سے لے کر موت تک کا ہر لمحہ ہی موت کے بعد زندگی کا شاہد ہے، کیونکہ جسم کا ہر خلیہ جو موجود ہوتا ہے فنا ہوتا اور اس کی جگہ نیا خلیہ وجود میں آتا رہتا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے، جس کے دوران انسان بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی طرف بھی منتقل ہوتا رہتا ہے، مگر موت و حیات کے اس سلسلے پر غور کرنے والے بہت ہی کم ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے موت کا وہ مرحلہ بیان فرمایا جو ہر شخص اپنے سر کی آنکھوں کے ساتھ دیکھتا ہے۔ چناچہ ” ثُمَّ “ کے ساتھ اس مہلت کی طرف اشارہ فرمایا جو انسان کو پیدا ہونے کے بعد عمل کے لیے ملتی ہے اور ”إِنَّ “ اور ” لَام “ کی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ پھر زندگی کے سارے یا کچھ ادوار گزار کر آخر تمہیں ہر حال میں مرنا ہے۔
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ Then, after all this, you are to die - 23:15 The preceding three verses were about the creation of man and this verse and the one which follows is about the life to come. In this verse Allah says that after his creation man will spend a period of time in this world and then will meet his death from which there is no escape. Then He says that man will be raised on the Day of Resurrection
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ ، پچھلی تین آیتوں میں انسان کے مبدا یعنی ابتداء آفرینش کا ذکر تھا۔ اب دو آیتوں میں اس کے معاد یعنی انجام کار کا ذکر ہے۔ آیت مذکورہ میں فرمایا کہ پھر تم سب اس دنیا میں آنے اور رہنے کے بعد موت سے دوچار ہونے والے ہو جس سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے
(١٥۔ ١٦) اور پھر تم اس عجیب واقعہ کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور پھر تم قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے۔
ثم انکم بعدذلک لمیتون (٢٣ : ١٥) ثم انکم یوم القیمۃ تبعثون (٢٣ : ١٦) ” پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے ، “۔ یہ موت دنیا کی زندگی کا اختتام ہے اور دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان بھی ایک مرحلہ ہے۔ لہذا برزخ کی زندگی بھی حیات انسانی کی ترقی کا ایک مرحلہ ہے۔ اور برزخ انسانی زندگی کا اختتام نہیں ہے۔ اس کے بعد انسان نے حکم الہی کے مطابق دوبارہ اٹھنا ہے۔ یہ بھی زندگی کا ایک دور ہوگا ، ایک مرحلہ ہوگا لیکن یہ ایک کامل زندگی ہوگی۔ اس زندگی میں کوئی نقص نہ ہوگا ، اس میں خون اور گوشت کی زندگی کی ضروریات درکار نہ ہوں گی۔ نہ اس میں خوف اور بےچینی ہوگی ، نہ اس میں کوئی تبدیلی ہوگی اور نہ نشیب و فراز ہوں گے بلکہ یہ انسان کے لیے ایک آخری آرام گاہ ہوگی لیکن یہ کامل زندگی اس شخص کے لیے ہوگی جو ترقی و کمال کی راہوں پر چلنے والاہو۔ وہ زندگی کے اس سورة کی ابتدا ئی آیات جس کے خدوخال طے کردیئے گئے ہیں یعنی ایمان والوں کی زندگی ، ۔ لیکن جس نے اپنی زندگی کے بنیادی مرحلے کو ترقی نہ دی بلکہ اسے تنزل سے دوچارکرکے اسے حیوانی زندگی جیسا بنا دیا وہ آخرت میں بھی اسی طرح معکوس کرے گا۔ وہاں اس کی انسانیت جمادات کا کام کرے گی۔ وہ جہنم کا ایندھن ہوگا۔ جبکہ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھرہوگے تو اس قسم کے لوگ نباتات سے بھی نیچے پتھر ہوجائیں گے۔ اب سیاق کلام نفس انسانی کے اندرونی دلائل ایمان سے آفاق کائنات میں موجود دلائل ایمان کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔ لوگ ان آفاقی دلائل کو رات اور دن دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں لیکن پھر بھی غافل ہو کر گزر جاتے ہیں ۔
14:۔ ” ثُمَّ اِنَّکُمْ بعد ذالِکَ الخ “ یہ انسانی زندگی کا تیسرا دور ہے اور تخویف اخروی ہے یعنی عالم برزخ۔ دوسرے دور کا صراحۃً ذکر نہیں لیکن اشارۃً وہ مفہوم ہورہا ہے۔ ” ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ “ یہ چوتھے دور کا ذکر ہے یعنی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہو گے آخر ایک دن تمہیں مرنا ہے اور مرنے کے بعد پھر تمہیں زندہ کیا جائے گا اور تم خدا کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے اس لیے حیاء کرو اور خدائے قہار کے عذاب سے ڈرو اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرو۔