Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 17

سورة المؤمنون

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعَ طَرَآئِقَ ٭ۖ وَ مَا کُنَّا عَنِ الۡخَلۡقِ غٰفِلِیۡنَ ﴿۱۷﴾

And We have created above you seven layered heavens, and never have We been of [Our] creation unaware.

ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

His Sign in the creation of the Heavens Allah says here, وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَايِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ And indeed We have created above you seven Tara'iq, and We are never unaware of the creation. After mentioning the creation of man, Allah then mentions the creation of the seven heavens. Allah often mentions the creation of the heavens and earth alongside the creation of man, as He says elsewhere: لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ The creation of the heavens and the earth is indeed greater than the creation of mankind. (40:57) A similar Ayah appears at the beginning of Surah As-Sajdah, which the Messenger of Allah used to recite on Friday mornings. At the beginning it mentions the creation of the heavens and earth, then it says how man was created from semen from clay, and it also discusses the resurrection and rewards and punishments, and other matters. سَبْعَ طَرَايِقَ (seven Tara'iq). Mujahid said, "This means the seven heavens." This is like the Ayat: تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَـوَتُ السَّبْعُ وَالاٌّرْضُ وَمَن فِيهِنَّ The seven heavens and the earth and all that is therein, glorify Him. (17:44) أَلَمْ تَرَوْاْ كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَـوَتٍ طِبَاقاً See you not how Allah has created the seven heavens one above another! (71:15) اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـوَتٍ وَمِنَ الاٌّرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الاٌّمْرُ بَيْنَهُنَّ لِّتَعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمَا It is Allah Who has created seven heavens and of the earth the like thereof. His command descends between them (heavens and earth), that you may know that Allah has power over all things, and that Allah surrounds all things in (His) knowledge. (65:12) Similarly, Allah says here: وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَايِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ And indeed We have created above you seven Tara'iq, and We are never unaware of the creation. meaning, Allah knows what goes into the earth and what comes out of it, what comes down from heaven and what goes up into it. He is with you wherever you are, and Allah sees what you do. No heaven is hidden from Him by another and no earth is hidden from Him by another. There is no mountain but He knows its features, and no sea but He knows what is in its depths. He knows the numbers of what is in the mountains, the hills, the sands, the seas, the landscapes and the trees. وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ And not a leaf falls, but He knows it. There is not a grain in the darkness of the earth nor anything fresh or dry, but is written in a Clear Record. (6:59)

آسمان کی پیدائش مرحلہ وار انسان کی پیدائش کا ذکر کرکے آسمانوں کی پیدائش کا بیان ہو رہا ہے جن کی بناوٹ انسانی بناوٹ سے بہت بڑی بہت بھاری اور بہت بڑی صنعت والی ہے ۔ سورۃ الم سجدہ میں بھی اسی کا بیان ہے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز کی اول رکعت میں پڑھا کرتے تھے وہاں پہلے آسمان وزمین کی پیدائش کا ذکر ہے پھر انسانی پیدائش کا بیان ہے پھر قیامت کا اور سزا جزا کا ذکر ہے وغیرہ ۔ سات آسمانوں کے بنانے کا ذکر کیا ہے جسے فرمان ہے آیت ( تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ 44؀ ) 17- الإسراء:44 ) ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اوپر تلے ساتوں آسمانوں کو بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے انہی جیسی زمینیں بھی ۔ اس کا حکم ان کے درمیان نازل ہوتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور تمام چیزوں کو اپنے وسیع علم سے گھیرے ہوئے ہے اللہ اپنی مخلوق سے غافل نہیں ۔ جو چیز زمین میں جائے جو زمین سے نکلے اللہ کے علم میں ہے آسمان سے جو اترے اور جو آسمان کی طرف چڑھے وہ جانتا ہے جہاں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے ایک ایک عمل کو وہ دیکھ رہا ہے ۔ آسمان کی بلند و بالا چیزیں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں ، اور پہاڑوں کی چوٹیاں ، سمندروں ، میدانوں ، درختوں کی اسے خبر ہے ۔ درختوں کا کوئی پتہ نہیں گرتا جو اس کے علم میں نہ ہو کوئی دانہ زمین کی اندھیروں میں ایسا نہیں جاتا جسے وہ نہ جانتا ہو کوئی ترخشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں نہ ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171طرائق، طریقۃ کی جمع ہے مراد آسمان ہیں عرب، اوپر تلے چیز کو بھی کہتے ہیں آسمان بھی اوپر تلے ہیں اس لئے انھیں طرائق کہا۔ یا طریقہ بمعنی راستہ ہے، آسمان ملائکہ کے آنے جانے یا ستاروں کی گزرگاہ ہے، اس لئے انھیں طرائق قرار ریا۔ 172خَلَق سے مراد مخلوق ہے۔ یعنی آسمانوں کو پیدا کر کے ہم اپنی زمینی مخلوق سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم نے آسمانوں کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ مخلوق ہلاک نہ ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ مخلوق کی مصلحتوں اور ان کی ضروریات زندگی سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم اس کے انتظام کرتے ہیں (فتح القدیر) اور بعض نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ زمین سے جو کچھ نکلتا یا داخل ہوتا، اسی طرح آسمان سے جو اترتا اور چڑھتا ہے، سب اس کے علم میں ہے اور ہر چیز پر وہ نظر رکھتا ہے اور ہر جگہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہوتا ہے (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ دلیل بیان فرمائی جو انفس سے تعلق رکھتی ہے اور جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ (فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ ) 23 ۔ المؤمنون :14) اب آفاق سے چند دلائل پیش کئے جارہے ہیں۔ مبلع طرائق سے بعض علماء نے سات آسمان یا سات طبقات مراد لئے ہیں۔ جیسے ارشاد باری ہے : (اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا 15؀ۙ ) 71 ۔ نوح :15) اور بعض نے ان سے مراد سات راستے ہی لئے ہیں۔ جو فرشتوں کی آسمانوں میں آمدورفت کے راستے ہیں۔ اور آسمان چونکہ سات ہیں۔ اس لئے یہ راستے بھی سات ہیں۔ اور بعض علماء نے ان سے سات سیاروں کے راستے یا مدار مراد لئے ہیں۔ چونکہ نزول قرآن کے زمانہ میں بطلیموسی نظریہ ہیئت بھی درست سمجھا جاتا تھا اور اس نظریہ کے مطابق سات سیارے ہی محو گردش ہیں اور وہ چاند، زہرہ، عطارد، سورج، مشتری، مریخ اور زحل۔ لہذا قرآن نے لوگوں کے علم اور سمجھ کے مطابق ساتھ ہی راستوں کا ذکر فرمایا۔ اگرچہ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اور فَوْقَکُمْ (یعنی تمہارے اوپر کے ایک معنی تو وہی ہیں جو عام فہم ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں کی یا سیاروں اور ان کے مداروں کی تخلیق تمہاری تخلیق سے بہت بلند تر اور بڑی چیز ہے۔ اور اس مطلب کی بھی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوجاتی ہے۔ ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀) 40 ۔ غافر :57) [١٩] یعنی ہم اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اس کے مستقل نگہداشت بھی کرتے رہتے ہیں کیونکہ جس چیز سے بھی کام لیا جائے وہ کسی نہ کسی وقت بگڑ بھی جاتی ہے اس کی چال اور اس کے کام میں فرق آجاتا ہے اور اگر بروقت اس کی نگہداشت نہ کی جاوے تو وہ خراب اور تباہ بھی ہوجاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کا نظام اتنا مربوط و منظم ہے کہ اس میں نہ ذرہ بھر فرق آتا ہے اور نہ کہیں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ جو اس کی بات کی قوی دلیل ہے کہ اس کائنات کا کوئی ایسا منتظم موجود ہے جو اپنی اس عظیم الجثہ مخلوق کی ہمہ وقت کڑی نگہداشت کر رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ : اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد زندگی کی دلیل کے طور پر انسان کی اپنی پیدائش کا ذکر فرمایا، جو غور کرنے والے کے لیے کافی تھی، مگر اس کے بعد اس سے بھی کہیں بڑی مخلوق آسمانوں اور زمین کا اور ان میں رکھی ہوئی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ قیامت کی دلیل کے طور پر اللہ تعالیٰ اکثر انسان کی پیدائش کے ذکر کے بعد آسمانوں اور زمین کی پیدائش کا ذکر فرماتا ہے اور اس سے پہلے یا بعد قیامت کا ذکر فرماتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا 27؀۪رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا 28؀ۙوَاَغْطَشَ لَيْلَهَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىهَا 29؀۠وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا ) [ النازعات : ٢٧ تا ٣٠ ] ” کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان ؟ اس نے اسے بنایا۔ اس کی چھت کو بلند کیا، پھر اسے برابر کیا۔ اور اس کی رات کو تاریک کردیا اور اس کے دن کی روشنی کو ظاہر کردیا اور زمین، اس کے بعد اسے بچھا دیا۔ “ اسی طرح دیکھیے سورة مومن (٥٧) اور سورة سجدہ کی شروع کی آیات۔ فَوْقَكُمْ : زمین کے کسی حصے پر چلے جاؤ آسمان اوپر ہی ہوگا۔ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ :” طَرَاۗىِٕقَ “ ” طَرِیْقَۃٌ“ کی جمع ہے۔ ” طَارَقَ یُطَارِقُ “ اور ” أَطْرَقَ “ کا معنی ایک دوسرے پر چڑھانا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم ترکوں سے لڑو گے۔ “ پھر ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : ( کَأَنَّ وُجُوْھَھُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَۃُ ) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب قتال الترک : ٢٩٢٨ ] ” ان کے چہرے (ایسے چوڑے ہوں گے) جیسے وہ ایسی ڈھا لیں ہیں جن پر چمڑا چڑھایا ہوا ہے۔ “ ” طَارَقْتُ بَیْنَ الثَّوْبَیْنِ “ ” میں نے دو کپڑے اوپر تلے لیے۔ “ مطلب یہ ہے کہ یہ ساتوں آسمان ایک دوسرے کے اوپر ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا) [ نوح : ١٥ ] ” کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے پیدا فرمایا۔ “ ” طَرَقَ یَطْرُقُ “ (ن ) ” ضَرَبَ “ کے معنی میں بھی آتا ہے، ہتھوڑے کو ” اَلْمِطْرَقَۃُ “ اسی لیے کہتے ہیں۔ ” طَرِیْقٌ“ کا ایک معنی راستہ بھی ہے، کیونکہ وہ چلنے والوں کی ٹھوکر میں ہوتا ہے۔ آسمانوں کو ” طَرِیْقَۃٌ“ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ وہ فرشتوں کی آمد و رفت اور احکام الٰہی کے نزول اور اعمال کے اوپر جانے کے راستے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ) [ الطلاق : ١٢ ] ” اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔ “ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَ : ” کُنَّا “ استمرار (ہمیشگی) کے لیے ہے، اسی لیے ترجمہ میں ” کبھی “ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ انسانوں اور آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد ہم ان سے بیخبر اور بےتعلق ہوگئے ہوں، یا انھیں کسی داتا، دستگیر یا گنج بخش کے حوالے کردیا ہو، نہیں، ایسا نہ کبھی تھا نہ ہوگا۔ ان کا وجود تو قائم ہی ہمارے علم اور ہماری قدرت کی بدولت ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْــرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ) [ الحدید : ٤ ] ” وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔ “ اور دیکھیے سورة انعام (٥٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَ‌ائِقَ And We created upon you seven paths (heavens) - 23:17 طَرَ‌ائِقَ is the plural of طَرِیقَۃ which may also be used as a synonym for طَبقَہ (tier) in which case the meaning would be that Allah created seven skies overhead row upon row in tiers. The other and more common meaning of the word طَرِیقَۃ is |"road|" or |"passage|" in which case the verse would mean that these skies provide a path for the angels who bring commands from Allah to the earth. وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ (And We were never neglectful of the creation - 23:17). The verse means that Allah did not just abandon man after creating him, but was ever mindful of his needs and provided the means for his sustenance and growth. To this end He first created the skies and from the skies He sent forth rains upon the earth which then produced food for men&s nourishment. The Divine system of providing water to meet human needs وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ And We sent down water from the sky in due measure, then We lodged it in the earth, and of course, We are able to take it away. - 23:18

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ ، طرائق، طریقة کی جمع ہے اس کو بمعنی طبقہ بھی لیا جاسکتا ہے جس کے معنے یہ ہوں گے کہ تہ بہ تہ سات آسمان تمہارے اوپر بنائے گئے اور طریقہ کے معنے مشہور راستہ کے ہیں۔ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ سب آسمان فرشتوں کی گزرگاہیں ہیں جو احکام لے کر زمین پر آتے جاتے ہیں۔ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَ اس میں یہ بتلایا کہ ہم نے انسان کو صرف پیدا کر کے نہیں چھوڑ دیا اور اس سے غافل نہیں ہو سکتے بلکہ اس کے نشو و نما اور رہائش و آسائش کے سامان بھی مہیا کئے جس کی ابتداء آسمانوں کی تخلیق سے ہوئی پھر آسمان سے بارش برسا کر انسان کے لئے غذا اور اس کی آسائش کا سامان پھلوں پھولوں سے پیدا کیا جس کا ذکر بعد کی آیت میں اس طرح فرمایا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ۝ ٠ۤۖ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَ۝ ١٧ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ طرق الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] ، قال الشاعر : 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک : ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا . ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة . وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ، وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی: كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ. ( ط رق ) الطریق کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) اور ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے کہ ان میں سے ایک ایک کے اوپر ہے اور ہم مخلوق کی مصلحتوں سے بیخبر نہ تھے کہ بغیر کسی حکم اور نہی کے ان کو ویسے ہی چھوڑ دیتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَآءِقَق) ” عام طور پر ” سَبْعَ طَرَآءِقَ “ سے سات آسمان مراد لیے جاتے ہیں۔ ” طرائق “ کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی۔ دوسرے معنی کے مطابق اس سے ” تہہ بر تہہ سات آسمان “ مراد ہیں۔ واللہ اعلم ! جب تک انسانی علم کی رسائی اس کی حقیقت تک نہ ہوجائے ‘ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لحاظ سے یہ آیت متشابہات میں سے ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. The original Arabic word taraiq has more than one meaning. It may refer to the paths of the seven planets, with which the man of the time of the revelation of the Quran was familiar, or to the seven heavens. It should be noted that this word has not been used as a modern scientific term, but as a common word according to the Arabic usage of the period in order to invite the people’s attention to the wonders of the heavens, whose creation is certainly a greater thing than the creation of men. (Surah Al-Hijr, Ayat 57). 16. This may also be translated as: We were not nor are heedless of Our creation. According to the first translation, it will mean that the whole of the creation has been brought about in a perfect manner with a definite design and purpose. For Allah, their Creator, is perfect in every respect. The creation itself a proof that it is not the work of a novice or an inexpert. All the physical laws of the entire system of the universe are so closely interconnected as to prove that it is the creation of the All-Wise Allah. If we take the second translation, it will mean that Allah has not been heedless in making provisions for every thing according to its nature from the most insignificant to the greatest of all.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :15 اصل میں لفظ : طرائق استعمال ہوا ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی ۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو غالباً اس سے مراد سات سیاروں کی گردش کے راستے ہیں ، اور چونکہ اس زمانے کا انسان سبع سیارہ ہی سے واقف تھا ، اس لیے سات ہی راستوں کا ذکر کیا گیا ۔ اس کے معنی بہرحال یہ نہیں ہیں کہ ان کے علاوہ اور دوسرے راستے نہیں ہیں اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو : سَبْعَ طَرَآئِقَ کا وہی مفہوم ہو گا جو سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقاً ( سات آسمان طبق بر طبق ) کا مفہوم ہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے ، تو اس کا ایک تو سیدھا سادھا مطلب وہی ہے جو ظاہر الفاظ سے ذہن میں آتا ہے ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم سے بھی زیادہ بڑی چیز ہم نے یہ آسمان بنائے ہیں ، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : لَخَلقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ۔ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ( المومن ۔ آیت 57 ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :16 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : اور مخلوقات کی طرف سے ہم غافل نہ تھے ، یا نہیں ہیں ۔ متن میں جو مفہوم لیا گیا ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہم نے بنایا ہے ، یہ بس یونہی کسی اناڑی کے ہاتھوں الل ٹپ نہیں بن گیا ہے ، بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر پورے علم کے ساتھ بنایا گیا ہے ، اہم قوانین اس میں کار فرما ہیں ، ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سارے نظام کائنات میں ایک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ، اور اس کار گاہ عظیم میں ہر طرف ایک مقصدیت نظر آتی ہے جو بنانے والے کی حکمت پر دلالت کر رہی ہے ۔ دوسرا مفہوم لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہم نے پیدا کی ہے اس کی کسی حاجت سے ہم کبھی غافل ، اور کسی حالت سے کبھی بے خبر نہیں رہے ہیں ۔ کسی چیز کو ہم نے اپنے منصوبے کے خلاف بننے اور چلنے نہیں دیا ہے ۔ کسی چیز کی فطری ضروریات فراہم کرنے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی ہے ۔ اور ایک ایک ذرے اور پتے کی حالت سے ہم با خبر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: یہاں آسمانوں کو تہہ بر تہہ راستوں سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے انہی آسمانوں سے آتے جاتے ہیں۔ اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنی مخلوق سے غافل نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہماری مخلوق کی ضروریات کیا ہیں، اور ان کی مصلحت کا کیا تقاضا ہے، اس لیے ہماری تمام تخلیقات میں ان مصالح کی پوری رعایت ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:17) طرائق۔ طریقۃ کی جمع ہے راہیں۔ طریقے۔ یہاں مراد آسمان ہیں آسمانوں کو طریق سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ ان میں فرشتوں کی آمدورفت کے لئے اور ستاروں کی گردش کے لئے راہیں اور راستے ہیں۔ طرائق بمعنی آسمان اس لئے لیا گیا ہے کہ عربی میں جب ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر رکھتے ہیں تو کہتے ہیں طارقت الشیء میں نے چیزوں کو ایک دوسری کے اوپر رکھا۔ چونکہ آسمان بھی ایک دوسرے کے اوپر ہیں اس لئے انہیں بھی طرائق بیان کیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ آسمانوں کو راستے اس لئے کہا گیا کہ وہ فرشتوں یا سیاروں کی گزرگاہیں ہیں۔ بعض مفسرین (رح) نے طرائق کے معنی طبقات بھی کئے ہیں۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ” سبع سمت طباقا “ فرمایا ہے۔ (ملک :3) 3 ۔ یعنی اپنی کسی جاندار یا بےجان مخلوق کی حفاظت اور اس کی ضرورتوں سے بیخبر نہیں ہیں۔ یہی معنی ” الحی القیوم “ کے ہیں (قرطبی) ان سات آسمانوں کو زمین پر گرنے سے سنبھالے ہوئے ہیں ورنہ اگر یہ گرجائیں تو زمین پر بسنے والے سب ہلاک ہوجائیں۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 22 : فوق (اوپر) ‘ سبع (سات) طرائق (طریقۃ) راستے ‘ الخلق (پیدائش۔ بناوٹ) ‘ بقدر (ایک اندا زے سے) ‘ اسکنا (ہم نے روک دیا۔ ہم نے ٹھہرادیا) نخیل (کھجور) ‘ اعناب (عنب) انگور ‘ فواکۃ (فاکھۃ) میوے ‘ تنبت (اگتی ہے۔ اگتا ہے) ‘ دھن (تیل) ‘ صبغ (سالن) ‘ اکلین (کھانے والے) ‘ الانعام (مویشی۔ جانور) ‘ نسقی (ہم پلاتے ہیں) ‘ بطون (بطن) (پیٹ) ‘ تحملون (تم سوار کئے گئے) ۔ تشریح : آیت نمبر 17 تا 22 : اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کو سات مرحلوں سے گذار کر پیدا کیا فرمایا کہ اسی طرح کائنات کے ذرہ ذرہ کو اس نے انسانی ضروریات کے لئے پیدا کیا ہے جو اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اللہ نے انسان کو خشکی ‘ تری ‘ فضاؤں اور ہواؤں پر ایک خاص عزت و عظمت اور برتری عطا فرمائی ہے۔ وہ بعض جسمانی کمزوریوں کے باوجود نہایت عزم و ہمت کا پیکر اور سخت جان ہے۔ جب وہ اللہ کی توفیق سے کسی کام کے کرنے پر آتا ہے تو ہر چیز اس کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہے لیکن اس سب کے باوجود کائنات اور اسکے عظیم اور پھیلے ہوئے نظام زمین و آسمان ‘ پہاڑ ‘ سمندر اور اس میں رہنے بسنے والی مخلوق کے مقابلے میں انسان جسمانی طور پر بہت کمزور ہے۔ وہ معمولی اور حقیر قطرہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے بڑا کام تھا۔ لیکن اس کے باوجود اللہ نے اس نظام زندگی کو اس طرح بنایا کہ جب انسان پورے عزم و ہمت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو ذرہ ذرہ کو اسکے تابع کردیا جاتا ہے۔ اور اس طرح ہم آہنگ ہوجاتا ہے کہ ناموافق صورت حال کے باوجود انسان ان پر قابو پا لیتا ہے۔ کائنات کے وسیع خلا میں بیشمار ستارے اور سیارے بڑی تیزی سے گردش کررہے ہیں مگر ان کو ایسے قاعدے ‘ قرینے اور سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے جس سے ایک خاص ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے۔ جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ نے ان تمام چیزوں کو پورے علم و حکمت کے ساتھ بنایا ہے اور وہ اپنی مخلوق کی کسی ضرورت اور حاجت سے بیخبر نہیں ہے۔ اس طرح اس دنیا میں انسان کی ترقی ‘ نشوو نما ‘ رہائش و آسائش کے تمام اسباب پیدا کردیئے گئے ہیں جن کو شمار کرنا ناممکن نہیں ہے تاکہ اس کو کسی طرح کی دشواری پیش نہ آئے۔ تو ازن ایسا قائم فرمایا ہے کہ انسان کو اور کائنات کو جس چیز کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی عطا کی جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کو ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے بنایا ہے جو فرشتوں کی گذر گاہیں بھی ہیں جن سے وہ اللہ کے احکامات کو لے کر زمین کی طرف آتے ہیں دوسرے یہ کہ آسمان دنیا کو ایک چھت کی طرح بنا دیا ہے تاکہ کائنات کو نقصان پہنچانے والی چیزیں انسانی دنیا تک نہ پہنچ سکیں۔ تو ازن ایسا پیدا کیا ہے کہ جس وقت جس چیز کی جتنی ضرورت ہے اسی مقدار میں اس کو عطا کردیا جاتا ہے۔ بارش کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ پانی انسان کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر انسان بلکہ کوئی جان دار زندہ رہ سکتا اس کے دھانے اگر کھول دیئے جاتے تو ہر طرف تباہی مچ جاتی اور انسانی تہذیب و ترقی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی۔ بارش کو بیشمار وسائل کا ذریعہ بنایا دیا اور اس کی حفاظت کا مناسب بندوبست بھی کردیا۔ ایک مردہ اور خشک زمین پر جیسے ہی بارش برستی ہے ہر طرف زندگی کے آثا نمایاں ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف تروتازگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ قسم قسم کے نباتات ‘ سر سبزی و شادابی ‘ کھیتی ‘ میوہ ‘ اناج ‘ پھل پھول ‘ جڑی بوٹیاں ‘ سبزی اور ترکاریاں ‘ گھانس پھونس پیدا ہوجاتا ہے جو انسانوں اور جانوروں کی ضروریات زندگی کا سامان بن جاتے ہیں۔ کھجوروں اور انگوروں کے باغات نئی رونق اور تروتازگی پیدا کرتے ہیں۔ کھیت لہلہانے لگتے ہیں۔ درختوں کی خوبصورتی بڑھ جاتی ہے زیتون کے درخت کا خاص طور پر ذکر فرمایا جو صحرائے سینا میں پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کی اس قدرت کا اظہار بھی ہے عام طور پر صحراؤں میں ریتیلے ٹیلوں ‘ خشک پہاڑوں اور گردو غبار کے سوا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اللہ نے اسی صحرا میں زیتون کا درخت اگایا جس سے بیشمار فائدے ہیں۔ صحرا میں اگنے والے اس درخت کی عمر ہزاروں سال کی ہوتی ہے۔ اس کا تیل کھانے اور بدن پر ملنے اور دوسری ضروریات میں استعمال کیا جاتا ہے جس کے بہت فائدے شمار کئے گئے ہیں۔ غرضیکہ اللہ نے بارشوں کے نظام کو ایک تو ازن کے ساتھ بنایا ہے تاکہ وہ انسانی ضروریات کو پورا کرسکے۔ پھر پانی برسا کر اس کی حفاظت کا بھی اعلی ترین انتظام فرما دیا۔ بہتے پانی کو زمین میں اس طرح جذب کردیا کہ انسان جب چاہے اس کو چند فٹ زمین کھود کر نکال لے اور آسانی سے استعمال کرلے۔ اگر وہ پانی انتہائی گہرائیوں میں پہنچ جاتا تو اس کو استعمال کرنا ممکن نہ ہوتا۔ پھر اس پانی کو پہاڑوں کی چوٹیوں پر کھلے آسمان کے نیچے اس طرح جمادیا کہ وہ سال بھر آہستہ آہستہ بہہ کر ندی ‘ نالوں ‘ جھرنوں اور دریاؤں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ انسان اس سے پانی کھیتی باڑی کے لئے ‘ اپنے اور جانوروں کے پلانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ یہ سب کچھ خودبخود نہیں ہوگیا بلکہ یہ سب کچھ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا ہے۔ جانوروں اور مویشیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں عبرت و نصیحت کا ذریعہ بنا دیا۔ اللہ نے اپنی قدرت سے جانور کے دودھ اور گوشت اور اس پر سواری کرنے کو ایک نعمت کے طور پر بیان کیا۔ فرمایا دودھ جیسی پاکیزہ اور صاف ستھری چیز کو اللہ نے جانور کے گوبر اور خون کے درمیان سے اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس میں نہ گوبر کی بد بو ہوتی ہے اور نہ خون کا اثر اور رنگ بلکہ دودھ کا ایک ایک قطرہ اللہ کی صنعت کی تعریف کرتا نظر آتا ہے۔ اللہ نے جانوروں کو تازہ گوشت کی فیکٹریاں بنادیا۔ جب بھی ان کی ذبح کیا جاتا ہے اسی وقت تزہ گوشت مل جاتا ہے۔ اگر وہ کچھ زیادہ دیر رہ جائے تو سڑ جاتا ہے اور ناق ابل استعمال ہوجاتا ہے۔ وہی گوشت جانور کی کھال کے اندر بڑے عرصے تک رہنے کے باوجود نہ سڑتا ہے نہ گلتا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ نے ان جانوروں کے گوشت کو انسانی استعمال کے لئے بنایا ہے تاکہ جب بھی وہ اس کو استعمال کرنا چاہیے آسانی سے استعمال کرلے۔ اسی طرح تنگ و تاریک اور پہاڑوں کے پر پیچ راستوں میں یہ جانور سواری اور سامان کو لاد کرلے جانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ فرمایا کہ یہ طاقت ور جانور ہیں مگر انہیں اللہ نے انسان کے تابع کرکے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرمایا ہے۔ اسی طرح اللہ نے سمندری پانی کو بھی انسانی ضرورتوں کے لئے اس کے تابع کردیا ہے۔ ورنہ پانی اتنی بڑی طاقت ورچیز ہے ایک بڑے سے بڑے جہاز کی سمندر کے پانی کے سامنے ایک تنکے سے زیادہ حیثیت نہیں ہوتی۔ مگر سمندر کی گہرائیوں اور ہوا کی شدت کے باوجود اللہ ان جہازوں کی حفاظت فرماتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان کو دوبارہ زندہ ہونے پر اس لیے بھی یقین کرنا چاہیے کہ جس خالق نے اوپر، نیچے سات آسمان بنائے اور انہیں بغیر سہارے کے کھڑا کر رکھا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیونکر مشکل ہوسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کی تخلیق کا ذکر فرما کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم نے جو کچھ پیدا کیا ہے اس سے غافل نہیں ہیں اس فرمان میں آسمانوں کی بجائے ” طرائق “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے بارے میں اہل علم نے تین آراء کا اظہار فرمایا ہے۔ 1 ” سبع طرائق “ کا معنٰی ہے اوپر نیچے سات آسمان 2” سبع طرائق “ سے مراد سات قرأتیں ہیں۔ 3” سبع طرائق “ سے مراد آسمان کے وہ دروازے ہیں جن کے ذریعے ملائکہ زمین پر آتے ہیں اور پھر آسمان پر چڑھتے ہیں۔ بہرحال ان سے مراد آسمان ہوں یا کوئی دوسری چیز اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ناصرف اپنی مخلوق سے پوری طرح باخبر ہے بلکہ وہ اپنی مخلوقات کی ہر قسم کی ضروریات کو جانتا ہے اور کماحقہ ان کی ضروریات پوری کرنے والا ہے۔ بعض مفسرین نے غافلین کا معنٰی کیا ہے کہ اس نے آسمانوں اور کسی چیز کو بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر، نیچے سات آسمان پیدا فرمائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق اور اس کی ضروریات کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی تخلیق کا مقصد اور اس کی مدّت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائیں۔ (البقرۃ : ٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ : ٢٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف : ٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد تحملون (آیت نمبر 17 تا 22) سیاق کلام ان دلائل کو پیش کرتا ہے اور ان تمام دلائل کو باہم مربوط کرتا ہے کہ یہ تمام دلائل قدرت الہیہ کے نشانات ہیں۔ پھر یہ سب نشانات یہ بھی دکھاتے ہیں کہ اس کائنات کو کس شان اور تدبیر کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ قدرت کے یہ تمام مظاہر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ان نشا نات کے کام اور فرائض منصبی بھی باہم مربوط ہیں اور جس سمت کی یہ نشاہدہی کرتے ہیں وہ بھی ایک ہے یعنی ایک خالق۔ سب کے سب ایک ہی ناموس فطرت کے مطیع ہیں ، اپنے فرائض تکوینی میں باہم متعاون ہیں اور ان کی خدمات سب کی سب اس حضرت انسان کے لیے ہیں جسے اللہ نے معزز اور مکرم بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تخلیق انسان اور دوسرے مظاہر فطرت کو یکجا کیا گیا ہے۔ ولقد خلقنا فو قکم سبع طرائق وما کنا عن الخلق غفلین (٢٣ : ١٧) ” اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے ، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نا بلد نہ تھے “۔ یہ سات راستے طرائق کیا ہیں ، یہ دراصل طبقات ہیں ، بعض ، بعض کے اوپر ہیں یا بعض دوسرے کی نسبت بہت دور ہیں ۔ سیع طرائق سے اہم فلکی مدار بھی ہوسکتے ہیں ۔ اور اسی طرح ان سے مرادوہ سات ، کہکشاں بھی ہو سکتے ہیں جس طرح ہم سورج کی کہکشاں میں بستے ہیں ، یا ان سے سات سدم بھی مراد ہوسکتے اور سدم سے مراد فلکیات والوں کے نزدیک ستاروں کے مجموعے (Nebula) ہیں۔ غرض مراد جو بھی ہو ، یہ سات فلکی مخلوق ہے اور یہ انسانوں کے اوپر ہے ، بہر حال یہ سبع طرائق زمین سے بلندی پر ہیں اور اسی فضائے کائنات میں ہیں ۔ اللہ نے اپنی سان حکیمانہ سے ان کو پیدا کیا ہے اور وہ اللہ وہ اللہ اپنی تخلیق سے غافل نہیں ہے۔ وانزلنا من السماء ماء بقدر فاسکنہ فی الارض وانا علی ذھاب بہ لقدرون (٢٣ : ١٨) ” اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھرادیا ، ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں “۔ یہاں یہ سات راستے زمین کے ساتھ جمع ہوجاتے ہیں ۔ پانی آسمان سے اترتا ہے۔ ان سات افلاک کے ساتھ پانی کا تعلق ہے۔ کیونکہ اس کائنات کا اس انداز پر پیدا کیا جانا ہی اس بات کا ضامن ہے کہ وہ آسمانوں سے پانی اتارتا ہے ، پھر یہ پانی کے اوپر ٹھرتا ہے ۔ یہ نظریہ کہ زمین کے اندر جو پانی ہے وہ بارشوں ہی کا پانی ہے ۔ یہ پانی مختلف راہوں سے زمین کے اندر جذب ہوجاتا ہے۔ یہ نظریہ بالکل ایک جدید نظریہ ہے۔ ماضی قریب تک لوگ یہ سوچتے تھے کہ بارش کے پانی اور زمین کے اندر کے پانی کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے لیکن قرآن نے آج سے تقریباً تیرہ سو سال پہلے اس حقیقت کو بیان کردیا تھا۔ پھر اللہ نے اس پانی کو ٹھیک ٹھیک حساب کے مطابق اتارا ، نہ زیادہ اتارا کہ طوفان کی شکل میں سب کچھ غرق کردے اور نہ ضرورت سے کم اتارا کہ ملکوں کے اندر خشک سالی ہوجائے اور تروتازہ گی اور شادابی ختم ہوجائے۔ نہ بےموسم اتارا کہ پانی ضائع چلا جائے۔ فا سکنہ فی الارض (٢٣ : ٦١) ” اور اس کو زمین میں ٹھرادیا “۔ تو یہ پانی بھی زمین میں ٹہرا ہوا ہے اور انسان کا نطف بھی قرار مکیں میں ٹھرا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بہترین مشابہت اور تقابل ہے۔ دونوں اللہ کی تدبیر سے ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ ایک زمین میں اور ایک رحم میں۔ وانا علی ذھاب بہ لقدرون (٢٣ : ١٨) ” اور ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں “۔ یو کہ وہ زمین کے اندر دور تک گہرائیوں میں چلا جائے ، اور جن محفوظ مقامات کے اندر یہ بانی محفوظ رہتا ہے ، ان میں شکاف پر جائیں اور پانی گہرائیوں میں سے نکل کر غائب ہوجائے یا کسی اور طریقے سے ناپید ہوجائے۔ کیونکہ جس خدا نے اپنی قدرت سے پای کو زمین میں ٹھہرایا ہے وہ اپنی قدرت سے اسے غائب بھی کرسکتا ہے ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اسے روک رکھا ہے۔ اور یہ زندگی کی بو قلمو نیاں تو قائم ہی پانی سے ہیں۔ فانشا نا لکم بہ جنت من نخیل و اعناب لکم فیھا فواکہ کثیرۃ ومنھا تاکلون (٢٣ : ١٩) ” پھر اس پانی کے ذریعے سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کردیئے “۔ تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیذ پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو “۔ کھجور اور انگور دوہ نمونے ہیں ان نباتاتی اشیاء کے جو پانی سے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ انسان اور حیوان نطفے کے پانی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ دونوں نمونے ایسے ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں اسی دور میں رچے بسے تھے جبکہ دوسرے تمام قسم کے فواکہ اور حیوانات بھی پانی ہی سے پیدا ہوئے ہیں ۔ دوسری تمام پیداوار مین زیتون کے درخت کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ و شجرۃ تخرج من طور سیناء تنبت بالدھن وصبغ لااکلین (٢٣ : ٢٠) ” اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے ، تیل بھی لیے ہوئے نکلتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی “۔ یہ اکثر درختوں سے زیادہ مفید ہے اس کا تیل ، اس کا پھل اور اس کی ٹکڑی سب ہی مفید ہیں ۔ اور عربستاں کے قریب ترین مقامات جہاں یہ اگتا ہے ، طور سینا ہے۔ یہ اس وادی مقدس کے قریب ہے جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی۔ لہذا اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا۔ یہ درخت بھی وہاں اس پانی کی وجہ پیدہوتا ہے جو زمین کے اندر کے اندر محفوظ ہے۔ اب نبا تات سے آگے عالم حیوانات پر ایک نظر وان منھا تاکلون (٢١) وعلیھا وعلی الفلک تحملون (٢٣ : ٢٢) ” اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے ۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز (یعنی دودھ) ہم تمہیں پلاتے ہیں ، اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے فائدے بھی ہیں ۔ ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو “۔ یہ تمام مخلوقات انسان کے لیے اللہ کی قدرت نے مسخر کردی ہے اور اس کائنات میں یہ مخلوق مختلف قسم کے مقاصد پورے کررہی ہے۔ ان چیزوں میں عبرت ہے ، اس شخص کے لیے جو چشم بصیرت کے ساتھ ان کو دیکھے اور پھر عقل کے ساتھ ان چیزون کے دیکھے اور ان پر غور کرے۔ انسان دیکھتا ہے کہ وہ جو خوشگوار دودھ پیتا ہے۔ وہ ان جانوروں کے پیٹ سے نکلتا ہے ۔ یہ ہے خلاصہ اس غذا کا جو یہ جانور ہضم کرتے ہیں۔ اور پھر دودھ کے غدود سے اسے اس پاک و صاف سفید سیال مادے کی شکل دیتے ہیں جو نہایت ہی خوشگوار اور لطیف غذا بھی ہے۔ ولکم فیھا منافع کثیرۃّ (٢٣ : ٢١) ” ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار ہوتے ہو “۔ اللہ نے انسانوں کے لیے مویشیوں کا کھان حلال قرار دیا ۔ مثلاً اونٹ ، گائے ، اور بھیڑ بکری۔ لیکن اللہ نے ان کو عذاب دینا اور مثلہ بنانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ کھانے سے تو ایک ضرورت پوری ہوتی ہے لیکن ان کو عذاب دینا تکلیف پہنچانا اور مثلہ بنانا بےفائدہ تعذیب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے قلب و نظر میں فساد ہے اور اس کی فطرط سلیمہ نہیں رہی ہے جبکہ اس فعل سے زندگی کو کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچا۔ یہاں مویشیوں پر سواری کی منا سبت سے کشتیوں کی سواری کا ذکر بھی کردیا گیا ہے ۔ کشتی بھی ایک کائناتی نظام کے تحت انسان کے لیے مسخر بنا دی گئی ہے اور اس نظام بحری سفر کے نظام میں بھی انسانوں کا مفاد ہے۔ پانی کو بھی انسان کے لیے مفید بنایا۔ پھر کشتی کو اس قابل بنایا کہ وہ پانی کے اوپر تیر رہی ہے اور ہوائوں کو اس طرح چلایا کہ وہ کشتیوں کو منزل مقصود مقصود تل لے جارہی ہیں۔ اگر ان امور میں سے کوئی امر بھی نہ ہو یعنی پانی ، کشتی ، اور ہوا تو بحری سفر مشکل ہوجائے ۔ آج بھی بحری سفر انہی سہولیات پر مبنی ہے۔ یہ تمام امور دلائل ایمان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ، بشرطیکہ کوئی فہم اور ادراک اور تفکر و تدبر کر رے ان پر غور کرے اور ان سب امور کا تعلق اس سورة کے پہلے اور دوسرے پیرا گراف کے ساتھ ہے۔ ان امور سے تمام پیرا گرف مربوط اور ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آسمانوں کی تخلیق، خاص مقدار کے موافق بارش ہونا اور اس کے ذریعہ باغیچوں میں پیداوار ہونا ان آیات میں اللہ جل شانہٗ نے آسمانوں کو پیدا فرمانے اور آسمان سے پانی برسانے اور اس کے ذریعہ درخت اگانے کا تذکرہ فرمایا یہ سب انسانوں کے لیے بڑی نعمتیں ہیں۔ اول یوں فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر (سَبْعَ طَرَاءِقَ ) سات راستے بنائے ہیں مفسرین نے فرمایا ہے کہ ان سے سات آسمان مراد ہیں ان کو سبع طرائق یا تو اس لیے فرمایا ہے کہ سات آسمان اوپر نیچے بنائے ہیں اور یا اس اعتبار سے سبع طرائق فرمایا کہ ان میں فرشتوں کے آنے جانے کے راستے ہیں مزید فرمایا (وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِیْنَ ) (اور ہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں) یعنی بیخبر نہیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے نہ پہلے غافل تھا اور نہ اب غافل ہے کوئی بڑی مخلوق ہو یا چھوٹی اس نے اپنی حکمت کے موافق جس کو جیسا چاہا اور جب چاہا پیدا فرما دیا۔ ثانیاً یوں فرمایا کہ ہم نے آسمان سے ایک مقدار کے مطابق پانی نازل فرمایا پانی اگر ضرورت سے زیادہ برس جائے تو سیلاب آجاتا ہے اس سے انسان اور جانوروں اور کھیتوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور اگر پانی کم برسے تو اس سے ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں عموماً اللہ تعالیٰ مناسب مقدار میں پانی نازل فرماتا ہے یہ پانی کھیتوں میں اور باغوں میں پہنچاتا ہے جس کی وجہ سے سبزی اور شادابی آجاتی ہے۔ اور پانی کا ایک بہت بڑا حصہ تلابوں میں گڑھوں میں اور ندیوں میں ٹھہر جاتا ہے اس پانی سے انسان پیتے بھی ہیں اور نہاتے بھی ہیں اور دوسری ضرورتوں میں بھی استعمال کرتے ہیں، نیز جانور بھی پانی پیتے ہیں اگر پانی ایک دم برس کر بہہ کر چلا جائے اور اللہ تعالیٰ اسے زمین میں نہ ٹھرائے تو مذکورہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے زمین میں ٹھہرانے سے پہلے یا بعد اس پانی کو معدوم کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اسی کو فرمایا ہے (وَاِِنَّا عَلٰی ذَھَابٍ بِّہٖ لَقٰدِرُوْنَ ) (اور بلاشبہ ہم اس کو معدوم کرنے پر ضرور قادر ہیں) ۔ ثالثا یوں فرمایا کہ پانی کے ذریعہ کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے، ان کھجوروں اور باغوں میں تمہارے لیے منافع ہیں، ایک نفع تو یہ ہے کہ تروتازہ مال ہے درخت سے توڑو اور کھاؤ، میٹھا بھی ہے اور مزے دار بھی، قوت و صحت کے لیے بھی مفید ہے نہ پکانے کی ضرورت نہ مصالحہ نمک ملانے کی حاجت، اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کو سکھا کر رکھ لیتے ہیں جو میوے بن جاتے ہیں اور ان میووں کو اگلی فصل تک کھاتے رہتے ہیں انگور سے منقی اور کشمش تیار کرلیتے ہیں اور کھجوروں سے چھوارے بنا لیتے ہیں اس کو فرمایا (لَکُمْ فِیْہَا فَوَاکِہُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ ) اور انگور کے باغ پیدا کیے اس میں تمہارے لیے میوے ہیں اور اس میں سے تم کھاتے ہو) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ “ تا ” وَ صِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ “ یہ توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے پہلی دلیل میں انسان کی پیدائش کا ذکر دوسری اور تیسری دلیلوں میں انسان پر کیے گئے گوناگوں انعامات کا ذکر کیا گیا ہے اس دلیل کے تین حصے ہیں پہلے حصے میں انسانوں کی پیدائش کا ذکر ہے دوسرے حصے میں آسمانوں سے بارش برسانے اور تیسرے حصے میں زمین انواع و اقسام رزق پیدا کرنے کا ذکر ہے۔ اس سے ایک طرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ قادر و متصرف، کارساز اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور دوسری طرف یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام غلے، پھل اور میوے اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمائے ہیں لہذا ان چیزوں سے نذر و نیاز بھی صرف اسی کے نام کی دیا کرو۔ ” وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ الخ “ یہ دلیل کا پہلا حصہ ہے جس سے دعوے کا پہلا حصہ ثابت ہوتا ہے کہ متصرف و کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ طرائق، طریقۃ کی جمع ہے اور اس سے مراد آسمان ہیں کیونکہ جو چیز کسی دوسری چیز کے اوپر ہو اسے طریقۃ کہتے ہیں اور آسمان چونکہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں اس لیے انہیں طرائق کہا گیا یا طریقۃ، راستے کے معنی میں ہے اور آسمانوں میں چونکہ فرشتوں کے صعود و نزول کے لیے راستے ہیں اس لیے انہیں طرائق کہا گیا ہے قیل للسموت طرائق لان بعضھا فوق بعض و العرب تسمی کل شیء فوق شیء طریقۃ وقیل لانھا طرائق الملائکۃ (قرطبی ج 12 ص 110) ۔ قال علی بن یسی سمیت بذالک لانھا طرائق للملئکۃ فی العروج واسوط والطیران الخ (کبیر ج 6 ص 277 کذا فی جامع البیان ص 299) ۔ 16:۔ ” وَ مَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ الخ “ اس سے دعوے کا دوسرا حصہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ ایسا بےپایاں جہان پیدا کر کے ہم اس مخلوق سے بیخبر نہیں ہیں بلکہ ہم باقاعدہ ساری مخلوقات کی دیکھ بھال، سارے عالم کی تدبیر اور تمام جہانوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ بل نعلم جمیع المخلوقات جلھا و دقھا فندبر امرھا (جامع البیان) جب سارے جہان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور سارے عالم کا مدبر وقیوم اور سب کچھ جاننے والا بھی وہی ہے تو سب کا کارساز بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اور بلاشبہ ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے اور ہم مخلوق کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے غافل اور بیخبر نہ تھے بعض مفسرین نے سبع طرائق سے اوپر تلے آسمان مراد لئے ہیں اور بعض نے راستے اور راہیں مراد لی ہیں شاید فرشتوں کے آنے جانے کے راستے مراد ہوں اور ہم مخلوق کی ضرورتوں سے غافل نہ تھے یعنی عالم علوی اور عالم سفلی خلق کی مصلحتوں کے لحاظ سے ترتیب دیئے گئے ہیں کوئی ایسی ضرورت جو انسان کو زندگی بسر کرنے کے لئے پیش آتی ہے ایسی نہیں ہے جس کی رعایت نہ رکھی گئی ہو۔ اسی کی آگے اور تفصیل فرمائی۔