Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 19

سورة المؤمنون

فَاَنۡشَاۡنَا لَکُمۡ بِہٖ جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ ۘ لَکُمۡ فِیۡہَا فَوَاکِہُ کَثِیۡرَۃٌ وَّ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿ۙ۱۹﴾

And We brought forth for you thereby gardens of palm trees and grapevines in which for you are abundant fruits and from which you eat.

اسی پانی کے ذریعے سے ہم تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کر دیتے ہیں ، کہ تمہارے لیے ان میں بہت سے میوے ہوتے ہیں انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَنشَأْنَا لَكُم بِهِ جَنَّاتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ ... Then We brought forth for you therewith gardens of date palms and grapes, means, `from that which We send down from the sky, We bring forth for you gardens and orchards which look beautiful.' ... مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ ... of date palms and grapes, These were the kinds of gardens that were known to the people of the Hijaz, but there is no difference between a thing and its counterpart. The people of each region have fruits which are the blessing of Allah given to them, and for which they cannot properly thank Allah enough. ... لَّكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ ... wherein is much fruit for you, means, of all fruits. As Allah says elsewhere: يُنبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالاَعْنَـبَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَتِ With it (the rain) He causes to grow for you the crops, the olives, the date palms, the grapes, and every kind of fruit. (16:11) ... وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ and whereof you eat. This implies that you look at its beauty, wait for it to ripen, then eat from it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191یعنی ان باغوں میں انگور اور کھجور کے علاوہ اور بہت سے پھل ہوتے ہیں، جن سے تم لذت اندوز ہوتے ہو اور کچھ کھاتے ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] صرف یہی نہیں کہ ان باتوں سے تمہیں بہت سے پھل وغیرہ کھانے کو ملتے ہیں۔ بلکہ یہ باغ تمہارے لئے ذریعہ آمدنی اور ذریعہ معاش بھی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ : پانی اتارنے کے ذکر کے بعد حیات بعد الموت پر دلالت کرنے والی چند چیزیں ذکر فرمائیں، پہلی یہ کہ ہم نے اس پانی کے ساتھ (اپنے لیے نہیں بلکہ) تمہارے لیے کئی قسم کے باغات پیدا فرمائے۔ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ : ” نَّخِيْلٍ “ کھجور کے درخت، ” اَعْنَابٍ “ ” عِنَبٌ“ کی جمع ہے، انگور کا پھل۔ کھجور اور انگور کا خصوصاً ذکر ان کے بیشمار فوائد کی وجہ سے فرمایا، کیونکہ انھیں دوسرے تمام پھلوں پر برتری حاصل ہے، جیسا کہ فرشتوں میں جبریل اور میکال کا خصوصاً الگ ذکر کیا، فرمایا : (مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ ) [ البقرۃ : ٩٨ ] ” جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بیشک اللہ کافروں کا دشمن ہے۔ “ اور اس لیے بھی کہ عرب میں یہ دونوں پھل زیادہ پائے جاتے ہیں۔ انگور کے پھل کے ذکر سے پہلے کھجور کے پھل کے بجائے اس کے درخت کا ذکر فرمایا، کیونکہ کھجور کا درخت پھل کے علاوہ بھی بہت سے فوائد رکھتا ہے۔ اس کا ہر حصہ کارآمد ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے شجرۂ طیبہ قرار دے کر کلمہ طیبہ کی مثال اس کے ساتھ دی ہے، فرمایا : (اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ ) [ إبراھیم : ٢٤ ] ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے۔ “ کھجور کے درخت کے ضمن میں وہ تمام درخت بھی آگئے جن کے پھل پھول، پتے، چھال اور لکڑی ہر چیز کارآمد ہے۔ لَكُمْ فِيْهَا فَوَاكِهُ كَثِيْرَةٌ ۔۔ : اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بار بار ” لَکُم “ کا لفظ دہرا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ تمہارے لیے ہے، ہمارے لیے نہیں، یعنی تمہارے لیے ان باغات میں کھجور کے درختوں اور انگوروں کے علاوہ بہت سے لذیذ پھل ہیں۔ وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ : اس جملے کے جملہ اسمیہ پر عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ایک جملہ فعلیہ محذوف ہے : ” أَيْ مِنْھَا (وَ ھِيَ طَرِیَّۃٌ) تَتَفَکَّھُوْنَ وَ مِنْھَا تَأْکُلُوْنَ “ یعنی تم ان کے بعض سے تازہ ہونے کی حالت میں لذت حاصل کرتے ہو اور خشک کرکے یا رس اور روغن نکال کر بعد میں بھی اور یہی تمہاری خوراک کا ایک حصہ بنتے ہیں۔ (بقاعی) ” وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ “ میں یہ بھی شامل ہے کہ انھی کی آمدنی سے سارا سال تمہارے کھانے پینے اور دوسری ضروریات زندگی کا بند و بست ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Qur&an then goes on to say that it is from an assured and regular supply of water only that Allah created fruit gardens which produce dates and grapes and many other kinds of fruits. People eat these fruit for their taste and flavour and also preserve some of them for future use as articles of food as is evident from the sentence وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (And of them you eat -, 23:19). Then special mention is made of olives and the oil extracted from it because it has many uses and offers many benefits. And since the Mount Sinai produces an abundant crop of olives therefore a reference has been made to it

آگے پانی کے ذریعہ پیدا ہونے والی خاص خاص چیزوں کو عرب کے مزاج و مذاق کے مطابق ذکر فرمایا کہ کھجور اور انگور کے باغات اس سے پیدا ہوئے اور دوسرے پھلوں کو ایک عام لفظ میں جمع کر کے ذکر فرمایا لَكُمْ فِيْهَا فَوَاكِهُ كَثِيْرَةٌ، یعنی ان باغات میں تمہارے لئے کھجور و انگور کے علاوہ ہزاروں قسم کے پھل پیدا کئے جن کو تم محض تفریحی اور شوقیہ طور پر بھی کھاتے ہو اور ان میں سے بعض پھلوں کا ذخیرہ کر کے تمہاری مستقل غذا بھی ان سے تیار ہوتی ہے وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ کا یہی مطلب ہے۔ آگے خصوصیت سے زیتون اور اس کے تیل کے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا کیونکہ اس کے منافع بیشمار ہیں۔ اور چونکہ زیتون کے درخت کوہ طور پر زیادہ پیدا ہوتے ہیں اس لئے اس کی طرف نسبت کردی گئی

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِہٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ۝ ٠ۘ لَكُمْ فِيْہَا فَوَاكِہُ كَثِيْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝ ١٩ۙ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی [ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأُ «1» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں پنشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نخل النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ. ( ن خ ل ) النخل ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛ عنب العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی: وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] ، ( عن ن ب ) العنب ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] اور انگوروں کے باغ ۔ فكه الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/ 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] ، والفُكَاهَةُ : حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل : تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] . ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) اور پھر ہم نے اس پانی سے تمہارے لیے باغات پیدا کیے، کھجوروں کے اور انگوروں کے اور ان باغوں میں تمہارے لیے بکثرت قسم قسم کے میوے ہیں اور ان کو تم بعد میں کھاتے بھی ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(لَکُمْ فِیْہَا فَوَاکِہُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ ) ” ان میں سے اکثر پھل تمہارے لیے غذا کا کام دیتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19. That is, other kinds of fruits than dates and grapes. 20. That is, you sustain yourselves by the produce that you get from these gardens in the shape of fruit, corn, wood, etc.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :19 یعنی کھجوروں اور انگوروں کے علاوہ بھی طرح طرح کے میوے اور پھل ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :20 یعنی ان باغوں کی پیداوار سے ، جو پھل ، غلے ، لکڑی اور دوسری مختلف صورتوں میں حاصل ہوتی ہے ، تم اپنی معاش پیدا کرتے ہو ۔ مِنْھَا تَاکُلُوْنَ میں منھا کی ضمیر جنات کی طرف پھرتی ہے نہ کہ پھلوں کی طرف ۔ اور تاکلون کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ ان باغوں کے پھل تم کھاتے ہو ، بلکہ یہ بحیثیت مجموعی روزی حاصل کرنے کے مفہوم پر حاوی ہے ۔ جس طرح ہم اردو زبان میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنے فلاں کام کی روٹی کھاتا ہے ، اسی طرح عربی زبان میں بھی کہتے ہیں فلان یا کل من حفتہ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:19) بہ۔ میں ضمیر واحد مذکر حاضر کا مرجع ماء ہے۔ فواکہ۔ میوہ ۔ پھل ۔ واحد فاکھۃ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھا کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہتے ہیں۔ انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنیٰ کیا ہے کہ قرآن مجید میں ان دونوں کو فاکھہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکھہ کے غیر ہیں۔ بوجہ غیر منصرف ہونے کے (تانیث جمع) اس پر تنوین نہیں آتی۔ منھا۔ میں اگر ھا ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع جنت ہے تو یہ ابتدائیہ ہے بمعنی ” سے “ جیسے من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی (17:1) اور اگر اس ضمیر کا مرجع فواکہ ہے تو من تبعیضیہ ہے، بمعنی ان میں سے بعض کو کھاتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ یعنی کھجور اور انگور بھی اور بہت سے دوسرے میوے بھی جو غذا اصلی کے علاوہ ہیں۔ 8 ۔ یعنی ان باغوں میں سے جو پھل اور غلے تمہیں حاصل ہوتے ہیں تم انہی کو کھاکر زندگی بسر کرتے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” فَاَنْشَانَا لَکُمْ الخ “ یہ دوسری عقلی دلیل کا تیسرا حصہ ہے یہ کھجور اور انگور کے باغات ہم ہی نے پیدا کیے اس کے علاوہ اور بہت سے میوے پیدا کیے۔ ” وَ مِنْھَا تَاکُلُوْنَ “ من تبعیضیہ ہے ای بعضھا یعنی ان پھلوں اور میووں کی تجارت سے بھی فائدہ اٹھاتے ہو اور ان میں سے کچھ خود کھاتے بھی ہو یا من ابتدائیہ ہے اور اَکَلَ سے مجازا روزی کمانا مراد ہے یعنی ان پھلوں اور میووں کی تجارت سے تم روزی کماتے ہو۔ ومن ابتدائیۃ وقیل انھا تبعیضیۃ ومضمونھا مفعول (تاکلون) والمراد بالاکل معناہ الحقیقی (روح ج 18 ص 21) ۔ ومنھا تاکلون من قولھم فلان یا کل من حرفۃ یحترفھا و من صنعۃ یعلھا و من تجارۃ یتربح بھا یعنون انھا طعمتہ و جھتہ التی منہا یحصل رزقہ الخ (بحر ج 6 ص 400) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) پھر اسی پانی سے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے ان باغوں میں تمہارے لئے بکثرت تازہ میوے بھی ہیں اور ان میں سے بعض کو تم خشک کرکے کھاتے بھی ہو یعنی پانی برسانے اور اس کا ذخیرہ رکھنے کے بعد نباتات کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ کھجوروں اور انگوروں کے باغ اس پانی سے لہلہاتے ہیں بکثرت پھل پیدا ہوتے ہیں جو کھانا کھانے کے بعد بطور تفکہ بھی استعمال ہوتے ہیں اور خشک کرکے رکھ لو تو کھانے کی بجائے بھی کھائے جاسکتے ہیں۔