Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 21

سورة المؤمنون

وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہَا وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَنَافِعُ کَثِیۡرَۃٌ وَّ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾

And indeed, for you in livestock is a lesson. We give you drink from that which is in their bellies, and for you in them are numerous benefits, and from them you eat.

تمہارے لئے چوپایوں میں بھی بڑی بھاری عبرت ہے ۔ ان کے پیٹوں میں سے ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور بھی بہت سے نفع تمہارے لئے ان میں ہیں ان میں سے بعض بعض کو تم کھاتے بھی ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] چوپایوں میں عبرت یا حیران کن بات یہ ہے کہ گھاس پھوس کھانے والے اور چرنے والے مویشی (ماداؤں) کے جسم میں جب غذا جاتی ہے تو اس سے خون اور فضلہ یا گوبر کے علاوہ ایک تیسری چیز بھی بنتی ہے۔ جو اوصاف میں ان دونوں چیزوں سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ خون اور گوبر دونوں نجس اور حرام چیزیں ہیں۔ جبکہ دودھ نہایت پاکیزہ، حلال، طیب، انتہائی سفید رنگ، مزہ میں شیریں اور پینے میں خوشگوار ہوتا ہے اور مکمل غذا کا کام دیتا ہے۔ اس سے بھوک بھی دور ہوجاتی ہے اور پیاس بھی۔ اس میں اللہ تعالیٰ محیرالعقول کارنامہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماداؤں کے جسم میں ایسی مشینری فٹ کردی ہے جو گھاس پھوس سی چیز کو ایک نہایت اعلیٰ اور قیمتی چیز میں تبدیل کردیتی ہے اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مشینری صرف اس وقت حرکت میں آتی ہے۔ جب حمل قرار پا جائے اور اس کا نتیجہ فوری طور پر نہیں نکلتا۔ بلکہ بچہ کے وضع ہونے کے وقت تک یہ مشینری خود کو دودھ میں تبدیل کردینے کے قابل بن جاتی ہے ادھر پیدا ہوتا ہے تو ادھر ماں کے پستان دودھ سے بھر جاتے ہیں اور بچہ پیدا ہوتے ہی جب ماں کے پستانوں کی طرف لپکتا ہے تو اسے فوراً یہ قدرتی غذا مہیا ہوجاتی ہے جبکہ وہ کوئی اور غذا کھانے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر ماں کو حمل قرار نہ پائے تو اس بات کے باوجود کہ دودھ بنانے والی یہی گوشت پوست اور رگ ریشہ پر مشتمل یہ مشینری اس کے اندر موجود ہے۔ کبھی اپنا کام نہ کرے گا اور نہ دودھ بنے گا نہ پستانوں میں اترے گا۔ [٢٥] مویشیوں کی ایک ایک چیز انسان کے کام کی چیز ہے۔ ان کی کھال، ان کے بال، ان کی ہڈیاں، غرضیکہ ہر چیز سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔ زندہ ہوں تو ان پر سواری بھی کرتا ہے اور یہ کھیتی باڑی اور باربرداری کے کام بھی آتے ہیں۔ پھر ان کا گوشت انسان بطور خوراک بھی استعمال کرتا ہے اور دودھ جو ان سے حاصل ہوتا ہے وہ ان سب فوائد سے بڑھ کر ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً : پچھلی آیات میں پانی کے ساتھ پیدا ہونے والی نباتات کا ذکر فرمایا، جس میں موت کے بعد زندگی کی دلیل اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی یاد دہانی ہے۔ اب موت کے بعد زندگی کا یقین دلانے کے لیے اور اپنی نعمتوں اور قدرتوں کا احساس دلانے کے لیے نباتات سے اعلیٰ درجے کی زندگی والی مخلوق کا ذکر فرمایا، جو روح رکھنے والے چوپائے ہیں۔ ” لَعِبْرَةً “ میں تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑی عبرت “ کیا ہے۔ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا : اس کی تفصیل سورة نحل (٦٦) میں دیکھیے۔ وَلَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ كَثِيْرَةٌ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (١٤٢) ، سورة نحل (٥ تا ٨، ٦٦، ٨٠) ، سورة حج (٢٧، ٢٨، ٣٢، ٣٣، ٣٦، ٣٧) اور سورة مومن (٧٩) ۔ وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْن : یعنی تم ان کا گوشت کھاتے ہو اور وہ چوپائے خریدو فروخت کے ذریعے سے تمہارے کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی اشیاء حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The reason why olive tree has been associated with the Tur mountain is that this tree first grew on that mountain. Some people have said that it was the first tree to grow on earth after the great Deluge in the days of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . (Mazhari) Then there is a mention of the blessings and the numerous gifts which Allah has provided for the benefitof ankind so that they may ponder and worship Him. The words of the verse are وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَ‌ةً (And indeed there is a sure lesson in the cattle for you - 23:21). The lesson to which this verse refers has been described further in the words نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا (We give you a drink from that which lies in their bellies - 23:21). Some of the ways in which the cattle serve mankind are that they provide milk which is a very clear and nourishing food; every part of their body is put to some use, and their wool, hides, intestines etc. are all utilized, in industries which support a country&s economy, the meat of the animals, which are halal (permissible) is a favourite food for all men. وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (and of them you eat - 23:21). And finally they are used, together with ships, as mounts and as means of transporting goods from one place to another.

اس کے بعد ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے جانوروں، چوپایوں کے ذریعہ انسان کو عطا فرمائی تاکہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے اور حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور رحمت کاملہ پر استدلال کر کے توحید و عبادت میں مشغول ہو۔ اسی لئے فرمایا وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ، یعنی تمہارے لئے چوپایہ جانوروں میں ایک عبرت و نصیحت ہے آگے اس کی کچھ تفصیل اس طرح بتائی نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا، کہ ان جانوروں کے پیٹ میں ہم نے تمہارے لئے پاکیزہ دودھ تیار کیا جو انسان کی بہترین غذا ہے اور پھر فرمایا کہ صرف دودھ ہی نہیں، ان جانوروں میں تمہارے لئے بہت سے (بیشمار) منافع اور فوائد ہیں وَلَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ كَثِيْرَةٌ، غور کرو تو جانوروں کے جسم کا ایک ایک جزء، رواں رواں انسان کے کام آتا ہے اور اس سے انسان کی معیشت کے لئے بیشمار قسم کے سامان تیار ہوتے ہیں۔ جانوروں کے بال، ہڈی، آنتیں، پٹھے اور سبھی اجزاء سے انسان اپنی معیشت کے کتنے سامان بناتا اور تیار کرتا ہے اس کا شمار بھی مشکل ہے ان بیشمار منافع کے علاوہ ایک بڑا نفع یہ بھی ہے کہ ان میں سے جانور حلال ہیں ان کا گوشت بھی انسان کی بہترین غذا ہے وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ ۔ آخر میں ان جانوروں کا ایک اور عظیم فائدہ ذکر کیا گیا کہ تم ان پر سوار بھی ہوتے ہو اور باربرداری کا بھی ان سے کام لیتے ہو۔ اس آخری فائدہ میں چونکہ جانوروں کے ساتھ دریا میں چلنے والی کشتیاں بھی شریک ہیں کہ سواری اور باربرداری کا بڑا کام ان سے نکلتا ہے اس لئے کشتیوں کو بھی اس کے ساتھ ذکر فرما دیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً۝ ٠ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِہَا وَلَكُمْ فِيْہَا مَنَافِعُ كَثِيْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝ ٢١ۙ نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ عبرت والعِبْرَةُ : بالحالة التي يتوصّل بها من معرفة المشاهد إلى ما ليس بمشاهد . قال تعالی: إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] ، فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر/ 2] عبرت والاعتبار اس حالت کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ کسی دیکھی چیز کی وساطت سے ان دیکھے نتائج تک پہنچا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے ۔ فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر/ 2] اے اصحاب بصیرت اس سے عبرت حاصل کرو ۔ سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : 58- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» . وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١۔ ٢٢) اور تمہارے لیے مویشی بالخصوصا اونٹ میں بھی غور کرنے کا مقام ہے ہم تمہیں کو ان میں سے خالص شیریں دودھ پینے کو دیتے ہیں، جو خون اور نجاست کے درمیان سے نکلتا ہے اور تمہارے لیے ان میں اور بھی کئی سواری اور بار برداری کے بہت سے فوائد ہیں اور ان کے گوشت، دودھ اور بچوں کو کاٹ کر کھاتے پیتے بھی ہو اور اونٹوں پر خشکی میں اور کشتیوں پر سمندر میں سفر کرتے رہتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط) ” اگر تم سمجھنا چاہو تو ان میں تمہاری ہدایت کے لیے بہت واضح نشانیاں ہیں۔ (نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہَا) ” سورۃ النحل میں اس عجوبۂ قدرت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : (وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہٖ مِنْم بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ ) ” اور یقیناً تمہارے لیے چوپایوں میں بھی عبرت ہے ‘ ہم پلاتے ہیں تمہیں اس میں سے جو ان کے پیٹوں میں ہوتا ہے ‘ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ ‘ پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار “۔ اگر ہم گائے یا بھینس کا پیٹ چاک کرکے دیکھیں تو اس کے اندر ہمیں گوبر اور خون ہی نظر آئے گا۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ انہی آلائشوں کے اندر سے صافّ شفاف دودھ پیدا ہوتا ہے جو انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور قدرت پر غور کریں تو بچوں کی نظم کے یہ اشعار بےاختیار زبان پر آجاتے ہیں : رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی اس خالق کو کیوں نہ پکاریں جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں (وَلَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ ) ” یہ چوپائے بہت سے کاموں میں تمہاری مدد کرتے ہیں۔ تمہارے سازو سامان کی نقل و حمل میں تمہارے کام آتے ہیں اور تم اپنی غذا میں پروٹین بھی انہی کے گوشت سے حاصل کرتے ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 That is, milk. Refer to( Surah An-Nahl, Ayat 66 and E.N. 54) thereof.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :22 یعنی دودھ جس کے متعلق قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ خون اور گوبر کے درمیان یہ ایک تیسری چیز ہے جو جانور کی غذا سے پیدا کر دی جاتی ہے ( النحل ، آیت 66 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:21) الانعام۔ مویشی، بھیڑ۔ بکری۔ اونٹ ۔ گائے۔ بھینس۔ یہ نعم کی جمع ہے نعم کے معنی اونٹ کے۔ انعام میں گودوسرے مویشی کو بھی شامل کرلیتے ہیں لیکن جب تک ان میں اونٹ شامل نہ ہو ان کو انعام نہیں کہا جاسکتا۔ عبرۃ۔ عبرت۔ نصیحت حاصل کرنا۔ دوسرے کے حال سے اپنا حال قیاس کرنا۔ دھیان کرنا۔ نسقیکم۔ نسقی مضارع جمع متکلم۔ اسقی یسقی اسقاء (افعال) سے ہم پلاتے ہیں۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ہم تمہیں پلاتے ہیں۔ بطونھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب انعام کی طرف راجع ہے اور اس آیت میں اور اگلی آیت 22 میں ھا اسی معنی میں ہے۔ تحملون۔ مضارع مجہول۔ جمع مذکر حاضر۔ حمل مصدر (باب ضرب) تم اٹھائے جاتے ہو۔ تم سوار کئے جاتے ہو۔ تم لدے پھرتے ہو۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ الانعام سے مراد یہاں اونٹ لیا گیا ہے جس پر اہل عرب سوار ہو کر طویل سفر طے کیا کرتے تھے اور بوجھ کی نقل و حرکت بھی اونٹ کے ذریعہ ہوتی تھی۔ پھر الفلک کا قرینہ اس بات کو اور تقویت دیتا ہے۔ عرب اونٹ کو سفینۃ البر (ریگستان کا جہاز) بولتے ہیں۔ ویسے دوسرے مویشیوں مثلاً بیل وبھینس سے بھی باربرداری کا کام لیا جاسکتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ پانی اور نباتات کے ذریعہ جو نعمتیں انسان تک پہنچ رہی ہیں ان کا ذکر کرنے کے بعد اب ان نعمتوں کا بیان ہو رہا ہے جو حیوانات کے واسطہ سے انسان تک پہنچتی ہیں۔ گویا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کی دلیل ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اس میں سے ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں۔ مراد ہے دودھ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : لبنا خالصا سائغا للشاربین۔ یعنی ان جانوروں کے پیٹوں میں گوبر اور خون کے بیچ میں سے خالص دودھ جو پینے والوں کے لئے مزیدار ہے، پلاتے ہیں۔ (نحل :66) 11 ۔ یعنی ان کا گوشت کھاتے ہو۔ یا مطلب یہ ہے کہ ان پر تمہاری معیشت کا نظام قائم ہے۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مثلا ان کے بال اور اون کام آتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پانی اور نباتات سے چوپائے زندہ رہتے ہیں اور چوپاؤں میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بڑے فائدے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کو اپنی قدرت کی نشانی بتلا کر اس سے سبق حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ چوپاؤں کی دس قسمیں ہیں۔ ان میں اونٹ، گائے، بھینس، بکری اور بھیڑ ایسے چوپائے ہیں جن سے انسان بہت سے فائدے حاصل کرتا ہے۔ ان کا دودھ پینے کے علاوہ مکھن، گھی، دہی اور بہت سی دوسری چیزیں بنانے کے کام آتا ہے۔ ان چوپاؤں کا گوشت کھایا جاتا ہے بکری اور بھیڑ کے سوا حلال چوپاؤں اور گدھے اور گھوڑے پر سواری کی جاتی ہے۔ جہاں تک ان چوپاؤں اور گھوڑوں کا تعلق ہے ان سے کھیتی باڑی اور سواری کا کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح چوپاؤں کی اون، بال، چمڑی اور ہڈیوں تک استعمال ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ نامعلوم انسان ان سے اور کتنے فائدے اٹھائے گا جس کے لیے کثیر منافع کا لفظ استعمال فرما کر مزید منفعت حاصل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ چوپاؤں میں انسان کے لیے یہ بھی عبرت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں انسان کے تابع نہ کرتا تو کس کی مجال ہے کہ وہ گھوڑے، اُونٹ اور ہاتھی جیسے طاقتور حیوان کو اپنے تابع کرلیتا۔ اس لیے ان پر سوار ہوتے وقت دعا سکھلائی گئی ہے [ الزخرف : ١٣۔ ١٤] مسائل ١۔ جانور چوپائے بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہیں۔ ٣۔ چوپاؤں سے انسان بہت سے فوائد حاصل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں چوپاؤں کا ذکر : ١۔ اللہ نے چوپایوں کو انسانی ضروریات اور زیب زیبائش کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (النحل : ٥۔ ٦) ٢۔ قربانی کے ایام میں ان پر اللہ کا نام لیں چوپائے اللہ نے تمہیں عطا کیے ہیں پس تم ان میں سے کھاؤ اور محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔ (الحج : ٢٨) ٣۔ تمہارے لیے چوپایوں میں بہت زیادہ فائدہ ہے اور انہیں تم کھاتے ہو۔ (المومنون : ٢١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جانوروں کے منافع، کشتیوں پر بار برداری کا نظام درختوں کے فوائد بتانے کے بعد چوپاؤں کے منافع بیان فرمائے، انسانوں کو ان سے بڑے بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں ان کا دودھ بھی پیتے ہیں گوشت بھی کھاتے ہیں ان کے بالوں کو کاٹ کر کپڑے اور اوڑھنے بچھونے کی چیزیں بنا لیتے ہیں اور ان پر سوار ہوتے ہیں۔ جیسے بنی آدم کی نسلیں چل رہیں ہے اسی طرح چوپایوں میں بھی تناسل کا سلسلہ چل رہا ہے اللہ تعالیٰ نے جانروں کو انسانوں کے لیے مسخر فرمایا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام ہے۔ آخر میں کشتیوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہے کشتیوں پر بھی سوار ہوتے ہیں سامان لادتے ہیں اور دور دراز کا سفر کرتے ہیں۔ کشتیاں بنانے کا الہام فرمانا اور ان کے بنانے کے طریقے سکھانا پھر پانی میں ان کا جاری فرمانا یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں۔ سورة البقرہ میں (وَ الْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْر) کی تفسیر کا مطالعہ کرلیا جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً الخ “۔ یہ توحید پر تیسری عقلی دلیل ہے۔ فرمایا ان چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت اور توحید کے دلائل ہیں۔ ” مِمَّا فِی بُطُونِھَا “” مَا “ سے دودھ مراد ہے یہ ہماری قدرت کی ایک نشانی ہے کہ ہم چوپایوں کے پیٹ سے گوبر اور خون سے بالکل پاک صاف دودھ پیدا کرتے ہیں جو تمہیں لذیذ اور خوشگوار غذا کا کام دیتا ہے۔ ” وَلَکُمْ فِیھَا مَنَافِع الخ “ اس کے علاوہ ان چوپایوں میں تمہارے لیے اور بہت فائدے ہیں مثلاً ان کی تجارت کے ذریعے دولت کماتے ہو۔ ” وَ مِنْھَا تَاکُلُوْنَ “ چوپائے زندہ وہ تو بھی تمہارے لیے ان میں منافع ہیں اور اگر ان کو ذبح کرلو تو بھی ان کو گوشت کھاتے ہو اور ان کی کھالیں فروخت کر کے روزی کماتے ہو۔ ” وَ عَلَیْھَا الخ “ بعض چوپائے تمہاری سواری اور بار برداری کے کام آتے ہیں اسی طرح یہ دونوں کام تم کشتیوں سے بھی لیتے ہو جو محض اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی مہربانی سے صحیح سلامت دریاؤں اور سمندروں میں سفر کرتی ہیں جس اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور مہربانی سے یہ تمام نعمتیں عطاء کی ہیں وہی سب کا کارساز ہے اور وہی ہر قسم کی عبادت اور پکار کا مستحق ہے یہاں تک دلائل عقلیہ ختم ہوئے اب آگے دلائل نقلیہ کا ذکر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اور لوگو ! تمہارے لئے چوپائوں میں بھی غور کرنے کا موقعہ اور غور کرنے کا مقام ہے ان چوپایوں کے پیٹ کی چیز سے ہم تم کو پلاتے ہیں اور تمہارے لئے ان چوپایوں میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو۔ اوپر کی آیت میں نباتاتی احسانات کا ذکر تھا اب حیوانات پر توجہ دلائی کہ ان پر بھی ذرا غور کرو کہ ان چوپایوں سے تمہارے کتنے فوائد وابستہ ہیں ان کے جوف کی چیزوں میں سے تم کو دودھ پلاتے ہیں یعنی گوبر اور خون کے درمیان دودھ کی دھاریں جاری کرتے ہیں پھر ان چوپایوں سے جو بار برداری کا کام لیا جاتا ہے وہ ظاہری ہے ان فوائد کے علاوہ بعض حلال جانوروں کا تم گوشت بھی کھاتے ہو۔