26. There has been a common deviation that a human being cannot be a Prophet, and a Prophet cannot be a human being. That is why the Quran has refuted this wrong conception over and over again, and has stated forcefully that all the Prophets were human beings and that a human being only could be sent as a Prophet to human beings. For details, see (Suras Al-Aaraf Ayats 63, 69); (Yuonus, Ayat 2); (Houd, Ayats 27-31); (Yousuf, Ayat 109); (Ar- Raad, Ayat 38); (Ibrahim, Ayats 10-11); (An-Nahl, Ayat 43), (Bani Israil, Ayats 94-95); (Al-Kahf, Ayat 110); (Al-Anbiya, Ayats 3, 34); (Al-Mominoon, Ayats 33-34, 47); (Al-Furqan, Ayats 7, 20); (Ash-Shuara, Ayats 154, 186); (Ya-Sin, Ayat 15), (Ha Mim Sajdah, Ayat 6) along with the relevant E.Ns.
27. This accusation is another old objection, which has always been raised against those who tried to reform their people. Their opponents always accused them of exploiting religion to gain domination in the land. Prophets Moses, Aaron and Jesus were accused of the same and so was Muhammad (peace be upon them all). So much so that the disbelievers of Makkah offered to make the Prophet (peace be upon him) their king, if he gave up his message.
As a matter of fact, the people who exhaust themselves in pursuit of worldly benefits and gains cannot believe that somebody in this world could also exert himself sincerely and selflessly for the sake of human welfare. They regard deceptive slogans, which they raise to capture power, and false promises, which they make day and night to bring about reforms as natural. They think that sincerity and selflessness can be employed only to deceive people and these cannot be put to any better use. That is why the epithet of power hungry for the reformers in all ages has been used by those already in power as if their own power and domination in the land was their birth right, and they were in no way blame worthy for struggling for it and achieving it. (For further explanation, see (E.N. 36 )below)
In this connection, it should also be noted that all those, who try to reform the prevalent corrupt system of life, have inevitably to fight against those in power in order to establish the righteous system. That is why those with powers have always been against the Prophets and their followers, who had to dislodge the corrupt rulers. It is, however, obvious that here is a vast difference between those who want power to gain their own selfish ends and those who want it to reform their people.
27a. This is a clear proof of the fact that Noah’s people were not disbelievers in the existence of God nor did they reject Him as Lord of the universe and the angels as His obedient servants. They were only guilty of shirk: they had set up other deities as partners in God’s attributes and powers and rights.
28. “Help me because they have denied me”: Take Thy vengeance on these people for they have denied me. (Verse 10 of Surah Al-Qamar) says: Then cried Noah to his Lord, I am overcome, so take Thy vengeance on these people, and (verses 26-27 of Noah) say: And Noah said, O my Lord, do not leave of these disbelievers any dweller upon the earth, for if Thou sparest them, they will mislead Thy servants and will beget none but sinners and disbelievers.
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :26
یہ خیال تمام گمراہ لوگوں کی مشترک گمراہیوں میں سے ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا اور نبی بشر نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے قرآن نے بار بار اس جاہلانہ تصور کا ذکر کر کے اس کی تردید کی ہے اور اس بات کو پورے زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تمام انبیاء انسان تھے اور انسانوں کے لیے انسان ہی نبی ہونا چاہیے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہوں الاعراف ، آیات 63 ۔ 69 ۔ یونس ، آیت 2 ۔ ہود ، 27 ۔ 31 ۔ یوسف 109 ۔ الرعد 38 ۔ ابراہیم 10 ۔ 11 ، النحل 43 ۔ بنی اسرائیل ، 94 ۔ 95 ۔ الکہف 110 ۔ الانبیاء 3 ۔ 34 ۔ المومنون 33 ۔ 34 ۔ 47 ۔ الفرقان 7 ۔ 20 ۔ الشعراء 154 ۔ 186 ۔ یٰسین 15 ۔ حٰم السجدہ ، 6 ۔ مع حواشی ) ۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :27
یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اٹھے اس پر فوراً یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ، بس اقتدار کا بھوکا ہے ۔ یہ الزام فرعون نے حضرت موسیٰ اور ہارون پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے ، تکون لکما الکبریاء فی الارض ( یونس آیت 78 ) ۔ یہی حضرت عیسیٰ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے ۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سرداران قریش کو تھا ، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو اپوزیشن چھوڑ کر حزب اقتدار میں شامل ہو جاؤ ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں ان کے لیے یہ تصور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاح انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے ۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اور اصلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں ، اس لیے مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ انکا اپنا ہم جنس ہی ہو گا ۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف اقتدار کی بھوک کا یہ الزام ہمیشہ بر سر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں ۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایان نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے ، اس کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں ، البتہ نہایت قابل ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ غذا پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی بھوک محسوس کر رہے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ 36 ) ۔
اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظام زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اٹھے گا اور اس کے مقابلے میں اصلاحی نظریہ و نظام پیش کرے گا ، اس کے لیے بہرحال یہ بات ناگزیر ہو گی کہ اصلاح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سدراہ ہوں انہیں ہٹانے کی کوشش کرے اور ان طاقتوں کو برسر اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ و نظام کو عملاً نافذ کر سکیں ۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہو گی ، اس کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی ، یا اس کے حامیوں اور پیروؤں کے ہاتھ ان پر قابض ہوں گے ۔ آخر انبیاء اور مصلحین عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا ، اور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنا دیا ؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا ، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کرلی ؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنان حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے ۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ دونوں بلارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے ، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے ۔ ورنہ دونوں کی نیت دونوں کے طریق کار اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحب عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا ۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :27 ( الف )
یہ اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قوم نوح اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہ تھی اور نہ اس بات کی منکر تھی کہ رب العالمین وہی ہے اور سارے فرشتے اس کے تابع فرمان ہیں ۔ اس قوم کی اصل گمراہی شرک تھی نہ کہ انکار خدا ، وہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اور اس کے حقوق میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتی تھی ۔