Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 27

سورة المؤمنون

فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ اَنِ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ فَاسۡلُکۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ مِنۡہُمۡ ۚ وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ ﴿۲۷﴾

So We inspired to him, "Construct the ship under Our observation, and Our inspiration, and when Our command comes and the oven overflows, put into the ship from each [creature] two mates and your family, except those for whom the decree [of destruction] has proceeded. And do not address Me concerning those who have wronged; indeed, they are to be drowned.

تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا جب ہمارا حکم آجائے اور تنور ابل پڑے تو تو ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں رکھ لے اور اپنے اہل کو بھی مگر ان میں سے جن کی بابت ہماری بات پہلے گزر چکی ہے خبردار جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کرنا وہ تو سب ڈبوئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاء أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ ... So, We revealed to him: "Construct the ship under Our Eyes and under Our revelation. Then, when Our command comes, and (water) gushes forth from the oven, take on board of each kind two, and your family, At that point, Allah commanded him to build a boat and to make it strong and firm, and to carry therein of every kind two, i.e., a male and a female of every species of animals, plants and fruits etc. He was also to carry his family, ... إِلاَّ مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ... except those thereof against whom the Word has already gone forth. meaning, those whom Allah had already decreed were to be destroyed. These were the members of his family who did not believe in him, such as his son and his wife. And Allah knows best. ... وَلاَ تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ And address Me not in favor of those who have done wrong. Verily, they are to be drowned. means, `when you witness the heavy rain falling, do not let yourself be overcome with compassion and pity for your people, or hope for more time for them so that they may believe, for I have decreed that they will be drowned and will die in their state of disbelief and wrongdoing.' The story has already been told in detail in Surah Hud, and there is no need to repeat it here.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

271یعنی ان کی ہلاکت کا حکم آجائے۔ 272تنور پر حاشیہ سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہمارے ہاں کا معروف تنور نہیں، جس میں روٹی پکائی جاتی ہے، بلکہ روئے زمین سے مراد ہے ساری زمین ہی چشمے میں تبدیل ہوگئی۔ نیچے زمین سے پانی چشموں کی طرح ابل پڑا۔ نوح (علیہ السلام) کو ہدایت جاری ہے کہ جب پانی زمین سے ابل پڑے۔ 273یعنی حیوانات، نباتات اور ثمرات ہر ایک میں سے ایک ایک جوڑا (نر مادہ) کشتی میں رکھ لے تاکہ سب کی نسل باقی رہے۔ 274یعنی جن کی ہلاکت کا فیصلہ، ان کے کفر و طغیان کی وجہ سے ہوچکا ہے، جیسے زوجہ نوح (علیہ السلام) اور انکا پسر۔ 275یعنی جب عذاب کا آغاز ہوجائے تو ان ظالموں میں سے کسی پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تو کسی کی سفارش کرنی شروع کر دے۔ کیونکہ ان کے غرق کرنے کا قطعی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر سورة ہود (٣٧) میں دیکھیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَفَارَ‌ التَّنُّورُ‌ (And the oven gushes forth - 23:27). The word تَّنُّور‌ means oven which is used for making flat, round bread, and is also used in the sense of the whole earth. According to some people تَّنُّور‌ is a specific oven in the Kufah mosque, while others believe that it was somewhere in Syria. Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was informed by Allah that when water began boiling forth from the تَّنُّور‌ (oven) that would be the sign of the coming of the Deluge (Mazhari). The story of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) ، the Deluge and his Ark has been reported in some earlier Surahs (See Volume 4, p. 626 to 643).

معارف و مسائل وَفَار التَّنُّوْرُ ، تنور، اس خاص جگہ کو بھی کہا جاتا ہے جو روٹی پکانے کیلئے بنائی جاتی ہے اور یہی معنے معروف و مشہور ہیں۔ دوسرے معنے میں تنور پوری زمین کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ خلاصہ تفسیر میں اسی معنے کے اعتبار سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس سے ایک خاص تنور روٹی پکانے والا مراد لیا ہے جو کوفہ کی مسجد میں اور بعض کے نزدیک ملک شام میں کسی جگہ تھا۔ اس تنور سے پانی ابلنے لگنا حضرت نوح (علیہ السلام) کے لئے طوفان کی علامت یہ قرار دی گئی تھی (مظھری) حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے طوفان اور کشتی کا واقعہ پچھلی سورتوں میں تفصیل سے گزر چکا ہے) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَاِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ۝ ٠ۙ فَاسْلُكْ فِيْہَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَہْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْہِ الْقَوْلُ مِنْہُمْ۝ ٠ۚ وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۝ ٠ۚ اِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ۝ ٢٧ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے صنع الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] ، ( ص ن ع ) الصنع ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ فور الفَوْرُ : شِدَّةُ الغَلَيَانِ ، ويقال ذلک في النار نفسها إذا هاجت، وفي القدر، وفي الغضب نحو : وَهِيَ تَفُورُ [ الملک/ 7] ، وَفارَ التَّنُّورُ [هود/ 40] ( ف و ر ) الفور ( کے معنی سخت جوش مارنے کے ہیں یہ لفظ آگ کے بھڑک اٹھنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور ہانڈی اور غصہ کے جوش کھانے پر بھی ۔ قرآن میں ہے ۔ وَهِيَ تَفُورُ [ الملک/ 7] اور وہ جوش مار رہی ہوگی وفارَ التَّنُّورُ [هود/ 40] اور تنور جوش مارنے لگا ۔ سلك السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی: لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر/ 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء/ 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون/ 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن/ 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ. ( س ل ک ) السلوک ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔ ثنی الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) ( ث ن ی ) الثنی والاثنان ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود/ 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] ، ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ خطب الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، ومنه : الخُطْبَة والخِطْبَة لکن الخطبة تختصّ بالموعظة، والخطبة بطلب المرأة قال تعالی: وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة/ 235] ، وأصل الخطبة : الحالة التي عليها الإنسان إذا خطب نحو الجلسة والقعدة، ويقال من الخُطْبَة : خاطب وخطیب، ومن الخِطْبَة خاطب لا غير، والفعل منهما خَطَبَ. والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] ، وفصل الخِطَاب : ما ينفصل به الأمر من الخطاب . ( خ ط ب ) الخطب والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا اسی سے خطبۃ اور خطبۃ کا لفظ ہے لیکن خطبۃ وعظ و نصیحت کے معنی میں آتا ہے اور خطبۃ کے معنی ہیں نکاح کا پیغام ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة/ 235] اگر تم کنایہ کہ باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو ۔۔ ۔ تم تم پر کچھ گناہ نہیں ۔ اصل میں خطبۃ اسی حالت کو کہتے ہیں جو بات کرتے وقت ہوتی ہے جیسا کہ جلسۃ اور قعدۃ پھر خطبۃ سے تو خاطب اور خطیب ( دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں مگر خطبۃ سے صرف خاطب کا لفظ ہی بولا جاتا ہے ۔ اور خطب فعل دونوں معنی کے لئے آتا ہے ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔ فصل الخطاب دو ٹوک بات ، فیصلہ کن بات جس سے نزاع ختم ہوجائے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَاسْلُکْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ) ” ہر قسم کے جاندار ‘ حیوانات وغیرہ میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ کو بھی اس کشتی میں سوار کرلینا تاکہ ان کی نسل محفوظ رہ سکے۔ (وَاَہْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مِنْہُمْ ج) ” اس استثناء میں آپ ( علیہ السلام) کی بیوی اور ایک بیٹا شامل تھے ‘ جن کے بارے میں پہلے ہی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29. Some commentators think that tannur means the earth; others take it for the highest part of the earth; and still others think that the words far-at-tannur in the text have been used for the break of dawn. There are some who express the opinion that the words have been used metaphorically for the creation of turmoil. But in view of the context, we see no reason why one should take a far fetched figurative meaning of a clear word of the Quran. It appears that a particular oven (tannur) had been earmarked for the deluge to start from, which was to all appearances an unexpected origin of the doom of the wretched people.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :28 یعنی میری طرف سے اس تکذیب کا بدلہ لے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : فَدَعَا رَبَّہ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ، پس نوح نے اپنے رب کو پکارا کہ میں دبا لیا گیا ہوں ، اب تو ان سے بدلہ لے ( القمر آیت 10 ) اور سورہ نوح میں فرمایا : قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَ الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّاراً ہ اِنَّکَ اِنْ تَزَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبادَکَ وَلَا یَلِدُوْآ اِلَّا فَاجِراً کَفَّاراً ۔ اور نوح نے کہا اے میرے پرو دگار ، اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ ، اگر تونے ان کو رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی نسل سے بدکار منکرین حق ہی پیدا ہوں گے ( آیت 26 ) سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :29 بعض لوگوں نے تنور سے مراد زمین لی ہے ، بعض نے زمین کا بلند ترین حصہ مراد لیا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ فَارَ التَّنُّور کا مطلب طلوع فجر ہے ، اور بعض کی رائے میں یہ : حمی الوطیس ، کی طرح ایک استعارہ ہے ہنگامہ گرم ہو جانے کے معنی میں ۔ لیکن کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ پڑھ کر ابتداءً جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز اس کے نیچے سے پانی ابلنے پر ہو گا ۔ دوسرے کوئی معنی سوچنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جبکہ آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہو کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی ابل پڑنے پر شروع ہوا ہو گا ۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں ۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رخ سے لاتا ہے جدھر اس کا وہم و گمان بھی نہیں جاسکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: تنور چولھے کو بھی کہتے ہیں اور سطح زمین کو بھی، بعض روایات میں ہے کہ طوفان نوح اس طرح شروع ہوا تھا کہ ایک چولھے سے پانی ابلنے لگا، اوپر سے بارش شروع ہوگئی اور رفتہ رفتہ وہ ایک ہولناک طوفان میں بدل گیا، حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ سورۂ ہود (١١۔ ٢٥ تا ٤٨) میں گزرچکا ہے۔ 15: تاکہ ضرورت کے جانوروں کی نسل باقی رہے 16: اس سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کے خاندان کے وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لائے تھے، اور نہ ان کا ایمان لانا مقدر تھا، مثلاً ان کا بیٹا کنعان جس کا واقعہ سورۂ ہود میں گذر چکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ کہ وہ ایمان نہ لائیں گے اور ہلاک ہوں گے۔ مراد ہیں حضرت نوح ( علیہ السلام) کی بیوی اور ان کا بیٹا۔ واللہ اعلم۔ (ابن کثیر) 5 ۔ یعنی مجھ سے ان کے بچانے کے لئے سفارش نہ کرنا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاوحینا مغرقون آیت نمبر (٢٧) ” یوں سنت الہیہ نے زندگی کی ترقی اور نشونما کی راہ سے یہ روڑا ، قوم نوح کا روڑا دور کیا۔ تاکہ اسانی زندگی شاہراہ ترقی پر آگے بڑھے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں انسانیت کی نشو نما کا آغاز ہوا تھا ، اور آغاز کے ساتھ ہی اس میں ٹھہرائو اور جمود پیدا کیا جس طرح کسی نازک پودے کو زمین سے نکلتے ہی آفات سماوی یا اور کوئی مشکلات درپیش ہوجائیں اور وہ مرجھاجائے اور خشک ہوجائے جبکہ وہ ناتواں ہو۔ ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے طوفان ایک بہترین علاج تھا۔ یاد رہے کہ طوفان زمین کو دھوا ڈالتا ہے اور طوفان زمین کو دھو ڈلتا ہے اور طوفان کے بعد اس زمین فصل اگتی ہے ۔ اسی طرح زمین کو قوم نوح کی گندگی سے پاک کردیا گیا تاکہ اس کہ اس کرئہ ارض پر درست زندگی کا آغاز از سر نو کیا جائے اور انسانی زندگی بحسن و خوبی شاہراہ ترقی پر گامزن ہو سکے۔ فا و حینا الیہ ان اصنع الفلک با عیننا (٢٣ : ٢٧) ”“ ہم نے اس پر وحی کی کہ ہماری نگرانی اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر “۔ یہ کشتی طوفان سے نجات کا ذریعہ تھی اور پھر ان لوگوں کے بچنے کی تدبیر بھی تھی جو ایمان لاچکے تھے تاکہ آئندہ کے لیے نسل کی بقا کا سامان ہو جس طرح چیزکا بیچ محفوظ کرکے بویا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی مثیت یہ تھی کہ حضرت نوح یہ کشتی اپنے ہاتھ سے تیار کریں۔ اس میں یہ سبق تھا کہ انسان نے اس زمین پر زندگی اسباب و وسائل کے مطابق گزارنی ہے اور زندگی بسر کرنے کے لیے ہر انسان نے پوری پوری جدو جہد کرنی ہے تا کہ وہ اپنے رب کی طرف سے امداد کا مستحق ہوجائے کیونکہ اللہ کی امداد صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جو ان تھک جدو جہد کرتے ہیں ، ان کو نہیں ملتی جو ہر وقت عیش و عشرتم میں مگن رہتے ہیں اور آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جو صرف دوسروں کا انتظار کرتے اور اس کے سوا کسی اور چیز کے لیے جدو جہد نہیں کرتے۔ حضرت نوح کے بارے میں اللہ کی اسکیم یہ تھی کہ وہ انسانوں کے آدم ثانی ہوں۔ اس لیے آپ کو یہ سبق دیا گیا کہ آپ اپنی زندگی کے لیے اسباب و وسائل خود اختیار کریں۔ اللہ کی نگرانی تمہارے شامل حال رہے گی۔ اللہ آپ کو وسائل اختیار کرنے کی تعلیم بہر حال دے رہا ہے۔ یہ کشتی تیار کریں تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کی مثیت پوری ہو۔ اس کرئہ ارض کی صفائی کے اس عمل کے آغاز کے لیے اللہ نے نوح کے لیے ایک علامت مقرر فرمادی تھی۔ وو حینا فاز جاء امرنا و فار التنور (٢٣ : ٢٧) ” پھر جب ہمارا حکم آجائے اور وہ تنور ابل پڑے “۔ یعنی تنور سے پانی ابل پڑے تو یہ ہوگی طوفان آنے کی علامت اور تب حضرت نوح کا فرض ہوگا کہ وہ جلدی سے کشتی پر سوار ہوں اور اپنے ساتھ کشتی میں زندگی کا تخم بھی سوار کرلیں۔ فاسلک فیھا من کل زوجین ائنین (٢٣ : ٢٧) ” تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے اس میں سوار ہو جائوـ“۔ یعنی تمام حیوانات ، تمام پرندے نباتات وغیرہ سے جو اس وقت انسان کو معلوم تھے اور جن سے بنی نوع انسان استفادہ کرتا تھا۔ واھلک الا من سبق علیہ القول منھم (٢٣ : ٢٧) ” اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکاہیـ“۔ اور یہ فیصلہ ان لوگوں کے بارے میں تھا جنہوں نے کفر کیا تھا اور حضرت نوح کی تکذیب کی تھی۔ اور ان کے بارے میں فیصلہ ہوچکا تھا کہ ان کو ہلاک کردیا جائے کیونکہ انہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی تھی اور مکذبین کے بارے میں یہ اللہ کی سنت ہے کہ انہیں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو آخری حکم دیا گیا کہ وہ اب ان لوگوں کے ساتھ کوئی مباحثہ اور مجادلہ نہ کریں اور نہ کسی کو بچانے کی کوشش کریں اگر چہ ان میں سے کوئی قریبی رشتہ دار ہو کیونکہ اللہ نے سب کافروں کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ والا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون (٢٣ : ٢٧) ” اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے نہ کہنا ، یہ اب غرق ہونے والے ہیں “۔ کیونکہ اللہ کی سنت کسی دوست یا رشتہ دار کی رد رعایت نہیں کرتی۔ اس کی راہ بالکل سیدھی ہے ۔ اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات یہاں نہیں دی جاتیں کیونکہ یہ کہہ دیا گیا کہ یہ سب کے سب غرق ہونے ہونے والے ہیں ۔ اب حضرت نوح کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے انعامات پر شکر کس طرح ادا کریں گے کس طرح اللہ کی حمد پڑھیں گے اور کس طرح اللہ سے ہدایت کے طلبار گار ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ ” فَاَوْحَیْنَا الخ “ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے قوم کو طوفان سے ہلاک کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ اس پر نوح (علیہ السلام) اور مومنوں کے بچاؤ کی تدبیر ارشاد فرمائی کہ ہماری ہدایات کے مطابق ایک کشتی تیار کرلو اور جب تنور میں سے پانی ابلنے لگے فورًا خود بھی اس میں سوار ہوجاؤ اور اپنے مومن اہل و عیال اور دوسرے مومنوں کو بھی اس میں سوار کرلو اور جن جانوروں کی زیادہ ضرورت ہے ان میں سے بھی ایک ایک جوڑا (نر و مادہ) ساتھ لے لو۔ اور اب ان مشرکین کے بارے میں کسی قسم کی سفارش وغیرہ نہ کرنا کیونکہ اب ہم انہیں ہلاک کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) اس دعا کے بعد ہم نے نوح کی جانب یہ حکم بھیجا کہ تو ہماری نگرانی میں ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بنا پھر جب ہمارا حکم آپہنچے اور تنور سے پانی ابلنے لگے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے نر مادہ دونوں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں داخل کرلیجئو اور اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں سوار کر لیجئو مگر ان میں سے جس کی نسبت پہلے سے بات طے ہوچکی ہے یعنی جس کے غرق ہونے کا حکم نافذ ہوچکا ہو گھر والوں میں سے اس کو سوار نہ کیجئو اور مجھ سے ان لوگوں کے بارے میں جو کفر کے خوگر ہوچکے ہیں کوئی گفتگو نہ کیجئو کیونکہ یہ سب غرق کئے جائیں گے یعنی دعا کے بعد کشتی بنانے کا حکم دیا اور اور یہ بھی بتادیا کہ یہ لوگ غرق ہونے والے ہیں تم کشتی تیار کرو جب تنور میں کوئی خاص تنور ہوگا یا مطلقاً زمین مراد ہوگی جب پانی ابلنے لگے تو تم مومنین کو نر اور مادہ کے جوڑے لیکر کشتی میں سوار ہوجانا مگر اپنے گھر والوں میں سے ان لوگوں کو نہ لینا جن کے غرق ہونے کا حکم ہوچکا ہے مزید تفصیل بارھویں پارے میں گزرچکی ہے اور یہ جو فرمایا جب ہمارا حکم آپہنچے یعنی عذاب آجائے اور اس کے آثار و نشانات شروع ہوجائیں تو تم کشتی میں سوار ہوجانا۔