Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 30

سورة المؤمنون

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنۡ کُنَّا لَمُبۡتَلِیۡنَ ﴿۳۰﴾

Indeed in that are signs, and indeed, We are ever testing [Our servants].

یقیناً اس میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں اور ہم بیشک آزمائش کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ ... Verily in this, there are indeed Ayat, means in this event, which is the saving of the believers and the destruction of the disbelievers there are signs, i.e., clear evidence and proof that the Prophets speak the truth in the Message they bring from Allah, may He be exalted, and that Allah does what He wills, and He is able to do all things and knows all things. ... وَإِن كُنَّا لَمُبْتَلِينَ for sure We are ever putting (men) to the test. means, `We try Our servants by means of sending the Messengers.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

301یعنی اس سرگزشت نوح (علیہ السلام) میں اہل ایمان کو نجات اور کافروں کو ہلاک کردیا گیا، نشانیاں ہیں اس امر پر کہ انبیاء جو کچھ اللہ کی طرف سے لے کر آتے ہیں، ان میں وہ سچے ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر اور کشمکش حق و باطل میں ہر بات سے آگاہ ہے اور وقت آنے پر اس کا نوٹس لیتا ہے اور اہل باطل کی پھر اس طرح گرفت کرتا ہے کہ اس کے شکنجے سے کوئی نکل نہیں سکتا۔ 302اور ہم انبیاء و رسل کے ذریعے سے یہ آزمائش کرتے رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں کئی ایسی باتیں ہیں جن سے ایک غور کرنے والا انسان سبق حاصل کرسکتا ہے۔ اور جب ہم کوئی نبی بھیجتے ہیں تو اس وقت قوم کا امتحان شروع ہوجاتا ہے۔ نبی اور اس کے پیروکاروں کا بھی کہ وہ کس حد تک صبر و ثبات سے کام لیتے ہیں اور جھٹلانے والوں کا بھی کہ وہ کس حد تک سرکشی اختیار کرتے ہیں۔ پھر جو اس امتحان میں کامیاب ہوں انھیں انعامات سے نوازتے بھی ہیں اور ان کی مدد بھی کرتے ہیں اور معاندین کو قرار واقعی سزا بھی دیتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعد میں آنے والی قوم میں سے کون ان نشانیوں کو سن کر عبرت و نصیحت حاصل رکتا ہے اور کون نہیں کرتا ؟ &&

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ : نوح (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرنے کے بعد اس سے حاصل ہونے والی عبرتوں کی طرف توجہ دلائی کہ یقیناً اس واقعہ میں بہت سی نشانیاں ہیں، مثلاً اس میں نوح (علیہ السلام) کے اولو العزم پیغمبر ہونے کی کئی نشانیاں ہیں، یعنی مدت دراز تک ان کا بےمثال صبر، قوم کے ایمان نہ لانے کی اطلاع پر ان پر بددعا کا قبول ہونا، ان کے دشمنوں کا غرق ہونا، اللہ تعالیٰ کا ان کی رسالت کی تصدیق کرنا اور ان کی تعریف کرنا وغیرہ۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم جیسی رسولوں کو جھٹلانے والی دیگر قوموں کے لیے بھی کئی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح اللہ کی عظیم قدرت کی بھی بہت سی نشانیاں ہیں، مثلاً اتنا عظیم طوفان جس سے پہاڑ بھی نہ بچا سکیں اور اس میں نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو محفوظ رکھ کر بابرکت طریقے سے اتار کر بابرکت جگہ دینا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کامل علم و حکمت کی بھی بہت سی نشانیاں ہیں کہ اس نے کس طرح زمین کو مکمل طور پر شرک سے پاک کرنا طے کر رکھا تھا اور اتنے تباہ کن طوفان میں بھی اس نے انسانی ضروریات اور جانوروں کی بقا کا انتظام طے کر رکھا تھا اور کیا۔ (ابن عاشور) وَّاِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِيْنَ : ” اِنْ “ اصل میں ”إِنَّ “ ہے، جس کا اسم ” نَا “ محذوف ہے۔ دلیل ” لَمُبْتَلِيْنَ “ پر آنے والا لام ہے۔ ” کَانَ “ استمرار کے لیے ہے، یعنی بلاشبہ یقیناً ہم ہمیشہ سے آزمانے والے ہیں۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی آزمائش کی، اسی طرح ہم ہر پیغمبر اور اس کی امت کی آزمائش کرتے چلے آئے ہیں اور اب بھی آزمائش کرتے رہتے ہیں۔ اس میں ہماری حکمت کھرے کھوٹے کو ظاہر کرنا، آزمائش میں کامیاب ہونے والوں کو نوازنا اور ناکام رہنے والوں کے ساتھ ان کے حسب حال سلوک کرنا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ وَّاِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِيْنَ۝ ٣٠ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ ابتلاء وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها «3» . ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠) اس مشرک قوم کے ساتھ جو ہم نے کیا اس میں بڑی نشانیاں اور عبرت کی چیزیں ہیں خصوصا مکہ والوں کے لیے تاکہ وہ ایسے لوگوں کی پیروی نہ کریں اور ہم آزمایشوں کے ساتھ یا یہ کہ سزا دے کر آزماتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ وَّاِنْ کُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ ) ” اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے تحت دنیا میں مختلف لوگوں کو مختلف انداز میں آزماتے رہتے ہیں۔ اس اصول اور قانون کے بارے میں سورة الملک کے آغاز میں یوں ارشاد ہوا ہے : (الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط) (آیت ٢) ” وہی (اللہ) ہے جس نے موت اور حیات کو بنایا ہی اس لیے ہے کہ تمہیں پرکھے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے بہتر کون ہے ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32. At the conclusion of the story of Prophet Noah (peace be upon him), particular attention has been drawn to the many signs in the story from which one can learn many lessons. For instance, the Prophet who invited the people to Tauhid was in the right and those who practiced and insisted on shirk and disbelief were in the wrong and were destroyed. That the same kind of conflict, which took place between Prophet Noah (peace be upon him) and his people, was going on in Makkah. Therefore, ultimately the Prophet (peace be upon him) will come out victorious over his antagonists just like Prophet Noah (peace be upon him). 33. This can also be translated as: We had to or have to put people to the test. In each case the purpose is to warn the people that they will not be left alone after they have been granted power in the land and over good things of life, but Allah will put them to the test to see how they used their power. Whatever happened with the people of Noah was in accordance with this law, and the same will happen in future with any community which is raised to power.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :32 یعنی عبرت آموز سبق ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ توحید کی دعوت دینے والے انبیاء حق پر تھے اور شرک پر اصرار کرنے والے کفار باطل پر ، اور یہ کہ آج وہی صورت حال مکہ میں درپیش ہے جو کسی وقت حضرت نوح اور ان کی قوم کے درمیان تھی اور اس کا انجام بھی کچھ اس سے مختلف ہونے والا نہیں ہے ، اور یہ کہ خدا کے فیصلے میں چاہے دیر کتنی ہی لگے مگر فیصلہ آخرکار ہوکر رہتا ہے اور وہ لازماً اہل حق کے حق میں اور اہل باطل کے خلاف ہوتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :33 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آزمائش تو ہمیں کرنی ہی تھی ، یا آزمائش تو ہمیں کرنی ہی ہے ۔ تینوں صورتوں میں مدعا اس حقیقت پر خبردار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا ، بلکہ اس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہی ہے ۔ قوم نوح کے ساتھ جو کچھ ہوا اسی قانون کے مطابق ہوا ، اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے خوان یغما پر ہاتھ مارنے کے لیے آزاد چھوڑ دے ۔ اس معاملے سے ہر ایک کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:30) ان۔ مخففہ ہے جو ان ثقیلہ سے مخفف ہو کر ان بن گیا۔ تحقیق اور ثبوت کے لئے ہے اس کے بعد لام مفتوح کا آنا لازمی ہوتا ہے جیسا کہ آیت ھذا میں ہے (لمبتلین) مبتلین اسم فاعل جمع مذکر ابتلاء (افتعال) مصدر۔ جانچنے والے۔ کھرے کھوٹے کو الگ کردینے والے۔ بلی مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ یعنی جس طرح قوم نوح کو جانچا۔ اسی طرح ہر قوم کی طرف رسول بھیج کر اس کا ضرور امتحان لیں گے۔ (ابن کثیر) اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ہمیں تو (قوم نوح ( علیہ السلام) کی) آزمائش کرنا ہی تھی “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کہ دیکھیں کون سا منتفع ہوتا ہے کون نہیں ہوتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان …. لمبتلین (آیت نمبر) ابتداء بہت سی قسمیں ہیں ، بعض آزمائشیں صبر کے لیے ہیں بعض آزمائشیں شکر کے لیے ہوتی ہیں۔ بعض آزمائشیں اجر کے لیے ہوتی ہے ۔ قصہ نوح میں آنے والوں کے لیے ہر قسم کی آزمائش اور نصیحت ہے۔ اب ایک دوسری رسالت کا منظر اور تکذیب کے نتائج جبکہ دعوت بھی ایک ہے اور رسالت بھی دی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ ” وَ اِنْ کُنَّا الخ “ ان مخففہ من المثقلہ ہے اور اس کا اسم ضمیر شان محذوف ہے۔ ” ابتلاء “ بلاء سے ہے بمعنی امتحان یا عذاب حضرت شیخ قدس سرہ نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے و ان ای انہ کنا لمبتلین مخبرین قوم نوح البلاء او عبادنا لننظر من یعتبر او مصیبین قوم نوح ببلاء عظیم (جامع البیان ص 300) ای وان الشان کنا مصیبین قوم نوح ببلاء عظیم و عقاب شدید او مختبرین بھذہ الایات عبدنا لننظر من یعتبر و یتذکر (روح) ۔ یعنی ہم نے یہ اس لیے کیا تاکہ قوم نوح کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کریں یا مطلب یہ ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ بندوں کو آزمانے کے لیے کیا کہ ان میں سے کون عبرت و نصیحت حاصل کرتا ہے۔ یہ پہلی دلیل کا ثمرہ ہے۔ ہم نے قوم نوح کو سخت دردناک عذاب میں مبتلا کیا مگر ان کا کوئی معبود اور خود ساختہ کارساز ان کی مدد کو نہ پہنچا تو اس سے معلوم ہوا کہ کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ ” ثُمَّ اَنْشَانَا الخ “ قوم نوح کی تباہی کے بعد ہم نے کئی اور قومیں پیدا کیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) بلاشبہ ان واقعات مذکورہ میں اہل عبرت کے لئے بڑی نشانیاں اور بڑے دلائل ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہم آزمائش کرنے والے ہیں یعنی نوح (علیہ السلام) کا رسول بناکر بھیجنا اور قوم کا ایک صحیح بات کو نہ سجھنا۔ نوح (علیہ السلام) کو اور اس کے ساتھیوں کو قوم کا ستانا اور ایذا رسانی، پھر طوفان کا آنا، کشتی کے لئے ہماری قدرت کے بڑے بڑے دلائل موجود ہیں اور یہ نشانیاں ظاہر کرکے ہم آزماتے ہیں کہ کون صبر کرتا ہے اور برداشت سے کام لیتا ہے یا یہ کہ ان واقعات کا ذکر کرکے اور بندوں کو خبر دیکر آزماتے ہیں کہ کون ان واقعات سے نصیحت قبول کرتا ہے اور ان واقعات کو سن کر اثر لیتا ہے۔