Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 33

سورة المؤمنون

وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَتۡرَفۡنٰہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۙ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۙ یَاۡکُلُ مِمَّا تَاۡکُلُوۡنَ مِنۡہُ وَ یَشۡرَبُ مِمَّا تَشۡرَبُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۳﴾

And the eminent among his people who disbelieved and denied the meeting of the Hereafter while We had given them luxury in the worldly life said, "This is not but a man like yourselves. He eats of that from which you eat and drinks of what you drink.

اور سردار ان قوم نے جواب دیا جو کفر کرتے تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور ہم نے انہیں دنیوی زندگی میں خوشحال کر رکھا تھا ، کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے تمہاری ہی خوراک یہ بھی کھاتا ہے اور تمہارے پینے کا پانی ہی یہ بھی پیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَيِنْ أَطَعْتُم بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

331یہ سردار قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کو جھٹلاتے ہیں، جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انھیں کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔ 332یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیاوی آسائشوں کی فروانی، یہ دو بنیادی سبب تھے، اپنے رسول پر ایم... ان نہ لانے کے۔ آج بھی باطل انھیں اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔ 333چناچہ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہوسکتا ہے ؟ جیسے آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسول کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] انبیاء کی دعوت کی زد چونکہ چودھری قسم کے لوگوں پر ہی پڑتی ہے اور انھیں اپنی سرداریاں خطرہ میں پڑتی نظر آتی ہیں۔ اس لئے انبیاء کے اولین مخالف یہی لوگ ہوتے ہیں۔ اور عام لوگوں میں چونکہ انھیں کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ لہذا انبیاء کی دعوت کے مقابلہ انھیں عوام سے سرکھپانا پڑتا ہے۔ تاکہ وہ انبیاء کی دع... وت قبول کرکے ان کے دائرہ اثر سے باہر نہ ہوجائیں۔ مشرکین مکہ کی طرح قوم عاد بھی اخروی زندگی کی منکر تھی۔ اور مال و دولت کی فراوانی اور آسودگی کی زندگی نے ان سرداروں کو بالکل خدا فراموش بنا رکھا تھا۔ اور ان کا منتہائے مقصود صرف دنیا کا مال و دولت اور اس کا حصول تھا۔ [٣٩] نبی کی دعوت کے مقابلہ میں جس بات کی دعوت وہ عوام الناس کو دے سکتے تھے وہ یہی تھی کہ آخر اس نبی میں کیا خوبی ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو وہ بھی تمہارے ہی جیسا انسان اور کھانے پینے کا محتاج ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۔۔ : اس آیت میں ان کے سرداروں کی اپنے رسول کو بشر کہہ کر جھٹلانے کی دو بڑی وجہیں بیان ہوئی ہیں، ایک یہ کہ وہ آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور دوسری یہ کہ انھیں دنیا میں وسیع خوش حالی حاصل تھی۔ ” تَرَفٌ“ کا معنی وسیع خوش حالی ہے۔ رسول اللہ (صلی ال... لہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت مسلمہ میں سے حدیث کے منکر کا بھی یہی حال بیان کیا کہ اس کے انکار میں اس کی خوش حالی اور فارغ البالی کا دخل ہوگا۔ مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلَا إِنِّيْ أُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَ مِثْلَہُ مَعَہُ ، أَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلٰی أَرِیْکَتِہِ یَقُوْلُ عَلَیْکُمْ بِھٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوْہُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ ، أَلَا، لَا یَحِلُّ لَکُمُ الْحِمَارُ الْأَھْلِيُّ وَلَا کُلُّ ذِيْ نَابٍ مِنَ السَّبُعِ ) [ أَبوداوٗد، السنۃ، باب في لزوم السنۃ۔۔ : ٤٦٠٤ ] ” سنو ! مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل (حدیث) دی گئی ہے۔ سنو ! قریب ہے کہ ایک بھرے ہوئے پیٹ والا (یعنی خوش حال) آدمی جو اپنے تخت پر تکیہ لگائے ہوگا، یہ کہے گا کہ اس قرآن کو لازم پکڑو، جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ سنو ! تمہارے لیے گھریلو گدھا حلال نہیں اور نہ کچلی والا درندہ حلال ہے (حالانکہ یہ قرآن میں نہیں بلکہ حدیث رسول میں ہے) ۔ “ يَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ ۔۔ : ” بشر رسول نہیں ہوسکتا “ پیغمبروں کو جھٹلانے والے سبھی لوگوں نے یہی کہا۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس میں تسلی ہے کہ آپ اس تکذیب میں اکیلے نہیں، کیونکہ آپ کے متعلق بھی کفار نے کہا تھا : ( مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ [ الفرقان : ٧ ] ” اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ “ 3 سورة اعراف اور سورة ہود میں پیغمبروں کی نصیحت کے بعد قوم کے سرداروں کی بات ” قَالَ الْمَلَاُ “ سے شروع ہوتی ہے، جب کہ اس سورت میں نوح (علیہ السلام) کی نصیحت کے بعد ” فقَالَ الْمَلَاُ “ ہے اور زیر تفسیر آیت میں ” وقَالَ الْمَلَاُ “ ہے۔ اس فرق کی توجیہ ابن عاشور (رض) نے یہ بیان فرمائی ہے کہ ان دونوں سورتوں یعنی اعراف اور ہود میں پیغمبروں کی نصیحت کے بعد قوم کے سرداروں کا پیغمبروں سے براہ راست خطاب ہے، اس لیے ” فاء “ یا ” واؤ “ کی ضرورت نہیں، جب کہ یہاں پیغمبروں کی نصیحت کے بعد قوم کے سرداروں کا پیغمبروں کو جواب مذکور نہیں، بلکہ اس کے بعد ان کا اپنے لوگوں کے پاس جا کر انھیں بہکانا مذکور ہے، تاکہ وہ پیغمبر کی بات سے متاثر نہ ہوجائیں، اس لیے ” فاء “ اور ” واؤ “ لائی گئی ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ الْاٰخِرَۃِ وَاَتْرَفْنٰہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ۙ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝ ٠ۙ يَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْہُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۝ ٣٣۠ۙ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العی... ون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ، ( م ل ء ) الملاء ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ ترف التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] ( ت ر ف) الترفۃ ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» ، وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأنه«1» وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر : تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7» ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣) ان پیغمبر کی قوم میں سے جو رئیس تھے اور جنہوں نے کفر کرلیا تھا اور آخرت کے آنے کو جھٹلایا تھا اور ہم نے ان کو مال و اولاد بھی دیا تھا وہ کہنے لگے کہ یہ رسول تو تمہاری طرح ایک عام آدمی ہیں یہ وہی کھاتے ہیں جو کہ تم کھاتے ہو اور وہی پیتے ہیں جیسا کہ تم پیتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاَتْرَفْنٰہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَالا) ” قوم نوح ( علیہ السلام) کے سرداروں کی طرح اس قوم کے بڑے سرداروں نے بھی اپنے عوام کو اسی منطق سے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35. It should be noted that all those people who opposed the Messengers had three common characteristics: (1) They were the chiefs of their people. (2) They denied life in the Hereafter. (3) They were prosperous in the worldly life. Obviously, they loved the life of this world and could never conceive that their way of life, which had made them chiefs and brought prosperity, could ever be wrong. T... herefore they opposed their Messengers, who took away their peace of mind, by preaching that there was a life-after-death and they shall have to render an account to Allah of what they did in this world. And this was exactly what was happening at Makkah.  Show more

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :35 یہ خصوصیات لائق غور ہیں پیغمبر کی مخالفت کے لیے اٹھنے والے اصل لوگ وہ تھے جنہیں قوم کی سرداری حاصل تھی ۔ ان سب کی مشترک گمراہی یہ تھی کہ وہ آخرت کے منکر تھے ، اس لیے خدا کے سامنے کسی ذمہ داری و جواب دہی کا انہیں اندیشہ نہ تھا ، اور اسی لیے وہ دنیا کی اس زندگی پ... ر فریفتہ تھے اور مادی فلاح و بہبود سے بلند تر کسی قدر کے قائل نہ تھے ۔ پھر اس گمراہی میں جس چیز نے ان کو بالکل ہی غرق کر دیا تھا وہ خوشحالی و آسودگی تھی جسے وہ اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھتے تھے اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ عقیدہ ، وہ نظام اخلاق ، اور وہ طرز زندگی غلط بھی ہو سکتا ہے جس پر چل کر انہیں دنیا میں یہ کچھ کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں ۔ انسانی تاریخ بار بار اس حقیقت کو دہراتی رہی ہے کہ دعوت حق کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ انہی تین خصوصیات کے حامل لوگ ہوئے ہیں ۔ اور یہی اس وقت کا منظر بھی تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکے میں اصلاح کی سعی فرما رہے تھے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:33) اترفناہم ماضی جمع متکلم ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ہم نے ان کو آرام دیا۔ ہم نے انہیں عیش و عشرت کا سامان مہیا کر رکھا تھا۔ اتراف افعال۔ مصدر۔ الترفۃ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں۔ ما ھذا الا بشرتا وما نحن لہ بمؤمنین (تا آیۃ 38) الملا کا کلام ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٣) اسرارومعارف تو ان میں سے بھی سرداران قوم جن پر اللہ جل جلالہ کے احسانات دوسروں کی نسبت زیادہ تھے اور جو دنیا میں بہت مزے سے تھے حتی کہ اپنی عیش میں آخرت کو یوں بھولے کہ اس کا انکار کردیا ، کہنے لگے یار یہ بھی تو ایک بندہ بشر ہی ہے ویسے ہی زندگی کی ضروریات اس کی ہیں جیسے کسی دوسرے بش... ر کی کھاتا پیتا ہے ۔ (بندہ اور اللہ کا بندہ) اب بھلا تم اپنے جیسے بندے کی اطاعت کرو گے یہ تو بڑی گھاٹے کی بات ہے یعنی بندے کو انہوں نے اوصاف بشریت سے پرکھا حالانکہ یہ تو سب میں یکساں ہوتی ہیں بندے کی پرکھ تو اس کی وفا ہے کہ وہ کس سے وابستہ اور کس کا بندہ ہے ، خواہشات کا ، دنیا کا یا اللہ کا بندہ کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے عنایات سب پر ہیں ، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ بندے نے کس کی غلامی اپنا لی ہے اگر بندہ اللہ جل جلالہ کا بندہ ہے تو اس کی بات ماننا بھلا بندے کی بات کیسے ہوئی وہ تو بات ہی اللہ جل جلالہ کی ہے کہ وہ اپنی تو نہ کہے گا اللہ جل جلالہ کی بات ہی کہے گا اور انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کون اللہ جل جلالہ کا بندہ ہوگا چونکہ وہ خود تو آخرت کے یقین سے خالی تھے ہی دوسروں سے بھی کہنے لگے بھلا یہ تم سے عجیب بات نہیں کہتا کہ جب تم مرجاؤ گے اور تمہارے وجود گل سڑ جائیں گے ہڈیاں بکھر کر گوشت پوست مٹی ہوجائے گا تو تمہیں دوبارہ زندہ ہونا پڑے گا ، بھلا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ، یہ ناممکن بات ہے بس میاں یہی دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے اور یہ مرنا جینا سب سامنے ہے جو مرکر خاک ہوئے وہ نہ جی سکیں گے اور یہ سب کچھ انہیں اپنی دانست میں ناممکن نظر آتا تھا ۔ (عذاب وثواب قبر اور حیات برزخ کا انکار بھی اسی انکار ہی کا ایک حصہ ہے) لطف یہ کہ اللہ جل جلالہ کو بھی اپنے انداز سے مانتے ضرور تھے جب ہی تو کہنے لگا یہ شخص جو نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یہ تو اللہ جل جلالہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے ، بھلا ہم اس کی بات کیوں مانیں گے ہم ہرگز نہ مانیں گے حالانکہ اپنی پیدائش ان کے بھی تو سامنے تھی جو قدرت باری کی کس قدر مضبوط دلیل تھی ، یہی حال دور حاضر کے ان انکار کرنے والوں کا ہے کہ جو عذاب وثواب قبر اور حیات برزخ کا انکار کرتے ہیں اور اللہ پر ایمان بھی رکھتے ہیں مگر مشکل یہ نظر آتا ہے کہ کوئی جل گیا کوئی ڈوب مرا کسی کو درندے کھا گئے تو بندے کو برزخ میں عذاب وثواب تو ممکن نہیں لگتا اور جب عذاب وثواب برزخ اور قبر کا کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باعث ، ماننا ہی پڑا تو ایک اور ٹھوکر کھائی کہ برزخ میں ایک نیا وجود جسے وجود مثالی کہتے ہیں روح کو عطا ہو کر عذاب وثواب پائے گا ، واہ کیا بات ہے ، بھلا جو وجود نہ دنیا میں آیا نہ اسے حکم ملا نہ اس کی طرف رسول آیا نہ اس نے کفر کیا نہ اطاعت تو اسے عذاب وثواب کس بات کا حق یہ ہے بدن کتنی شکلیں تبدیل کرے مادی ذرات ہی کی صورت میں رہتا ہے اور روح انسانی کا تعلق حیات دنیا کا ختم ہونا ہے کلی طور پر ختم نہیں ہوتا لہذا جب برزخ میں روح کو عذاب یا ثواب پہنچے تو بدن اپنا حصہ پاتا ہے ، بدن کا ہر ذرہ جہاں بھی ہو جس حال میں بھی ہو کافر ہو یا مشرک ہر حال آگ سے حصہ پاتا ہے جیسے آل فرعون کہ ارشاد ہوتا ہے غرق ہوئے اور آگ میں داخل ہوگئے یا ان کو صبح وشام آگ پہ سینکا جاتا ہے تو یہ صرف روحیں غرق نہ ہوئی تھیں انسان روح اور بدن سمیت تھے ، مومن کی روح کا رشتہ بدن سے مضبوط اور شہید کا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے وہ مرا ہی نہیں اور زندہ ہے اور اس پر کتاب وسنت کے دلائل کے ساتھ مشاہدات وتجربات بھی درجہ تواتر کو پہنچے ہیں اور پھر انبیاء (علیہ السلام) کی ارواح کا مسکن بھلا ان کے ابدان سے اعلی کہاں ہوگا ہاں حیات دنیا کا وقت ختم ہو کر برزخ میں پہنچے تمام احکام برزخ ہی کے ہوں گے مگر ان کی حیات متغیر نہیں ہوتی ویسی ہی رہتی ہے اور اسی حالت کو حیات النبی کہا جاتا ہے ۔ چناچہ انبیاء کرام (علیہ السلام) نے تھک کر اللہ کو پکارا کہ اے رب اے ضرورتوں کو پورا کرنے والے اب تیری ہی مدد کی ضرورت ہے ان کا انکار حد سے بڑھ چکا ہے تو ارشاد ہوا اب ان کے دن تھوڑے ہیں دیکھو گے کہ کسی رات کا کل انہیں دیکھنا نصیب نہ ہوگا اور انہیں سخت پچھتانا پڑے گا سو ان پر بہت سخت چنگھاڑتا ہوا عذاب مسلط ہوگیا اور اس نے انہیں خس و خاشاک کی طرح سے کچل دیا ، اللہ جل جلالہ کی مار ہو کافروں پر اور ہمیشہ اس کے کرم سے دور اور محروم ہوگئے ۔ پھر ان کے بعد نئی اقوام سے دنیا آباد ہوئی جو اپنے اپنے انجام کو پہنچیں اور کوئی قوم بھی اللہ کریم کے مقرر کردہ وقت کو ٹال سکی نہ تبدیل کرسکی ، سب کو دعوت دی گئی ہدایت کی طرف بلایا گیا اور پے بہ پے رسول بھیجے گئے جنھوں نے ایمان قبول کیا اپنی منزل پائی اور جن اقوام نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی اور اپنے جیسے بندوں کی اطاعت کرلی اور خود ہی بعض دوسروں کے راہنما بن گئے تو اللہ کریم نے بھی ان پر ایسی ایسی ہلاکت مسلط کی کہ زمانے میں صرف ان کے فسانے رہ گئے اور وہ اوراق ماضی کا قصہ پارینہ بن گئے جیسے مشہور واقعہ جو ان لوگوں کے علم میں بھی ہے کہ فرعون اور اس کے امراء ومتبعین کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور انہیں علمی وعقلی دلائل عطا کئے معجزات عطا فرمائے مگر آگے سے فرعونیوں نے اکر دکھائی کہ ان کے سروں میں اقتدار کا نشہ سمایا ہوا تھا تو کہنے لگے کیا اب ہم اپنے جیسے دو بندوں کے پیچھے چلیں گے جو حیثیت میں ہماری برابری کا بھی نہیں سوچ سکتے اور جن کی ساری قوم ہماری غلام ہے بھلا ان کی حیثیت کیا ہے چناچہ انکار پر ڈٹ گئے اور تباہ وبرباد ہوگئے ورنہ یقینا موسیٰ (علیہ السلام) تو ان کے پاس اللہ کی کتاب لائے تھے کہ انہیں ہدایت نصیب ہو اور ایمان لا کر اللہ جل جلالہ کی رضا حاصل کریں ، ان کی بعثت کا مقصد فرعونیوں کی ہلاکت تو نہ تھا ۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ کو کس قدر بڑا معجزہ بخشا وہ بغیر والد کے پیدا ہوئے ، ان کی والدہ نے بغیر کسی مرد کو دیکھے اولاد حاصل کی جو نور نبوت سے مزین تھی پھر انہیں تمام مشکلات سے بچا کر ایک اونچی زمین پر جگہ دی جہاں بہترین رہائش اور صاف پانی تھا ، ان کا پیدا ہونا کلام کرنا ہی بہت بڑا معجزہ تھا مگر اس کے علاوہ بھی بہت معجزات عطا ہوئے ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 33 تا 44 : لقائ (ملاقات۔ حاضری) ‘ اترفتا (ہم نے عیش و آرام کیا) ‘ ایعدکم (کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے) ‘ تراب (مٹی) ‘ ھیھات (بیعد ہے۔ دور ہے) ‘ حیاتنا (ہماری زندگی) ‘ نموت (ہم مرجاتے ہیں) ‘ نحیا (ہم زندہ رہتے ہیں) ‘ مبعوثین (اٹھائے جانے والے) ‘ افتری (جھوٹ باندھا) ‘ یصبحن (وہ رہ ج... ائیں گے۔ وہ ہوجائیں گے) ‘ نادمین (شرمندہ) ‘ الصیحۃ (چنگھاڑ) ‘ غثائ (کوڑا۔ کباڑ) ‘ ماتسبق (نہیں آگے بڑھتی) ‘ اجل (مدت) ‘ تترا (مسلسل ایک کے بعد دوسرا) ‘ احادیث (باتیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 33 تا 44 : حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی نافرمان قوم کے بھیانک انجام کے بعدان آیات میں کسی نبی یا رسول کا نام لئے بغیر بعض انبیا کی امتوں کی طرف اشارہ کر کے چند اصولی اور بنیادی باتوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ اللہ کے حکم سے ہر زمانے ہر ملک اور ہر خطے میں راہ سے بھٹک جانے والوں کی ہدایت کے لئے مسلسل اور لگاتار اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا جنہوں نے اپنی اپنی قوم سے فرمایا کہ وہ اللہ پر ایمان لائیں اسی کی عبادت و بندگی کریں کیونکہ اس کے سوا کوئی دوسرا عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک یا ساتھی نہیں ہے۔ ٭ وہ اپنے فیصلے کرنے میں پورا اختیار رکھتا ہے اور اسے اس کائنات میں پوری طرح کی طاقت وقوت حاصل ہے۔ یہ انبیاء کرام پوری زندگی اسی کی جدوجہد اور کوشش کرتے رہے۔ اس کے برخلاف دوسری طرف “ مترفین ‘ تھے یعنی عیش و آرام پسند ‘ مال و دولت کی چکا چوند میں مست ‘ اولاد کی کثرت پر ناز کرنے والے ‘ اپنے آپ کو عام لوگوں سے بلندو بر تر اور بڑا سمجھنے والے لوگ تھے۔ جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے۔ اللہ کی وحدانیت ‘ آخرت کا انکار اور بد عملی میں سب سے آگے تھے۔ جو اپنے اقتدار کی ہلتی ہوئی دیواروں کو سہارادینے کے لئے اللہ کے پاک نفوس انبیاء کرام کی یہ کہہ کر توہین کرتے تھے کہ تمہارے اور ہمارے درمیان آخر وہ کون سا فرق ہے جس کی وجہ سے ہم تمہیں اللہ کا نبی تسلیم کرلیں۔ تم ہماری طرح ہم جیسے آدمی ہو ‘ بیوی بچے رکھتے ہو ‘ کھاتے پیتے ہو اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو ‘ مال و دولت اور دنیاوی مرتبہ اور کوئی اعلی مقام بھی نہیں رکھتے ہو۔ اگر ہم تم جیسے لوگوں کی باتوں میں آگئے تو سوائے نقصان کے اور کیا حاصل کرسکیں گے۔ کبھی وہ مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہم مرجائیں گے ‘ ہمارا وجود مٹی ہوجائے گا ‘ ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی اور ہمارے ذرات بکھر جائیں گے تو ہم دو بارہ زندہ کر کے اللہ کے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ وہ کہتے یہ تو ایک ایسی بات ہے جس کا عقل و فہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور بہت ہی دور کی بات ہے۔ وہ کہتے آخرت ‘ جنت اور جہنم یہ سب کہنے کی باتیں ہیں اصل یہی دنیا کی زندگی ہے ہم اسی میں پیدا ہوئے ‘ اسی میں پلے بڑے ‘ اسی میں مرکھپ جائیں گے۔ مر کر دوبارہ زندہ ہونا خواہ مخواہ کی بات ہے یہ سب گھڑی ہوئی باتیں ہیں ہم تو ان باتوں پر یقین کرنے والے ہیں ہیں۔ تمام انبیاء کرام کے ساتھ یہی ہوا کہ ان کو اور ان کی تعلیمات کو جھٹلایا گیا۔ جب ان کی تعلیم کا مذاق اڑایا گیا اور کسی نے ان کی باتوں کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم نہیں کیا تو انبیاء کرام کے منہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح یہی نکلا کہ الہی یہ ہمیں جھٹلا رہے ہیں اور کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ آپ ہماری مدد کیجئے اور اس معاملے میں فیصلہ کر دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب وہ وقت بہت زیادہ دور نہیں ہے کہ جب ان کو پکڑا جائے گا تو یہ سخت شرمنہ اور پشیمان ہوں گے۔ جب اللہ کا وہ فیصلہ آیا تو ایک سخت کڑک ‘ چمک اور زبردست آواز نے ان کو اور ان کی تہذیب اور تمدن کو تباہ و برباد کرکے کوڑا کباڑ بنا کر رکھ دیا اور ان پر اللہ کی لعنت مسلط کردی گئی۔ فرمایا کہ انبیاء کرام کے آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس نے لگاتار نبیوں اور رسولوں کو بھیجا اور جب بھی انہوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کا انکار کیا تو اللہ نے ان کے برے اعمال کے سبب سے ان کی قوم کو تہس نہیس کر کے ان کی زندگیوں اور ترقیات کو ایک قصہ کہانی بنا کر رکھ دیا۔ اور ایسے لوگوں کی زندگیوں پر اللہ کی لعنت اور پھٹکار برستی رہی۔ یہ انبیاء کرام کون تھے ان کی قومیں کونسی تھیں اگر چہ ان آیات میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے لیکن قرآن کریم کے الفاظ سے ایسا لگتا ہے کہ ان سے مراد قوم عاد اور قوم ثمود ہے۔ قوم عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو اور قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا۔ اکثر مفسرین نے ان آیات میں ذکر کی گئی قوموں سے مراد ان دونوں قوموں کو لیا ہے۔ ان آیات میں درحقیقت کفار مکہ کو آئینہ دکھایا گیا ہے اور اس طرح متوجہ کیا گیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اور نبیوں کی طرح آخری نبی اور آخری رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اگر کفار مکہ نے سابقہ قوموں کی طرح ان کا مذاق اڑایا اور ان پر ایمان نہ لائے تو وہ اپنے برے انجام پر غور کرسکتے ہیں کیونکہ اللہ کا قانون اور دستور ایک ہی رہا ہے اور ہے۔ وہ نیکیوں پر چلنے والوں کو نواز تا ہے اور نجات دیتا ہے لیکن نافرمانوں اور نبیوں کو جھٹلانے والوں کو جڑ و نبی اد سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم کا ردّ عمل : جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اور ان کے نمائندوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا یا اور ان پر الزامات لگائے یہی وطیرہ حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم کے لیڈروں نے ان کے ساتھ اختیار کیا۔ کیونکہ لیڈر حضرات دنیوی نفع و نق... صان کے حوالے سے زیادہ شعور رکھتے ہیں اور وہی مفادات اٹھانے میں پیش پیش ہوتے ہیں اس لیے دعوت توحید کی مخالفت میں دنیا پرست مذہبی پیشوا اور لیڈر مخالفت میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اور یہی لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور صالح قیادت سے لوگوں کو متنفر کرتے ہیں ان کی مخالفانہ تحریک کے پیچھے دو باتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ آخرت کا انکار اور دنیا کے وسائل پر اترانا۔ اسی وجہ سے وہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ایک انسان سے بڑھ کر کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اسی بناء پر حضرت ھود (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بات کہی گئی کہ لوگو ! اس شخص کے پیچھے نہ لگنا کیونکہ یہ تمہارے جیسا انسان ہے۔ جو تم کھاتے، پیتے ہو اس طرح ہی یہ کھانے پینے کا محتاج ہے۔ اگر تم اپنے جیسے انسان کے پیچھے لگ گئے تو بھاری نقصان پاؤگے۔ نقصان سے ان کی مراد یہ تھی کہ یہ شخص جس دین میں تمہیں لانا چاہتا ہے اس پر عمل کرنے سے تمہاری ترقی رک جائے گی اور تم دنیا کے معاملات میں دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ جاؤ گے۔ گویا کہ قوم کو دنیا کی ترقی کا جھانسہ دے کر دین سے دور رکھا گیا اور یہی شروع سے دنیادار لیڈروں کا ہتھ کنڈا رہا ہے جہاں تک پیغمبر کے کھانے پینے کا تعلق اور انسان ہونے کا معاملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر انسان ہوتا ہے اور اسے بھی بحیثیت انسان وہی حاجات در پیش ہوتی ہیں جن کی ہر انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں تک دنیا پر اترانے کا معاملہ ہے۔ قرآن مجید میں جن قوموں کی تباہی کا ذکر ہوا ہے ان میں اکثر اقوام دنیوی ترقی کے لحاظ سے بہت آگے تھیں یہ ترقی ہی ان کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ (وَ کَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَافَتِلْکَ مَسٰکِنُھُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْ بَعْدِھِمْ اِلَّا قَلِیْلًا وَ کُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْن) [ القصص : ٥٨] ” اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اتر آیا کرتے تھے سو دیکھ لو وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے آخر کار ہم ہی وارث ہیں۔ “ (وَکَاَیِّنْ مِنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنْ قَرْیَتِکَ الَّتِیْ اَخْرَجَتْکَ اَہْلَکْنَاہُمْ فَلاَ نَاصِرَ لَہُمْ ) [ محمد : ١٣] ” اور کتنی ہی بستیاں تھیں جو آپ کی اس بستی سے بڑھ کر طاقتور تھیں، جن ( کے رہنے والوں) نے آپ کو نکال دیا ہے۔ ہم نے انہیں ہلاک کیا تو ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوا۔ “ مسائل ١۔ ہر پیغمبر کی مخالفت سب سے پہلے دنیادار لیڈر ہی کرتے ہیں۔ ٢۔ سرمایہ دار طبقہ کی اکثریت دعوت حق کی مخالفت کیا کرتی ہے۔ ٣۔ دنیادار لیڈر دنیا کی ترقی کے حوالے سے قوم کو دین سے گمراہ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) انسان اور بشرہی ہوا کرتے تھے : ١۔ رسول انسان ہوتے ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر اور عبد ہیں۔ (الکہف : ١١٠) ٣۔ تمام رسولوں کو ان کی قوم میں انہی کی زبان میں بھیجا گیا۔ (ابراہیم : ٤) ٤۔ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ آدمی تھے۔ (یوسف : ١٠٩) ٥۔ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشرہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٦۔ انبیاء اقرار کرتے تھے کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ ” وَ قَالَ الْمَلَاُ الخ “ حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت کے جواب میں ان کی قوم کے مشرکین نے وہی کچھ کہا جو دعوت نوح (علیہ السلام) کے جواب میں ان کی قوم کے رؤسا کہہ چکے تھے۔ ” اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ “ وہ توحید کے بھی منکر تھے اور قیامت کے بھی۔ ” وَ اَتْرَفْنٰھُمْ الخ “ ہم نے ان کو دنیوی انعا... مات سے مالا مال کر رکھا تھا۔ یعنی نعمنا ھم و وسعنا علیھم فی الحیاۃ الدنیا (خازن ص 37) ۔ ہم نے ان کو دنیا میں انعام و اکرام سے نوازا مگر انہوں نے ہمارے پیغام توحید کا سختی سے مقابلہ کیا اور ضد وعناد سے اس کا انکار کیا۔ 33:۔ ” مَاھٰذَا الخ “ روساء مشرکین نے عوام سے کہا یہ پیغمبر تو تم جیسا بشر ہی ہے تمہاری طرح کھاتا پیتا ہے اس میں نبی ہونے کی کونسی خصوصیت ہے جس طرح تم کھانے پینے کے محتاج ہو اسی طرح وہ بھی محتاج ہے۔ فلا فضل لہ علیکم لانہ محتاج الی الطعام والشراب کانتم (قرطبی ج 12 ص 121) ان کا خیال تھا کہ پیغمبر تو فرشتہ ہونا چاہئے جو کھانے پینے اور دیگر حوائج بشریہ سے بےنیاز ہو۔ ” وَ لَئِنْ اَطَعْتُمْ الخ “ جب ہود (علیہ السلام) کو تم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں بلکہ وہ بھی تم جیسا ایک بشر ہی ہے تو اگر تم اس کی بات مان کر اپنے معبودوں کی عبادت اور حاجات میں انہیں پکارنا چھوڑ دو گے تو بہت بڑے خسارے میں رہو گے اور پھر اپنے جیسے بشر کی پیروی کرنے اور اس کو اپنا متبوع ومطاع مان لینے میں تمہاری ذلت اور توہین ہے یرید لمغبونون بترککم الھتکم و اتباعکم ایاہ عن غیر فضیلۃ لہ علیکم (قرطبی ج 2 ص 122) لخسرون عولکم و مغبونون فی اراء کم حیث اذللتم انفسکم (ابو السعود ج 6 ص 287) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) اور اس توحید کی دعوت کو سن کر اس پیغمبر کی قوم کے وہ رئوسا اور سردار جنہوں نے کفر کیا تھا اور آخرت کے پیش آنے اور آخرت سے ملاقات کرنے کی تکذیب کی تھی اور دنیا کی زندگی میں ہم نے ان کو خوش حال کیا تھا اور آسودگی دی تھی ان سرداروں نے عوام سے کہا یہ مدعی نبوت بھی بس تم جیسا آدمی ہے جو کچھ تم کھاتے...  ہو اسی قسم کی چیزیں یہ بھی کھاتا ہے اور یہ بھ وہی پیتا ہے جس قسم سے تم پیتے ہو یعنی تم میں اور اس میں کیا فرق ہے کھانا پینا اور معاشرتی زندگی سب کی یکساں ہیں یہ بھی تم ہی جیسا ایک آدمی ہے۔  Show more