Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 34

سورة المؤمنون

وَ لَئِنۡ اَطَعۡتُمۡ بَشَرًا مِّثۡلَکُمۡ اِنَّکُمۡ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾

And if you should obey a man like yourselves, indeed, you would then be losers.

اگر تم نے اپنے جیسے ہی انسان کی تابعداری کر لی تو بیشک تم سخت خسارے والے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then, after them, We created another generation. And We sent to them a Messenger from among themselves (saying): "Worship Allah! You have no other God but Him. Will you not then have Taqwa!" And the chiefs of his people who disbelieved and denied the meeting in the Hereafter, and whom We had given the luxuries and comforts of worldly life, said: "He is no more than a human being like you, he eats of that which you eat, and drinks of what you drink. If you were to obey a human being like yourselves, then verily, you indeed would be losers." Allah tells us that after the people of Nuh, He created another nation. It was said that this was `Ad, because they were the successors of the people of Nuh. Or it was said that they were Thamud, because Allah says: فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ (So, the Sayhah overtook them in truth). Allah sent to them a Messenger from among themselves, and he called them to worship Allah Alone with no partner or associate, but they belied him, opposed him and refused to follow him because he was a human being like them, and they refused to follow a human Messenger. They did not believe in the meeting with Allah on the Day of Resurrection and they denied the idea of physical resurrection. They said: أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُم مُّخْرَجُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

341وہ خسارہ ہی ہے کہ اپنے ہی جیسے انسان کو رسول مان کر تم اس کی فضیلت و برتری کو تسلیم کرلو گے، جب کہ ایک بشر، دوسرے بشر سے افضل کیوں کر ہوسکتا ہے۔ یہی وہ مغالطہ ہے جو مکرین بشریت رسول کے دماغوں میں رہا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جس بشر کو رسالت کے لیے چن لیتا ہے تو وہ اس وحی رسالت کی وجہ سے دوسرے تمام غیر نبی انسانوں سے شرف و فضل میں بہت بالا اور نہایت ارفع ہوجاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] حالانکہ وہ خود بھی ایک عام انسان ہی تھے۔ اور عام لوگوں کی طرح کھاتے پیتے تھے۔ اس کے باوجود وہ عوام کے مطاع بنے ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ عوام ان کی اطاعت کریں۔ ان کا یہ پروپیگنڈا اس لئے نہ تھا کہ انسان مطاع نہیں بن سکتا۔ بلکہ صرف اس لئے تھا کہ کہیں لوگ نبی کی دعوت قبول کرکے ہماری اطاعت کو ترک کرکے اس کی اطاعت نہ کرنے لگ جائیں۔ گویا اصل خطرہ انھیں سرداروں کا تھا اور ان کے لئے تو یہ واقعی خسارہ کی بات تھی۔ لیکن لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ نبی کی اطاعت کرکے تم خسارہ میں رہو گے۔ گویا بشر ہونے کے باوجود ان کی اپنی اطاعت میں خسارے کی بات ان کے نزدیک خارج از بحث تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ ۔۔ : سورة قمر میں اسی قوم کے صالح (علیہ السلام) کے متعلق تحقیر سے بھرے ہوئے الفاظ ملاحظہ کریں، کہا : (فَقَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗٓ ۙ اِنَّآ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ 24؀ ءَاُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْۢ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِرٌ) [ القمر : ٢٤، ٢٥ ] ” پس انھوں نے کہا کیا ایک آدمی جو ہمیں سے ہے اکیلا، ہم اس کے پیچھے لگ جائیں ؟ یقیناً ہم تو اس وقت بڑی گمراہی اور دیوانگی میں ہوں گے۔ کیا یہ نصیحت ہمارے درمیان میں سے اسی پر نازل کی گئی ہے ؟ بلکہ وہ بہت جھوٹا ہے، متکبر ہے۔ “ اپنے مال و جاہ پر مغرور سرداروں نے سرداری خطرے میں دیکھ کر دنیا اور آخرت کی ذلت قبول کرلی، مگر بیشمار نشان دیکھنے کے باوجود رسول پر ایمان لا کر تابع ہونا قبول نہ کیا۔ سرداری کی آفات میں سے یہ سب سے بڑی آفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے رکھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ۝ ٠ۙ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ۝ ٣٤ۙ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٤) اور اگر تم اپنے جیسے ایک آدمی کا کہا مان لو تو واقعی تم بیوقوف اور خسارے میں ہو،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (وَلَءِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْلا اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ) ” ذرا ان سرداروں کی منطق اور دلیل ملاحظہ ہو۔ یعنی اگر تم لوگ ہماری اطاعت کرو تو درست اور بجا ‘ لیکن اس شخص کا کہنا مانو تو ناقابل قبول ! اس لیے کہ ہم پیدائشی سردار ہیں ‘ تمہارے حکمران ہیں ‘ ہمارا حکم تو تمہیں ماننا ہی ماننا ہے۔ ہماری اطاعت تو تم پر لازم ہے ہی ‘ مگر اس شخص کی اطاعت اس لیے نہیں ہوسکتی کہ یہ تمہاری طرح کا انسان ہے۔ یہ دلیل دیتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وہ خود کوئی فرشتے نہیں بلکہ اپنے عوام جیسے ہی انسان ہیں اور انسان ہوتے ہوئے ہی وہ اپنے جیسے انسانوں سے اطاعت اور فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36. Some commentators have wrongly opined that the chiefs exchanged these remarks against the Messenger between themselves. These remarks in fact were addressed to the common people. When the chiefs felt that the message was spreading among the common people and there was a real danger that they would be influenced by the pure character of the Messenger and that their superiority then would automatically come to an end, they began to delude them by raising such objections against him. It is worth while to note that both the chiefs of the people of Noah and the chiefs of the people of Aad accused their Messengers of the lust for power but as regards to themselves, they thought that power and prosperity were their inherent rights and they were in every respect entitled to be the chiefs of their people. 36a These words show that the people of Aad were also not disbelievers in the existence of God. They too were involved in the sin of shirk. Refer to (Surah Al-Aaraf, Ayat 70); (Surah Houd, Ayats 53-54); (Surah HaMim Sajdah, Ayat 14), and (Surah Al-Ahqaf, Ayats 21-22).

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :36 بعض لوگوں نے یہ غلط سمجھا ہے کہ یہ باتیں وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے ۔ نہیں یہ خطاب دراصل عوام الناس سے تھا ۔ سرداران قوم کو جب خطرہ ہوا کہ عوام پیغمبر کی پاکیزہ شخصیت اور دل لگتی باتوں سے متاثر ہو جائیں گے ۔ اور ان کے متاثر ہو جانے کے بعد ہماری سرداری پھر کس پر چلے گی ، تو انہوں نے یہ تقریریں کر کر کے عام لوگوں کو بہکانا شروع کیا ۔ یہ اسی معاملے کا ایک دوسرا پہلو ہے جو اوپر سرداران قوم نوح کے ذکر میں بیان ہوا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ خدا کی طرف سے پیغمبری ویغمبری کچھ نہیں ہے ، محض اقتدار کی بھوک ہے جو اس شخص سے یہ باتیں کرا رہی ہے ۔ یہ فرماتے ہیں کہ بھائیو ، ذرا غور تو کرو کہ آخر یہ شخص تم سے کس چیز میں مختلف ہے ۔ ویسا ہی گوشت پوست کا آدمی ہے جیسے تم ہو ۔ کوئی فرق اس میں اور تم میں نہیں ہے ۔ پھر کیوں یہ بڑا بنے اور تم اس کے فرمان کی اطاعت کرو؟ ان تقریروں میں یہ بات گویا بلا نزاع تسلیم شدہ تھی کہ ہم جو تمہارے سردار ہیں تو ہمیں تو ہونا ہی چاہیے ، ہمارے گوشت پوست اور کھانے پینے کی نوعیت کی طرف دیکھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ زیر بحث ہماری سرداری نہیں ہے ، کیونکہ وہ تو آپ سے آپ قائم اور مسلم ہے ، البتہ زیر بحث یہ نئی سرداری ہے جو اب قائم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس طرح ان لوگوں کی بات سرداران قوم نوح کی بات سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی جن کے نزدیک قابل الزام اگر کوئی چیز تھی تو وہ اقتدار کی بھوک تھی جو کسی نئے آنے والے کے اندر محسوس ہو یا جس کے ہونے کا شبہ کیا جا سکے ۔ رہا ان کا اپنا پیٹ ، تو وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار بہرحال اس کی فطری خوراک ہے جس سے اگر وہ بد ہضمی کی حد تک بھی بھر جائے تو قابل اعتراض نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی اس سے بڑھ کر تمہاری ذلت کیا ہوگی کہ باپ دادا کے طریقہ کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی اطاعت کرنے لگو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی بڑی بیوقوفی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی اطاعت قبول کرلی اور کہنا مان لیا تو یقیناً تم اس وقت سخت نقصان میں پڑجائوگے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام عام طور سے دو باتیں کہا کرتے فاتقوا اللہ واطیعون یعنی اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ یہ اطاعت کافروں کو بہت ناگوار تھی اسی کو کافر سرداروں نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ یہ بڑے نقصان کی بات ہے کہ تم اپنے ہی جیسے بشر کی اطاعت قبول کرلو۔