Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 38

سورة المؤمنون

اِنۡ ہُوَ اِلَّا رَجُلُۨ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا وَّ مَا نَحۡنُ لَہٗ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳۸﴾

He is not but a man who has invented a lie about Allah , and we will not believe him."

یہ تو بس ایسا شخص ہے جس نے اللہ پر جھوٹ ( بہتان ) باندھ لیا ہے ، ہم تو اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنْ هُوَ إِلاَّ رَجُلٌ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ... He is only a man who has invented a lie against Allah, meaning, `in the Message he has brought to you, and his warnings and promise of resurrection.' ... وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُوْمِنِينَ قَالَ رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

381یعنی دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ، یہ ایک نرا جھوٹ ہے جو یہ شخص اللہ پر باندھ رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] اسی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل تھے۔ اور ان کے نزدیک حضرت ہود کا اللہ پر جھوٹ باندھنا یہ تھا کہ میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں && یا یہ کہ && مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ضرور تمہیں دوبارہ پیدا کرے گا اور تم سے تمہارے اعمال کا مواخذہ کرے گا && اور یہ دونوں باتیں ہم ہرگز تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلُۨ افْتَرٰى ۔۔ : یعنی یہ ” رَجُلُۨ“ (آدمی) ہو کر جو رسالت کا دعویٰ کرتا ہے اور مرنے کے بعد زندگی سے ڈراتا ہے، تو محض اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے، یا یہ کہ یہ صرف ایک آدمی ہے جو ۔۔ ” بِمُؤْمِنِيْنَ “ پر باء بھی نفی کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ میں لفظ ” ہرگز “ کا اضافہ کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ ہُوَاِلَّا رَجُلُۨ افْتَرٰى عَلَي اللہِ كَذِبًا وَّمَا نَحْنُ لَہٗ بِمُؤْمِنِيْنَ۝ ٣٨ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) یہ رسول ایسا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے ہم تو ہرگز اس کی باتوں کی تصدیق نہیں کریں گے پیغمبر نے دعا کی اے میرے رب ان پر عذاب نازل کر کے میری مدد کر کیوں کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (اِنْ ہُوَ اِلَّا رَجُلُنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا) ” اس نے اپنی نبوت و رسالت کے بارے میں جھوٹ گھڑ کر اللہ سے منسوب کردیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :36 ( الف ) یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے یہ لوگ منکر نہ تھے ، ان کی بھی اصل گمراہی شرک ہی تھی ، دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں اس قوم کا یہی جرم بیان کیا گیا ہے ، ملاحظہ سورہ اعراف آیت ۷۰ ہود آیات ۵۳ ۔ ۵٤ حم السجدہ ، آیت ۱٤ ، الاحقاف ، آیات ۲۱ ، ۲۲ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

ّ (23:38) افتری۔ ماضی واحد مذکر غائب افتراء (افتعال) مصدر۔ اس نے جھوٹ باندھا۔ اس نے بہتان باندھا ۔ افتراء کا لفظ اصلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے لیکن اس کا زیادہ تر استعمال فساد کے ہی معنوں میں ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں جھوٹ، شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ جو کہتا ہے کہ میں اس کا بھیجا ہوا ہوں، یا مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ہوگی۔ (ابن کثیر) 4 ۔ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ” ہم اس پر ایمان لانے والے نہیں۔ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) اور کچھ نہیں یہ پیغمبر ایک ایسا شخص ہے جو اللہ پر جھوٹی افترا پردازیاں کرتا ہے اور ہم تو کسی طرح بھی اس کو سچا ماننے والے نہیں یعنی ایک ایسا آدمی ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے کہ میں اس کا رسول ہوں یا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، یا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا یہ محض اللہ پر جھوٹ طوفان لگاتا ہے بھلا ہم ایسے افترا پرداز کو جو خدا پر جھوٹ بولے کس طرح مان سکتے ہی اور اس کی رسالت پر کس طرح ایمان لاکر اس کی اطاعت کا پٹہ گلے میں ڈال سکتے ہیں۔