Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 45

سورة المؤمنون

ثُمَّ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی وَ اَخَاہُ ہٰرُوۡنَ ۬ ۙ بِاٰیٰتِنَا وَ سُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۴۵﴾

Then We sent Moses and his brother Aaron with Our signs and a clear authority

پھر ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو اور اس کے بھائی ہارون ( علیہ السلام ) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیل کے ساتھ بھیجا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Musa, Peace be upon Him; and Fir`awn Allah tells: ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَى وَأَخَاهُ هَارُونَ بِأيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَيِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ

دریا برد فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور قوم فرعون کے پاس پوری دلیلوں کے ساتھ اور زبردست معجزوں کے ساتھ بھیجا لیکن انہوں نے بھی سابقہ کافروں کی طرح اپنے نبیوں کی تکذیب ومخالفت کی اور سابقہ کفار کی طرح یہی کہا کہ ہم اپنے جیسے انسانوں کی نبوت کے قائل نہیں ان کے دل بھی بالکل ان جیسے ہی ہوگئے بالآخر ایک ہی دن میں ایک ساتھ سب کو اللہ تعالیٰ نے دریا برد کردیا ۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لوگوں کی ہدایت کے لئے تورات ملی ۔ دوبارہ مومنوں کے ہاتھوں کافر ہلاک کئے گئے جہاد کے احکام اترے اس طرح عام عذاب سے کوئی امت فرعون اور قوم فرعون یعنی قبطیوں کے بعد ہلاک نہیں ہوئی ۔ ایک اور آیت میں فرمان ہے گذشتہ امتوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عنائت فرمائی جو لوگوں کے لئے بصیرت ہدایت اور رحمت تھی ۔ تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

451آیات سے مراد وہ نو آیات ہیں، جن کا ذکر سورة اعراف میں ہے، جن کی وضاحت گزر چکی ہے اور سُلْطَانٍ مُبِیْنٍ سے مراد واضح اور پختہ دلیل ہے، جس کا کوئی جواب فرعون اور اس کے درباریوں سے نہ بن پڑا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] سلطان بمعنی غلیہ، قوت، اختیار (منجد، مقائیس اللغة) اور بمعنی فرمان شاہی (منجد) یعنی اتھارٹی یا اتھارٹی لیٹر Letter Athority وہ اختیار یا اختیار نامہ جو کسی حاکم اعلیٰ سے اس کے نائب کو ملا ہو۔ (اور سلطان بمعنی بادشاہ اس کا کنائی اور مجازی معنی ہے لغوی نہیں۔ نہ ہی قرآن نے اس لفظ کو کسی بھی جگہ ان معنوں میں استعمال کیا ہے) اور اس مقام پر سلطان مبین سے مراد یا ان دونوں نبیوں کی نبوت ہے یا وحی الٰہی۔ اور آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے صرف عصا اور یدبیضا ہی نہیں بلکہ دوسرے معجزات بھی کیونکہ یہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے تثنیہ کا نہیں۔ نیز آیات سے مراد احکام الٰہی بھی ہوسکتے ہیں۔ جو فرعون کے پاس جاتے وقت انھیں دیئے گئے تھے۔ اور جن سے یہ معلوم ہوجاتا تھا کہ ان کی۔۔ پر کوئی مافوق الفطرت قوت موجود ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاهُ هٰرُوْنَ ڏ ۔۔ : ” ثُمَّ “ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پیغمبروں کے لمبے وقفے کے بعد مبعوث ہوئے۔ فرعون اور اس کی قوم اپنے زمانے کے نہایت قوت و شوکت اور مال و دولت والے لوگ تھے، انھوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا، چناچہ ان کی طرف رسول بھی نہایت عظیم الشان بھیجا گیا، جس کے حالات اور معجزات قرآن میں سب سے زیادہ بیان ہوئے ہیں اور اس مقام پر نوح (علیہ السلام) کے بعد ذکر کردہ پیغمبروں اور امتوں کی طرح مبہم رکھنے کے بجائے موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) کا اور فرعون اور اس کے سرداروں کا نام لیا گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل تھی، جب کہ فرعون اور اس کی قوم قبطی تھے۔ اس لیے یہ کہنے کے بجائے کہ ہم نے موسیٰ کو ان کی قوم بنی اسرائیل کی طرف بھیجا، یہ فرمایا کہ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔ فرعون کی قوم کا نام نہیں لیا، کیونکہ وہ فرعون اور اس کے سرداروں کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہ رکھتے تھے۔ فرعون کی طرف بھیجنے کا مقصد اسے توحید کی دعوت دینا (دیکھیے نازعات : ١٥ تا ١٩) اور بنی اسرائیل کو آزادی دلانا تھا۔ ( دیکھیے طٰہٰ : ٤٧) بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ : نشانیوں سے مراد وہ معجزات اور نشانیاں ہیں جو فرعون کے غرق ہونے سے پہلے ظاہر ہوئیں، جن کا ذکر سورة اعراف اور دوسرے مقامات پر ہے۔ ان میں سمندر کا پھٹنا، من وسلویٰ اترنا، بارہ چشمے جاری ہونا اور بادل کا سایہ وغیرہ شامل نہیں، کیونکہ ان کا فرعون کو دعوت سے کوئی تعلق نہیں۔ ” سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ “ بھی اگرچہ آیات میں شامل ہے، مگر اس کی عظمت کی وجہ سے اسے الگ ذکر فرمایا۔ اکثر مفسرین نے اگرچہ اس سے عصائے موسیٰ مراد لیا ہے، مگر مجھے ان مفسرین کی بات راجح معلوم ہوتی ہے جنھوں نے فرمایا : ” اس سے مراد وہ غلبہ اور سطوت وہیبت ہے جو موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھی۔ “ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا : ( وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا) [ القصص : ٣٥ ] ” اور ہم تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کے حصول کی دعا سکھائی، فرمایا : (وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا ) [ بني إسرائیل : ٨٠ ] ” اور کہہ اے میرے رب ! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ بنا جو مددگار ہو۔ “ زیر تفسیر آیت میں بھی ” سُلْطٰنٍ “ سے مراد غلبہ ہے۔ غور کیجیے فرعون کس قدر متکبر اور ظالم تھا، کتنے لوگوں کو اس نے قتل کیا ہوگا۔ اس کے دروازے پر کتنا سخت پہرا ہوگا۔ دو آدمی جو ہاتھ میں صرف عصا لیے ہوئے ہیں، اس کے پاس جاتے ہیں، کسی کو روکنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ بات شروع ہوتی ہے تو وہ ہر بات میں لاجواب ہوتا ہے۔ لاجواب ہو کر جیل کی دھمکی دیتا ہے، مگر دھمکی پر عمل کی ہمت نہیں ہوتی، جادوگروں سے مقابلہ کرواتا ہے، ناکام ہوتا ہے۔ (شعراء : ١٨ تا ٢٨) پھر قتل کرنا چاہتا ہے مگر جرأت نہیں ہوتی۔ (مؤمن : ٢٦) اللہ بہتر جانتا ہے کتنے سال اسی طرح گزرے، مگر وہ موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکا، اسے کہتے ہیں ” سُلْطٰنٍ مُّبِیْن “ یعنی واضح غلبہ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاہُ ہٰرُوْنَ۝ ٠ۥۙ بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۝ ٤٥ۙ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ هرن هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب . الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥) پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) کو اپنی نو نشانیاں اور کھلا معجزہ دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39. The use of a manifest Authority along with Our signs may either mean that the signs were a clear proof that they were Messengers of Allah, or the signs may refer to all other miracles of Prophet Moses (peace be upon him) than the staff, which may stand here for a clear authority, because the miracles shown by means of it were a clear proof that the two brothers had been sent by Allah.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :39 نشانیوں کے بعد کھلی سند سے مراد یا تو یہ ہے کہ ان نشانیوں کا ان کے ساتھ ہونا ہی اس بات کی کھلی سند تھا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں ۔ یا پھر نشانیوں سے مراد عصا کے سوا دوسرے وہ تمام معجزات ہیں جو مصر میں دکھائے گئے تھے ، اور کھلی سند سے مراد عصا ہے ، کیونکہ اس کے ذریعہ سے جو معجزے رونما ہوئے ان کے بعد تو یہ بات بالکل ہی واضح ہو گئی تھی کہ یہ دونوں بھائی مامور من اللہ ہیں ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الزخرف حواشی 43 ۔ 44 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥۔ ٤٩:۔ اوپر کی آیتوں میں قوم شعیب کا ذکر مختصر طور پر فرما کر ان آیتوں میں قوم فرعون کا ذکر فرمایا ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قوم شعیب کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور ان کی پیغمبری کی تائید کے لیے ان کو عصا اور ید بیضاء کے معجزے بھی دیئے لیکن فرعون اور اس کی قوم کو یہ غرور کی باتیں سوجھیں کہ موسیٰ اور ہارون آخر بنی اسرائیل کی نسل میں سے ہیں اور بنی اسرائیل کی ساری قوم ہمارے تابع ہے پھر ہم ان دونوں اپنے جیسے آدمیوں کو اپنا سردار اور راہبر کیونکر بنا سکتے ہیں ‘ کوئی فرشتہ اللہ کا نائب بن کر آتا تو اس کی نصیحت کو مان لینا البتہ ایک ٹھکانے کی بات تھی ‘ انسان کی پیغمبری کے منکر لوگوں کا جواب سورة الانعام میں گزر چکا ہے کہ فرشتوں کو اصلی صورت میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر ہے اس لیے کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو وہ بھی ضرور انسان کی صورت میں ہوتا جس سے میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر ہے اس لیے کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو وہ بھی ضرور انسان کی صورت میں ہوتا جس سے ان لوگوں کا یہی شبہ باقی رہتا ‘ سورة الانعام کے جواب پر کفایت فرما کر ان آیتوں میں فرعون اور اس کی قوم کے اس اعتراض کا کچھ جواب نہیں دیا گیا کہ اللہ کا نائب کوئی فرشتہ ہونا چاہیے پھر فرمایا ‘ ان ہی غرور کی باتوں میں گرفتار ہو کر فرعون اور اس کی قوم نے موسیٰ اور ہارون کی پیغمبری کو جھٹلایا جس کے وبال سے یہ سب دریائے قلزم میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے ‘ آگے فرمایا فرعون کے جیتے جی تو نبی اسرائیل کو کتاب آسمانی پر آزادی سے عمل کرنے کا موقع نہیں تھا اس لیے فرعون کی ہلاکت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی تاکہ بنی اسرائیل کو ہدایت پانے کا پورا موقع ملے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو لوگ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے جنت میں جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کام بھی ویسے ہی کرتے ہیں اسی طرح جو دوزخ میں جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہ ویسے کام کرتے ہیں ‘ اس حدیث سے فرعون اور اس کی قوم کا انجام اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قوم فرعون میں سے جادوگر لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جنتی ٹھہر چکے تھے ‘ اس لیے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اژدھے کے معجزہ کو معجزہ سمجھ گئے اور سوائے جادوگروں کے باقی فرعونی لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق دوزخی قرار پاچکے تھے ‘ اس لیے وہ مرتے دم تک اسی معجزہ کو جادو کہتے رہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:45) سلطن۔ واضح دلیل۔ حجۃ واضحۃ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جن کا سورة اعراف اور بعض دوسرے مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ عصا بھی اگرچہ ان ہی نشانیوں میں سے تھا لیکن اس کی حیثیت چونکہ ان سب میں ممتاز تھی اس لئے اس کا ذکر خاص طور پر ” سلطان مبین “ (کھلی سند) کے لفظ سے کیا گیا جیسے کہا جائے ” ملائکۃ اللہ و جبرئیل “ (اللہ کے فرشتے اور جبریل) یعنی تخصیص بعد تعمیم کے قبیل سے ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 45 تا 50 : سلطان مبین (کھلے دلائل) ‘ استکبروا (انہوں نے تکبر کیا۔ بڑائی کی) ‘ عالین (سرکش) ‘ عابدون (عبادت کرنے والے) ‘ اوینا (ہم نے ٹھکانہ دیا) ‘ ربوۃ (بلند ٹیلہ۔ اونچا مقام) ‘ ذات قرار (ٹھہرنے کی جگہ۔ سکون کی جگہ) ‘ معین (جاری پانی۔ چشمہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 45 تا 50 : حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے کے بعد بعض نبیوں کی امتوں کا نام لئے بغیر ان کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور ان آیات میں خاص طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر فرمایا گیا ہے ان واقعات کو اس لئے بھی بیان کیا گیا تاکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کو اس سے تسلی ہوجائے کہ اگر آج قریش مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کو جھٹلا رہے ہیں اور طرح طرح ستا رہے ہیں تو یہ کوئی ایسی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ بلکہ منکرین اور متکبرین کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ اللہ کے نبی جب بھی تشریف لائے تو ان کو جھٹلایا گیا اور ہر طرح ستایا گیا لیکن جن لوگوں نے ان کو جھٹلایا ان کا انجام بھی بڑا بھیانک اور عبرت ناک ہوا ہے۔ اگر آج یہ کفار مکہ آپ کی بات سننے سے انکار کررہے ہیں اور اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر ابدی سچائی کو جھٹلا رہے ہیں تو ان کا انجام بھی دوسری گذری ہوئی قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ لیکن اگر انہوں نے ایمان کا راستہ چن لیا تو دین و دنیا کی تمام عظمتیں عطا کی جائیں گی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واقعات میں بڑی یکسانیت ہے جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر سے مدین ہجرت کرنا پڑی اور یہدوی ظالم بادشاہ ہیرودس کی شدید مخالفت نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں اس بات کو الہام فرمادیا کہ یہ ظالم بادشاہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہتا ہے تو حضرت مریم (علیہ السلام) آپ کو لے کر مصر کی طرف ہجرت فرما گئیں۔ جب تک اس ظالم بادشاہ کی موت واقع نہیں ہوگئی وہ فلسطین واپس نہیں آئیں۔ اسی طرح جب کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثاروں کو طرح طرح کی اذیتیں دیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کرنے کی سازشیں کیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) بیت اللہ کی سرزمین مکہ مکرمہ چھوڑ نے پر مجبور کردیئے گئے اور آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام (رض) نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اور انبیا کی طرح آپ کا ہجرت فرمانا اس بات کی واضح اور روشن دلیل تھی کہ اگر کفار مکہ نے دین اسلام کو قبول نہیں کیا تو ان کو بھی سخت سزاد ئیے جانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے عظیم پیغمبر اور بنی اسرائیل کے ایک فرد تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے کچھ افراد مصر میں آباد ہوگئے تھے ۔ جن کی تعدا روز بروز بڑھنا شروع ہوئی۔ اور دین اسلام کی تبلیغ کی برکت تھی کہ بنی اسرائیل کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ جب تک بنی اسرائیل انبیاء کرام کے راستے پر چلتے رہے اور ان کی لائی ہوء تعلیمات کو مشعل راہ بنائے رہے قوم بنی اسرائیل عزت و عظمت کی سر بلندیوں پر فائز رہی لیکن جب انہوں نے انبیاء کی اولاد ہونے کے باوجود انبیاء کا راستہ چھوڑ دیا تو وہی قوم ذلتوں کی پستی میں گرتی چلی گئی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے وصال کے بعد حالات نے ایک نئی کروٹ لی اور مصری حکومت کا انتظام قبطیوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ ان کے باشاہوں کا لقب فرعون تھا۔ فرعون اور اس کے ماننے والے اگرچہ بہت تھوڑے سے تھے اور بنی اسرائیل کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن فرعونوں کے ظلم و ستم اور قوم بنی اسرائیل کی بےحسی اور جہالت نے انہیں اس قدر پست اور ذلیل کردیا تھا کہ قوم بنی اسرائیل کی حیثیت غلاموں جیسی ہو کر رہ گئی اور ہر وہ کام کرنے پر مجبور کردیئے گئے جو معاشرہ کا ذلیل ترین کام تھا۔ انہیں دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کی فکر نے اس درجہ پر پہنچا دیا کہ وہ اپنے منصب اور مقام کو بھول بیٹھے۔ وہ یہ بھول گئے کہ وہ کن نبیوں کی اولاد ہیں۔ اور دنیا پر انہوں نے حکمرانی کی تھی۔ پستی اور ذلت کی انتہا یہ تھی کہ جب فرعون نے بنی اسرائیل کی ماؤں کی گود سے بچے چھین چھین کر ان کے سامنے ان کو ذبح کرنا شروع کیا تو وہ فرعون کی مزاحمت کرنے کی اہلیت تک کھو بیٹھے تھے ۔ حالانکہ ایک بلی جیسی کمزور مخلوق کے بچوں کی طرف بھی اگر کوئی ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ اپنی طاقت کے مطابق حملہ کردیتی ہے مگر بنی اسرائیل کا یہ عالم تھا کہ ان میں کوئی اتحاد و اتفاق نہ تھا اور اس ظالم بادشاہ کے ظلم کا جواب تک دینے کی صلاحیت کھو چکے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پر جوش خطبات اور تقریروں نے قوم بنی اسرائیل میں ایک نئی زندگی اور اتحاد اتفاق پیدا کردیا۔ انہوں نے قوم کو سمجھایا کہ تمہاری ذلت کا سبب یہی ہے کہ تم نے اللہ کا راستہ چھوڑ دیا ہے تم اس بات کو بھول بیٹھے ہو کہ تم کن انبیاء کی اولاد ہو۔ تمہاری وراثت تو علم اور عمل خیر تھا مگر تم دنیا کی بےحقیقت چیزوں سے دل لگا بیٹھے ہو۔ ایک وقت آیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پوری قوم بنی اسرائیل جن کی تعداد پچیس لاکھ کے قریب تھی مصر سے فلسطین کی طرف ل کر چلے۔ فرعون اور اس کے ماننے والوں کو غرق کردیا گیا اتنے بڑے احسان کے بعد سب کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا مگر فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل پھر سے اللہ کی نافرمانیوں میں لگ گئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے صحرائے سینا میں ایک کتاب ہدایت توریت نازل فرمائی تاکہ قوم بنی اسرائیل اس پر عمل کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون فلسطین پہنچنے سے پہلے وصال فرما گئے۔ فلسطین پہنچ کر بنی اسرائیل نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بناڈالیں اور اپنے اتحاد و اتفاق کو بھول گئے۔ اور ایک مرتبہ پھر یہ قوم نافرمانیوں میں لگ گئی اور بار بار اللہ کا عذاب نازل ہوتا رہا۔ ان کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں کفار و مشرکین کے قبضے میں چلی گئیں اور قوم بنی اسرائیل اس تباہی کے کنارے پہنچ گئی جہاں سے قوموں کی واپسی ناممکن ہوا کرتی ہے۔ انبیاء کرام تشریف لاتے رہے یہ قوم کچھ وقت تک سنبھل جاتی لیکن پھر مسلسل نافرمانیوں کو اپنا مزاج بنا لیتی اسی شدید انتشار کے بعد اللہ نے ان کی اصلاح وہدایت کے لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا۔ اس وقت یہودیوں کی ذہنی پستی کا شاہ کارہیر و دس بادشاہ تھا جو کوئی بھی حق اور سچ بات سننے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا ۔ جب اسے کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ ایک شخص ایسے آنے والے ہیں جن کو سرداری اور عظمت عطا کی جائے گی تو وہ حضرت عیسیٰ کا سخت دشمن بن گیا۔ اس نے ان کو قتل کرنا چاہا تو اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں اس بات کو الہام فرمایا کہ وہ ان کو لے کر کہیں دور چلی جائیں چناچہ حضرت مریم ؐ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو لے کر مصر تشریف لے گئیں اور جب تک اس یہودی ظالم باد شاہ کا انتقال نہیں ہوگیا اس وقت تک مصر سے فلسطین نہیں آئیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوچکے تھے جب فلسطین واپس آکر آپنے اللہ کا دین پہنچانا شروع کیا تو پوری قوم بنی اسرائیل جواب یہودی قوم بن چکی تھی اس نے نہ صرف شدید مخالفت کی بلکہ ہر طرح کی سازشوں کا جال پھیلنا شروع ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خطبات اور تقریروں سے لوگوں کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں تو یہودی اس سے گبھرا گئے اور ان کے گرد ایسا گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا کہ آخر کار ان کو ملک و قوم کا باغی قرار دے کر پھانسی دیئے جانے کا حکم دیدیا گیا۔ اس وقت اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا ( اب انشا اللہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ تشریف لائیں گے) اللہ نے آپ کو انجیل جیسی کتاب عطا فرمائی جو آپ کے جانے کے بعد چند لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی اور انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کو بھلا کر خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنا دیا اور قوم کو سمجھایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں جو تمام دنیا کے انسانوں کے گناہ اپنے اوپر رکھ کر پھانسی چڑھ گئے اور ساری دنیا کے گناہ معاف کرادیئے۔ اس عقیدہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں کو ایمان اور حسن عمل سے دور کردیا اور اس طرح یہ قوم بھی یہودیوں کی طرح نصاری یا عیسائی کہلانے لگی۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی اس وقت سب سے آگے دین کی علم بردار یہی دو قومیں تھیں۔ بقیہ لوگ اس سے بھی زیادہ کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام قوموں کی ہدایت کے لئے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا تاکہ اس مردہ قوم میں ایک نئی زندگی پیدا ہوسکے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اگر آخری نبی اور آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دامن ہدایت پکڑ لیا گیا تو دنیا کی اصلاح ہو سکے گی۔ لیکن اگر ان کے دامن سے وابستگی نہ ہوئی تو پھر قیامت تک ان کی اصلاح نہ ہوسکے گی۔ اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ جب تک وہ سچائیوں کے ان اصولوں کو اپنائے رہیں گے وہ دنیا اور آخرت کی بھلائی حاصل کرتے رہیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے اس راستے کو چھوڑ دیا تو پھر وہ اپنے سامنے گذری ہوئی قوموں کے انجام کو رکھیں کیونکہ اللہ کا دستور اور قانون ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے اور رہے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی معجزہ صریحہ کہ دلیل نبوت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پے درپے انبیاء (علیہ السلام) مبعوث فرمانے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کو بیک وقت رسول مبعوث کیا گیا : اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد مختلف اقوام کی طرف پے درپے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے تاآنکہ حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بیک وقت عظیم معجزات اور ٹھوس دلائل کے ساتھ بھیجا گیا۔ جب دونوں بھائی فرعون اور اس کے وزیروں مشیروں کے پاس پہنچے تو انہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ مگر فرعون اور اس کے وزیروں اور مشیروں نے بڑے غرور اور تکبر کے ساتھ ان کی دعوت کو مسترد کردیا۔ جن کی سرشت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ بڑے ہی سرکش اور متکبر لوگ تھے۔ جس طرح فرعون اپنے آپ کو ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی “ کہتا تھا اسی طرح ہی اس کے وزیر مشیر اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے اعلیٰ سمجھتے تھے۔ خاص طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کے بارے میں ان کی سوچ اور کردار یہ تھا کہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کو صدیوں سے غلام بنا رکھا تھا۔ اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ غلام قوم کے نمائندوں پر ہم کیونکر ایمان لائیں اس بناء پر انہوں نے پراپیگنڈہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) ہمارے جیسے انسان ہیں اور ان کی قوم ہماری غلام ہے۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوئے۔ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ )[ رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا ‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ بیشک ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات اور واضح دلائل دے کر بھیجا۔ ٢۔ فرعون اور اس کے وزیر مشیر اپنے آپ کو برا سمجھتے تھے۔ ٣۔ فرعون اور اس کے حواریوں کو حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کی تکذیب کرنے کی وجہ سے ہلاک کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کا ایک منظر : ١۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ نے قحط سالی میں مبتلا کیا۔ (الاعراف : ١٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو غر ق کردیا۔ ( البقرۃ : ٥٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کی گناہوں کی پاداش میں پکڑ فرمائی۔ (آل عمران : ١١) ٤۔ ہم نے انہیں انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ ( الانفال : ٥٤) ٥۔ قیامت کے دن آ لِ فرعون کو برے عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ (المومن : ٤٥) ٦۔ آل فرعون کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (المومن : ٤٦) ٧۔ آسمان و زمین میں کوئی ان پر رونے والا نہیں تھا اور نہ وہ مہلت دئیے گئے۔ (الدخان : ٢٩) ٨۔ ہم نے (قارون) کو خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اس کا کوئی حامی اسے نہ بچاسکا۔ (القصص : ٧٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم ارسلنا من المھلکین (آیت نمبر ٤٥ تا ٤٨) اس خلاصہ میں بھی ان کا یہ اعتراض نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے کہ یہ رسول ہم جیسے انسان اور بشر کیوں ہیں۔ فقالو عبدون (٢٣ : ٣٧) ” کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں اور ان کی قوم ہماری غلام ہے۔ یعنی ایک تو وہ لوگوں کے نزدیک حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے لیے یہ بات توہین آمیز تھی کہ وہ اس قوم سے متعلق رکھتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں پر حضرت موسیٰ اور ہارون کی پیش کردہ آیات اور عظیم معجزات کا کوئی اثر نہ ہوا۔ یہ اس لے کہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی تھیں یہ لوگ اس کرئہ ارض کے حالات اور کروفر میں غرق تھے حالانکہ یہ پوری دنیا اور اس کا کروفر ایک بےحقیقت چیز ہے اور ایمان کے مقابلے میں پرکاہ کی قیمت نہیں رکھتا۔ اب ایک مجمل اشارہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کی طرف بھی آتا ہے ۔ وہ تو بذات خود ایک معجزہ تھے ۔ ان کی بھی اسی طرح تکذیب کی گئی تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی وَاَخَاہُ ) یعنی مذکورہ اقوام کے بعد ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی آیات اور سلطان مبین دے کر بھیجا۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیات سے وہ آیات مراد ہیں جو سورة انفال کی آیت (وَ لَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ ) اور اس کی بعد آیت میں مذکور ہیں اور سلطان مبین (حجۃ واضحہ) سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا مراد ہے۔ حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرف بھیجا ان لوگوں نے تکبر اختیار کیا انہیں دنیا میں جو برتری حاصل تھی اس کی وجہ سے اپنے کو بڑا سمجھتے تھے اور تکبر انہیں لے ڈوبا کہنے لگے یہ دونوں آدمی جو کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے کیا ہم ان پر ایمان لے آئیں حالانکہ دونوں جس قوم کے فرد ہیں یعنی بنی اسرائیل وہ تو ہمارے فرماں بردار ہیں، یہ ان کی پوری قوم جن میں یہ بھی شامل ہیں ہم سے بہت زیادہ کمتر ہیں ہم مخدوم ہیں یہ خادم ہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اس قوم کے دو آدمیوں کو پیغمبر مان لیں جو ہمارے ماتحت ہیں جو لوگ ہم سے دب کے رہتے ہیں ان کو اپنے سے برتر کیسے سمجھ لیں ؟ وہ لوگ ایسی ہی باتیں کرتے رہے، اللہ تعالیٰ کے دونوں پیغمبروں کو جھٹلایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک کردیئے گئے یعنی سمندر میں ڈبو دیئے گئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ ” ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسی الخ “ یہ نفی شرک فی التصرف پر چوتھی نقلی دلیل ہے موسیٰ وہارون (علیہما السلام) کو ہم نے واضح دلائل اور کھلے معجزات دے کر فرعون کے پاس بھیجا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھرے دربار میں فرعون اور قوم فرعون کو توحید کی دعوت دی۔ ” فَاسْتَکْبَرُوْا الخ “ لیکن انہوں نے حکومت اور دولت و اقتدار کے نشے میں بدمست ہو کر اس کو ٹھکرا دیا۔ ” اَنُوْمِنُ لِبَشَرَیْنِ الخ “ اور صاف کہہ دیا کہ موسیٰ وہارون دونوں بشر ہیں ہم انہیں کس طرح اللہ کے نبی مان لیں۔ اور پھر ساتھ ہی وہ ہیں تو قوم بنی اسرائیل کے افراد جو ساری کی ساری ہماری غلام ہے اور ہر وقت ہماری خدمت اور غلامی میں لگی رہتی ہے تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم ایک پست قوم کے دو آدمیوں کو نبی مان لیں بنی اسرائیل اصل میں ایک بہت بلند مرتبہ اور شریف قوم تھی لیکن انقلاب زمانہ کی وجہ سے وہ قوم فرعون کے محتاج اور دست نگر ہوچکے تھے کیونکہ قوم فرعون حاکم تھی اور وہ محکوم اسی لیے فرعون اور اس کی قوم انہیں حقیر سمجھتے تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں اور احکام اور کھلی دلیل اور واضح سند دیکر۔