Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 49

سورة المؤمنون

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ لَعَلَّہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۴۹﴾

And We certainly gave Moses the Scripture that perhaps they would be guided.

ہم نے توموسیٰ ( علیہ السلام ) کو کتاب ( بھی ) دی کہ لوگ راہ راست پر آجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then We sent Musa and his brother Harun, with Our Ayat and manifest authority, to Fir`awn and his chiefs, but they behaved insolently and they were people self-exalting (by disobeying their Lord). They said: "Shall we believe in two men like ourselves, and their people are obedient to us with humility!" So, they denied them both and became of those who were destroyed. And indeed We gave Musa the Scripture, that they may be guided. Allah tells us that He sent Musa, peace be upon him, and his brother Harun to Fir`awn and his chiefs with decisive evidence and definitive proof, but Fir`awn and his people were too arrogant to follow them and obey their commands because they were human beings, just as previous nations had denied the Message of the human Messengers. They were of a similar mentality, so Allah destroyed Fir`awn and his chiefs, drowning them all in one day. He revealed the Book to Musa, i.e., the Tawrah, in which were rulings, commands and prohibitions, after He had destroyed Fir`awn and the Egyptians and seized them with a punishment of the All-Mighty, All-Capable to carry out what He wills. After Allah revealed the Tawrah, Allah did not destroy any nation with an overwhelming calamity; instead, He commanded the believers to fight the disbelievers, as He says: وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى الْكِتَـبَ مِن بَعْدِ مَأ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الاٍّولَى بَصَأيِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ And indeed We gave Musa -- after We had destroyed the generations of old -- the Scripture as an enlightenment for mankind, and a guidance and a mercy, that they might remember. (28:43)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

491امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد دی گئی۔ اور نزول تورات کے بعد اللہ نے کسی قوم کو عذاب عام سے ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ مومنوں کو حکم دیا جاتا رہا کہ وہ کافروں سے جہاد کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات فرعون اور اس کے سرداروں کی غرقابی کے بعد دی گئی تھی۔ دوسرے یہ کہ جو کہ احکام موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کے نازل ہونے سے پہلے دیئے گئے تھے وہ بھی موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ پر ایمان لانے والوں کے لئے اسی طرح قابل اتباع تھے جس طرح تورات کے احکام۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نبی ہر کتاب اللہ کے علاوہ اللہ کی طرف سے اور بھی بہت کچھ نازل ہوتا ہے۔ اور اس کی اتباع بھی اسی طرح واجب ہوتی ہے جیسے کتاب اللہ کی اور اس میں ان لوگوں کا پورا رد موجود ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں ہدایت کے لئے صرف قرآن ہی کافی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ : موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات فرعونیوں کو غرق کرنے کے بعد ملی، جیسا کہ سورة اعراف (١٣٦ تا ١٤٥) میں فرعون کے غرق ہونے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے چالیس راتوں کے لیے طور پر اعتکاف اور دیدارِ الٰہی والے معاملے کے بعد الواح کی صورت میں کتاب عطا فرمانے کا ذکر ہے۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات فرعون اور قبطیوں کو غرق کرنے کے بعد نازل فرمائی اور تورات نازل کرنے کے بعد کسی امت کو عام عذاب کے ساتھ ہلاک نہیں فرمایا، بلکہ ایمان والوں کو کفار کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ للنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ) [ القصص : ٤٣ ] ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اس کے بعد کہ ہم نے پہلی نسلوں کو ہلاک کردیا، جو لوگوں کے لیے دلائل اور ہدایت اور رحمت تھی، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ “ اس لیے ” لَعَلَّهُمْ “ (تاکہ وہ) میں ضمیر ” ھُمْ “ بنی اسرائیل ہی کے لیے قرار دی جائے گی، فرعونیوں کے لیے نہیں۔ يَهْتَدُوْنَ : یعنی کتاب تو اس لیے تھی کہ بنی اسرائیل ہدایت حاصل کریں، مگر اپنے آپ میں نبی کو موجود پا کر، اس کے معجزوں کو آنکھوں سے دیکھ کر اور اس پر نازل ہونے والی کتاب کو سن کر بھی ان کے اکثر سیدھی راہ پر نہیں آئے۔ جیسا کہ قرآن میں جا بجا ان کی نافرمانی کے قصے مذکور ہیں۔ امت مسلمہ کو تنبیہ ہے کہ دیکھنا تمہارا حال بھی ان کی طرح نہ ہوجائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّہُمْ يَہْتَدُوْنَ۝ ٤٩ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو کتاب تورات فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ملی جیسے فرمایا : ولقد اتینا موسیٰ الکتاب من بعد ما اھلکنا القرون الاولی۔ اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو کتاب (توراۃ) دی بعد اس کے کہ ہم نے پہلی نسلوں کو ہلاک کردیا۔ (قصص :43) کیونکہ توراۃ نازل ہونے کے بعد کوئی قوم عذاب عام کے ساتھ ہلاک نہیں ہوئی اس لئے یہاں ” لعلھم “ (تاکہ وہ) میں ہم (وہ) ضمیر بنی اسرائیل ہی کے لئے قرار دی جاسکتی ہے فرعونیوں کے لئے نہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہاں مختصر طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی شخصیات کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ناصرف معجزات دے کر بھیجا بلکہ انہیں تورات بھی عنایت کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات اس لیے عنایت فرمائی تاکہ اپنی قوم کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر تورات کی تعلیمات کے ذریعے یعنی نورہدایت کی طرف لائیں (ابراہیم : ٥) جس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے چالیس راتیں طور پر اعتکاف کرنے کے لیے بلایا اور پھر انہیں لکھی ہوئی تختیوں کی شکل میں تورات عنایت فرمائی اور حکم دیا اے موسیٰ (علیہ السلام) پوری قوت کے ساتھ تورات کے ساتھ وابستہ ہوجاؤ اور اپنی قوم کو بھی حکم دو کہ وہ تورات کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھیں یعنی وہ اس پر دل وجان سے عمل کریں۔ (الاعراف : ١٤٢، ١٤٥) اللہ تعالیٰ نے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کو دیے جانے والے معجزات کو اپنی نشانیاں اور کھلی دلیل قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی والدہ کو اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا تفصیلی تذکرہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے یہاں صرف چند الفاظ میں عیسیٰ کی پیدائش کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب حضرت مریم [ پر زچگی کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں القاء فرمایا کہ آپ مسجد اقصیٰ کے حجرہ سے نکل کر بلندجگہ پر پہنچ جائیں۔ وہاں آپ کو پینے کے لیے ٹھنڈے پانی کا چشمہ اور ہر قسم کا آرام میسر آئے گا یہاں اونچی جگہ اور جاری چشموں کا ذکر ہے سورة مریم میں کھجور کے درخت کا بھی ذکر کیا ہے۔ حضرت مریم [ کو یہ بھی حکم ہوا کہ ٹھنڈا پانی پینے کے ساتھ کھجور کے درخت کی تازہ کھجور بھی تناول کرو (مریم : ٢٦) حضرت مریم [ عیسٰی (علیہ السلام) کی تولیدگی کے وقت اونچی جگہ پر خلوت نشین ہوگئی تھیں۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو کچھ دنوں کے بعد اپنی برادری میں واپس تشریف لائیں جس کی تفصیل سورة مریم آیت ١٩ تا ٣٤ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ربوہ کا لفظی معنٰی ہے اونچی اور زرخیز جگہ۔ مرزائیوں نے اسی بناء پر اپنے صدر مقام کا نام ربوہ رکھا ہے تاکہ مرزا کے بارے میں لوگوں کو مسیح موعود ہونے کا مغالطہ دیاجائے۔ جھوٹ ثابت کرنے کے لیے انہوں نے کشمیر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کا ثبوت بھی پیش کیا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی کشمیر میں تشریف آوری کسی مذہبی اور تاریخی کتاب سے ثابت نہیں۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت کی گئی تاکہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کریں۔ ٢۔ حضرت مریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی قدرت کی نشانی ہیں۔ ٣۔ زچگی کے وقت حضرت مریم [ کو بلند جگہ اور ٹھنڈے چشمے کے قریب جانے کا حکم ہوا۔ تفسیر بالقرآن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ملنے والے معجزات : ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاھد، عکرمہ، شعبی اور قتادہ کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی جانے والی نشانیاں یہ تھیں۔ ١۔ یدِبیضاء، ٢۔ عصا، ٣۔ قحط سالی، ٤۔ پھلوں کی کمی، ٥۔ طوفان، ٦۔ ٹڈی دل، ٧۔ جوئیں کھٹمل، ٨۔ مینڈک اور ٩۔ خون کے عذاب۔ “ [ ابن کثیر ] حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں حقائق : ١۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا۔ (آل عمران : ٤٧) ٢۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بچپن اور بڑھاپے میں کلام کرنا۔ (آل عمران : ٤٦) ٣۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مٹی سے پرندہ بنانا۔ (المائدۃ : ١١٠) ٤۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ماد رزاداندھے اور کوڑھی کو درست کرنا۔ (آل عمران : ٤٩) ٥۔ لوگوں کی ذخیرہ شدہ اشیاء کی خبردینا۔ (آل عمران : ٤٩) ٦۔ باذن اللہ مردوں کو زندہ کرنا۔ (المائدۃ : ١١٠) ٧۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نہ قتل کیے گئے نہ سولی پر لٹکا دے گئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر اٹھا لیا۔ ( النساء : ١٥٧) ٨۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا روح اور جسم سمیت آسمانوں پر اٹھایا جانا۔ (آل عمران : ٥٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد معین (آیت نمبر ٤٩ تا ٥٠) اس آیات میں جس ربوہ کا ذکر ہے اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں کہ یہ کہاں ہے ۔ آیا یہ مصر میں یا دمشق میں تھا بیت المقدس میں تھا۔ یہ وہ معاملات ہیں جہاں حضرت مریم اپنے بچے کو لے کرگئی تھیں ، حضرت عیسیٰ کے بچپن میں۔ عیسائیوں کی کتابوں میں مفصل تذکرے موجود ہیں۔ یہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ ربوہ کہا تھا۔ مقصود یہ تھا کہ مریم اور ابن مریم کو اللہ نے اسے پورے عرصہ میں نہایت ہی پاکیزہ مقام پر رکھا۔ یہ مقام سر سبز تھا ۔ پانی عام تھا اور وہ یہاں بہت ہی خوشی اور آرام سے رہتے تھے۔ بات یہاں تک آپہنچی ہے تو تمام رسولوں کی اس امت اور جماعت سے اللہ یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ گویا وہ پوری جماعت ایک ہی میدان اور ایک مشن اور دعوت کے اعتبار سے وہ ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتٰبَ لَعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ ) (اور یہ واقعی بات ہے کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تاکہ وہ لوگ ہدایت پاجائیں) جب فرعون اور اس کی قوم غرق ہو کر ہلاک ہوگئی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے قوم بنی اسرائیل کو کے کر دریا پار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توراۃ شریف عطا فرمائی۔ جب تک بنی اسرائیل فرعون کی غلامی میں تھے احکام شرعیہ پر عمل کرنے سے عاجز تھے اس لیے انہیں تفصیلی احکام اس وقت دیئے جب فرعون کی گرفت سے نکل گئے یہ احکام توراۃ شریف کے ذریعہ دیئے گئے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی توراۃ شریف کے بارے میں سورة انعام میں فرمایا ہے (وَ تَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شَیْءٍ ) بنی اسرائیل نے کیا کیا حرکتیں کیں ان کا ذکر سورة بقرہ میں اور سورة انعام میں گزر چکا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب یعنی تورات عطا فرمائی تاکہ وہ لوگ راہ پائیں یعنی فرعونیوں کے ہلاک ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی ہدایت اور تربیت کیلئے تورات بھی عطا فرمائی تاکہ وہ صحیح راہ پاکر منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔