Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 50

سورة المؤمنون

وَ جَعَلۡنَا ابۡنَ مَرۡیَمَ وَ اُمَّہٗۤ اٰیَۃً وَّ اٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ ﴿۵۰﴾٪  3

And We made the son of Mary and his mother a sign and sheltered them within a high ground having level [areas] and flowing water.

ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں پناہ دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

`Isa and Maryam Allah tells: وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ ايَةً ... And We made the son of Maryam and his mother as a sign, Allah tells us about His servant and Messenger `Isa bin Maryam, peace be upon them both, and that He made them as a sign for mankind, i.e., definitive proof of His ability to do what He wills. For He created Adam without a father or a mother, He created Hawwa' from a male without a female, and He created `Isa from a female without a male, but He created the rest of mankind from both male and female. ... وَاوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ and We gave them refuge on high ground, a place of rest, security and flowing streams. Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas said: "Ar-Rabwah is a raised portion of land, which is the best place for vegetation to grow." This was also the view of Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr and Qatadah. Ibn Abbas said, ذَاتِ قَرَارٍ (Dhat Qarar) "A fertile place. وَمَعِينٍ (and Ma`in) means water running on the surface." This was also the view of Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr and Qatadah. Mujahid said: "A level hill." Sa`id bin Jubayr said that ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (Dhat Qarar and Ma`in) means, that water was flowing gently through it. Mujahid and Qatadah said: وَمَعِينٍ (and Ma`in), "Running water." Ibn Abi Hatim recorded from Sa`id bin Al-Musayyib: وَاوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (and We gave them refuge on a Rabwah, Dhat Qarar and Ma`in). "It is Damascus." He said; "Something similar was also narrated from Abdullah bin Salam, Al-Hasan, Zayd bin Aslam and Khalid bin Ma`dan." Ibn Abi Hatim recorded from Ikrimah from Ibn Abbas that; this Ayah referred to the rivers of Damascus. Layth bin Abi Sulaym narrated from Mujahid that the words; وَاوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ (and We gave them refuge on a Rabwah), referred to `Isa bin Maryam and his mother when they sought refuge in Damascus and the flatlands around it. Abdur-Razzaq recorded that Abu Hurayrah said: إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (on a Rabwah, Dhat Qarar and Ma`in), "It is Ramlah in Palestine." The most correct opinion on this matter is that which was reported by Al-Awfi from Ibn Abbas, who said; وَاوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (and We gave them refuge on a Rabwah, Dhat Qarar and Ma`in), "Ma`in refers to running water, and is the river of which Allah mentioned: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيّاً your Lord has provided a water stream under you." (19:24) Ad-Dahhak and Qatadah said; إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (on a high ground, a place of rest, security and flowing streams), refers to Jerusalem. This -- and Allah knows best -- is the most apparent meaning, because it is mentioned in the other Ayah, and parts of the Qur'an explain other parts, so it is more appropriate to interpret it by another Ayah, then the Sahih Hadiths, then other reports.

ربوہ کے معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کی ایک زبردست نشانی بنایا آدم کو مرد وعورت کے بغیر پیدا کیا حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کیا ۔ بقیہ تمام انسانوں کو مرد وعورت سے پیدا کیا ۔ ربوہ کہتے ہیں بلند زمین کو جو ہری اور پیداوار کے قابل ہو وہ جگہ گھاس پانی والی تروتازہ اور ہری بھری تھی ۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس غلام اور نبی کو اور انکی صدیقہ والدہ کو جو اللہ کی بندی اور لونڈی تھیں جگہ دی تھی ۔ وہ جاری پانی والی صاف ستھری ہموار زمین تھی ۔ کہتے ہیں یہ ٹکڑا مصر کا تھا یا دمشق کا یا فلسطین کا ۔ ربوۃ ریتلی زمین کو بھی کہتے ہیں ۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ تیرا انتقال ربوہ میں ہوگا ۔ وہ ریتلی زمین میں فوت ہوئے ۔ ان تمام اقوال میں زیادہ قریب قول وہ ہے کہ مراد اس سے نہر ہے جیسے اور آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے آیت ( قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا 24؀ ) 19-مريم:24 ) تیرے رب نے تیرے قدموں تلے ایک جاری نہر بہادی ہے ۔ پس یہ مقام بیت المقدس کا مقام ہے تو گویا اس آیت کی تفسیر یہ آیت ہے اور قرآن کی تفسیر اولاً قرآن سے پھر حدیث سے پھر آثار سے کرنی چاہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

501کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی، جو رب کی قدرت کی ایک نشانی ہے، جس طرح آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے اور ہوا کو بغیر مادہ کے حضرت آدم (علیہ السلام) سے اور دیگر تمام انسانوں کو ماں اور باپ سے پیدا کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ 502رَبْوَۃٍ (بلند جگہ) سے بیت المقدس اور مَعِیْنٍ (چشمہ جاری) سے وہ چشمہ مراد ہے جو ایک قول کے مطابق ولادت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وقت اللہ نے بطور معجزہ، حضرت مریم کے پیروں کے نیچے سے جاری فرمایا تھا۔ جیسا سورة مریم میں گزرا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابن مریم بھی ایک نشانی تھے اور ان کی والدہ بھی ایک نشانی تھی۔ بلکہ یوں فرمایا ان دونوں کو ملا کر ایک نشانی بنایا۔ اور اس کی صورت صرف یہی رہ جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت کو بن باپ تسلیم کیا جاوے نیز یہ بھی کہ حضرت مریم کسی مرد کے چھوئے بغیر ہی نفحہ الٰہی سے حاملہ ہوئی تھیں۔ [٥٢] ربوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جو عام سطح زمین سے قدرے بلند ہو اور اس کی بھربھری اور ریتلی قسم کی ہو۔ ایسی زمین پانی کو اپنے اندر جذب کرکے خوب پھول جاتی ہے۔ پنجابی میں ایسی زمین کو && میرا زمین && کہتے ہیں۔ اس زمین کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عام زمین کی نسبت سرسبز و شاداب بھی زیادہ ہوتی ہے اور بلند بھی ہوتی ہے۔ اب اس ربوۃ کی تعین میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہی بلند مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش واقع ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک چشمہ بھی جاری کردیا تھا اور کھجور کے ٹنڈ درخت سے اللہ کے حکم سے تازہ کھجوریں گرنے لگی تھیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کا ظالم یہودی بادشاہ ہیروڈس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن بن گیا تھا۔ حضرت مریم ان کی حفاظت کی خاطر اللہ کے حکم سے مصر کی طرف ہجرت کر گئیں۔ اور ایک بلند چشمہ دار جگہ پر قصبہ میں مقیم ہوئیں جسے رطہ کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وہیں جوان ہوئے پھر جب ہیروڈس مرگیا تو حضرت مریم انھیں لے کر اپنے وطن واپس آگئیں۔ اسرائیل روایات اسی توجیہ کی تائید کرتی ہیں۔ اور ربوۃ کے ساتھ ذات قرار سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں ضروریات زندگی مہیا ہوسکتی ہوں اور انسان کو وہاں قیام کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اور معین کا لفظ تائید مزید کے لئے ہے۔ جس کا معنی جاری پانی، نتھرا پانی، بہتا ہوا چشمہ، ٹھنڈا اور میٹھا پانی سب کچھ آتا ہے۔ بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان کے ضلع گورداسپور میں واقع ایک قصبہ قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ وہ خود تو وہیں قادیان میں دفن ہوا اور ان کا مقبرہ بھی وہیں بنا۔ ١٩٤٧ ء میں پاکستان بنا تو مرزا صاحب کی امت وہاں سے پاکستان کے ضلع جھنگ میں منتقل ہوئی اسی طرح ایک بلند زمین اپنے ہیڈکوارٹر کے لئے منتخب کی اور اس کا نام ربوہ رکھ لیا۔ مرزا صاحب کے خلیفے اور اولاد وہیں اقامت پذیر ہیں۔ مرزا صاحب نے صرف نبوت کا ہی دعویٰ نہیں کیا بلکہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ آپ عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ پیدائش کے تو قائل تھے لیکن رفع عیسیٰ کے قائل نہیں تھے۔ کیونکہ اگر وہ اس کے قائل ہوتے تو آپ کو مسیح موعود بننے میں مشکل پیش آتی تھی۔ آپ کی امت نے تو جھنگ میں ایک ربوہ بنالیا لیکن آپ نے کشمیر کو ربوہ قرار دیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طبعی موت قرار دینے کے بعد فرمایا کہ ان کی قبر کشمیر میں ہے۔ کشمیر کے صدر مقام سری نگر کے محلہ خانیار میں ایک قبر && یوسف آز && کے نام سے مشہور ہے۔ عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ کسی نبی کی قبر ہے جو کوئی شہزادہ تھا اور کسی دوسرے ملک سے یہاں آیا تھا۔ مرزا صاحب کے مقصد کے لئے یہ بےسروپا افواہیں ہی کافی تھیں۔ چناچہ آپ کو الہام ہوگیا کہ یہ قبر تو عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی ہے۔ اب اگر آپ کی امت کے بقول آپ کے الہام کو درست سمجھ بھی لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں صرف حضرت عیسیٰ کا ذکر نہیں بلکہ ان کی والدہ کا بھی ذکر ہے لہذا آپ کو الہام تو دو قبروں کا ہونا چاہئے تھا۔ مگر افسوس ہے کہ وہاں قبر صرف ایک ہی ہے۔ اس سے آپ کی نبوت اور الہامات کی بھی قلعی کھل جاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّهٗٓ اٰيَةً : ” اٰيَةً “ میں تنوین تعظیم کی ہے ” عظیم نشانی۔ “ یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے ابن مریم کو نشانی بنایا، نہ یہ فرمایا کہ ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا، بلکہ دونوں کو ملاکر ایک عظیم نشانی قرار دیا، کیونکہ ان دونوں کا وجود اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عظیم نشان تھا کہ اس نے آدم (علیہ السلام) کو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا فرمایا، حوا [ کو صرف مرد سے پیدا فرمایا اور مریم [ کے بطن سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا۔ جب کہ عام پیدائش ماں باپ دونوں سے ہوتی ہے اور وہ بھی اللہ کی قدرت کا نشان ہے۔ 3 یہاں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا نام لینے کے بجائے ” ابن مریم “ فرمایا کہ انھیں خدا قرار دینے والوں کو توجہ دلائی جائے کہ وہ ایک خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے تھے، سو خدا کیسے ہوگئے ؟ وَّاٰوَيْنٰهُمَآ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيْنٍ : ” رَبْوَةٍ “ ٹیلا، اونچی جگہ۔ ” ذَاتِ قَرَارٍ “ ہموار، جہاں رہنا آسان ہو۔ ” َّمَعِيْنٍ “ جاری پانی، یہ ” عَانَ یَعِیْنُ “ (بَاعَ یَبِیْعُ ) سے ہو تو ” مَبِیْعٌ“ کے وزن پر اسم مفعول ہے، اصل اس کا ” مَعْیُوْنٌ“ ہے، میم زائد ہے۔ زجاج نے فرمایا : ” َّمَعِيْنٍ “ چشموں میں جاری پانی، گویا یہ ” عَیْنٌ“ (چشمہ) سے مشتق ہے۔ “ ابن الاعرابی نے فرمایا : ” مَعَنَ الْمَاءُ “ ” پانی بہ پڑا۔ “ اس صورت میں اس کا وزن ” فَعِیْلٌ“ ہے اور میم اصلی ہے، جاری پانی۔ (قرطبی) 3 اس ربوہ (ٹیلا) سے کیا مراد ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد سرزمین مصر لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ملک شام (جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے) کا حاکم ہیروڈس تھا، وہ نجومیوں سے سن کر کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو سرداری ملے گی، بچپن ہی سے ان کا دشمن ہوگیا تھا اور ان کے قتل کے در پے تھا۔ مریم [ انھیں لے کر مصر چلی گئیں اور جب تک ہیروڈس زندہ رہا واپس نہ آئیں۔ انجیل متیّٰ میں یہ واقعہ اسی طرح مذکور ہے، لیکن حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس کے قریب کھجور والی وہ بلند جگہ ہے جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی اور مریم [ کو نیچے سے آواز دی گئی کہ غم نہ کر، تیرے نیچے تیرے رب نے ایک ندی جاری کردی ہے اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا تو وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گی، پس کھا، پی اور ٹھنڈی آنکھ سے رہ۔ (دیکھیے مریم : ٢٣ تا ٢٦) کیونکہ قرآن کی سب سے صحیح تفسیر وہ ہے جو قرآن کی کسی آیت سے ہو، پھر صحیح احادیث سے اور پھر آثار سے۔ “ (ابن کثیر) اسرائیلی روایات کو جب ہم نہ سچا کہہ سکتے نہ جھوٹا تو ان سے کوئی بات کیسے ثابت ہوسکتی ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّہٗٓ اٰيَۃً وَّاٰوَيْنٰہُمَآ اِلٰى رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيْنٍ۝ ٥٠ۧ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ ربو رَبْوَة ورِبْوَة ورُبْوَة ورِبَاوَة ورُبَاوَة، قال تعالی:إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، قال (أبو الحسن) : الرَّبْوَة أجود لقولهم ربی فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] ، فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً [ الحاقة/ 10] ، ( ر ب و ) ربوۃ ( مثلثلہ الراء ) ورباوۃ ( بفتح الرء وکسر ھما ) بلند جگہ یا ٹیلے کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو ٹھہر نے کے قابل اور شاداب ( بھی تھی ) ابوا حسن نے کہا ہے کہ ربوۃ کا لفظ زیادہ جید ہے ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] پھر نالے پر پھولا ہوا اجھاگ آگیا ۔ قرار قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64] ( ق ر ر ) قرر فی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠) اور ہم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو بڑی نشانی بنایا کہ بغیر باپ کے اور بغیر کسی انسانی تعلق کے پیدا ہوئے یہ دونوں کے لیے قدرت کاملہ کی عظیم نشانی ہے اور ہم نے ان دونوں کو ایسی بلند زمین میں لے جا کر پناہ دی جو پھلوں کی وجہ سے اور نہر جاری ہونے کی وجہ سے سرسبز و شاداب جگہ تھی یعنی دمشق۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَّاٰوَیْنٰہُمَآ اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ ) ” یہاں جس جگہ کا ذکر ہوا ہے اس کے مقام اور زمانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس سے مراد وہی ٹیلا ہے جہاں ایک کھجور کے سایے میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تھی۔ شاید آپ ( علیہ السلام) کی ولادت کے بعد ماں بیٹا کچھ عرصہ اسی جگہ پر قیام پذیر رہے ہوں۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کی رائے میں یہ کسی اور جگہ کا ذکر ہے۔ اس دوسری رائے کی بنیاد جن معلومات پر ہے ان کے مطابق حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت اس علاقے میں ہیرودیس بادشاہ کی حکومت تھی جو یہودی تھا۔ جس طرح برصغیر میں انگریزوں کی طرف سے راجوں اور نوابوں کو ان کے علاقوں میں حکمران بنا دیا جاتا تھا اسی طرح رومن شہنشاہ نے اس علاقے میں اس شخص کو بادشاہ مقرر کر رکھا تھا۔ اس کٹھ پتلی بادشاہ کو ایک خواب آیا تھا جس کی بنا پر نجومیوں نے اس کے دل میں یہ وہم ڈال دیا کہ تمہاری سلطنت میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تمہاری ہلاکت کا باعث بنے گا۔ چناچہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ اس کی سلطنت میں جو لڑکا بھی پیدا ہو ‘ اسے قتل کردیا جائے۔ اِن حالات میں حضرت مریم ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ٰ کو لے کر مصر چلی گئیں اور اس یہودی بادشاہ کے انتقال کے بعد اس وقت واپس آئیں جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ٰ دس بارہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ اس واقعہ کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔ چناچہ جو لوگ اس روایت کو درست سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اپنی اس جلاوطنی کے دوران مصر میں جس جگہ پر انہوں نے قیام کیا تھا آیت زیر نظر میں اس جگہ کا ذکر کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. The wording “We made the son of Mary and his mother a sign” is very significant, because it means that neither the son of Mary nor his mother was each a separate sign, but both of them together were a sign. This verse is a clear proof that a son was born to Mary without cohabitation with a man and that Jesus had no father. For further details see (Surah Aal-Imran, Ayats 45-49); (Surah An-Nisa, Ayats 156, 171); (Surah Maryam, Ayats 16-35) and (Surah Al-Anbiya, Ayats 91) and the relevant E.N.s. In this connection, it should also be noted that the case of the error in regards to Prophet Jesus (peace be upon him) and his mother was different from the error in regard to other Prophets, who were rejected because they were human beings. But the deviation in regard to Prophet Jesus (peace be upon him) and his mother was that the credulous people raised them from the low position of human beings to the high rank of Godhead. On the other hand, those, who went to the other extreme accused Mary of unchastity, although they were witnesses of the miraculous birth of Jesus and had heard him speak in the cradle. 44. Different people have mentioned different places, like Damascus, Ar-Ramlah, Jerusalem and Egypt, in regard to the plateau where Allah gave them shelter. From the Christian traditions it appears that Mary had to leave her home twice after the birth of Prophet Jesus (peace be upon him), first in the time of Herod when she took him to Egypt and stayed there till Herod’s death, and then in the time of Arichelaus when she took him to Nazareth in Galilee. (Matthew, 2: 13-23). Therefore it cannot be said with certainty to which of these two emigrations the Quran refers here. It is, however, obvious that the place of shelter was a plateau which provided them with all the necessities of life.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :43 یہ نہیں فرمایا کہ ایک نشانی ابن مریم تھے اور ایک نشانی خود مریم ۔ اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا ۔ بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ دونوں مل کر ایک نشانی بنائے گئے ۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ باپ کے بغیر ابن مریم کا پیدا ہونا ، اور مرد کی صحبت کے بغیر مریم کا حاملہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو ان دونوں کو ایک نشانی بناتی ہے ۔ جو لوگ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بے پدر کے منکر ہیں وہ ماں اور بیٹے کے ایک آیت ہونے کی کیا توجیہ کریں گے ؟ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حواشی 44 ۔ 53 ۔ النساء حواشی 190 ۔ 212 ۔ 213 ۔ جلد سوم ، مریم ، حواشی 15 تا 22 الانبیاء ، حواشی 89 ۔ 90 ) ۔ یہاں دو باتیں اور بھی قابل توجہ ہیں ۔ اول یہ کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ ماجدہ کا معاملہ جاہل انسانوں کی ایک دوسری کمزوری کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اوپر جن انبیاء کا ذکر تھا ان پر تو ایمان لانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ تم بشر ہو ، بھلا بشر بھی کہیں نبی ہو سکتا ہے ۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے جب لوگ معتقد ہوئے تو پھر ایسے ہوئے کہ انہیں بشریت کے مقام سے اٹھا کر خدائی کے مرتبے تک پہنچا دیا ۔ دوم یہ کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی معجزانہ پیدائش ، اور ان کی گہوارے والی تقریر سے اس کے معجزہ ہونے کا کھلا کھلا ثبوت دیکھ لینے کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا اور حضرت مریم پر تہمت لگائی انکو پھر سزا بھی ایسی دی گئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کے سامنے ایک نمونہ عبرت بن گئی ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :44 مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں ۔ کوئی دمشق کہتا ہے ، کوئی الرَّملہ ، کوئی بیت المقدس ، اور کوئی مصر مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں ۔ پہلے ہیرو دیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں ۔ پھر اَز خِلاؤس کے عہد حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی ( متی2 ۔ 13 تا 23 ) ۔ اب یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں ربوہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار ہو اور اپنے گرد و پیش کے علاقے سے اونچی ہو ۔ ذات قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کر سکتا ہو ۔ اور معین سے مراد ہے بہتا ہوا پانی یا چشمہ جاری ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی کے طور پر بغیر باپ کے بیت اللحم کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ بیت اللحم کا بادشاہ ان کا اور ان کی والدہ کا دُشمن ہوگیا تھا، اس لئے حضرت مریم علیہاالسلام کو وہاں سے نکل کر کسی ایسی جگہ اپنے آپ کو اور اپنے صاحبزادے کو چھپانا پڑا جہاں اُس بادشاہ کی پہنچ نہ ہو۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں ایک ایسی بلند جگہ پر پناہ دی جو اُن کے لئے پرسکون بھی تھی، اور وہاں چشمے کا پانی بھی بہتا تھا جو ان کی ضروریات پوری کرسکے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٠:۔ اوپر ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر توراۃ بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے نازل فرمائی ‘ ان آیتوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم علیہا ١ ؎ السلام کا ذکر فرما کر یہ جتلایا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یہود نے تورات کی ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ تورات کی جن آیتوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف تھے ‘ ان آیتوں میں انہوں نے رد وبدل کردیا جس سے شریعت عیسوی اور شریعت محمدی دو شریعتوں کے یہ لوگ منکر بن گئے ‘ حضرت مریم جیسی پاکدامن بی بی کو بدکاری کا الزام لگایا۔ دمشق کے ستارہ پرست بادشاہ کے دربار میں غلط مخبری کر کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی کے قابل ٹھہرایا چناچہ یہ سب قصہ سورة النسآء کی تفسیر میں گزر چکا ہے ‘ سورة المائدہ اور سورة الاعراف میں اس عہد کا ذکر بھی گزر چکا ہے جو یہود سے توراۃ پر قائم رہنے کے باب میں لیا گیا تھا توراۃ کی آیتوں کے بدل ڈالنے کے سبب سے یہود اس عہد پر قائم نہیں رہے اس لیے ان کو توراۃ کا پابند بھی نہیں کہا جاسکتا ‘ حاصل مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی مرد کے چھونے کے حضرت مریم کو حمل کا رہ جانا اور پھر اس خلاف عادت حمل سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیدا ہونا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک ایسی ہی نشانی ہے جس طرح اس نے آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے اپنی قدرت سے پیدا کیا جو لوگ اس قدرت کے منکر ہیں وہ اس کی سزا بھگتیں گے ‘ سورة مریم میں گزر چکا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت حضرت مریم (رض) بیت المقدس سے دور ایک اونچے ٹیلے پر چلی گئی تھیں جس ٹیلے کے نیچے کھڑے ہو کر جبرئیل (علیہ السلام) نے مریم (علیہا السلام) کی تسکین کی تھی اور وہیں اللہ کے حکم سے پانی کی نہر بھی جاری ہوئی تھی۔ آخری آیت میں اسی اونچے ٹیلے کو ٹیلہ اور ستھرے پانی کی جگہ فرمایا ‘ اگرچہ بعضے مفسروں نے ربوہ کی تفسیر اس ٹیلہ پر کے گاؤں کو بھی قرار دیا ہے جس کا ذکر شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں کیا ہے لیکن حافظ ابن کثیر (رح) نے اسی تفسیر کو قوی ٹھہرایا ہے جس کا ذکر اوپر گزرا اور اپنی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ یہی تفسیر سورة مریم کی آیتوں کے موافق ہے حافظ ابن کثیر (رح) کی یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ضحاک اور قتادہ کے قول کے موافق ہے صحیح مسلم ‘ ترمذی اور نسائی میں زید بن ارقم سے روایت ٣ ؎ ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے علم سے اللہ کی پناہ کی دعا کیا کرتے تھے جس علم سے آدمی کو دین کا کچھ فائدہ نہ پہنچے ‘ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کے قابل اسی طرح کا علم ہے جس طرح سے تورات کا علم یہود میں ہے کہ انہوں نے بجائے دین کے فائدہ کے اس علم سے الٹا دین کا اور نقصان کمایا ‘ شریعت محمدی کا علم جن علمائے اسلام کے حق میں اسی حالت کو پہنچ گیا ہو ‘ ان کو اپنی حالت پر ذرا غور کرنا چاہیے۔ (١ ؎ حضرت مریم صحابیہ قرار پاتی ہیں لہٰذا (رض) کہنا چاہیے (ع ‘ ح ) (٣ ؎ مشکوٰۃ باب الاستعاذۃ۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:50) اوینھما۔ اوینا ماضی جمع متکلم۔ اوی یؤوی ایواء (افعال) کسی کو جگہ دینا۔ ٹھکانہ دینا۔ رہنے کا مقام دینا۔ اوی یاوی (ضرب) اوی واوائ۔ البیت والی البیت۔ گھر میں اترنا۔ گھر میں پناہ لینا۔ ماوی ٹھکانہ۔ جائے پناہ۔ اوی مادہ۔ ھما ضمیر مفعول تثنیہ مؤنث غائب۔ اوینہما ہم نے ان دونوں کو پناہ دی۔ ربوۃ۔ بلند جگہ۔ ٹیلہ۔ بلندی۔ اسم ہے۔ ربو۔ ربا سے مشتق ہے اس کی جمع ربی وربی ہے اس بلند مقام سے کون سی جگہ مراد ہے اس میں مختلف قول میں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد دمشق ہے۔ بعض کے الرملۃ (فلسطین میں) اور بعض کے نزدیک اس سے مراد بیت المقدس یا مصر ہے ! ذات قرار۔ رہائش کے قابل۔ ٹھہرنے کے قابل ۔ سرسبز و شاداب جگہ۔ وذات معین۔ جس میں پانی کے چشمے تھے۔ معین ای ماء معین جاری پانی۔ ذات قرار ومعین۔ صفت ہے ربوہ کی۔ معین العین (آنکھ ) سے مشتق ہے۔ عین کا لفظ استعارۃ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ جو کہ مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً :۔ (1) مشکیزہ کے سوراخ کو بھی عین کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے۔ (2) جاسوس کو بھی عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے۔ (3) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو کا پانی جاری ہوتا ہے اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے۔ جس کے معنی جاری پانی کے ہیں جو صاف طور چلتا ہوا دکھائی دے۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں۔ علامہ بغوی (رح) نے لکھا ہے :۔ المعین : الماء الجاری الظاہر الذی تراہ العیون مفعولی من عانہ یعینہ اذا ار کہ البصر۔ یعنی معین سے سے مراد ہے وہ جاری پانی جو ظاہر ہو جس کو آنکھیں دیکھ رہی ہوں۔ عان یعون (آنکھ سے دیکھنا) سے بروزن مفعول ہے اصل میں معیون تھا۔ بعض کے نزدیک یہ معن یمعن (فتح) سے صفت کا صیغہ ہے بروزن فعیل۔ نرم رفتار سے بہنے والا پانی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی دونوں کو ملا کر ایک نشانی بنایا جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے ورنہ دونوں مل کر ایک نشانی نہیں بن سکتے۔ (انبیاء :9) 5 ۔ اس ربود (ٹیلہ) سے مراد کونسا مقام ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ اکثر اس سے مراد۔ اسرائیلی رایات کے مطابق۔ مصر لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ملک شام کا حاکم ہیروڈوس تھا۔ وہ نجومیوں سے سن کر کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو سرداری ملے گی بچپن ہی سے ان کا دشمن ہوگیا تھا اور ان کے قتل کے درپے تھا۔ حضرت مریم ( علیہ السلام) انہیں لے کر مصر چلی گئیں اور جب تک ہیروڈوس زندہ رہا ملک شام واپس نہ آئیں۔ انجیل کی کتاب متی میں یہ واقعہ اسی طرح مذکور ہے لیکن حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں : اقرب قول یہ ہے کہ ” ربوہ “ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں حضرت مریم ( علیہ السلام) وضع حمل کے وقت تشریف رکھتی تھیں۔ سورة مریم میں ہے کہ ان کے نیچے چشمہ جاری کردیا۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اہل اسلام میں سے کسی نے ” ربوہ “ سے مراد کشمیر نہیں لیا اور نہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی قبر کشمیر میں بتائی ہے۔ یہ محض کذب بیانی اور دروغ بانی ہے۔ محلہ ” خان یار “ شہرسری نگر میں جو قبر ” یور آسف “ کے نام سے مشہور ہے اور جس کے متعلق ” تاریخ اعظمی “ کے مصنف نے محض عام افواہ نقل کی ہے کہ ” لوگ اسے کسی نبی کی قبر بتاتے ہیں وہ کوئی شہزادہ تھا اور دوسرے ملک سے یہاں آیا تھا “ اس کو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بر بتانا پرلے درجے کی بےحیائی اور سفاہت ہے۔ (کذافی بعض الحواشی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس لئے کہ ایک ظالم بادشاہ بچپن ہی میں ان کے درپئے قتل ہوگیا تھا، یہ ظالم بادشاہ ہیردوس تھا، نجومیوں سے یہ سن کر کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو سرداری ہوگی صغر سن ہی میں ان کا دشمن ہوگیا تھا الہام ربانی سے مریم (علیہا السلام) ان کو لیکر ملک مصر میں چلی گئیں۔ اور اس ظالم کے مرنے کے بعد پھر شام چلی آئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت مریم اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تذکرہ : آخر میں فرمایا (وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہُ اٰیَۃً ) (اور ہم نے ابن مریم اور ان کی والدہ کو نشانی بنا دیا) ابن مریم یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی والدہ کے بطن سے پیدا ہونا جبکہ کسی بشر نے ان کی والدہ کو چھوا تک نہ تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک عظیم نشانی ہے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے (جو سورة آل عمران اور سورة مائدہ میں بیان ہوچکے ہیں) ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں یاد رہے قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ کسی نبی کا ابن فلاں کہہ کر تذکرہ نہیں فرمایا اور سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نام کے ساتھ جگہ جگہ ابن مریم فرمایا ہے اور سورة مریم میں واضح طور پر فرما دیا کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے لیکن اب بعض ملحد اور زندیق یوں کہتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باپ کا نام یوسف تھا اس طرح سے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو جھٹلاتے ہیں اور حضرت مریم علیھا السلام پر بھی بد کرداری کی تہمت دھرتے ہیں۔ لعنھم اللہ تعالیٰ ۔ مزید فرمایا (وَّآوَیْنَاھُمَا اِِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ ) (اور ہم نے ان دونوں کو اونچی جگہ پر ٹھکانہ دیا جو ٹھہرنے کی جگہ تھی اور جس میں پانی جاری تھا) مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں رہنے کے لیے بلند جگہ عطا کی (جہاں اچھی طرح رہ سکتے تھے وہاں کھیتیاں تھیں پھل پھول تھے) نیز پانی بھی جاری تھا پانی جو کھیتوں کو اور باغات کو سیراب کرتا تھا اور اس کے دیکھنے سے دل خوش ہوتا۔ اس بلند جگہ سے کون سی جگہ مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں حضرت عبداللہ بن سلام صحابی (جو پہلے یہود میں سے تھے) انہوں نے فرمایا کہ اس سے دمشق مراد ہے، حضرت سعید بن المسیب تابعی کا بھی یہ قول ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ اس سے رملہ مراد ہے اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس سے بیت المقدس مراد ہے۔ (معالم التنزیل ج ٣ صفحہ ٣١) یہ تو اکابر کے اقوال ہیں جن میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بھی ہیں، اب دور حاضر کے بعض زندیقوں کی بات سنو وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کی قبر کشمیر میں ہے یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات کے قائل نہیں اور سورة نساء میں جو (وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ) فرمایا ہے اس کے منکر ہیں۔ فلعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ بیان القرآن میں لکھا ہے کہ ایک ظالم بادشاہ بیر دوس تھا جو نجومیوں سے یہ سن کر کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی سرداری ہوگی صغر سن ہی میں ان کا دشمن ہوگیا تھا الہام ربانی سے حضرت مریم (علیہا السلام) ان کو لے کر مصر میں چلی گئیں اور اس ظالم کے مرنے کے بعد پھر شام میں چلی آئیں (کذافی الروح و فتح المنان عن انجیل متی وروی فی الدر المثور تفسیر الربوۃ عن ابن عباس و وھب و ابن ذید بمصرو عن ذید بن اسلم بالا سکندریہ ایضابمصر) اور مصر کا اونچا ہونا باعتبار رودنیل کے ہے ورنہ غرق ہوجاتا اور ماء معین رودنیل ہے۔ واللہ اعلم انتھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ ” وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ الخ “ یہ توحید پر پانچویں نقلی دلیل ہے۔ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بھی ہماری قدرت کاملہ اور وحدانیت کی واضح دلیل تھیں مریم صدیقہ، طبیہ و طاہرہ محض ہماری قدرت سے حاملہ ہوئیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ پیدا ہوئے اور پھر پیدا ہوتے ہی والدہ کی گود ہی میں توحید کا اعلان بھی کردیا۔ ” وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ الخ “ (مریم رکوع 2) یعنی میرا اور تم سب کا مالک اور کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لیے عبادت صرف اسی کی کرو اور حاجات میں مافوق الاسباب صرف اسی کو پکارو یہی سیدھی راہ ہے۔ ” رَبْوَةٍ “ کے لغوی معنی بلند زمین کے ہیں۔ ھی مارتفع من الارض دون الجبل (روح ج 18 ص 38) ۔ ربوہ سے مراد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں سب سے زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ ربوہ سے ارض بیت المقدس مراد ہے کیونکہ وہ دوسرے علاقوں کی نسبت بلند بھی ہے اور اس میں ندیاں بھی رواں دواں ہیں یہ قول حضرت ابن عباس امام قتادۃ، ضحاک اور کعب سے منقول ہے۔ قال ابن عباسھی بیت المقدس (خازن ج 5 ص 38) ۔ قال قتادۃ کنا نحدث ان الربوۃ بیت المقدس (ابن جریر) ۔ قال الضحاک و قتادۃ (الی ربوۃ ذات قرار و معین) ھو بیت المقدس فھذا واللہ اعلم ھو الاظہر (ابن کثیر ج 3 ص 246) ۔ قال قتادۃ وکعب بیت المقدس و زعم ان فی التوراۃ ان بیت المقدس اقرب الارض الی السماء (بحر ج 6 ص 408) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک مجوسی بادشاہ کے زمانے میں بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ نجومیوں کے ذریعہ سے اس کی اطلاع ہوگئی۔ اب اس نے انہیں تلاش کرنا شروع کردیا تاکہ انہیں ہلاک کردیا جائے حضرت مریم اس بادشاہ کے ڈر سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو لے کر بیت المقدس چلی گئیں جب تک وہ بادشاہ زندہ رہا اس وقت تک وہیں رہیں۔ وذکر ان سبب ھذا الایواء ان ملک ذالک الزمان عزم علی قتل عیسیٰ (علیہ السلام) ففرت بہ امہ الخ (روح ج 18 ص 38) ۔ وسبب الایواء انھا فرت بابنھا عیسیٰ الی الربوۃ وبقیت بھا اثنتی عشرۃ سنۃ وانما ذھب بھما ابن عمھا یوسف ثم رجعت الی اھلھا بعد ان مات ملکھم (کبیر ج 6 ص 289) ۔ یا ربوۃ سے وہی وضع حمل کی جگہ مراد ہے کیونکہ اس کے بارے میں ارشاد ہے۔ ” فَنَا دٰھَا مِنْ تَحْتِھَا اَنْ لَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکَ تَحْتَکِ سَرِیًّا “ (مریم رکوع 2) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جگہ بلند تھی اور نیچے چشمہ یا ندی تھی (ابن کثیر) ۔ 42:۔ ” ذَاتَ قَرَارً “ پر امن اور فراخ جگہ۔ ” مَعِیْن “ بروزن فعیل، جاری اور تازہ پانی۔ (قرطبی و روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) اور ہم نے ابن مریم یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور ان کی ماں کو ایک بڑی نشانی بنایا اور ہم نے ان دونوں ماں بیٹوں کو ایک ایسی اونچی زمین اور ٹیلے پر جگہ دی جو قیام کے اور ٹھہرنے کے قابل تھی اور اس پر پانی جاری تھا بڑی نشانی یہ کہ بن باپ کے بچہ پیدا ہونا اور عالم طفولیت میں اس کا کلام کرنا ماں بھی ایک علامت قدرت الٰہی کی اور بچہ اس کی قدرت کی ایک نشانی اور اونچی جگہ فرمایا۔ شاید اس ٹیلے کو جہاں کھجور کا درخت ہرا ہوا تھا اور ٹیلے کے نیچے نہر یا چشمہ جاری تھا جیسا کہ سورة مریم میں گزر چکا ہے۔ کہتے ہیں یہود اور ان کا بادشاہ ہیر دوس ان ماں بیٹوں کے سخت دشمن تھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو لیکر ان کی ماں دشمنوں کے خوف سے ایلیا یا مصر چلی گئی تھیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے وہیں پرورش پائی جب ہیر دوس مرگیا تو بچے کے ہمراہ وطن میں واپس آگئیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب سے پیدا ہوئے اس وقت کے بادشاہ نے نجومیوں سے سنا کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ پیدا ہوا وہ دشمن ہو ان کی تلاش میں پڑا ان (علیہ السلام) کو بشارت ہوئی کہ اس کے ملک سے نکل جائو نکل کر مصر کے ملک میں گئے ایک گائوں کے زمیندار نے حضرت مریم کو اپنی بیٹی کر رکھا۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوئے تو اس وطن کا بادشاہ مرچکا تب پھر آئے اپنے وطن کو وہ گائوں تھا ٹیلے پر اور پانی وہاں کا خوب تھا۔ 12 آج کل کے بعض مدعیان نبوت نے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قیام گاہ کو کشمیر میں بتایا ہے اور ربوہ کی تفسیر سری نگر سے کی ہے اور یوز آسف کی ایک مصنوعی قبر کو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی قبر بتایا ہے یہ سب باتیں لایعنی اور بےثبوت ہیں۔ اور ان کے محققین نے بیشمار جواب دیئے ہیں۔