Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 51

سورة المؤمنون

یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ ﴿ؕ۵۱﴾

[ Allah said], "O messengers, eat from the good foods and work righteousness. Indeed, I, of what you do, am Knowing.

اے پیغمبر! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to eat Lawful Food and to do Righteous Deeds Allah commands: يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ ... O Messengers! Allah commands His servants and Messengers, peace be upon them all, to eat lawful food and do righteous deeds, which indicates that eating what is lawful helps one to do righteous deeds. The Prophets, peace be upon them, did this in the most perfect manner, and did all kinds of good deeds in words, actions, guidance and advice. May Allah reward them with good on behalf of the people. ... كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ ... Eat of the Tayyibat, Sa`id bin Jubayr and Ad-Dahhak said, "This means lawful." In the Sahih it says: وَمَا مِنْ نَبِيَ إِلاَّ رَعَى الْغَنَم There is no Prophet who was not a shepherd. They asked, "And you, O Messenger of Allah!" He said, نَعَمْ كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيَط لاَِهْلِ مَكَّة Yes, I used to tend the sheep of the people of Makkah for a few Qirats. In the Sahih, it says: إِنَّ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَمُ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ كَسْبِ يَدِه Dawud, upon him be peace, used to eat from the earnings of his own hand. It was recorded in Sahih Muslim, Jami` At-Tirmidhi and Musnad Al-Imam Ahmad -- from whom this version comes -- that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah said: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لاَا يَقْبَلُ إِلاَّ طَيِّبًا وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُوْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِين O people, Allah is Tayyib and only accepts that which is Tayyib, and Allah commands the believers as He had commanded the Messengers by saying: يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ O Messengers! Eat of the Tayyibat and do righteous deeds. Verily, I am Well-Acquainted with what you do. and يـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَـكُمْ O you who believe! Eat of the Tayyibat that We have provided you with. (2:172) Then he mentioned how a man may travel on a long journey, dusty and unkempt, وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِك and his food, drink and clothing are unlawful, and he has nourished himself with what is unlawful, and he extends his hands towards the sky, saying, `O Lord, O Lord!' -- how can his prayer be answered. At-Tirmidhi said that it is "Hasan Gharib." The Religion of all the Prophets is Tawhid; and the Warning against splitting into different Groups Allah tells:

اکل حلال کی فضیلت اللہ تعالیٰ اپنے تمام انبیاء علیہ السلام کو حکم فرتا ہے کہ وہ حلال لقمہ کھائیں اور نیک اعمال بجالایا کریں پس ثابت ہوا کہ لقمہ حلال عمل صالحہ کا مددگار ہے پس انبیاء نے سب بھلائیاں جمع کرلیں ، قول ، فعل ، دلالت ، نصیحت ، سب انہوں نے سمیٹ لی ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے سب بندوں کی طرف سے نیک بدلے دے ۔ یہاں کوئی رنگت مزہ بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ حلال چیزیں کھاؤ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے بننے کی اجرت میں سے کھاتے تھے صحیح حدیث میں ہے کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں لوگوں نے پوچھا آپ سمیت؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ؟ اور حدیث میں ہے حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی محنت کا کھایا کرتے تھے ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے اللہ کو سب سے زیادہ پسند روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ قیام داؤد علیہ السلام کا قیام ہے ۔ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات نماز تہجد پڑھتے تھے اور چھٹا حصے سوجاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے میدان جنگ میں کبھی پیٹھ نہ دکھاتے ۔ ام عبداللہ بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ شام کے وقت بھیجا تاکہ آپ اس سے اپنا روزہ افطار کریں دن کا آخری حصہ تھا اور دھوپ کی تیزی تھی تو آپ نے قاصد کو واپس کردیا اگر تیری بکری کا ہوتا تو خیر اور بات تھی ۔ انہوں نے پیغام بھیجا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہ دودھ اپنے مال سے خرید کیا ہے پھر آپ نے پی لیا دوسرے دن مائی صاحبہ حاضر خدمت ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گرمی میں میں نے دودھ بھیجا ، بہت دیر سے بھیجا تھا آپ نے میرے قاصد کو واپس کردیا ۔ آپ نے فرمایا ہاں مجھے یہی فرمایا گیا ہے ۔ انبیاء صرف حلال کھاتے ہیں اور صرف نیک عمل کرتے ہیں ، اور حدیث میں ہے آپ نے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک کو ہی قبول فرماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسول کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاک چیز کھاؤ اور نیک کام کرو میں تمہارے اعمال کا عالم ہوں یہی حکم ایمان والوں کو دیا کہ اے ایماندارو! جو حلال چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ ۔ پھر آپ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے پراگندہ بالوں والا غبار آلود چہرے والا ہوتا ہے لیکن کھانا پہنناحرام کا ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر اے رب اے رب کہتا ہے لیکن ناممکن ہے کہ اس کی دعا قبول فرمائی جائے ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ پھر فرمایا اے پیغمبرو تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے ایک ہی ملت ہے یعنی اللہ واحد لاشریک لہ کی عبادت کی طرف دعوت دینا ۔ اسی لئے اسی کے بعد فرمایا کہ میں تمہارا رب ہوں ۔ پس مجھ سے ڈرو ۔ سورۃ انبیاء میں اس کی تفسیر وتشریح ہوچکی ہے آیت ( امتہ واحدۃ ) پر نصب حال ہونے کی وجہ ہے ۔ جن امتوں کی طرف حضرت انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے تھے انہوں نے اللہ کے دین کے ٹکڑے کردئے اور جس گمراہی پر اڑگئے اسی پر نازاں وفرحاں ہوگئے اس لئے کہ اپنے نزدیک اسی کو ہدایت سمجھ بیٹھے ۔ پس بطور ڈانٹ کے فرمایا انہیں ان کے بہکنے بھٹکنے میں ہی چھوڑ دیجئے یہاں تک کہ ان کی تباہی کا وقت آجائے ۔ کھانے پینے دیجئے ، مست وبے خود ہونے دیجئے ، ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا ۔ کیا یہ مغرور یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو مال واولاد انہیں دے رہے ہیں وہ ان کی بھلائی اور نیکی کی وجہ سے ان کے ساتھ سلوک کررہے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ یہ تو انہیں دھوکا لگا ہے یہ اس سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جیسے یہاں خوش حال ہیں وہاں بھی بےسزا رہ جائیں گے یہ محض غلط ہے جو کچھ انہیں دنیا میں ہم دے رہے ہیں وہ تو صرف ذرا سی دیر کی مہلت ہے لیکن یہ بےشعور ہیں ۔ یہ لوگ اصل تک پہنچے ہی نہیں ۔ جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ 55؀ ) 9- التوبہ:55 ) تجھے ان کے مال واولاد دھوکے میں نہ ڈالیں اللہ کا ارادہ تو یہ ہے کہ اس سے انہیں دنیا میں عذاب کرے ۔ اور آیت میں ہے یہ ڈھیل صرف اس لئے دی گئی ہے کہ وہ اپنے گناہوں میں اور بڑھ جائیں ۔ اور جگہ ہے ۔ مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح بتدریج پکڑیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہو ۔ اور آیتوں میں فرمایا ہے آیت ( ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا 11۝ۙ ) 74- المدثر:11 ) ، یعنی مجھے اور اسے چھوڑ دے جس کو میں نے تنہا پیدا کیا ہے اور بہ کثرت مال دیا ہے اور ہمہ وقت موجود فرزند دئیے ہیں اور سب طرح کا سامان اس لئے مہیا کردیا ہے پھر اسے ہوس ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں ، ہرگز نہیں وہ ہماری باتوں کا مخالف ہے اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓي اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ۡ فَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِي الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ 37؀ ) 34- سبأ:37 ) تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہیں مجھ سے قربت نہیں دے سکتیں مجھ سے قریب تو وہ ہے جو ایماندار اور نیک عمل ہو ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہی اللہ کا شکر ہے پس تم انسانوں کو مال اور اولاد سے نہ پرکھو بلکہ انسان کی کسوٹی ایمان اور نیک عمل ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے اخلاق بھی تم میں اسی طرح تقسیم کئے ہیں جس طرح روزیاں تقسیم فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت رکھے اور اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت نہ رکھے ہاں دین صرف اسی کو دیتا ہے جس سے پوری محبت رکھتا ہو پس جسے اللہ دین دے سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہوجائے اور بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےفکر نہ ہوجائیں ۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایذاؤں سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا دھوکے بازی ، ظلم وغیرہ ۔ سنو جو بندہ حرام مال حاصل کرلے اس کے خرچ میں برکت نہیں ہوتی اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ اس کا جہنم کا توشہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ہاں برائی کو بھلائی سے رفع کرتا ہے ۔ خبیث خبیث کو نہیں مٹاتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

511طِیِّبٰت سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں، بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں کیونکہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال کردی ہے اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔ خبائث کو اللہ نے اس لئے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔ حلال روزی کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسر کے معاون ہیں۔ اسی لئے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا۔ چناچہ تمام پیغمبر محنت کر کے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے، جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے ' کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے ' اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض چراتا رہا (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] خطاب کا یہ انداز اس لحاظ سے نہیں کہ سارے رسول کسی ایک جگہ اکٹھے کئے گئے تھے تو انھیں اس طرح مخاطب کیا گیا ہے۔ بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ چونکہ سارے رسولوں کی اصولی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ لہذا بطور اختصار یہاں خطاب کا مشترکہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔ نیز اس آیت میں اگرچہ خطاب رسولوں کو ہے تاہم اس کا حکم عام ہے۔ اور قرآن کریم نے بعض مقامات پر تو یٰاایُّھَا النَّاس کہہ کر حلال اور پاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے اور بعض مقامات پر اس حکم کے مخاطب ایمان لانے والے ہیں۔ [٥٤] پاکیزہ چیزوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا کھانا شریعت نے حلال قرار دیا ہو اور انھیں حلال ذرائع سے ہی حاصل کیا گیا ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مرغی بذات خود حلال چیز ہے مگر جب یہ چوری کی ہو تو حرام ہوجائے گی۔ اسی طرح سود یا دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ حرام مال تصور ہوگا۔ کسب حلال اور حرام سے اجتناب اس قدر اہم حکم ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال سے پہلے ذکر فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی کی کمائی حرام کی ہو تو اس کے نیک اعمال بھی قبول نہیں ہوتے۔ اس سلسلہ میں ہم سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٦٨ کے تحت آٹھ حدیثیں درج کرچکے ہیں جن کو دوبارہ دیکھ لینا مفید ہوگا۔ تاکہ اس اہم شرعی حکم کی اہمیت پوری طرح معلوم ہوجائے۔ [٥٥] یعنی اگر کسی نے کسب حلال میں حرام کی آمیزش کی ہو تو اسے میں خوب جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہارے اعمال میں اللہ کی رضا مندی اور خلوص کا حصہ کتنا تھا۔ یہ مطلب اس لحاظ سے ہوگا جب اس خطاب کا روئے سخن عام لوگوں یا ایمانداروں کی طرف سے سمجھا جائے کیونکہ انبیاء سے کسی قسم کی نافرمانی کا انکان نہیں اور اگر اس کا روئے سخن انبیاء کی طرف سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ تم نے حق تبلیغ کس حد تک ادا کیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ ۔۔ : ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو حکم دے رہے ہیں کہ حلال کھاؤ اور صالح اعمال کرتے رہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اکل حلال عمل صالح کے لیے مددگار ہے۔ “ (ابن کثیر) ظاہر ہے حلال حاصل کرنے کے لیے محنت بھی کرنا پڑے گی۔ چناچہ نبوت سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں اور تجارت بھی کی ہے اور آخر میں تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ ترین رزق مال غنیمت کے ساتھ غنی فرما دیا، چناچہ فرمایا : (فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا) [ الأنفال : ٦٩ ] ” سو اس میں سے کھاؤ جو تم نے غنیمت حاصل کی، اس حال میں کہ حلال، طیب ہے۔ “ مقدام (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ أَنْ یَّأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ وَ إِنَّ نَبِيَّ اللّٰہِ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ ) [ بخاري، البیوع، باب کسب الرجل و عملہ بیدہ : ٢٠٧٢ ] ” کسی شخص نے کوئی کھانا اس کھانے سے بہتر نہیں کھایا جو وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَانَ زَکَرِیَّا نَجَّارًا ) [ ابن ماجہ، التجارات، باب الصناعات : ٢١٥٠، عن أبي ہریرہ (رض) و صححہ الألباني ] ” زکریا (علیہ السلام) نجار (ترکھان) تھے۔ “ اس کی مزید تفصیل اور حرام کھانے والے کی دعا قبول نہ ہونے کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٧٢) ۔ اس آیت میں رہبانیت کا بھی رد ہے، جو اللہ کی نعمتیں اپنے آپ پر حرام کرلیتے ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرے کے بعد شاید اسی لیے اس حکم کا ذکر کیا ہے کہ رہبانیت کا حکم کسی بھی رسول کو نہ تھا۔ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ : اس میں حلال کھانے اور عمل صالح پر جزا کا وعدہ ہے اور اس کے خلاف پر سزا کی وعید ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا (0 messengers, eat from the good things and act, righteously - 23:51.) The word means pure and good things. Since things which are forbidden under the Islamic laws are neither pure nor desirable for people who are gifted with common sense, it follows that the word طَیِّبَات refers only to the things which are permitted under the Islamic Shari&ah and which are not only good in appearance, but also pure in their intrinsic nature. This verse also tells us that all the prophets were enjoined by Allah to do two things - eat food which is clean and permissible under Shari’ ah, and to do good deeds, and considering that these injunctions have been addressed to prophets who are impeccable in any case, it is necessary that their followers should strive hard to mould their lives according to these injunctions. This in fact is the real meaning of this verse. Scholars have expressed the view that the Juxtaposition of these two commands points to the fact that the consumption of lawful food has a very important bearing on human actions and when a person takes lawful food only, a divine guidance takes his actions along the path of righteousness. But if the food is unlawful, then serious obstacles will prevent the accomplishment of good deeds in spite of his best intentions. According to a hadtth, people travel long wearing miles and are covered with dust and they pray to Allah with hands upraised calling out |"0 Lord, 0 Lord!|" But since they eat forbidden things and their clothes are also made from forbidden material, there is little hope of their prayers being granted. (Qurtubi) Thus it is evident that a person hoping that his worship will get him the pleasure of Allah or that his prayers will be granted by Him must pay scrupulous attention to what he eats and must, at all times, avoid eating unlawful things.

خلاصہ تفسیر ہم نے جس طرح تم کو اپنی نعمتوں کے استعمال کی اجازت دی اور عبادت کا حکم دیا اسی طرح سب پیغمبروں کو اور ان کے واسطے سے ان کی امتوں کو بھی حکم دیا کہ) اے پیغمبرو ! تم (اور تمہاری امتیں) نفیس چیزیں کھاؤ (کہ خدا کی نعمت ہیں) اور (کھا کر شکر ادا کرو کہ) نیک کام کرو (یعنی عبادت اور) میں تم سب کے کئے ہوئے کاموں کو خوب جانتا ہوں (تو عبادت اور نیک کاموں پر ان کی جزا اور ثمرات عطا کروں گا) اور (ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ جو طریقہ تمہیں ابھی بتایا گیا ہے) یہ ہے تمہارا طریقہ (جس پر تم کو چلنا اور رہنا واجب ہے) کہ وہ ایک ہی طریقہ ہے (سب انبیاء اور ان کی امتوں کا کسی شریعت میں یہ طریقہ نہیں بدلا) اور (حاصل اس طریقہ کا یہ ہے کہ) میں تمہارا رب ہوں تم مجھ سے ڈرتے رہو (یعنی میرے احکام کی مخالفت نہ کرو کیونکہ رب ہونے کی حیثیت سے تمہارا خالق ومالک بھی ہوں اور منعم ہونے کی حیثیت سے تم کو بیشمار نعمتیں بھی دیتا ہوں، ان سب چیزوں کا تقاضا اطاعت و فرمانبرداری ہے) سو (اس کا نتیجہ تو یہ ہونا تھا کہ سب ایک ہی طریقہ مذکورہ پر رہتے مگر ایسا نہ کیا بلکہ) ان لوگوں نے اپنے دین اپنا طریق الگ الگ کر کے اختلاف پیدا کرلیا ہر گروہ کے پاس جو دین (یعنی اپنا بنایا ہوا طریقہ) ہے وہ اسی پر مگن اور خوش ہے (اس کے باطل ہونے کے باوجود اسی کو حق سمجھتا ہے) تو آپ ان کو ان کی جہالت میں ایک خاص وقت تک رہنے دیجئے (یعنی ان کی جہالت پر آپ غم نہ کیجئے جب مقرر وقت ان کی موت کا آ جاوے گا تو سب حقیقت کھل جاوے گی اور اب جو فوری طور پر ان پر عذاب نہیں آتا تو) کیا (اس سے) یہ لوگ یوں گمان کر رہے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال و اولاد دیتے ہیں تو ہم ان کو جلدی جلدی فائدے پہنچا رہے ہیں (یہ بات ہرگز نہیں) بلکہ یہ لوگ (اس ڈھیل دینے کی وجہ) نہیں جانتے (یعنی یہ ڈھیل تو ان کو بطور استدراج کے دی جا رہی ہے جو انجام کار ان کے لئے اور زیادہ عذاب کا سبب بنے گی کیونکہ ہماری مہلت اور ڈھیل دینے سے یہ اور مغرور ہو کر سرکشی اور گناہوں میں زیادتی کریں گے اور عذاب زیادہ ہوگا) ۔ معارف و مسائل يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا، لفظ طیبات کے لغوی معنی ہیں پاکیزہ نفیس چیزیں۔ اور چونکہ شریعت اسلام میں جو چیزیں حرام کردی گئی ہیں نہ وہ پاکیزہ ہیں نہ اہل عقل کے لئے نفیس و مرغوب۔ اس لئے طیبات سے مراد صرف حلال چیزیں ہیں جو ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے پاکیزہ و نفیس ہیں۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کو اپنے اپنے وقت میں دو ہدایات دی گئی ہیں ایک یہ کہ کھانا حلال اور پاکیزہ کھاؤ، دوسرے یہ کہ عمل نیک صالح کرو۔ اور جب انبیاء (علیہم السلام) کو یہ خطاب کیا گیا ہے جن کو اللہ نے معصوم بنایا ہے تو ان کی امت کے لوگوں کے لئے یہ حکم زیادہ قابل اہتمام ہے اور اصل مقصود بھی امتوں ہی کو اس حکم پر چلانا ہے۔ علماء نے فرمایا کہ ان دونوں حکموں کو ایک ساتھ لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے جب غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے اور غذا حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس میں مشکلات حائل ہوجاتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ بعض لوگ لمبے لمبے سفر کرتے ہیں اور غبار آلود رہتے ہیں پھر اللہ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یا رب یا رب پکارتے ہیں مگر ان کا کھانا بھی حرام ہوتا ہے پینا بھی، لباس بھی حرام ہی تیار ہوتا ہے اور حرام ہی کی ان کو غذا ملتی ہے ایسے لوگوں کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔ (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ عبادت اور دعا کے قبول ہونے میں حلال کھانے کو بڑا دخل ہے جب غذا حلال نہ ہو تو عبادت اور دعا کی مقبولیت کا بھی استحقاق نہیں رہتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۝ ٠ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝ ٥ ١ۭ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حلال چیزیں کھاؤ اور خوب نیک کام کرو، آپ اور آپ کی امت جو نیک کام کرتی ہے میں اس کے ثواب سے خوب واقف ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45. In the preceding passage (verses 23-50), the stories of some Prophets have been related as individuals, but in this verse all of them have been addressed together. However, it does not mean that they were present at one and the same place at the time of address. As a matter of fact, this way of address has been adopted to show that the message of all the Messengers, who came to different countries in different ages, was the same and they all belonged to one and the same community, (verse 52). Therefore the message to one Messenger was meant to be the message for each one of them. In this verse, they have been addressed together as if they were present at one and the same place in order to emphasize this same aspect of the matter. But it is an irony that some people of this age have concluded that this verse has been addressed to those messengers who were to come after Prophet Muhammad (peace be upon him). It is obvious that this interpretation cannot fit in the context in which the verse occurs. 46. “Pure things” implies that they should be wholesome and must have been earned in lawful ways. Here the instruction, “eat of the pure things”, is meant to refute the theory and practice of asceticism. The Quran teaches the middle way between the life of asceticism and that of licence. The fact that the instruction, “eat of the pure things”, precedes “do righteous deeds”, is meant to impress that righteous deeds are meaningless without eating lawful provisions. The Prophet (peace be upon him) impressed this very thing by saying: O people, Allah is pure and loves pure things. Then he recited this (verse 51) and said: A person makes a long pilgrimage in a disheveled condition and prays with raised hands, O my Lord, O my Lord, whereas he eats unlawful food, wears unlawful clothes and has been brought up on unlawful provisions. How can such a one expect that Allah will grant his prayer? (Related by Abu Hurairah).

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :45 پچھلے دو رکوعوں میں انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یٰٓاَیُّھَا الُّرُسُل کہہ کر تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یکجا موجود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا ۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کو ایک امت ، ایک جماعت ایک گروہ قرار دیا گیا ہے ، اس لیے طرز بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھنچ جائے ۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دی جا رہی ہے ۔ مگر اس طرز کلام کی لطافت اس دور کے بعض کند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکی اور وہ اس سے یہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی سلسلہ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ تعجب ہے جو لوگ زبان و ادب کے ذوق لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرأت کرتے ہیں ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :46 پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں ، اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں ۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہ اعتدال کی طرف اشارہ کر دیا گیا ۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے ، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے ۔ عمل صالح سے پہلے طیبات کھانے کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عمل صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ صلاح کے لیے شرط اول یہ ہے کہ آدمی رزق حلال کھائے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو ، اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا الرجل یطیل السفر اشعث اغبر و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمد یدیہ الی السماء یا رب یا رب فانی یستجاب لذالک ۔ ایک شخص لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ حال آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے ، یا رب یا رب ، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام ، کپڑے اس کے حرام ، اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا ۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو ۔ ( مسلم ، ترمذی ، احمد من حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥١۔ ٥٦:۔ جس طرح اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو غذائے حلال کی تلاش کا حکم فرمایا ہے ‘ اسی طرح سورة بقرہ میں عام پابند شرع لوگوں کو یہی حکم فرمایا ہے ‘ مسند امام احمد ‘ صحیح مسلم اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ١ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ بعضے لوگ رات دن گڑ گڑا کر طرح طرح کی دعائیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کرتے ہیں اور جب ان کی دعا قبول نہیں ہوتی تو ان کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں لیکن جب تک وہ غذائے حلال کے پابند نہ ہوں گے ان کی دعا میں کچھ تاثیر پیدا نہ ہوگی ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ غذائے حلال سے رسولوں کے کلام میں تو یہ تاثیر پیدا ہوگی کہ وہ امت کے لوگوں کو جو کچھ نصیحت کریں گے اس میں اثر پیدا ہوجائے گا اور عام پابند شریعت لوگوں کے کلام میں غذائے حلال سے یہ تاثیر پیدا ہوگی کہ دعا یا عبادت کے طور پر جو کچھ ان کے منہ سے نکلے گا وہ بارگاہ الٰہی میں قبول ہونے کے قابل ٹھہرے گا ‘ آگے فرمایا غذائے حلال کے کھانے کے بعد خالص دل سے جو کوئی نیک عمل کرے گا تو اس کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ نیک عمل کا دس گنے سے لے کر سات سو تک اور بعضی نیکیوں کا اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق اجر جو ملے گا اس کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے ‘ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ علمائے یہود اپنے آپ کو تورات کا وارث گنتے تھے اور اعمال ان کے ایسے تھے کہ جو عالم ان میں سے قاضی ہوجاتا تھا تو وہ لوگوں سے رشوت لے کر تورات کے برخلاف مقدمے فیصل کیا کرتا تھا ‘ توراۃ کے ذکر کے بعد اسی واسطے غذائے حلال کا حکم ایسے لوگوں کو یاد دلایا تاکہ توراۃ ‘ انجیل اور قرآن کے عالم لوگوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہوجاوے کہ جو شخص کتاب آسمانی کے موافق ہر نبی کے زمانہ میں بدلتے رہے ہیں ‘ دین عبادت کے طریقہ کو کہتے ہیں اور حرام حلال کے احکام کو شریعت کہتے ہیں ‘ حاصل مطلب یہ ہے کہ اکیلے اللہ کی عبادت کا طریقہ ہر ایک نبی کے زمانہ میں جاری رہا ہے ‘ زیادہ تفصیل اس کی سورة الشورٰی میں آئے گی ‘ سورة الشورٰی کی آیتوں اور ابوہریرہ (رض) کی روایت کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے آیت وَاِنَّ ھٰذِہٖ اُمَتُکُمْ اُمَّۃًّ وَّاحِدَۃً وَاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنَ کا یہ مطلب ہوا کہ اللہ کی عبادت کا جو طریقہ ہر ایک نبی کے زمانہ میں اللہ کے حکم سے جاری رہا ہے ہر شخص کو اس کے موافق اللہ تعالیٰ کی عبادت کا کرنا اور جو کوئی اس کے برخلاف کرے اس کو عذاب الٰہی سے ڈرنا ضرور ہے آگے فرمایا اللہ تعالیٰ کا حکم اگرچہ یہ ہے کہ شخص کو اس طریقہ کے موافق اللہ کی عبادت کرنی چاہیے جو طریقہ ہر ایک بنی کے زمانہ میں جاری رہا ہے لیکن اہل مکہ نے ملت ابراہیمی کو اور اہل کتاب نے اپنی کتابوں کو چھوڑ کر نئے طریقہ نکال لیے ہیں اور ان میں سے ہر ایک فرقہ اپنے ایجاری طریقہ کو اچھا جانتا ہے ‘ اے رسول اللہ کے تم ان فرقوں کو حساب و کتاب ان کے حال پر چھوڑ دو ‘ وقت مقررہ آجائے تو جزاو سزا کا پورا فیصلہ ہوجائے گا ‘ پھر فرمایا ‘ ان لوگوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ان کے مال و اولاد کی ترقی اس سبب سے ہے کہ اللہ ان سے رضامند ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ مالدار اور اولاد والی پچھلی امتوں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہرگز ہلاک نہ کرتا۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الکسب وطلب الحلال ص ٢٤١ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:51) یایھا الرسل۔ اے (میرے ) پیغمبر و۔ اے (میرے ) رسولو۔ یہ خطاب کس سے ہے۔ اس میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) یہ خطاب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ہے۔ کیونکہ آیت متصلہ (نمبر 50) میں ان کا ذکر ہے۔ (2) یہ خطاب نبی کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ اور جمع کا صیغہ تعظیماً لایا گیا ہے۔ (3) یہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آنے والے نبیوں سے ہے۔ (4) یہ خطاب تمام انبیاء کی طرف ہے۔ اس ضمن میں علامہ مودودی کا وضاحتی نوٹ ملاحظہ ہو :۔ پچھلے دورکوعوں میں متعدد انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یایھا الرسل کہہ کر تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سارے پیغمبر یکجا موجود تھے۔ اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا ۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کو یہی تعلیم و ہدایت کی گئی تھی اور سب کے سب اختلاف زمانہ ومقام کے باوجود ایک ہی حکم کے مخاطب تھے۔ بعد کی آیت میں چونکہ تمام انبیاء کو ایک امت ایک جماعت ایک گروہ قرار دیا گیا اس لئے طرز بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھینچ جائے گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دی جارہی ہے ۔ مگر اس طرز کلام کی لطافت اس دور کے بعض کند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آسکی اور وہ اس سے یہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب حضرت نبی کریم محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی سلسلہ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے تعجب ہے کہ جو لوگ زبان وادب کے ذوق لطیف سے اس قدر کو رہے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرات کرتے ہیں ۔ یعنی مرزائی قادیانی گروہ اس آیت سے غلط استدلال کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جو حکم رسولوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا ہے وہی حکم اہل ایمان کو دیا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کر کے فرمایا : ایک شخص دور دراز کا سفر طے کر رہا ہے اور اس کے ہاں اور کپڑے گرد سے اٹے ہوئے ہیں مگر اس کا کھانا حرام کا ہے، پینا حرام کا ہے، لباس حرام کا ہے۔ وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کرتا ہے : اے میرے رب ! اے میرے رب، مگر اس کی دعا قبول کیونکر ہو ؟ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٤) اسرارومعارف اور تمام رسولوں کو اللہ جل جلالہ نے ایک طریق حیات عطا فرما کر حکم دیا کہ پاکیزہ اور نفیس چیزیں کھاؤ اور اللہ جل جلالہ کے بتائے ہوئے قواعد پر عمل کرو کہ می تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہوں یہ قوم جس کی طرف تم مبعوث ہوئے ہو تمہاری جماعت ہے جو ایک ہے اور متفق ومتحد ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں لہذا میری عظمت کو ہر حال میں پیش نظر رکھو۔ (غذا اور عمل) یہاں انبیاء کرام (علیہ السلام) ورسل کو ارشاد فرما کر تمام قوموں کو ایک اصولی ضابطہ بتایا گیا ہے کہ حلال اور پاکیزہ غذا سے توفیق عمل نصیب ہوتی ہے اور اگر غذا ہی حلال نہ ہو تو نیک عمل کی توفیق بھی نہیں ہوتی ، اگر کر بھی لے تو قبول نہیں ہوتا ، صاحب نظر لوگوں کا ارشاد ہے کہ اسی فیصد تعمیر غذا سے پندرہ فیصد ماحول سے اور پانچ فیصد تربیت سے ہوتی ہے اور غذا کے حلال ہونے کی بنیادی شرط اس کا طریق حصول ہے کہ معروف ذرائع سے حاصل کی جائے اور پھر شریعت کے حکم کے مطابق استعمال میں لائی جائے ۔ نیز تمام ادیان میں ایک متفقہ لائحہ عمل دیا گیا جس کے اصول ہمیشہ ایک تھے ہاں فروعات کا مدار فہم انسانی پر ہے لہذا مجتہدین کا فروعی اختلاف محض کہنے کو اختلاف ہوتا ہے حقیقی اختلاف وہ ہے جو اصولوں کو تقسیم کر دے یا نقصان پہنچائے جیسے توحید و رسالت یا کتاب وآخرت کے بارے عقیدوں میں اختلاف اور ایسے اختلافات ہر امت میں دین کو نقصان پہنچانے والوں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے طلب گاروں نے پیدا کیے اور دین وملت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور جو کچھ جس کے ہاتھ لگا اسی پر خوش ہوگیا کہ کچھ پیروکار تو مل گئے اور عیش کرنے کا موقع ملا ساتھ میں دین پر چلنے کی شہرت بھی مگر ایسے لوگوں کا انجام بڑا خراب ہوتا ہے کہ دین حق ہی باقی رہتا ہے باطل اپنے ماننے والوں سمیت تباہ ہوجاتا ہے اگرچہ وقتی طور پر انہیں کچھ دنیاوی فائدے بھی حاصل ہوں تو انہیں اس وقت تک ان کے حال میں مست رہنے دیجئے اور اسی غلط فہمی کا اسیر رہنے دیں کہ انہیں مال و دولت اور اولاد وپیروکار مل رہے ہیں ، شاید ان پر بڑا انعام ہو رہا ہے اور اللہ جل جلالہ ان سے بہت خوش ہے ہرگز نہیں یہ تو شعور ہی سے عاری ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی خوشنودی سے اللہ جل جلالہ کا قرب اور اطاعت نصیب ہوتی ہے ، مال و دولت تو کافر کے پاس بھی ہوتا ہے مگر ایسے لوگ جن پر اللہ کریم راضی ہوتے ہیں اور جنہیں اس کا قرب نصیب ہوتا ہے وہ تو اس کی محبت کے اس قدر اسیر ہوجاتے ہیں معمولی ناراضگی کے خوف سے بھی لرز جاتے ہیں ۔ rnّ (اللہ جل جلالہ کی رضا مندی اور قرب الہی کی نشانی) اور اس کی نازل کردہ باتوں پر دل کی گہرائیوں سے یقین حاصل کرلیتے ہیں اور کبھی سوال نہیں پیدا ہوتا کہ اس کی صفات میں کسی کو اس جیسا سمجھیں اور اس کے علاوہ کسی سے امید وابستہ کریں اور اللہ نے انہیں جو دیا ہے وہ اسی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، مال ، اولاد ، جان اقتدار عقل وخرد غرض ہر نعمت کو اللہ جل جلالہ ہی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ان کے قلوب تک لرزاں وترساں رہتے ہیں کہ میرے اعمال حقیر اور بےحیثیت اس کی ذات بہت عظیم اور بلند بھلا میں کیسے اس کی بارگاہ میں حاضری دے سکوں گا جبکہ مجھے ہر حال واپس اسی کے حضور جانا ہے اور وہ نیکی کی طرف لپکتے ہیں اور انہیں کوئی خدشہ اور وسوسہ نیک کام کرنے ہیں متامل نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے پہلے پہنچتے ہیں اور ہاں یہ بھی سن لیجئے کہ جو کام بندے کے بس کا نہ ہو ہم اسے وہ کرنے کا حکم ہی نہیں دیتے نہ اس کے بارے میں اس سے باز پرس ہوگی اور نامہ اعمال تو ہمارے پاس ہے جو بندے کی استعداد کار بھی اور عمل بھی سامنے رکھ دے گا ، سچ سچ اور کھرا کھرا لہذا کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہرگز نہ ہوگی ۔ (قلب کی مدہوشی) اور منکرین کے دل ہی مدہوش ہوگئے اور جب کیفیات قلبی سے محروم ہوئے تو الٹے کاموں میں پڑگئے ، یہاں تک کہ برائی اور غلط کاری ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخر ایک روز یہ سب بڑے بڑے بھی پکڑے جائیں گے اور جب اللہ جل جلالہ کا عذاب انہیں اپنی گرفت میں لے گا تب چلائیں گے تو ارشاد ہوگا کہ مت چلاؤ اب تمہیں عذاب الہی سے کوئی نہیں چھڑا سکتا کہ جب تم کو اللہ جل جلالہ کے احکام اور اس کے ارشادات سنائے جاتے تھے تو تم الٹے بھاگتے تھے اور اکڑتے تھے کہ ہم اس کی پرواہ نہیں رکھتے اور یہ محض قصے کہانیاں ہیں نیز بیہودہ بکواس اور یا وہ گوئی اختیار کرتے تھے ، ۔ (توہین آمیز کلمات ہمیشہ کی محرومی کا باعث) یہ حال مشرکین مکہ نے دنیا میں بدر ہی میں دیکھ لیا اور برزخ میں بھی بھگت رہے ہیں اور قیامت کو بھگتیں گے یہاں قابل غور بات یہ ہے اہل مکہ بلکہ بدر میں مخالف لڑنے والوں میں بھی ایسے خوش نصیب تھے جنہیں بعد میں اسلام نصیب ہوا اور شرف صحابیت سے نوازے گئے مگر یہ وہ لوگ تھے جو اگرچہ ایمان نہ لائے تھے مگر بدکلامی نہ کرتے تھے جن لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں بدکلامی کی انہیں کبھی توبہ نصیب نہ ہوئی اور یہی بدکلامی انہیں عذاب الہی میں پھنسانے کا سبب بن گئی لہذا اہل اللہ سے اگر اتفاق نہ بھی ہو تو انہیں برا بھلا نہ کہا جائے گا اور بات شرافت سے اور ایک حد میں رہتے ہوئے کی جائے ورنہ ہمیشہ کی محرومی کا ڈر ہوتا ہے ۔ کیا ان بدبختوں نے دعوت پر غور ہی نہیں کیا کہ اس میں کس قدر دلائل عقلیہ بھی اور نقلیہ بھی موجود تھے یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کوئی ایسا انوکھا واقعہ تھا جس سے واقف نہ ہوں اور انہیں یہ پتہ نہ ہو کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے جاتے رہے ہیں یعنی یہ خوب جانتے ہیں یا ان کا خیال ہے کہ معاذ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذہنی حالت صحیح نہیں تو کیا ایسے لوگوں کی باتیں اتنی قیمتی اور بےمثال ہوتی ہیں بھلا ، بلکہ آپ تو ان کے پاس حق لائے ہیں ، ہاں ان کے مزاج اتنے بگڑ چکے ہیں کہ حق کو قبول ہی نہیں کر پاتے ورنہ کیا یہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جانتے نہیں کیا یہ ان کے حسب ونسب اور حیات عالی سے بیخبر ہیں ۔ یہ خوب جانتے ہیں مگر ماننے میں ان کے دل کی تباہ شدہ حالت دیوار بنی ہوئی ہے اور مانیں گے کیا یہ تو چاہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین ان کی خواہشات کو مانیں انہیں یہ بھی شعور نہیں کہ اگر اللہ جل جلالہ بھی ان کے مشورے ماننے لگے تو نظام کو چلا رہا ہے انہیں تو چاہیے تھا کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے بھیجے جانے والی نعمت کی قدر کرتے اور اسے دل وجان سے قبول کرتے مگر یہ بدنصیب تو اس کا نام تک لینے سے بیزار ہیں کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بدلہ میں مال و دولت مانگ رہے ہیں یا دین پر انہیں کچھ خرچ کرنا پڑ رہا ہے ، ہرگز نہیں مال و دولت تو پروردگار ہی کا بہتر ہے جو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ۔ (تبلیغ دین اور چندے) یہاں ثابت ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کبھی دین کو چندوں پہ نہیں پھیلاتے بلکہ حصول رزق کی امید اپنے رب سے وابستہ رکھتے ہیں اور جائز و حلال ذرائع سے رزق حاصل کرتے ہیں لہذا علماء حق کو بھی معروف ذرائع اختیار کرکے رزق پیدا کرنا چاہیے نہ کہ محض چندوں پہ عمر بسر کردی جائے ۔ آپ تو نہایت پیارا اور خوبصورتی سے بہت ہی سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہیں اور جن کی سمجھ میں بات نہیں آتی وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں خود انہی کی عقل الٹ ہوگئی ہے اور وہ راہ حق سے دور ہوگئے ہیں جب کبھی مصیبت میں پھنستے ہیں اور اللہ جل جلالہ ان پر رحم کردے ۔ انہیں دنیا کی مصیبت سے نجات دے تو پھر اپنی شرارت ہی میں لگ جاتے ہیں بلکہ برائی ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے اہل مکہ کو بدر میں سزا ملی پھر ان پر قحط مسلط ہوگیا تو خدمت عالی میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے قحط رفع ہوئے تو پھر جنگ کی تیاری میں لگ گئے مگر کب تک آخر بہت سخت عذاب میں پکڑے جائیں گے جو اس قدر شدید ہوگا کہ انہیں منت سماجت کرنے اور گڑگڑانے کا ہوش میں نہ رہے گا گویا آسمان سے بلاؤں کا دروازہ کھل جائے گا جو انہیں ہر طرح اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور یہ تباہ وبرباد ہوجائیں گے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 51 تا 61 : الرسول (رسول) (پیغمبر) ‘ الطیبات (طیبۃ) پاکیزہ۔ ستھری چیزیں ‘ امۃ (امت۔ جماعت) ‘ تقطعوا (تم کاٹتے ہو) ‘ زبر (زبرۃ) کسی چیز کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا ‘(حزب) جماعت۔ فرقہ ‘(فرحون) خوش ہونے والے ‘(غمرۃ) گہرا پانی۔ غفلت ‘(نمد) ہم دیتے ہیں ‘(نسارع) ہم دوڑتے ہیں۔ ہم جلدی کرتے ہیں ‘(مشفقون) لڑنے والے۔ اندیشہ رکھنے والے ‘(وجلۃ) ڈرانے والے ‘(سابقون) سب سے آگے پہنچنے والے۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 61 : خاتم الا نبی اء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر جس نظام زندگی کی تکمیل فرمائی گئی ہے اس کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ وہ نظام زندگی صرف وہی راستے نہیں بتاتا جس سے انسان کی آخرت کی زندگی سدھر جائے بلکہ آخرت کے ساتھ ساتھ اس کی دنیاوی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اس کی بھر پور رہنمائی کرتا ہے۔ خاص طور پر وہ چیزیں جن سے مومن کے جسم ‘ روحانیت اور قلبی کیفیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے ان سے بچنے کی ہر ممکن تدبیریں بتاتا ہے تاکہ مومن کے جسم کی حفاظت کے ساتھ اس کی روح کی تابانی میں بھی کوئی فرق نہ آسکے۔ دین اسلام ہمیں ہر قدم پر رزق حلال کی برکتوں اور رزق حلال کی تلاش میں ہر طرح کی مشکلات کو برداشت کرنا سب سے بڑی عبادت اور اعلی ترین نیکی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) جو معصوم ہوتے ہیں اور ہمیشہ حلال غذائیں ہی کھاتے اور عمل صالح کا پیکر ہوا کرتے ہیں ان سے فرمایا جارہا ہے۔ اے رسول ! تم حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائو اور عمل صالح کرو اس آیت میں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو پاکیزہ چیزوں کے کھانے اور عمل صالح کا حکم دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے واسطے سے ان کی امتوں کے ہر فرد کو اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ اگر وہ عمل صالح اختیار کرنے اور نیکیوں سے بھر پور زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ چیزیں کھا کر اپنے جسم اور روح کی حفاظت کریں۔ انسان جو بھی لقمہ حلق سے نیچے اتارتا ہے اس کے اثرات ہمارے جسم اور معاشرہ پر پڑتے ہیں ظاہری اور باطنی اثرات اگر بہتر ہیں تو وہ معاشرہ کو بہتر بناتے ہیں اور اگر خراب ہیں تو وہ انسانی اخلاق کو بری طرح تباہ کردیتے ہیں۔ اگر غذا ناجائز ‘ حرام اور گندی ہے تو اس کے باطنی اثرات تو یہ ہیں کہ انسان کے سارے اعمال واخلاق غلط رخ اختیار کرلیتے ہیں ‘ دعائیں قبول نہیں ہوتیں ‘ گھروں سے مال و دولت سے برکتیں اٹھ جاتی ہیں ‘ حسن عمل اور توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ اس کے ظاہری اثرات یہ ہوتے ہیں کہ اس معاشرہ میں ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں اور باہمی اختلافات سے دلی سکون اور آپس کا اعتماد اٹھ جاتا ہے جو اس معاشرہ کا کڑا امتحان اور شدید آزمائش ہوا کرتی ہے۔ مذہبی اعتبار سی اس معاشرہ کے لوگ ایک اللہ کی عبادت و بندگی کے بجائے چاند ‘ سورج ‘ ستاروں ‘ درختوں اور پتھر ‘ لکڑی اور مٹی کے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا معبود سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کو اپنا مشکل کشا مان کر ان سے اپنی مرادیں اور منتیں مانگتے ہیں۔ غرضیکہ روحانی اور جسمانی گراوٹ کی وہ انتہا آجاتی ہے جہاں کفر و شرک فسق و فجور اور تفرقہ بازی اختیار کرنے والے پور معاشرہ کو اپنی خود غرضیوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آزمائش کے لئے ان (بدکاروں پرض خوش حالی اور مال و دولت کی کثرت کے دروازے کھول دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ ان پر اترانے اور غرور وتکبر کرنے لگتے ہیں تو ان کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ جب تک ان کو مہلت دی جاتی ہے تو وہ مال و دولت کی کثرت اور خوش حالی کو اپنا کمال سمجھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ ہم سے خوش ہے کیونکہ اگر وہ ہم سے ناراض ہوتا تو ہمیں خوش حالی اور اہل ایمان کو بد حالی میں مبتلا کیوں کرتا۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وہ اس و بھول گئے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر نعمتوں کے دروازے کھول دیئے ‘ یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر جوان کی دی گئی تھیں اترانے لگتے ہیں تو ہم ان کو اچانک پکڑ لیتے ہیں۔ جس سے وہ حیران وپریشان رہ جاتے ہیں۔ (سورۃ الا نعام) خلاصہ یہ ہے کہ حرام و ناجائز غداؤں اور بد عملی سے انسان کو روحانی اور جسمانی شدید نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔ اس کے بر خلاف پاکیزہ ‘ نفیس ‘ صاف ستھری حلال غذاؤں اور حسن عمل کی برکت سے بیشمار روحانی اور جسمانی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ رزق حلال کی برکتوں سے انسان کو بھلے کام کرنے کی توفیق عطا کی جاتی ہے۔ اس کے جان ومال میں سات گنا برکت ہوتی ہے۔ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ باہمی محبت و اخلاص میں ترقی ہوتی ہے۔ گھروں سے معاشرہ سے اختلافات اور لڑائی جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں سب سے بڑھ کر آخرت کی کامیابی اور ابدی راحتیں ہیں جو جنت میں ان کو ہمیشہ کے لئے دی جائیں گی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو باقی رکھنا اور ترقی دینا چاہتا ہے تو اس قوم میں دو باتیں پیدا کردی جاتی ہیں (1) ہر کام میں اعتدال ‘ تو ازن اور میانہ روی (2) اور دوسرے عفت وعصمت (پاکیزگی اور آبرو کی حفاظت کا جذبہ ) پیدا ہوجاتا ہے اور جب اللہ کسی قوم سے رشتہ توڑ لینا چاہتا ہے تو اس کو رزق میں وسعیتیں ( مالی خوش حالی ‘ عیش و آرام) دے کر ان پر خیانت اور بےایمانی کے درواز کھول دیتا ہے اور جب وہ غرور وتکبر کرنے لگتے ہیں تو ان کو پکڑ لیا جاتا ہے ( اور عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں) ان تمام باتوں کو سورة المومنون کی ان آیتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ زیرمطالعہ ان آیات کی کچھ وضاحت ملاحظہ کرلیجئے۔ فرمایا اے رسولو ! تم پاک صاف حلال رزق میں سے کھائو اور عمل صالح اختیار کرو کیونکہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے اور وہ ہر بات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ فرمایا کہ یہ تمہاری امت ایک ہی امت تھی یعنی سب میں اتحاد و اتفاق تھا حالانکہ ان کا اور تمہارا رب صرف میں ہوں ‘ مجھ سے ہی ڈرنا چاہیے تھا لیکن بعض لوگوں نے اپنی اغراض اور ضد کی وجہ سے اس امت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔ اور اب وہ کسی ہدایت کی طلب اور تڑپ کے بجائے جو ان کے پاس ہے وہ اپنے ہی خیال میں مگن ہیں اور وہ ایسی غفلت کا شکار ہوچکے ہیں جس میں وہ عقل و فکر سے بہت دور جاچکے ہیں فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کو کچھ دن اسی غفلت اور مدہوشی میں پڑا رہنے دیجئے۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب انہیں اس کا برا انجام خود ہی معلوم ہوجائے گا۔ فرمایا کہ ان کی غفلت و نادانی کی انتہا یہ ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت سے جو بھی مال و دولت انہیں دیا ہوا ہے اسے وہ اپنا کار نامہ سمجھ کر یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ جو کچھ بھی ہمیں حاصل ہے وہ اللہ نے ہمیں ہمارے عقیدے کی درستگی کی وجہ سے دیا ہوا ہے اور ہم حق پر ہیں۔ فرمایا کہ ایسے نادانوں کو خود کو حق و صداقت پر سمجھنا انتہائی بےشعوری ‘ بد عقلی اور ناسمجھی کی بات ہے۔ البتہ وہ لوگ جو اپنے اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے خوف سے لرزتے رہے ہیں کہ نجانے ان کے اعمال اللہ کے ہاں قبول بھی ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے پروردگار پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو (عبادت و بندگی میں ) شریک نہیں کرتے۔ ان کو اس بات کا ہمیشہ دھیان رہتا ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کررہے ہیں وہ اللہ کا کرم ہے اور ان کے دل اس تصور سے کانپ اٹھتے ہیں کہ انہیں ایک دن اللہ کے سامنے پہنچ کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ فرمایا کہ ایسے لوگ ہی بھلائیوں اور نیکیوں میں بھاگ دوڑ کرتے اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتے اور کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ کامیاب و بامراد ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پس عبادات پر ثمرات عطا کروں گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت ہارون (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوا اور کچھ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا نام لیے بغیر ان کی امتوں کے کردار اور انجام کی طرف اشارات کیے گئے۔ ان سب کے لیے جو بنیادی احکام تھے ان کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ایک جماعت ہونے کی بناء پر ایک ہی تعلیم دی تھی جس کا خلاصہ تین احکام میں ذکر کیا ہے 1 حلال اور طیب کھاؤ۔ 2 نیک اعمال کرتے رہے۔ 3 سب کا ایک ہی رب ہے اسی سے ڈرتے رہو۔ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ یہاں اعمال کی قبولیت کے لیے تین شرائط ذکر کی گئی ہیں۔ پاک اور حلال رزق کا اہتمام کیا جائے جو شخص حلال اور طیب روزی کا خیال رکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ صالح اعمال کرنے کی توفیق بخشتا ہے۔ صالح اعمال اس وقت قبول ہوتے ہیں جب ایک رب پر ایمان لایا جائے اور اس سے ڈرتے ہوئے شرک و بدعت اور برے اعمال سے بچا جائے۔ (عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ” یَا اَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا “ [ پ ١٨۔ رکوع ٣] وَقَالَ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اِغْبَرَ یَمُدُّیَدَیْہِ اِلٰی السَّمَاءِ یَارَبِّ وَمَطَعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ ) [ رواہ مسلم : باب کسب الحلال والطیب وتربیتہا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ بیشک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو۔ “ اے ایمان والو ! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ “ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے پراگندہ بال ہے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے دعا کرتا ہے۔ یارب ! یارب ! جب کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام ‘ اس کا لباس حرام اور حرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی اس صورت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے ؟۔ “ آپ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ حرام خور انسان دعا کی قبولیت کا استحقاق کھو بیٹھتا ہے۔ مسائل ١۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو حلال اور طیب روزی کھانے کا حکم تھا۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو صالح اعمال کرنے کا حکم دیا گیا۔ ٣۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) ایک ہی جماعت اور ایک ہی دین کے داعی تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے اچھی واقف ہے۔ تفسیر بالقرآن ہرحال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ خاص مجھ ہی سے ڈر و۔ (البقرۃ : ٤١) ٢۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مندو۔ (الطلاق : ١٠) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مند و تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ : ١٠٠) ٤۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صاف گوئی اختیار کرو۔ (الاحزاب : ٧٠) ٥۔ اے لوگو اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا ہے۔ (النساء : ١) ٦۔ اے مومن بندو ! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ (الاحزاب : ٧٠) ٧۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو۔ (المائدۃ : ٥٧) ٨۔ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کروادو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات : ١٠) ٩۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ١٠۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے سامنے تم اکٹھے کیے جاؤ گے۔ (المائدۃ : ٩٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یا ایھا الرسل فا تقون (آیت نمبر ٥١ تا ٥٢) یہاں رسولوں کے خطاب میں رسولوں کے بشریت کو نمایاں کیا جاتا ہے کیونکہ رسولوں کی قوموں کو اعتراض اس پر تھا کہ رسول بشر کیوں ہیں ؟ کلو من الطیبت (٢٣ : ٥١) ” پاک چیزیں کھائو “۔ کیونکہ کھانا خاصہ بشریت ہے لیکن یہاں طیبات کی قید لگا کر بتایا کہ رسولوں کی بشریت ارقع ہوتی ہے اور وہ تمام انسانیت کو ارفع بناتے ہیں اور تمام انسانوں کو پاک کرے ہیں اور ان کو عالم بالا سے جوڑتے ہیں۔ پھر اس نداء میں کہا جاتا ہے کہ اچھے اعمال کرو یعنی اس زمین کی اصلاح کرو ، لہذا کام بھی بشریت ہی کا تقاضا ہے لیکن لوگ اچھے کام بھی کرتے ہیں اور برے کام بھی کرتے ہیں جبکہ رسول لوگوں کو اچھے کاموں پر آمادہ کرتے ہیں۔ رسول لوگوں کے اعمال کے لیے ضابطہ متعین کرتے ہیں ، اعمال کے مقاصدمتعین کرتے ہیں اور اپنے اعمال کے ذریعہ وہ عالم بالا سے مربوط ہوجاتے ہیں۔ رسولوں کا یہ کام نہیں کہ وہ بشریت سے پاک ہوجائیں بلکہ ان کا مقاصد یہ ہوتا ہے کہ وہ بشریت کو سر بلند کردیں۔ اس کے لیے بلند افق اور بلند مقاصد مقرر کردیں۔ اللہ کی یہی خواہش ہے کہ دنیا میں انسان صالح ، پاک اور برگزیدہ ہوں اور رسول ان کے قائد ہوں اور انسانوں کو بلندیوں تک پہنچائیں اور آخرت میں اللہ ہی ہے جو اپنے نہایت ہی باریک پیمانے سے ان کی قدرو قیمت مقرر کرے گا۔ انی بما تعلمون علیم (٢٣ : ٥١) ” تم جو کچھ بھی کرتے ہو ، میں اسے خوب جانتا ہوں “ ۔ یہاں زمانے کی دوریوں کو مٹادیا جاتا ہے اور مسافت کی دوریاں ختم ہوجاتی ہیں کیونکہ پیغام ایک ہے جسے یہ رسول لے کر آئے۔ ان کا مزاج ایک ہے اور وہ دوسرے لوگوں سے ممتاز ہیں اور تمام رسولوں کا رخ ایک ہی طرف ہے۔ وان فاتقون (٢٣ : ٥٢) ” اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں بس مجھ سے ہی ڈرو “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

طیبات کھانے کا حکم، متفرق ادیان بنا کر مختلف جماعتیں بنانے والوں کا تذکرہ، مال اور اولاد کا خیر ہونا ضروری نہیں یہ چھ آیات ہیں پہلی آیت میں فرمایا کہ ہم نے اپنے رسولوں کو حکم دیا کہ تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے بیشک اللہ پاک ہے اور وہ پاک ہی کو قبول فرماتا ہے (پھر فرمایا کہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو جو حکم دیا ہے وہی مومنین کو حکم فرمایا ہے رسولوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے ( ٰٓیاََیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنْ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا) (اے رسولو پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو) اور مومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ) (اے ایمان والو تمہیں جو پاکیزہ چیزیں دی ہیں ان میں سے کھاؤ) ۔ (الحدیث رواہ مسلم ج ١ صفحہ ٣٢٦) یہ حکم تین چیزوں پر مشتمل ہے کہ ایک یہ ہے کہ حرام اور خبیث چیزیں نہ کھائیں دوسرے یہ کہ جو پاکیزہ چیز نصیب ہو اسے کھا لیں تیسرے یہ کہ کھائیں بھی اور نیک عمل بھی کریں، پاکیزہ چیزیں کھانے سے جو صحت اور قوت حاصل ہو اسے اللہ کی فرماں برداری میں خرچ کریں، اس کے احکام پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے منتفع ہونا اور انہیں گناہوں میں لگانا یہ ناشکری ہے، سورة سبا میں فرمایا (کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا لَہٗ ) (کھاؤ اپنے رب کے رزق سے اور اس کا شکر ادا کرو) کوئی شخص بھی عمل کرے یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کو میرے سب اعمال کا علم ہے اعمال صالحہ باعث اجر ثواب اور برے اعمال آخرت میں مواخذہ کا سبب ہیں۔ دوسری اور تیسری آیت میں فرمایا کہ یہ جو دین ہم نے تمہیں دیا ہے یہی تمہارا طریقہ ہے اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کا یہی دین تھا اس دین کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو واحد، احد اور صمد مانو اور اس کی ربوبیت کا اقرار کرو یعنی اسے رب مانو اور اس سے ڈرو اور موت سے ڈرو۔ اور موت کے بعد جی اٹھنے پر بھی ایمان لاؤ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے بارے میں صحیح عقائد رکھنے کا حکم بھی آگیا اور قیامت پر ایمان لانے پر بھی اور فرائض و واجبات کے ادا کرنے اور گناہوں سے بچنے کا بھی، دین توحید کو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے ذریعہ بھیجا بہت سی اقوام نے اسے اختیار نہیں کیا اور اپنی طرف سے عقائد تجویز کرلیے اور اعمال بنا لیے، ان جماعتوں میں ہر ہر جماعت اپنے خود تراشیدہ دین پر ہے اور سب اپنے اپنے دین پر خوش ہیں اور مگن ہیں، جو لوگ دین سماوی کے مدعی ہیں ان کا بھی یہی حال ہے اور ان کے علاوہ جو دوسرے ادیان کے ماننے والے ہیں وہ بھی اسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، انہیں خود بھی اقرار ہے کہ ہم جس دین پر ہیں اس کے بارے میں ایسی کوئی سند حجت اور دلیل نہیں ہے جس سے یہ ثابت کرسکیں کہ اپنے اس دین پر چلنے سے آخرت میں نجات ہوگی اور یہ کہ جس دین پر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے، مدعیان اسلام میں بھی بہت سی ایسی جماعتیں ہیں جو اس دین پر نہیں ہیں جو سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے تھے ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو قرآن مجید کی تحریف کے قائل ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت ختم ہونے کے منکر ہیں اور سب اپنے اپنے خیال میں مست ہیں اپنے عقیدہ کے خلاف سوچنے کو تیار نہیں ہیں، جو قرآن کو اور قرآن کی تصریحات کو نہ مانیں بھلا وہ کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں ؟ لیکن ان لوگوں کو زبردستی اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے۔ (قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ) چوتھی آیت میں یہ فرمایا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے انہیں تبلیغ کردی ہے حق واضح کردیا بات سمجھا دی اب یہ آپ کی دعوت پر لبیک نہیں کہتے تو انہیں ایک خاص وقت تک ان کی جہالت پر چھوڑ دیجیے جب یہ لوگ مریں گے تو انہیں حقیقت حال معلوم ہوجائے گی۔ پانچوں اور چھٹی آیت میں یہ بتایا کہ یہ جو منکرین اور مکذبین آپ پر ایمان نہیں لاتے اور دنیاوی اعتبار سے ہم انہیں بڑھا رہے ہیں اور ترقی دے رہے ہیں اموال بھی بڑھ رہے ہیں اور بیٹوں کی بھی چہل پہل ہے کیا ان لوگوں کو یہ خیال ہے کہ ہم انہیں فائدے پہنچانے میں جلدی کر رہے ہیں ؟ ان کا یہ سمجھنا غلط ہے یہ تو ہماری طرف سے استدراج یعنی ڈھیل ہے یہ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں انہیں معلوم نہیں کہ ہم کفر کے ساتھ جو اموال اولاد میں ترقی دیتے ہیں یہ اس لیے ہوتی ہیں کہ لوگ ان چیزوں سے مغرور ہو کر اور زیادہ سر کشی اختیار کریں اور پھر بہت زیادہ عذاب میں مبتلا ہوں۔ فائدہ : (کُلُوْا مِنْ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا) میں اس طرف ارشاد ہے کہ حلال غذا کو عمل صالح میں بڑا دخل ہے، جب غذا حلال ہوتی ہے تو خود بخود اعمال صالحہ کی رغبت ہوتی ہے اور غذا حرام ہو تو اعمال صالحہ کی طرف طبیعت نہیں چلتی شیطان حرام کی طرف کھینچتا ہے اور گناہ کرواتا ہے عموماً اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ ” یَا اَیُّھَا الرُسُلُ الخ “ یہ توحید پر چھٹی نقلی دلیل ہے۔ ” یا ایھا الرسل “ سے پہلے ” قُلْنَا “ مقدر ہے یعنی ہم نے تمام رسولوں سے کہا پہلی پانچ نقلی دلیلیں نفی شرک فی التصرف پر قائم کی گئیں اور اس دلیل سے نفی شرک فعلی مقصود ہے تمام انبیاء ورسل (علیہم السلام) کو خطاب کر کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور انہیں استعمال کرو اور اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام نہ ٹھہراؤ نیز حلال چیزیں کھاؤ اور حرام و ناپاک مثلاً غیر اللہ کی نذر و نیاز سے اجتناب کرو۔ یعنی نہ غیر اللہ کے لیے تحریمات کرو اور نہ غیر اللہ کی نذریں نیازیں دو ۔ من الطیت یعنی غیر الرجس من الاوثان۔ قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ یا ایہا الرسل الخ کا خطاب بطور حکایت آنضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا گیا ہے یعنی ہر پیغمبر کو اس کے وقت میں ہم نے یہ حکم دیا تھا حکایۃ لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی وجہ الاجمال لما خوطب بہ کل رسول فی عصرہ (روح ج 18 ص 39) ۔ ھذا النداء والخطاب لیسا علی ظاھرھما لانھم ارسلوا متفرقین فی ازمنۃ مختلفۃ وانما المعنی الاعلام بان کل رسول فی زمانہ نودی بذالک ووصی بہ (مدارک ج 3 ص 93) ۔ ” وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا “ اور اللہ کی وحی اور اسکی شریعت کے مطابق عمل کرو اس میں کوتاہی نہ ہونے پائے اور میں تمہارے اعمال سے باخبر ہوں اور تمام اعمال صالحہ کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) اے پیغمبرو ! تم پاکیزہ اور نفیس چیزیں کھائو اور نیک اور بھلے کام کرو بلاشبہ تم جو کچھ کرتے ہو میں اس کو خوب جانتا ہوں یہ خطاب تمام رسولوں سے ہے۔ ہر رسول کے زمانے میں اس رسول کو ایسا فرمایا ہوگا یہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے چونکہ آپ تمام رسولوں کی صفات کا مجموعہ اور خلاصہ ہیں اس لئے آپ کو خطاب فرمانا ایسا ہی ہے جیسے تمام نبیوں کو خطاب کیا اس خطاب میں رسولوں کی امتیں بھی شامل ہیں اور عمدہ نفیس جو مرغوب الطبع ہوں اور حلال ہوں وہ سب کو کھانی مباح ہیں ان نعمتوں کو کھائو اور عبادت کرو یعنی میری نعمتوں کا شکر بجالائو تم جو کام کرتے ہو میں اس کو خوب جانتا ہوں یعنی تمہارے نیک کام مجھ سے پوشیدہ نہیں ہیں اور میں ہی ان کا صلہ تم کو دوں گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی سب رسولوں کے دین میں یہی حکم آیا ہے کہ حلال کھانا حلال راہ سے کماکر اور نیک کام کرنا نیک کام سب لوگ جانتے ہیں۔