Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 52

سورة المؤمنون

وَ اِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاتَّقُوۡنِ ﴿۵۲﴾

And indeed this, your religion, is one religion, and I am your Lord, so fear Me."

یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں ، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ... And verily, this your religion is one religion, means, `your religion, O Prophets, is one religion and one group, which is the call to worship Allah Alone with no partner or associate.' Allah said: ... وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ and I am your Lord, so have Taqwa. We have already discussed this in Surah Al-Anbiya'. The phrase أُمَّةً وَاحِدَةً (one nation) is descriptive.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

521اُ مَّۃ سے مراد دین ہے، اور ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایک اللہ کی عبادت ہی کی دعوت پیش کی ہے۔ لیکن لوگ دین توحید چھوڑ کر الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنے عقیدہ و عمل پر خوش ہے، چاہے وہ حق سے کتنا بھی دور ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] امت سے مراد ایسا گروہ ہے جو ہم عقیدہ و ہم خیال ہو۔ اور یہاں تمہاری امت سے مراد انبیاء و رسل کی جماعت بھی ہوسکتی ہے اور ان کے ساتھ ان پر ایمان لانے والے بھی۔ اور یہ پوری کی پوری جماعت متحد العقیدہ تھی۔ یعنی ان سب کی اصولی تعلیم اور اصولی عقائد ایک ہی جیسے رہے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ (١) اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ومالک ہے لہذا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کی ذات وصفات اور عبادات میں کسی دورے کو شریک نہ کیا جائے۔ (٢) یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ مرنے کے بعد ہر انسان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اسے اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ دنیا میں جو اعمال وہ کرتا رہا اس کے متعلق اس سے باز پرس ہوگی۔ پھر ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ لہذا تمہیں صرف مجھ سے ڈرنا چاہئے۔ (٣) کسب حرام سے مکمل طور پر اجتناب یعنی کسی صورت میں بھی دوسرے کے حقوق یا اموال پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے اور (٤) اور نیک اعمال بجا لائے جائیں یہ چار باتیں ایسی ہیں جو اصولی نوعیت کی ہیں اور ان کا حکم ہر نبی کو دیا جاتا رہا ہے اور انہی باتوں کا نام دین ہے۔ رہے جزئی احکام جن کا تعلق بالخصوص شق نمبر ٣ سے ہے تو اس میں انبیاء کی شریعتوں میں اختلاف بھی رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ۔۔ : اس آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٩٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَإِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً (And surely this is your creed, a single creed - 23:52). The word اُمَّہ is used to describe a group or the followers of a prophet. Sometimes it is also used in the sense of |"faith|", |"creed|" or |"way of life|", as in the verse وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ (We found our fathers upon a creed - 43:22). In the present verse the word ummah has been used in the latter sense.

وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ، لفظ امت، ایک جماعت اور کسی خاص پیغمبر کی قوم کے معنی میں معروف و مشہور ہے اور کبھی یہ لفظ طریقہ اور دین کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے قرآن کی ایک آیت (آیت) وجدنا ابآءنا علی امة، اس میں امت سے مراد ایک دین اور طریقہ ہے۔ یہی معنے اس جگہ بھی مراد ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ۝ ٥٢ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٢) یہ ہے تمہارا طریقہ اور وہ ایک ہی طریقہ ہے اور یہ ہے تمہارا پسندیدہ دین اور میں تمہارا رب حقیقی وحدہ لاشریک ہوں کہ اس عظیم نعمت کے ساتھ میں نے تمہیں کو سرفراز کیا، سو تم میری ہی اطاعت کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ) ” تمام پیغمبروں کا تعلق ایک ہی امت یا جماعت سے ہے۔ بعض روایات کے مطابق انبیاء ورسل ( علیہ السلام) کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ ان میں سے تین سو تیرہ رسول ( علیہ السلام) ہیں اور باقی انبیاء ( علیہ السلام) ۔ ان انبیاء ( علیہ السلام) ورسل ( علیہ السلام) میں سے بعض کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے جبکہ اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ سورة النساء ‘ آیت ١٦٤ میں اس بارے میں یوں وضاحت فرمائی گئی ہے : (وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ ط) ” اور (بھیجے) وہ رسول ( علیہ السلام) جن کا ہم اس سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تذکرہ کرچکے ہیں ‘ اور ایسے رسول بھی جن کے حالات ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیان نہیں کیے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47. The original Arabic word ummat (community) comprises those individuals who have some basic things common among them. All the Messengers of Allah belonged to one and the same community because they had the same creed and the same religion and the same message. See also (Surah Al-Baqarah, Ayats 130-133, 213); (Surah Aal-Imran, Ayats 19-20, 33-34, 64,79-85); (Surah An- Nisa, Ayats 150-152); (Surah Al-Aaraf, Ayats 59, 65, 73, 85); (Surah Yusuf, Ayats 37-40); (Surah Maryam, Ayats 49-59); and (Surah Al-Anbiya, Ayats 71-93) along with the relevant E.Ns.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :47 تمہاری امت ایک ہی امت ہے یعنی تم ایک ہی گروہ کے لوگ ہو ۔ امت کا لفظ اس مجموعہ افراد پر بولا جاتا ہے جو کسی اصل مشترک پر جمع ہو ۔ انبیاء چونکہ اختلاف زمانہ و مقام کے باوجود ایک عقیدے ، ایک دین اور ایک دعوت پر جمع تھے ، اس لیے فرمایا گیا کہ ان سب کی ایک ہی امت ہے ۔ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے کہ وہ اصل مشترک کیا تھی جس پر سب انبیاء جمع تھے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ ، آیات 130 تا 133 ۔ 213 ۔ آل عمران ، 19 ۔ 20 ۔ 23 ۔ 34 ۔ 64 ۔ 79 تا 85 ۔ النساء ، 1550 تا 152 ۔ الاعراف 59 ۔ 65 ۔ 73 ۔ 85 ۔ یوسف 37 تا 40 ۔ مریم ، 49 تا 59 ۔ الانبیاء 71 تا 93 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:52) امتکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہاری جماعت۔ تمہارا گروہ۔ امت کا لفظ اس مجموعہ افراد پر بولاجاتا ہے جو کسی اصل مشترک پر جمع ہو۔ انبیاء (علیہم السلام) چونکہ اختلاف زمانہ ومقام کے باوجود ایک عقیدے اور ایک دین اور ایک دعوت پر جمع تھے اس لئے فرمایا گیا کہ ان سب کی ایک امت ہے اور بعد کا فقرہ خود بتارہا ہے کہ وہ اصل مشترک کیا تھی جس پر سب انبیاء جمع تھے۔ (تفہیم القرآن) ۔ بعض کے نزدیک امت سے یہاں مراد دین یا مسلک ہے۔ امتکم۔ ای ملتکم وشریعتکم (روح المعانی) امتکم مضاف مضاف الیہ مل کر ان کی خبر ہے جب کہ ھذہ ان کا اسم ہے۔ امۃ واحدۃ موصوف وصفت دونوں مل کر امتکم سے حال ہے اور بدیں وجہ منصوب ہے۔ ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ جملہ مستانفہ ہے۔ فاتقون۔ ف عاطفہ مع ترتیب ہے اتقوا فعل امر جمع مذکر حاضر ن وقایہ اور ی متکلم کی محذوف ہے۔ سو تم مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔ فائدہ :۔ آیت 51 اور آیت 52 میں کلوا من الطیبت اور اعملوا صلحا اور فاتقون میں امر کے مخاطبین الرسل ہیں مگر ساتھ ساتھ یہ حکم ان کے پیروئوں کے لئے بھی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یایھا الناس ان اللہ تعالیٰ امر المؤمنین بما امر بہ المرسلین فقال (یایھا الرسل کلوا من الطیبت واعملوا صلحا) وقال یایھا الذین امنواکلوا من طیبت ما رزقنکم۔۔ الخ رواہ ابوہریرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ انبیاء کے درمیان زمان و مکان کا کتنا ہی اختلاف رہا ہو لیکن چونکہ وہ اصول (عقیدہ توحید) میں متفق تھے اور اسی کی طرف ان کو دعوت دی۔ اسی لئے ان سے خطاب کر کے فرمایا گیا کہ تم سب کا دین ایک ہی ہے۔ 8 ۔ ہر ایک نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لی ہے بعد میں ان کے ماننے والوں نے دین میں اختلاف کیوں اور کیسے کیا ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی کسی شریعت میں مختلف نہیں ہوا۔ 4۔ اور میرے احکام کی مخالفت مت کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ ” وَ اِنَّ ھٰذِہٖ الخ “ اس میں خطاب حسب سابق تمام رسولوں سے ہے یا خطاب عام ہے انبیاء (علیہم السلام) اور دوسرے سب لوگوں کو شامل ہے یا خاص امت محمدیہ سے خطاب ہے اس صورت میں یہ جملہ معترضہ ہوگا۔ والخطالب للرسل (علیہم السلام) علی نحو ما مر وقیل عام لھم ولغیرھم (روح ج 18 ص 40) ۔ ” اُمَّةٌ“ کے معنی ملت و شریعت کے ہیں۔ ای ملتکم و شریعتکم ایھا الرسل ” اُمَّةً وَّاحِدَةً “ ای ملۃ و شریعۃ متحدة (ابو السعود ج 6 ص 295) ۔ ” امة واحدۃ “ یہ ” اِنَّ ھٰذِهٖ اُمَّتُکُمْ “ کے مضمون سے حال ہے اور یہ گذشتہ تمام دلائل عقلیہ ونقلیہ سے متعلق ہے یعنی دلائل عقلیہ سے بھی ثابت ہوگیا اور انبیاء سابقین (علیہم السلام) کی دعوت (دلائل نقلیہ) سے بھی واضح ہوگیا کہ تمام انبیاء و رسل (علیہم السلام) کی ملت ایک تھی اور سب کی شریعتوں کے اصول متحد تھے اور وہ سارے کے سارے مسئلہ توحید پر متفق تھے۔ شرک اعتقادی اور شرک فعلی کی نفی سب کی دعوت میں شامل تھی اور ان سب کا متحدہ دعویٰ تھا کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں، اس کے سوا کوئی حاجت روا اور دور و نزدیک سے فریادیں سننے والا نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی نذر و منت کا مستحق ہے۔ ” وَاَنَا رَبُّکُمْ الخ “ یہ ” اِنَّ ھٰذِهٖ اُمَّتُکُمْ الخ “ پر معطوف ہے اور عطف تفسیری ہے یہ ملت واحدہ کی تفسیر ہے یعنی وہ ملت واحدہ یہ تھی کہ تم سب کا مالک اور کارساز میں ہوں اس لیے میرے عذاب سے ڈرو اور میرے سوا کسی کو کارساز نہ سمجھو اور نہ کسی کو حاجات و مشکلات میں مافوق الاسباب پکارو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(52) اور یقیناً یہ ہے تمہارا طریقہ کہ وہ ایک ہی دین اور ایک ہی طریقہ ہے اور میں تمہارا پروردگار و ہوں پس تم مجھ سے ڈرتے رہو یعنی رسولوں سے یہ بھی فرمایا کہ باعتبار اصول دین کے تم سب کا دین اور ملت اور طریقہ ایک ہی ہے تم سب کا مالک اور منعم حقیقی ایک میں ہی ہوں سو مجھ سے ڈرتے رہا کرو اور میرے احکام کی مخالفت اور میرے احکام کی تعمیل میں سستی نہ کرو۔