50. This question has been posed as a proof of the main theme of the Surah. It is meant to remove their misconception of success, welfare and prosperity, which the disbelievers had formed to delude themselves. According to them, the one, who enjoyed the good things of life and wielded power and influence in the society, had attained success. On the other hand, the he who was deprived of these things was a failure. This misconception had involved them in another serious misunderstanding. They thought that the one who had attained success was in the right, and the beloved of Allah. Otherwise, how could he have attained all the successes? On the contrary, the one who was apparently deprived of these things was surely wrong in his creed and erroneous in his deeds, and was under the wrath of God (or gods). As this misconception is one of the greatest deviations of the materialists, the Quran has stated it and refuted it in different ways at different places and made the reality plain. For instance, see (Surah Al-Baqarah, Ayats 126, 212); (Surah Al-Aaraf, Ayat 32); (Surah At- Taubah, Ayats 55, 69, 85); (Surah Yunus, Ayat 17); (Surah Houd, Ayats 3, 27-31, 38-39); (Surah Ar-Rad, Ayat 26); (Surah Al-Kahf, Ayats 28, 32-43, 103-105); (Surah Maryam, Ayats 77-80); (Surah Ta-Ha, Ayats 131-132); (Surah Al-Anbiya, Ayat 44) along with the relevant E.Ns. In order to remove the above mentioned misconceptions one should keep in view the following.
(1) Success is a far higher thing than the material prosperity and the transitory success of an individual, community or nation.
(2) It is absolutely wrong to consider prosperity and success as a criterion of truth and falsehood.
(3) It should be noted well that this world is a place of test and trial and not a place of reward and retribution. It is true that even in this world, sometimes there is some punishment or reward, but it is on a very limited scale and even in this, there is an aspect of the test. Therefore it is an utter folly to consider material success and prosperity to be a proof that the recipient is in the right and so the beloved of the Lord, and vice versa. Moreover, the tests and trials of individuals and communities are of many varieties and a seeker after truth must understand at the outset that the worldly success or failure of the people is not the result of ultimate reward or punishment and cannot be regarded as the criterion for the right or wrong creed, morals and actions and a sign of being the beloved of God or otherwise.
(4) One must have a firm belief that truth and righteousness will ultimately gain victory over falsehood and wickedness. As regards to the criterion of truth and falsehood and right and wrong, one must judge this in the light of revelations and teachings of the Messengers, because common sense confirms the same, and it is also supported by the general conception which mankind has always had of good and evil.
(5) As a corollary of the above, it would have become clear that according to the Quran (and this is confirmed by common sense), the conception of reward and punishment should also be different from the common one. For instance, if a wicked person or community is enjoying prosperity, it is not a reward of its evil deeds but a harder test for it and it is not a blessing but the wrath of Allah. It means that Allah has decided to punish the prosperous people with a severe scourge. On the other hand, if the righteous people are suffering from hardships and afflictions, it is not a punishment from Allah but a blessing in disguise to pass them through the fire to remove impurity, if any, from the pure gold. If this hard trial is a blessing for the righteous people, it is a test for the wicked people to give them a severe punishment for the persecution of the former.
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :50
اس مقام پر آغاز سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈال لیجیے ۔ اسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دہرایا جا رہا ہے ۔ یہ لوگ فلاح اور خیر اور خوش حالی کا ایک محدود مادی تصور رکھتے تھے ۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھانا ، اچھا لباس ، اچھا گھر پالیا ، جو مال و اولاد سے نواز دیا گیا ، اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسوخ و اثر حاصل ہو گیا ، اس نے بس فلاح پالی ۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ ناکام و نامراد رہا ۔ اس بنیادی غلط فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہ راست پر ہے ، بلکہ خدا کا محبوب ہے ، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں ۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ محروم نظر آ رہا ہے وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا ( یا خداؤں ) کے غضب میں گرفتار ہے ۔ اس غلط فہمی کو ، جو درحقیقت مادہ پرستانہ نقطہ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے ، قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے ، مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے ، اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ ، آیت 126 ، 212 ۔ الاعراف 32 ۔ التوبہ 55 ۔ 69 ۔ 85 ۔ یونس 17 ۔ ہود 3 ۔ 27 تا 31 ۔ 38 ۔ 39 ۔ الرعد 26 ۔ الکہف 28 ۔ 32 تا 43 ۔ 103 تا 105 ۔ مریم 77تا 80 ۔ طٰہ ، 131 ، 132 ۔ الانبیاء 44 ۔ مع حواشی ) ۔
اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھ لے اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا ۔
اول یہ کہ انسان کی فلاح اس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محض مادی خوش حالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے ۔
دوم یہ کہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہ راست پا ہی نہیں سکتا ۔
سوم یہ کہ فی الاصل دار الجزا نہیں بلکہ دار الامتحان ہے ۔ یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے ، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے ۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مل رہی ہے وہ انعام ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے بر حق اور صالح اور محبوب رب ہونے کا ثبوت ہے ، اور جس پر جو آفت بھی آ رہی ہے وہ سزا ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے ، غیر صالح ہے ، اور مغضوب بارگاہ خداوندی ہے ، یہ سب کچھ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصور حق اور معیار اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو ۔ ایک طالب حقیقت کو اول قدم پریہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا ، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے ۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات ، اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے ، اور ان ہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کی علامات قرار دے لیا جائے ۔
چہارم یہ کہ فلاح کا دامن یقیناً حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، اور بلا شک و ریب یہ ایک حقیقت ہے کہ باطل اور بدی کا انجام خسران ہے ۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی فلاح ، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے ، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے ، اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو ۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں ، انسانی عقل عام ( Commonsense ) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوع انسانی کے مشرک وجدانی تصورات اس پر گواہی دیتے ہیں ۔
پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو ، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو ، تو عقل اور قرآن دونوں کی رو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خد نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے ۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے ، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے ۔ لیکن غلطی پر انعام یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے ۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو ، اخلاق کی پاکیزگی ہو ، معاملات میں راستبازی ہو ، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت و شفقت ہو ، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلادھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں ، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں اس کی رحمت ہی کی علامت ہے ۔ سنار اس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل المعیار ہونا ثابت ہو جائے ۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اٹھے تو پروا نہیں ۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا ، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا ۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں ، یا پھر اس سوسائٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فساق نوازے جائیں ۔
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :50 ( الف )
اردو زبان کی رعایت سے ہم نے آیت ٦۱ کا ترجمہ پہلے کردیا ہے اور آیت ۵۷ تا ٦۰ کا ترجمہ بعد میں ہے ۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ آیت ٦۱ کا ترجمہ چھوٹ گیا ہے ۔