Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 57

سورة المؤمنون

اِنَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مِّنۡ خَشۡیَۃِ رَبِّہِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَ ﴿ۙ۵۷﴾

Indeed, they who are apprehensive from fear of their Lord

یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Description of the People of Good Deeds Allah says: إِنَّ الَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ Verily, those who live in awe for fear of their Lord; means, even though they have reached the level of Ihsan and have faith and do righteous deeds, they are still in awe of Allah and fear Him and His hidden plans for them, as Al-Hasan Al-Basri said, "The believer combines Ihsan with awe, while the disbelievers combine evil deeds with a sense of security." وَالَّذِينَ هُم بِأيَاتِ رَبِّهِمْ يُوْمِنُونَ

مؤمن کی تعریف فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا یہ ان کی صفت ہے ۔ یہ ان کی صفت ہے حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مومن نیکی اور خوف الٰہی کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ منافق برائی کے ساتھ نڈر اور بےخوف ہوتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شرعی اور فطری آیات اور نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں جیسے حضرت مریم علیہا السلام کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کا یقین رکھتی تھیں اللہ کی قدرت قضا اور شرع کا انہیں کامل یقین تھا ۔ اللہ کے ہر امر کو وہ محبوب رکھتے ہیں اللہ کے منع کردہ ہر کام کو وہ ناپسند رکھتے ہیں ، ہر خبر کو وہ سچ مانتے ہیں وہ موحد ہوتے ہیں شرک سے بیزار رہتے ہیں ، اللہ کو واحد اور بےنیاز جانتے ہیں اسے بے اولاد اور بیوی کے بغیر مانتے ہیں ، بینظیر اور بےکفو سمجھتے ہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اللہ کے نام پر خیراتیں کرتے ہیں لیکن خوف زدہ رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو قبول نہ ہوئی ہو ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے زنا ، چوری ، اور شراب خواری ہوجاتی ہے ؟ لیکن ان کے دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اے صدیق کی لڑکی یہ نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، صدقے کرتے ہیں ، لیکن قبول نہ ہونے سے ڈرتے ہیں ، یہی ہیں جو نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں ( ترمذی ) اس آیت کی دوسری قرأت یاتون ما اتوا بھی ہے یعنی کرتے ہیں جو کرتے ہیں لیکن دل ان کے ڈرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس ابو عاصم گئے ۔ آپ نے مرحبا کہا اور کہا برابر آتے کیوں نہیں ہو ؟ جواب دیا اس لئے کہ کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو لیکن آج میں ایک آیت کے الفاظ کی تحقیق کے لئے حاضر ہوا ہوں آیت ( وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ 60؀ۙ ) 23- المؤمنون:60 ) ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا ہونا تمہارے لئے مناسب ہے میں نے کہا آخر کے الفاظ اگر ہوں تو گویا میں نے ساری دنیا پالی ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے ہوگی آپ نے فرمایا پھر تم خوش ہوجاؤ ۔ واللہ میں نے اسی طرح انہی الفاظ کو پڑھتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے ۔ اس کا ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے ۔ ساتوں مشہور قرأتوں اور جمہور کی قرأت میں وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے اور معنی کی رو سے بھی زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہیں سابق قرار دیا ہے اور اگر دوسری قرأت کو لیں تو یہ سابق نہیں بلکہ ہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ خَشْـيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ :”إِشْفَاقٌ“ کا معنی ہے متوقع چیز کا شدید خوف اور ” وَجِلٌ“ بروزن ” فَزِعٌ“ کا معنی ہے، سخت ڈرنے والا۔ اس سے پہلے غفلت میں مبتلا ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن کے ہاں کفر و فسق کے باوجود مال اور بیٹوں کی فراوانی ہوتی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر خوش ہے، تبھی یہ سب کچھ ہمیں دے رہا ہے۔ اب ان کے مقابلے میں مخلص و مومن بندوں کا ذکر ہے، جو کمال ایمان و عمل کے باوجود عجب اور خود پسندی سے محفوظ ہیں اور ہر وقت اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ کیا خبر اس کی جناب میں ہمارے عمل قبول ہوتے ہیں یا نہیں۔ 3 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص مومن بندوں کی چار صفات بیان فرمائی ہیں، پہلی یہ کہ وہ اپنے رب سے بہت ڈرنے والے ہیں کہ وہ ناراض نہ ہوجائے۔ واضح رہے کہ اہل ایمان کا اپنے رب سے یہ خوف اس قسم کا نہیں ہوتا جیسے کسی جابر و ظالم بےرحم سے ہوتا ہے، بلکہ وہ اسے اپنا رب یعنی ہر نعمت عطا کرنے والا سمجھ کر اس کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ ساتھ اس کی ناراضی کے خطرے سے انتہائی خوف بھی رکھتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور (باوجود اللہ کی راہ میں دینے اور خرچ کرنے کے) ان کے دل اس سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں (دیکھئے وہاں جا کر ان صدقات کا کیا ثمرہ ظاہر ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دینا حکم کے موافق نہ ہو مثلاً مال حلال نہ ہو یا نیت اللہ کے لئے خالص نہ ہو اور نیت میں اخلاص کامل نہ ہونا یا مال کا حرام ہونا ہمیں معلوم نہ ہو تو الٹا اس پر مواخذہ ہونے لگے تو جن لوگوں میں یہ صفات ہوں) یہ لوگ اپنے فائدے جلدی جلدی حاصل کر رہے ہیں اور وہ ان کی طرف دوڑ رہے ہیں اور (یہ اعمال مذکورہ کچھ سخت بھی نہیں جن کا کرنا مشکل ہو کیونکہ) ہم کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ کام کرنے کو نہیں کہتے (اس لئے یہ سب کام آسان ہیں اور اس کے ساتھ ان کا اچھا انجام اور ثمرہ یقینی ہے کیونکہ) ہمارے پاس ایک دفتر (نامہ اعمال کا محفوظ) ہے جو ٹھیک ٹھیک (سب کا حال) بتلا دے گا اور لوگوں پر ذرا ظلم نہ ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ ہُمْ مِّنْ خَشْـيَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ۝ ٥٧ۙ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ شفق الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی: إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] . ( ش ف ق ) الشفق غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧۔ ٦١) اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے جنھیں حقیقی طور پر دنیا میں جلدی جلدی فائدے پہنچائے جاتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اس ایمان میں اپنے رب کے ساتھ ان بتوں کو شریک نہیں کرتے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں اور جو کچھ صدقہ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو کچھ مال خرچ کرتے ہیں، سو کرتے ہیں یا یہ کہ جو کچھ نیک اعمال کرتے ہیں سو کرتے ہیں اور باوجود اس دینے کے ان کے دل اس بات سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں کہیں ایسا نہ کہ وہاں آخرت میں یہ چیزیں قابل قبول نہ ہوں ایسی خوبیوں والوں کو ہماری طرف سے بہت جلد فائدہ پہنچایا جائے گا۔ اور یہ لوگ اعمال صالحہ میں سبقت کر رہے ہیں اور اپنے فائدے جلدی جلدی حاصل کرنے میں اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51. That is, they do not live a carefree life devoid of the fear of God. They live in awe of Him and are fully conscious that He oversees and watches them in all their motives and actions and they are thus deterred from thinking and doing evil.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :51 یعنی وہ دنیا میں خدا سے بے خوف اور بے فکر ہو کر نہیں رہتے کہ جو دل چاہے کرتے رہیں اور کبھی نہ سوچیں کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ظلم اور زیادتی پر پکڑنے والا ہے ، بلکہ ان کے دل میں ہر وقت اس کا خوف رہتا ہے اور وہی انہیں برائیوں سے روکتا رہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:57) خشیتہ۔ خشیتہ۔ خوف۔ اندیشہ۔ خشیۃ ان مبادا کہ۔ ایسانہ ہو کہ :۔ مشفقون۔ اسم فاعل جمع مذکر ۔ اشفاق مصدر۔ ڈرنے والے۔ الشفق۔ غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کا رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ہے فلا اقسم بالشفق (64:16) مجھے شام کی سرخی کی قسم۔ جو محبت اور کو ف کے ساتھ مخلوط ہو اس کو شفقت کہتے ہیں۔ الاشفاق ( افعال) ایسی محبت کرنا جس میں ڈر بھی لگا ہوا ہو۔ اگر من کے واسطہ سے متعدی ہو تو خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے۔ اور اگر علی یا فی اس کے بعد میں مذکور ہو تو محبت کا معنی نمایاں ہوتا ہے۔ جیسے اشفق علی الصغیر۔ اس نے چھوٹے پر رحم کھایا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آخرت سے غافل لوگوں کے مقابلے میں فکر آخرت رکھنے والے لوگوں کے اوصاف۔ اس جہان رنگ و بو میں کردار کے اعتبار سے دو قسم کے انسان ہوا کرتے ہیں ایک وہ ہیں جو اپنے رب سے بےخوف ہو کر زندگی گزارتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو قدم قدم پر سوچتے ہیں اور ہر وقت اپنے رب سے لرزاں وترساں رہتے ہیں کیونکہ ان کا اپنے رب کی ذات اور اس کے ارشادات پر پوری طرح ایمان ہوتا ہے اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے۔ جب وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں تو ان کے دل فخرو غرور اور نمودونمائش سے بچتے اور ڈرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم نے ہر صورت اپنے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یہی لوگ ہیں جو نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہاں خشیت الٰہی اور ایمان کا ذکر کرنے کے بعد نیک لوگوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے کیونکہ شرک کے پیچھے غیر اللہ پر بھروسہ کرنے کا عقیدہ کارفرما ہوتا ہے اس وجہ سے مشرک کو جس طرح اپنے رب سے ڈرنا اور اس پر ایمان لانا چاہیے۔ نہ وہ اپنے رب پر پوری طرح ایمان رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے دل میں کما حقہ خوف خدا ہوتا ہے جب یہ باتیں مفقود ہوجائیں تو انسان رضائے الٰہی کی خاطر نیکی کے کاموں میں مستعد نہیں رہتا۔ کیونکہ اپنے رب سے بےخوفی کی وجہ سے اس کا دل نیکی میں رغبت نہیں پاتا۔ ایسا آدمی جب کچھ خرچ کرتا ہے تو عام طور پر اس کے دل میں فخر و غرور ہوتا ہے۔ خشیت الٰہی کا عظیم فائدہ : (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّونِیْ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں تمہارے لیے کیسا باپ ہوں ؟ انہوں نے کہا بہترین ! اس نے کہا کہ میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا۔ جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا کر میری راکھ ہواؤں میں اڑا دینا انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ زندہ کر کے دریافت فرمایا کہ تجھے ایسا کرنے پر کس بات نے ابھارا تھا ؟ وہ کہنے لگا آپ کے ڈر نے ! اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت میں لے لیا۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے نیک بندے ہمیشہ اپنے رب سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ ٢۔ نیک لوگ اپنے رب پر دل کی سچائی اور عمل کی گواہی کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ ٣۔ نیک لوگ اپنے رب کے ساتھ کسی حوالے سے شرک نہیں کرتے۔ ٤۔ صدقہ و خیرات کرتے وقت نیک لوگوں کے دل لرزاں رہتے ہیں۔ ٥۔ نیک لوگ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے والے ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن نیکی کے کاموں میں سبقت کرنا چاہیے : ١۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کی کوشش میں سبقت کرو۔ (الحدید : ٢١) ٢۔ نیکی کے حصول میں سبقت کرو۔ (البقرۃ : ١٤٨) ٣۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر : ٣٢) ٤۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : ١٠، ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الذین سبقون (آیت نمبر ٥٧ تا ٦١) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دل پر ایمان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس کا احساس تیز ہوجاتا ہے ۔ انتہائی خوف اور حد درجہ احتیاط اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے اور اس دنیا میں انسان کمال اور بلندیوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ آخرت کی فکر کرتا ہے اگر چہ وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض و واجبات پر عمل پیرا ہوتا ہے یعنی یہاں رجانیت اختیار نہیں کرتا۔ ذرا ملاحظہ کیجئے۔۔ یہ مومن اللہ کے خوف کے مارے میں کانپ رہے ہیں ۔ نہایت احتیاط سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اللہ کی آیات پر ایمان لائے ہوئے ہیں ۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کررہے۔ اللہ کی طرف سے عائد شدہ فرائض اور واجبات ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ دیگر تمام عبادات میں حدد استطاعت تک مشغول ہیں ۔ لیکن ان سب کاموں کے باوجود والذین یو تون رجعون (٢٣ : ٦٠) “۔ جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہیــــ“۔ ان کو احساس ہے کہ اللہ کے معاملے میں ان سے ضرور کوئی نہ کوئی کوتاہی ہوگئی ہوگی ۔ حالانکہ وہ مقدر بھر بندگی کرتے رہے ہیں مگر ان کی نظروں میں ان کا عمل قلیل ہوتا ہے ۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولذین وجفۃ (٢٣ : ٦٠) ” وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے کانپ رہے ہوتے ہیں “ سے کیا وہ شخص مراد ہے جو چوری کرتا ، زنا کرتا ، اور شراب پیتا ہے لیکن پھر وہ اللہ سے ڈرتا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں صدیق کی بیٹی بلکہ مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے ، جو روزے رکھتا ہے ، جو اپنا مال خرچ کرتا ہے اور پھر بھی اللہ سے ڈرتا ہے۔ (ترمذی) ایک مومن کا دل کا شعور رکھتا ہے کہ اللہ کا ہاتھ اس کے اوپر ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ ہر سانس میں اللہ کی رحمتیں اس پر بارش کی طرح برستی رہی ہیں ۔ صرف دل کی حرکت پر ہی غور کرلو کہ کس قدر عظیم رحمت ہے اس لے مومن اپنی بندگی اور اطاعت کو کم سمجھتا ہے کہ اللہ کے رحم و کرم کے مقابلے میں اس کی جانب سے بندگی کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ اپنے وجود کے ذرے ذرے میں اللہ کے جلال اور عظمت کو پاتا ہے ۔ اس کے شعور میں یہ بات اچھی طرح بیٹھی ہوئی ہوتی ہے کہ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہی اور اسی لیے وہ ہر وقت خائف رہتا ہے ، کانپتا رہتا ہے۔ اسے یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اچانک وہ اللہ کے سامنے پیس ہوا اور اس کی تفصیرات کی گٹھڑی پیش ہو۔ اور اس کے سامنے کھلے اور نتیجہ یہ سامنے آئے کہ اس نے عبادت کا حق ادا نہ کیا ہو اور اللہ کے انعامات و کرامات کا شکر اس نے ادا نہ کیا ہو تو اس کا پھر کیا حال ہوگا اور کیا جواب ہوگا ؟ ایسے لوگ ہی دراصل بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھتے ہیں اور ایسے ہی لوگ بھلائی میں سب سے آگے ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اسلام کے ہر دل دستے کا کام کرتے ہیں ۔ بیدار مغز ، فعال اور آگے بڑھنے والے مطیع فرمان۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ کسی کام کے نہیں ہوتے جو عیش و طرب میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جو سخت غفلت میں ہوتے ہیں ، جو اس میں ہوتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے بالا رادہ مراعات یافتہ ہیں ۔ ان کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ اس طرح غافل ہیں کہ جس طرح شکار اپنی غفلت میں چر رہا ہوتا ہے لیکن دراصل وہ اپنے پھندے کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کو غذا مل گئی اچانک پھندے میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ لوگوں کے اندر بیشمار لوگ ہیں جو ایسے پھندے میں گرفتار ہیں ، خوشحالی ان کو غافل کردیتی ہے۔ اللہ کی نعمتیں ان کو برے کاموں میں مشغول کردیتی ہیں۔ مالداری ان کو سرکشی پر آمادہ کرتی ہے ، غرور ان کو آپے سے باہر کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے برے انجام کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ ہے وہ بیداری جو اسلام ہر زندہ دل انسان میں بیدا کرتا ہے اور جب ایمان دلوں میں بیٹھ جاتا ہے تو وہ دلوں میں بیداری اور تقویٰ کا ابھارتا رہتا ہے ۔ یہ کوئی ایسا مقام نہیں ہے جسے حاصل نہ کیا جاسکتا ہو۔ یہ کوئی ایسی حالت نہیں ہے جس میں عام آدمی داخل نہ ہو سکتا ہو ۔ بس صرف یہ احساس و شعور پید اکرنا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ہم اس کے ساتھ مربوط ہیں ۔ ہمارے ظاہر و باطن سے وہ اچھی طرح خبردار ہے۔ یہ احساس اور شعور پیدا کرنا ، انسان کے حد استطاعت میں ہے بشرطیکہ ایمان کا چراغ قلب میں روشن ہوجائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نیک بندوں کی صفات ان آیات میں نیک بندوں کی مزید صفات بیان فرمائی ہیں۔ اولا تو یہ فرمایا کہ یہ لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں دوسرے یہ فرمایا کہ وہ اپنے رب کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔ تیسرے یہ فرمایا کہ اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے چوتھے یہ فرمایا کہ وہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس خرچ کرنے پر انہیں کوئی سخاوت کا گھمنڈ اور غرور نہیں ہوتا بلکہ وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی بار گاہ میں جانا ہے وہاں یہ مال خرچ کرنا قبول ہوتا ہے یا نہیں وہاں پہنچ کر کیا صورت حال ہو یہاں کچھ نہیں کہہ سکتے، مال پوری طرح حلال تھا یا نہیں، نیت خالص اللہ کی رضا کے لیے تھی یا اس میں کچھ ریا کاری ملی ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ۔ ان حضرات کی مذکورہ بالا صفات بیان فرما کر ان کی تعریف فرمائی کہ یہ لوگ خیرات یعنی نیک کاموں کی طرف جلدی جلدی بڑھتے ہیں اور نیک کاموں میں سبقت لے جاتے ہیں۔ اہل دنیا میں اموال کمانے میں مسابقت کرنے یعنی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے جذبات ہوتے ہیں اور ان لوگوں میں ایسے کاموں میں آگے بڑھنے کے جذبات ہیں جن کی وجہ اور ذریعہ سے آخرت میں زیادہ سے زیادہ نعمتیں ملیں۔ یہ جو فرمایا کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے اس بات سے ڈرتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس جانا ہے اس کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ جن لوگوں کے دل ڈر رہے ہیں کیا ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں چوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس سے یہ لوگ مراد نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو روزے رکھتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ یہ (عبادات) ان سے قبول نہ ہوں یہ وہ لوگ ہیں جو خیرات یعنی اعمال صالحہ میں جلدی کرتے ہیں۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ کمافی المشکوۃ صفحہ ٤٥٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سارے اعمال اپنے طور پر اخلاص نیت کے ساتھ ٹھیک طریقہ پر ادا کرنے کے باو جود بھی ڈرتے رہنا چاہئے کہ ہمارے اعمال قبول ہوتے ہیں یا نہیں، اول تو ضروری نہیں ہے کہ ہر کام پوری طرح درست ہی ہوگیا ہو۔ کمی کوتاہی کا نیت کی خرابی کا کچھ نہ کچھ احتمال ہر عمل کے ساتھ لگا ہوا ہے کوئی شخص کیسے یقین کرسکتا ہے کہ میرا سب کچھ درست ہے اور لائق قبول ہے، اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے بھی مالا مال فرمایا اور اعمال صالحہ کی بھی توفیق دی، اور اس کا مزید کرم یہ ہے کہ اعمال کو قبول فرما کر اجر وثواب بھی عطا فرماتا ہے، اگر وہ چاہتا تو اعمال کا حکم بھی دیتا اور عمل کرنے کے بعد کچھ بھی نہ دیتا، وہ مالک ہے حاکم ہے حقیقت میں اس کے ذمہ کسی کا کوئی حق نہیں، اجر وثواب عطا اور بخشش اور فضل ہی فضل ہے۔ جو حضرات اس حقیقت کو جانتے ہیں وہ اچھے سے اچھا عمل بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ دیکھو قبول ہوتا ہے یا نہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے نماز میں پڑھنے کے لیے کوئی دعا بتائیے آپ نے فرمایا کہ یوں دعا کیا کرو۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاّآ اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَ ارْحَمْنِیْٓ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور آپ کے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا سو آپ اپنے پاس سے میری مغفرت فرمائیے بلاشبہ آپ بخشنے والے اور رحم فرمانے والے ہیں) غور کرنے کی بات ہے پڑھی ہے نماز، وہ بھی ابوبکر صدیق نے اور جو دعا بتائی جا رہی ہے اس کی ابتداء یہاں سے ہے کہ اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا، اسی لیے عارفین نے فرمایا کہ ہر اچھے عمل کے آخر میں بھی استغفار کرلینا چاہئے استغفار جہاں گناہوں کے معاف ہونے کا ذریعہ ہے وہاں اعمال کی کمی اور کوتاہی کی تلافی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کسی کو بھی اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا کیا آپ کا عمل بھی آپ کو نجات نہیں دلائے گا آپ نے فرمایا ہاں میرا بھی یہ حال ہے الایہ کہ میرا رب مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ دے۔ آخر میں فرمایا (وَلاَ نُکَلِّفُ نَفْسًا اِِلَّا وُسْعَہَا) (ہم کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتے) جس شخص کو جو حکم دیا ہے وہ اس کی طاقت سے باہر نہیں ہے اور ہر شخص کا عمل محفوظ ہے کتاب میں لکھا ہوا ہے قیامت کے دن وہ کتاب حق کے ساتھ بولے گی سب کو ظاہر کر دیگی۔ جب جزا سزا ملے گی تو کسی پر ذرا سا ظلم بھی نہ ہوگا اسی کو فرمایا (وَلَدَیْنَا کِتٰبٌ یَنطِقُ بالْحَقِّ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ) (اور ہمارے پاس کتاب ہے جو حق کے ساتھ بیان دیگی اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ ” اِنَّ الَّذِیْنَ الخ “ دفع عذاب کے لیے ابتداء سورت میں جن امور ثلاثہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ یہاں ان کا اعادہ کیا گیا ہے پہلی آیتوں میں ان مشرکوں کا ذکر تھا جو دنیوی انعامات، مال و اولاد اور مادی منافع کی وجہ سے اس غلط خیال میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہے اسی لیے ہر قسم کی خیرات و برکات ان پر نازل فرما رہا ہے حالانکہ یہ دولت و ثروت ان کے لیے خیر و برکت نہیں بلکہ وبال جان ہے اب ان آیتوں میں ان مومنوں کا ذکر فرمایا جو صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کی برکات و خیرات کو حاصل کر رہے ہیں جو ان صفات سے متصف ہوتے ہیں اور یہی لوگ آخرت میں اللہ کے عذاب سے نجات پائیں گے۔ اعلم انہ تعالیٰ لما ذم من تقدم ذکرہ بقولہ ایحسبون انما نمدھم بہ من مال و بنین نسارع لھم فی الخیرات ثم قال بل لا یشعرون بین بعدہ صفات من یسارع فی الخیرات و یشعر بذالک (کبیر ج 6 ص 291) ۔ ” اِنَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ “ میں ” اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ “ کا اعادہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(57) بلاشبہ ! جو لوگ اپنے مالک اور پروردگار کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں۔